Breaking

Sunday, June 9, 2019

الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بحیثیت محدّثِ جلیل

 الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
بحیثیت محدّثِ جلیل


بقلم :عمدۃالمحدثین حضرت علامہ مولانا محمد خواجہ شریف صاحب
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ ، وبانی المعھد الدینی العربی )

حضرت عارف باللہ حافظ محمد انواراللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ نظامیہ کی ولادت ۴؍ربیع الثانی ۱۲۶۴؁ھ بمقام نانڈیڑہوئی، آپ خاصان خدا اور اہل اللہ سے ہیں آپ کی شان اعلی وارفع ہے آپ شیخ الاسلام ہیں ، دین ودنیا کی ریاست آپ کو حاصل ہے تمام علوم دینیہ میں کمال کے ساتھ ممتاز ہیں اور علم حدیث شریف میں آپ معرفت تامہ رکھتے ہیں عامل بالحدیث اور متبع سنت ہیں ، آپ کا شمار اپنے وقت کے کبار صوفیہ اور کبار محدثین میں ہوتا ہے ، ہر فن میں آپ کی تالیفات ہیں اور آپ نے اپنی تصانیف کے ذریعہ تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کی خیرخواہی اور نصیحت کی ہے ۔داعیانِ اسلام میں آپ کامرتبہ بلند اور خدمات عظیم ہیں۔ علم حدیث میں آپ کو حضرت شیخ عبداللہ یمنیؒ نزیل حیدرآباد سے شرف تلمذ حاصل ہے ، آپ کو حضرت یمنیؒ کے علاوہ اور طرق سے بھی کتب حدیث میں سند حاصل ہے۔ آپ استاذ محترم کے پاس روزانہ درس میں حدیث شریف کی کتاب کے آٹھ صفحات قرأ ت فرماتے استاذکے پاس درس لینے اور قرأ ت کرنے سے پہلے گہرائی کے ساتھ مطالعہ فرماتے اگر کوئی حل طلب مسئلہ ہوتا استاذ صاحب کی تقریر سے کامل انشراح ہوجاتاتھا ، کمال ضبط واتقان اور درایت وتفقہ میں آپ کی کمال بصیرت کے آپ کے تمام اساتذہ کرام معترف تھے ۔ 
اصحاب حدیث کے چار مراتب ہیں (۱)حاکم (۲)حجتہ (۳)حافظ(۴)محدث ، ایک محدث کیلئے جو امورلازمی اور ضروری ہیں وہ سب بدرجہ اتم آپ میں ودیعت تھے ، جو امع وسنن واسانید وغیرہ کی تمام احادیث پر آپ کو اطلاع اور استحضار تھا اور تمام طرقِ حدیث اور اسانید پر احاطہ تھا ، مراتبِ حدیث کی صحت وضعف وغیرہ پرکمال واقفیت تھی ، آپ کی