شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کی تصنیف اِفادۃ الافہام۔ ایک مطالعہ
بقلم : حضرت مولانا قاضی سیدشاہ اعظم علی صوفی قادری،
صدر کل ہند جمعیۃ المشائخ، مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’’صوفی اعظم‘‘
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّنْ (احزاب۔۴۰)
امام اہلسنت، مجدد ملت، شیخ الاسلام، عارف باللہ، عاشق رسول حضرت علامہ حافظ محمد انواراللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ والرضوان کے (۸۷) ویں عرس سراپا قدس کے مبارک موقع پر انجمن طلبائے قدیم جامعہ نظامیہ کے زیر اہتمام منعقدہ اس علمی مذاکرہ کے ذریعہ حضرت ممدوح کی علمی خدمات کے سلسلہ میں آپ کی روح پر فتوح کو جو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے اس کا عنوان ہے’’حضرت بانی جامعہ کی تصانیف، ایک مطالعہ‘‘۔
حضرت شیخ الاسلام جیسی نابغہ روزگار عبقری ہستیاں برسوں میں پیدا ہواکرتی ہیں۔ آپ نے اپنی خداداد علمی فضیلت اور روحانی بصیرت کو کام میں لاتے ہوئے دکن میں موجود جہالت و ضلالت کی ساری تاریکیوں کا پردہ چاک کردیا اور ان کو اجالوں سے بدل دیا۔آپ نے اپنے علمی انوار اور عملی کردار سے ایسی ان گنت علمی قندیلیں روشن کی ہیں جو اپنی نورانیت سے ایک دنیا کو ہمیشہ تابناک بنائے رکھیں گی۔ (۱۳۶)سالہ قدیم وعظیم جامعہ نظامیہ آج بھی شیخ الاسلام کے تاریخ ساز علمی کارناموں کے منجملہ ایک جیتی جاگتی یادگاری تصویر ہے جہاں سے اب تک فارغ لاکھوں علماء وفضلاء انواراللہی چراغ بن کر نکلے اور دنیا کے کونے کو نے میں اپنی تابانیاں پھیلائے اور پھیلارہے ہیں۔
تیرھویںصدی ہجری کے اواخر اور چودھویں کے اوائل میں آپ کے قلم رمز شناس سے جب علوم ومعارف کے بے شمار سوتے پھوٹ پڑے تو دنیائے علم ودانش کے بڑے بڑے صاحبان فضل وکمال نے آپ کو ’’مجمع البحرین‘‘ تسلیم کرتے ہوئے آپ کے علمی دبدبے کے آگے اپنے سرنیاز کو خم کردیا اور لاتعداد طالبان حق نے آپ کے سرچشمہء علوم وفنون سے راست نہیں تو بالواسطہ اپنی تشنگی بجھائی۔ حضرت بانی جامعہ نظامیہ کے علمی وقلمی احسانات سے دنیائے علم ودانش کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ شیخ الاسلام کی عبقری شخصیت کے ان احسانات کا شایان شان حق ادا نہیں کیا جاسکتا جن کے علم وفضل کا آفتاب ملک ہی میں نہیں بلکہ اقطاع عالم میں پوری آب وتاب کے ساتھ اپنی ضیاء پاشی کررہاہے۔
آپ کی گراں بہا تصانیف نے تجدید واحیائے دین کے مقصد میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے آپ نے کئی علوم و فنون پر اپنے قلمی شاہکار چھوڑے ہیں جو پچاس کے لگ بھگ ہیں۔ آپ اپنی ذات سے ایک انجمن تھے۔ آپ غزالی زمانہ بھی تھے اور اپنے دور کے رازیؔ بھی، آپ اپنے عصر کے رومی بھی تھے، اور اپنے وقت کے ابن عربی بھی۔ آپ مفتی بھی تھے اور محدث بھی مفسر بھی تھے اور مفکر بھی۔ خطیب بھی تھے ادیب بھی۔ مصنف بھی تھے مؤلف بھی۔ عارف بھی تھے صوفی صافی بھی۔ تفسیر ، حدیث ، یافقہ ہوکہ ان کے اصول، عقائد ہو کہ کلام، ادب ہو کہ تاریخ، منطق ہو کہ فلسفہ غرض جس کسی علمی وفنی عنوان پر آپ نے قلم اٹھایا تو آپ کے رشحات قلم علمی درشہوار بن کر دنیا بھر میں جگمگانے لگے۔
ایک مصلح قوم اور ہادی ملت کی حیثیت سے آپ نے عامۃ المسلمین کو جہالت، بدعات اور گمراہی وضلالت کے قعر مذلت سے نکالا وقت پڑنے پر ہر فتنہ کا پامروی سے مقابلہ کیا اور بے دینی، بدعقیدگی کی تاریکیوں کو چھاٹ کر امت مرحومہ کو اسلام کے حقیقی اجالے میں لاکھڑاکیا۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کے مذہب کا فتنہ جب سر اٹھانے لگا اور ختم نبوت کے شیشہء نازک کو چکنا چور کرنے کی سازشیں عام ہونے لگیں تو حضرت بانی جامعہ نظامیہ ؒ کی حمیت قلمی اور غیرت علمی کس طرح خاموش رہ سکتی تھی۔ سرزمین دکن سے قادیانیت کے رد میں آپ نے سب سے پہلے قلم اٹھایا اور ’’افادۃ الافہام‘‘ جیسی وقیع، بے نظیر اور معرکۃ الآراکتاب تصنیف کر کے قادیانی مذہب کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا۔ جس کے بعد دکن میں اس فتنہ کی خودبخود سرکوبی ہوگئی۔ آپ کی اسی کتاب ’’افادۃ الافہام‘‘ پر مقالہ پیش کرنے کی مجھ سے خواہش کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے میںنے سورئہ احزاب کی آیت (۴۰) کو اپنا سرنامہ سخن بنایا ہے جس میں ارشاد باری تعالی ہے ’’مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبآ اَحَدٍ مِّنْ رِجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنْ‘‘oیعنی محمد ا تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ خاتم النبیین کی تفسیر میں تاویل کی گنجائش کا امکان تھا اس لئے نبی کریم ا نے اپنے بے شمار ارشادات کے ذریعہ اس تاویل وتشریح کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا مثلا ایک حدیث میں فرمایا:
اِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَاء مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجْلٍ بَنَی بَیْتًا فَاَحْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ اِلَّا مَوْضِعَ لِبَنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ فَجَعَلَ النَّاس یَطُوْفُوْنَ بِہِ وَیَعْجِبُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ ھَلَّا وَضَعْتَ ھٰذِہ اللَّبِنَۃَ فَاَنَا اللَّبِنَۃَ واَنَا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنْ۔
(بخاری جلد دوم حدیث نمبر ۴۴۷)کتاب المناقب۔
یعنی ’’میری اور مجھ سے پہلے گذرے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل، بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی ہے۔ لوگ اس عمارت کے ارد گرد پھرتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی تو وہ اینٹ میں ہی ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔
دوسری حدیث میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ ’’میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘(ابوداؤد۔ کتاب الفتن)
الغرض ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کے ان چند بنیادی عقیدوں میں سے ایک ہے جن پر امت کا اجماع رہا ہے۔ اگر چہ بدقسمتی سے امت اسلامیہ کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے اور باہمی تعصب نے کئی بار ملت کو قسم قسم کے فسادات سے دوچار کردیا لیکن اتنے شدید اختلافات کے باوجود سارے فرقے حضور ا کے خاتم النبیین ہونے پر متفق ہیں۔ ہمارا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان ہے کہ حضور محمد رسول اللہ ا سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور اب جو شخص نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعوے کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرئہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اسلام نے مرتد کے لئے مقرر فرمائی ہے۔چنانچہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں جب بھی کسی سر پھرے فتنہ پردازنے اپنے آپ کو نبی کہنے کی جرأت کی اس کو قتل کردیا گیا۔ مسیلمہ کذاب تو حضور کی نبوت کامنکر نہیں تھا بلکہ اپنے دعوے نبوت کے ساتھ ساتھ وہ حضور کی رسالت کو بھی تسلیم کرتے ہوئے اس نے خدمت نبوی میں روانہ کردہ اپنے ایک مکتوب میں ’’من مسیلمۃ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ لکھے تھے یعنی یہ خط مسیلمہ کی طرف سے جو اللہ تعالی کا رسول ہے محمد رسول اللہ کی طرف لکھا جارہا ہے۔ بلکہ بقول علامہ طبرانی اس کی مروجہ اذان میں اشھدان محمد رسول اللہ بھی کہا جاتاتھا۔ اس کے باوجود حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کو مرتد اور واجب القتل قرار دے کر اس پر لشکر کشی کی اور اس کو واصل بجہنم کر کے ہی آرام کا سانس لیا۔
تاریخ میں انگریز کی اسلام دشمنی ہمیشہ اظہر من الشمس رہی ہے جنہوں نے ایک طرف سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کردیا تو دوسری طرف ہندوستان میںمسلمانوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ تیرھویں صدی ہجری کے دوران برصغیر میں مسلمانوں کی غلامی اور انگریزوں کی بالا دستی کے دور میں تحریک آزادی کو کچلنے اور نقصان پہنچانے کے لئے انگریزوں دانشوروں اور ارباب اقتدار نے ایک جھوٹا مدعی نبوت پیدا کرکے امت میں انتشار پیدا کردیا تاکہ Divide and Ruleیعنی آپس میں لڑاؤ اور حکومت کرو کا مقصد پورا ہوتا رہے۔ نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے اس شخص کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا۔ یہ مدعی نبوت بظاہر عیسائیت کا رد کرتا تھا اور پادریوں سے مناظرے بھی کرتا تھا۔ اس کے باوجود انگریزوں کا دل وجان سے وفادار تھا۔ بلکہ انگلستان کی خوشامد میں اس نے ایسے پمفلٹ لکھے کہ کوئی باعزت مسلمان ان کو پڑھنا بھی گوارا نہیں کرسکتا۔ انگریزوں کی ظالم اور اسلام دشمن حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا اسلام سے غداری نہیں تو اور کیا ہے۔ انگریزوں نے اس کی جھوٹی نبوت کو اپنی سنگینیوں کے سایہ میں پروان چڑھنے کا موقع دیا اور اس کو قبول کرنے والوں کے لئے بے جا نوازشات کے دروازے کھول دئے۔ ہر مرزائی کے لئے کسی استحقاق کے بغیر اچھی سے اچھی ملازمتیں مختص کردی گئیں۔ سیاسی میدان میں بھی ان کو آگے بڑھانے کی پوری کوشش کی گئی۔ انگریزوں نے اس مدعی نبوت کے ذریعہ امت مسلمہ میں ایک نئی امت پیدا کر کے پھوٹ ڈال دی اور مسلمانوں کے متفق علیہ بنیادی عقیدئہ ختم نبوت میںتشکیک پیدا کر کے جو مقصد عظیم حاصل کیا وہ ایسا بڑا کارنامہ تھا جو اپنے دور رس نتائج کے اعتبار سے بڑا اہم ثابت ہوا۔ ایک طرف کلمہ گونام نہاد مسلمان کی جانب سے دعوی نبوت اور دوسری طرف عیسائیوں کی ظاہری مخالفت دونوں کے ذیعہ انگریزی استعمار کی خدمت پوری دل جمعی سے ہوتی رہی اور مرزا غلام احمد قادیانی اور احمدی کے نام سے اسلام کے خلاف علانیہ نہیں تو پوشیدہ طور پر برابر سرگرم عمل ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مبانی مولوی قاسم نانوتوی صاحب نے اپنی ایک تصنیف ’’تحذیر الناس‘‘ میں حضور کے شرف خاتم النبیینی کی عجیب و غریب تاویل کی جس کے باعث تحریک قادیانیت کو نیا حوصلہ ملا اور مرزائی عقیدہ کو فروغ بلکہ استحکام حاصل ہوگیا۔ مولوی نانوتوی صاحب رقمطراز ہیں۔
’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن کہ تقدم یا تاخرِ زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ’’ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘‘ فرمانا کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے بلکہ موصوف بالفرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طور پر رسول اللہ ا کی خاتمیت کاتصور فرمائیے آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور نبی موصوف بالفرض ایں معنی جو میں نے عرض کیا۔ آپ کا خاتم ہونا انبیائے گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہء نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہوتو بھی خاتمیت محمدی میںکچھ فرق نہ آئے گا چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا اسی زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے‘‘(تحذیر الناس)
بظاہر اس ناقابل فہم تاویل یاتشریح سے ختم نبوت کی جڑہی کٹ جاتی ہے اور حضور کی خاتمیت خود ہی ختم ہوجاتی ہے مخفی مبادکہ اسلام میں جس طرح اللہ وحدہ لاشریک لہ کے سوائے کسی اور معبود کا تصور ہی سے ایمان خطرہ میں پڑجاتا ہے اسی طرح حق تعالی کی جانب سے محمد رسول اللہا کو خاتم النبیین فرمادینے کے باوجود حضور کے دور میں کسی اور نبی کی موجودگی یا حضور کے بعد کسی اور نبی کی آمد کا قائل ہونے سے بھی ایمان ہی مجروح ہوتا ہے۔
آج سے ٹھیک ایک سوسال قبل مرزا غلام احمد قادیانی کی لکھی ہوئی ہزاروں صفحات پر مشتمل کتاب موسومہ بہ ’’ازالۃ الاوہام‘‘ جب بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام حضرت حافظ انواراللہ فاروقی علیہ الرحمہ کی نظر سے گذری تو آپ نے بخوبی اندازہ فرمالیا کہ بہت جلد ایک نبی کاذب کا نیا فتنہ سر اٹھانے والا ہے جس کے باعث ملت اسلامیہ شدید انتشار و افتراق اور فساد و اختلافات کا شکار ہوجائیگی اور دین میں موجود سارا امن وسکون درہم برہم ہوجائے گا۔
لہذا دکن سے سب سے پہلے حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ نے اس فتنہ کی سرکوبی کی جانب اولین توجہ دی اور ’’ازالۃ الاوہام‘‘ کے رد میں ’’افادۃ الافہام‘‘ نامی کتاب لکھنے کا بیڑا اٹھایا اور اس وقت دستیاب غلام احمد قادیانی کی لکھی ایک دوسری اہم کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے علاوہ عصائے موسیٰ مولف منشی الہی بخش صاحب اور ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کی تالیف کردہ کتب الذکر الحکیم اور مسیح الدجال وغیرہ لٹریچر میںموجود کفریات کی واضح نشاندہی کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کئی آیات قرآنیہ و احادیث شریفہ کے حوالوں سے صراحتاً، کنایۃً اور دلالۃً ہر انداز میں اس کا دندان شکن جواب دے کر انہیں مسکت کردیا۔ علمی دلائل اس قدر وسیع و وقیع تھے کہ افادۃ الافہام کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا حصہ اول (۷۲۶)صفحات پر اور حصہ دوم(۳۶۰)صفحات پر اس طرح پوری کتاب کی ضخامت جملہ(۱۰۹۶) صفحات پر مشتمل ہے جس کا سب سے پہلا ایڈیشن ۱۳۲۵ہجری (یعنی ۱۰۳سال قبل) شمس الاسلام پریس واقع چھتہ بازار میں زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ جیسا کہ مولانا مظفرالدین صاحب المتخلص بہ معلّی ؔنے قطع تاریخ طبع کتاب موزوں کیا تھا۔
اہل حق کو ہے مژدہ جاں بخش
قادیانی کا ردّ خوش اسلوب
ہے معلّیؔ یہ اُس کا سال طبع
ہوئی تردید اہل باطل خوب
(۲۵ہجری ۱۳)
کچھ عرصہ بعد حضرت شیخ الاسلامؒ نے ردقادیانیت پر ہی ایک اور کتاب ’’انوار الحق‘‘ کے نام سے لکھ کر شائع فرمائی۔ افادۃ الافہام اور انوارلحق دونوں کتب ردقادیانیت میں ایسی مشعل راہ ثابت ہویں کہ ان ہی دلائل ونکات کی بنیاد پر ردقادیانیت پر بعد میں بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں چنانچہ بعد کے مولفین میں مولانا الیاس برنی، مولانا محمد شفیع مفتی دالعلوم دیوبند، مولانا منظور نعمانی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
’’واضح باد حضرت بانی جامعہ نظامیہ نے دکن کے خطہ کو علمی لحاظ سے اس قدر زرخیز اور ثمر آور بنادیا کہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے وطنوں میں ایسی علمی زرخیزی سے محروم بعض اصحاب حیدرآباد آکر تجارتی طور پر اپنے علمی ادارے قائم کرنے لگے۔ ایسے ہی ایک مقامی نوپیدا ادارہ کے ارباب نے ردقادیانیت کے موضوع پر اب تک لکھی گئی کتابوں اور ان کے مصنفین کا جائزہ اپنی ایک حالیہ کتاب میں شائع کیا اور اس کتاب کی تصنیف کے دوران جامعہ نظامیہ کی لائبرری سے استفادہ بھی کیا۔ مگر افسوس کہ اس میں حضرت بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام اور رد قادیانیت پر آپ کی گراں قدر کتب افادۃ الافہام اور انوارالحق کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے علاقائی تعصب، شخصی عناد، قلمی بے دیانتی اور علمی بے بصیرتی کادل کھول کر مظاہرہ کیا۔
افادۃ الافہام کے فاضل مصنف نے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر قاری کی سہولت کے لئے کتاب کے دونوں حصوں کی علیحدہ علیحدہ فہرست کے علاوہ تبویب کے ذریعہ ابتداء میں مفاتیح الاعلام کے نام سے مرزا صاحب کے کفریات، گمراہ کن اقوال اور تضادبیانیوں کا خلاصہ کئی ذیلی سرخیوں میںرموز و اشارات کے ذریعہ دیاہے جو خود (۶۱) صفحات پر مشتمل ہے۔مثلا مرزا صاحب کے دھوکہ دینے والے اقرار و اقوال کی سرخی کے تحت (۳۸) نکات، فضائل و کمالات کے دعوے کی سرخی کے تحت (۴۶)نکات، بذریعہ الہام خدانے ان سے کہا کی سرخی کے تحت (۱۵)نکات، مرزا صاحب کے اوصاف وحالات کی سرخی کے تحت(۱۲)نکات، خلاف بیانی کی سرخی کے تحت (۲۵)نکات، قسمیں کے تحت(۹) اور الہام کے تحت(۲۴)، دعا قبول نہیں ہوی کے تحت(۹)، تدین کے تحت(۱۰)، وعدہ خلافی کے تحت(۷)، فتنہ انگیزی کے تحت(۴)، اخلاقی حالات کے تحت(۱۱) اور دنیاداری کے تحت(۶)نکات سلسلہ وار دئے گئے ہیں۔
اس کے بعد تدابیر کے زیر عنوان کوئی(۱۲)ذیلی سرخیوں میں مرزا صاحب کی جانب سے اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لئے اختیار کردہ چالاک تدابیر کا احاطہ کیا گیا ہے مثلا:…اس زمانہ میں نبی کی ضرورت ثابت کرنے کی تدبیر۔ نبی بننے کی تدبیر۔ عیسیٰ بننے کی تدبیر۔ وحی اتارنے کی تدبیر۔ امام مہدی بننے کی تدبیر۔ حارث بننے کی تدبیر۔ اپنی اولاد میں عیسویت قائم کرنیکی تدبیر۔ خارقِ عادات معجزوں سے سبکدوشی کی تدبیر۔ الہاموں کی تدبیر۔ قرآن کی تحریف کی تدبیر۔ خاتم الانبیاء بننے اور پیسہ پیدا کرنے کی تدبیر۔
آگے ’’مرزا صاحب کے استفادات‘‘ کے زیر عنوان سابقہ مدعیان نبوت ومہدویت کے مکر وفریب اور شعبدہ بازیوں کا یکے بعد دیگرے ذکر کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے ان میں او رمرزا صاحب میں جو ہم آہنگی اور یکسانیت پائی جاتی ہے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے مثلا:…مسیلمہ کذاب، سجاح مدعیہ نبوت، محمد ابن تومرث، یوذاسف، بولس، اسحق اخرس، مغیرہ بن سعید، ابو منصور، مقنع، ہریغ، احمد کیال، فارس بن یحییٰ، عمر تبان، خوزستانی، بہافریذ بن ماہ، فیثا غورس، ذکرویہ وغیرہ کی جانب سے، واقعات میں تصرف، امور غیبیہ مثل کشف والہام، غزلتِ ریاضت اظہار تقدس، تعلیم من اللہ، عقلی معجزے، پیش گوئی، مامور من اللہ ہونا، امام الزماں ہونا، رسالت منقطع نہ ہونا، وحی، نبوت، صلوٰۃ یعنی درود، معارف قرآنی، عقلی استدلال، آیتوں کا مقداق بدل دینا، آیتوں سے جھوٹا استدلال، اپنی تعلّی، قدرت خدا کی صاحبزادگی، خدا کو دیکھنا، تکفیر، اعداد حروف، ناموں میں تصرف، تحریک قوائے انسانی، تعارض، انبیاء کرام وغیرہم پر حملے، نشانیوں میں جھگڑنا، افترا علی اللہ، اور رسول ا واہل اسلام کی مخالفت کے ابواب میں جو نظائر تاریخ میں موجود ہیں اور مرزا صاحب نے ان سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی جو بعینہ تقلید واتباع کی ہے، ان کو حقائق کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے۔
اگر چہ ایک سو سال قبل شیخ الاسلام نے عوامی استفادہ کے لئے یہ کتاب اردو زبان میں لکھی ہے لیکن اردو گلابی، دہقانی یا قدامت لئے ہوئے نہیں بلکہ زبان سلیس اور شستہ اور لب ولہجہ نہایت شائشتہ ہونے کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت کے رنگ وروغن سے اسقدر آراستہ وپیراستہ ہے کہ گویا عصر حاضر کی زبان معلوم ہوتی ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے اگرچہ اپنی کتابوں میں علماء ومشائخ کو نہایت توہین آمیز الفاظ سے جابجا مخاطب کیاہے جیسے
’’بدذات‘ بے ایمان، علماء السوء، اندھیرے کے کیڑے، لومڑی، کتے، گدھے، بچھو، کتے کے بچے، خنزیر سے زیادہ پلید، احمق، دجال، اشرار، مفتری، اذل الکافرین، اوباش، پلید، بے حیا، بددیانت، فتنہ انگیز، ایمان وانصاف سے بھاگنے والے، تمام دنیا سے بدترین، جاہل، جعلساز، چمار، مسخرے ، دشمن قرآن، روسیاہ سفلے، سیاہ دل، مکار، عقل کے دشمن، غدار، فرعون، کینہ ور، کمینے، مادر زاداندھے، گندے، مردار خور، نااہل، نمک حرام، نابکار، نالائق، خبیث، زندیق، لعن اللہ علیھم الف الف اور منافق جیسے القاب سے علماء ومشائخ کو خطاب کیا لیکن حضرت شیخ الاسلامؒ نے پوری کتاب میں مرزا صاحب کے حق میں جواباً سب وہ شتم تو کجانا شائشتہ ، رکیک اور معیار سے گراہوا ایک بھی لفظ استعمال نہیں فرمایا بلکہ ان کے لئے ہر جگہ مرزا صاحب کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے تحمل، تدبر اخلاق اور اعلی ظرفی کا پورا پورا مظاہرہ فرمایا۔
حضرت شیخ الاسلام نے ازالۃ الاوہام، براہین احمدیہ اور دیگر کتب کا ایک ایک قابل اعتراض نکتہ ، متعلقہ کتاب کے صفحہ نمبر کے ساتھ دیتے ہوئے قرآن وحدیث کے مستند حوالوں کے ساتھ ان دعوؤں کو غلط، گمراہ اور بے بنیاد ثابت فرمایاہے۔ افادۃ الافہام کے دونوں حصوں میں جملہ(۳۱۶) قرآنی آیات اور کوئی(۱۵۱)احادیث شریفہ کی پوری پوری عبارت مع حوالہ نقل کی گئی ہے۔ کتاب کے صفحہ۳۷۶ پر مرزا صاحب کی تصنیفات میں موجود آیات قرآنیہ کو بھی شیخ الاسلام نے یکجا کردیا ہے جو دراصل حضور سید المرسلین ا کے فضائل خاصہ میں نازل فرمائی گئیں مگر مرزا صاحب نے ان کو الہام کے ذریعہ خود اپنے پرچسپاں کرلیا اور گریز کا یہ طریقہ نکالا کہ بطور ظلی وہ سب فضیلتیں حق تعالی نے انہیں دے دی ہیں۔ جیسے
انااعطینک الکوثر۔ انا فتحنا لک فتحنا مبینا۔ لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا۔ دنی فتدلی فکان قاب قوسین اوادنی۔ یریدون ان یطفؤا نوراللہ۔الم نشرح لک صدرک۔ ورفعنالک ذکرک۔ لا تخف انک انت الاعلی۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس۔ انی فضلتکم علی العالمین۔ اذا جآء نصراللہ۔ انک علی صراط مستقیم۔ وجیھا فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین۔ الیس اللہ بکاف عبدہ۔ محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم۔ وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم۔ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہط افلا تعقلون۔ وجئنا بک علی ھؤلاء شھیداً۔ واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی۔ قل یاایھا الکافرون لا اعبد ماتعبدون۔ قل اعوذ برب الفلق۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔ واللہ متم نورہ۔ وتمت کلمت ربک۔
شیخ الاسلام نے قرآنی آیات واحادیث نبوی کے علاوہ مفسرین کرام، محدثین عظام اور ربانی علمائے علام وصوفیہ ذوی الاحترام کی کوئی(۵۰) مستند و معتبر کتب کے حوالے مع متن نقل کرتے ہوئے اپنے دلائل کو مزید قوی ومستحکم بنایا ہے اور محولہ ہر کتاب کے مصنف یا مؤلف کے اسماء گرامی بھی ساتھ ساتھ دیدئے ہیں۔ ان کے منجملہ صرف چند کتابوں کے نام یہ ہیں:۔
تفسیر کبیر۔ روح البیان۔ روح المعانی۔ معالم التنزیل۔ ابن جریر۔ بخاری۔ مسلم۔ ابوداؤد۔ ترمذی۔ دارمی۔ ابن ماجہ۔ قرطبی۔ بیہقی۔ نسائی۔ احمد۔ مستدرک۔ مسند امام حنبل۔ سنن ابوعمر۔ درمنثور۔ مواہب اللدنیہ۔ زرقانی۔ کنزالعمال۔ خصائص کبری۔ تاریخ کامل ابن اثیر۔ غرر الخصائص الواضحہ۔ نفحات الانس۔ الآثار الباقیہ۔ تاریخ خمیس۔ شفا بوعلی سینا۔ شرح حکمۃ الاشراق۔ لسان العرب۔ تاریخ دول اسلامیہ۔ فتوحا ت اسلامیہ۔ منہاج السنہ۔ ملل ونحل۔ کرامات الصادقین۔ کتاب المختار فی کشف الاسرار۔ اسفار اربعہ۔ تقریب۔ تدریب الرائے۔ شرح شفاء۔ شفاء للناس شوکانی۔ الاشباہ والنظائر۔ فتح المبین۔ فتوح الغیب۔ روض الریاحین۔ بہجۃ الاسرار۔ فتوحات مکیہ۔ شرح رسالہ قیامت۔ البدور السافرۃ فی احوال الآخرۃ۔
اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ حضرت بانی جامعہ کا مطالعہ کس قدر وسیع اور وقیع تھا نیز ایک جید حافظ قرآن او رایک متبحر عالم حدیث کی حیثیت سے برموقع درکار قرآنی آیات اور متعلقہ احادیث شریفہ آپ کو کس قدر از بر اور آپ کے حافظہ میں کتنے مستحضر ہوا کر تے تھے۔ جن کی روشنی میں آپ نے نقلی وعلمی دلائل کے ذریعہ مرزا صاحب کے ہر دعوے کو باطل اور جھوٹا ثابت کردکھایا۔
افادۃ الافہام حصہ اول کے صفحہ(۱۱۴) اور صفحہ (۳۴۳) پر اسلام کے بنیادی عقائد سے متعلق سر سید احمد خان کے گمراہ کن نظریات کا مرزا صاحب کے کفریات سے تقابل اور دونوں میں مماثلت ظاہر کرتے ہوئے شیخ الاسلامؒ رقمطراز ہیں:
۱}خان صاحب نے نبوت کو جنون قرار دینے سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا۔ مرزا صاحب نے نبوت کا ایک زینہ بڑھا کروہ ترقی کی کہ قیامت تک مسیحائی کے سلسلہ کواپنے خاندان میں محفوظ کرلیا۔
۲}خان صاحب معجزات کا انکار کرکے دونوں جہاں میں بے نصیب رہے۔ مرزا صاحب نے عقلی معجزات ثابت کر کے لاکھوں روپے حاصل کرلئے جس سے اعلی درجہ کے پیمانے پر مدرسہ وغیرہ کا کام چلایا۔
۳} نبوت کو عام فطرتی قوت دونوں نے قراردیا مگر خان صاحب بجز اس کے کہ نبوت گھر گھر کر گئے ان کو ذاتی فائدہ نہوا بلکہ ان کی امت کے لوگ ان کے بھی نہ رہے اپنی عقل کے مطابق رائے قائم کرلی۔ اور مرزا صاحب نے اس قوت کو قیود شروط لگا کر ایسی جکڑ بندی کی کہ اس زمانہ میں تو (نبوت) ان کے گھر سے نہیں نکل سکتی اور ان کی امت ان کی ایسی متبع ہوئی کہ ان کے کلام کے مقابلہ میں خدا و رسول کے کلام کو بھی نہیں مانتی۔
۴} سر سید احمد خاں صاحب اپنی تفسیر وغیرہ میں لکھتے ہیں کہ جبرئیل اس ملکہ اور قوت کا نام ہے جو انبیاء میں ہوتی ہے۔ ملائکہ اور ابلیس وشیاطین، آدمی کی اچھی بری قوتوں کے نام ہیں۔
۵} آدم ابوالبشر جن کا واقعہ قرآن میں مذکور ہے وہ کوئی شخص خاص نہیں بلکہ اس سے مراد بنی نوع انسانی ہے۔
۶} جنات کوئی علیحدہ مخلوق نہیں بلکہ وحشی لوگوں کا نام ہے۔
۷} نبی دیوانوں کی ایک قسم کانام ہے جو تنہائی میں اپنے کانوں سے آواز سنتے ہیں اور کسی کو اپنے پاس کھڑا باتیں کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔
۸}تہذیب الاخلاق میں لکھا کہ ان (پہلے کے) علماء و مفسرین کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔
شیخ الاسلامؒ نے مرزا صاحب کی کئی تضادبیانیوں کا احاطہ کیا ہے جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات وتدفین کا مبینہ واقعہ عجیب وغریب ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ازالۃ الاوہام میں پہلے تو یہ لکھا کہ عیسی مسیح اپنے وطن گلیل میں جاکر فوت ہوگیا۔ گلیل ملک شام میں واقع ہے۔ اس کے بعد رسالۃ الہدی میں لکھا کہ عیسی علیہ السلام کی قبر کشمیر میں ہے۔ شیخ الاسلامؒ نے اس سے یہ استدلال فرمایاہے کہ واقعات کے اختلافِ بیان سے ثابت ہے کہ ان کے بیان کا اصل واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔ جب واقعات کی نسبت یہ بات (جھوٹ) متعدد مقامات میں ثابت ہوگئی تو ان کے الہامات مطابق (سچے) کیوں سمجھے جائیں گے کہ آخر وہ بھی تو انہیں کے بیانات ہیں۔بالکل اسی طرح مرزا صاحب نے بھی ایک طرف احادیث نبوی کو ساقط الاعتبار (یعنی غیر معتبر) قرار دیا تو دوسری طرف وہ تفسیروں کے اس سے زیادہ دشمن رہے چنانچہ ازالۃ الاوہام صفحہ۷۲۶ میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے مولویوں کوبہت خراب کیاہے۔ ان کے دلی اوردماغی قوی پر ان سے اثر پڑا ہے۔ اس زمانہ میں بلاشبہ کتا ب الہی کے لئے ضرور ہے کہ ایک نئی اور صحیح تفسیر کی جائے کیونکہ حال میںجن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کر سکتی ہیںاور نہ ایمانی حالت پر اثر ڈالتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت او رنیک روشی کے مزاحم ہورہی ہیں‘‘۔
حضرت بانی جامعہ نظامیہ نے فتنئہ قادیانیت کے خلاف اپنی تصنیفات کے ذریعہ جو علمی جہاد کیا اس سے دکن میں اس فتنہ کا زور تو ٹوٹ گیا لیکن اس کا مرکزی مستقر قادیان چونکہ شمالی ہند میں واقع تھا اس لئے پنجاب اور شمالی ہند کے دیگر علاقوں میں یہ فتنہ بڑی تیزی سے پھیلنے لگا۔ بے دریغ دولت کے ذریعہ جابجا اس نئے گمراہ مذہب کی تشہیر اور پھر انگریزی حکومت کی سرپرستی کا نتیجہ تھا کہ بہت کم وقت میں اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہوئی۔ یہاں یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ آگے چل کر اس فتنہ کا کیا حشر ہوا۔
مرزا صاحب کے عقائد جب علماء حرمین شریفین کو بھیجے گئے تو مکہ معظمہ کے رئیس القضاۃ شیخ عبداللہ بن حسن نے یہ فتوی جاری کیا ’’مدعی نبوت کے کفر میں کوئی شبہ نہیں جو شخص قادیانی کے دعوی کی تصدیق کرے یا اس کی متابعت کرے وہ بھی مدعی نبوت کی طرح کافر ہے‘‘۔
پنجاب کے ایک جید اہل السنت والجماعت عالم حق وصوفی باصفا حضرت پیر مہر علی شاہؒ ان ہی دنوں ہجر ت کے ارادے سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے جہاں آپ نے بانی جامعہ نظامیہ حضرت حافظ انواراللہ فاروقی کے استاذ و پیر و مرشد یعنی پیر طریقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ سے ملاقات کی تو حضرت مہاجر مکیؒ نے فرمایا کہ آپ واپس اپنے وطن تشریف لے جائیے وہاں آپ کو اسلام کے دفاع میںایک بہت بڑے فتنے کا مقابلہ کرنا ہے۔ چنانچہ پیر مہر علی شاہؒ ہجرت کا ارادہ ملتوی کر کے وطن واپس ہوئے جہاں مرزا غلام احمد قادیانی اپنے جھوٹے دعوی نبوت کے ساتھ منظر عام پر آچکا تھا۔ پیر مہر علی شاہ مرزاؒ صاحب کو مباہلہ کا چیلنج بھی دیا اور اس کے خلاف کتاب ’’شمس الہدایہ‘‘ لکھی جس کا جواب مرزا صاحب نے تین سال بعد’’شمس بازغہ‘‘ کے نام سے دیا جس کے جواب میں پیر مہر علی شاہ نے ’’سیف چشتیہ‘‘ کے نام سے کتا ب لکھی مگر اس کا جواب نہ مرزا غلام احمد قادیانی دے سکا اور نہ آج تک اس کا کوئی خلیفہ جواب دے سکا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ فتنہ پاکستان میںتیزی کے ساتھ پروان چڑھنے لگا کیوں کہ حکومت پاکستان کا وزیر خارجہ میر ظفر اللہ خاں خود قادیانی مذہب کا ایسا راسخ علمبردار تھا کہ جس نے قادیانیت کی جڑیں مضبوط کرنے کی ہرسطح پر مقدور بھر کوشش کی لیکن بلوچستان اور آزاد کشمیر وغیرہ علاقوں کے جیالے مسلمانوں نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے اپنی جانوں کی بازی لگادی۔ ہر مسلک کے علما ء نے بھی رد قادنیت کے لئے اتحاد کا مظاہرہ کیا اور عامۃ المسلمین کے دینی شعور کو بیدار کیا۔ چنانچہ کئی ہڑتالوں ، احتجاجی پر تشدد مظاہروں کے بعد حزب اختلاف کی جانب سے مولانا شاہ احمد نورانی نے ۳۰؍جون ۱۹۷۳ء کو ایک قرار داد پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کی۔ او ربڑے ہنگاموں کے بعد بالآخر ۷؍سپٹمبر ۱۹۷۳ء پاکستان کی قومی اسمبلی نے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے ۱۹۷۳ء ہی میں رابطہ عالم اسلامی کی خدمات بھی نتیجہ خیز اور مفید ثابت ہویں جس کے تحت تمام اسلامی ممالک کے علماء کرام اور مفتیان عظام کی فقہ کانفرنس میں قادیانیوں کے عقائد پر بحث کے بعد فیصلہ کے گیا کہ چونکہ قادیانی عقائد جھوٹے مدعی نبوت پر ایمان، قرآن کریم کی تحریف، جہاد کو باطل قرار دینا اور احادیث نبویہ کے انکار کی بنا پر کفر کے زمرے میں آتے ہیں اس لئے تمام ممالک اسلامیہ ان کے ساتھ غیر مسلموں والا معاملہ کرے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے سعودی عرب کے نمائندے نے اجلاس کو بتایا کہ سعودی عرب میں قادیانیوں کے داخلہ پر پابندی ہے۔ اجلاس میں قادیانیوں کے اسرائیل میں مشن کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسلام کے خلاف سازش قرار دیاگیا۔
۱۰؍اور ۱۱؍جنوری ۱۹۸۸ء کو سپریم کورٹ پاکستان نے بھی اپنے فیصلہ میں قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کی توثیق کردی اور ان کی عباد گاہوں کو مسجد کا نام دینے پر تک ممانعت عائد کردی۔
اس طرح ایک صدی قبل حافظ انواراللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ نے اس فتنہء قادیانیت کی سرکوبی کے لئے جدوجہد کا آغاز فرمایا تھا وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے پایۂ تکمیل کو پہنچی اور قادیانی فرقہ کو عالم اسلام میں ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔
اب ہم مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ ہمیشہ چوکنا رہیں تاکہ دبے پاؤں پوشیدہ طور پر یہ فتنہ نیا جنم لینے نہ پائے۔ نئی نسل کو فتنہء قادیانیت کے پس منظر سے پوری طرح باخبر کرتے رہیں دعا ہے کہ یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوجائے اور رب العزت ہمیشہ ایسے فتنوں سے ہمارے ایمان کو محفوظ ومامون رکھے۔ آمین۔ وصلی اللہ تعالی علی أشرف الانبیاء والمرسلین وعلی الہ وأصحابہ أجمعین والحمدللہ رب العلمین۔
(بشکریہ الانوار، انجمن طلبہ قدیم حیدرآباد،۲۰۰۲ء)
٭٭٭
No comments:
Post a Comment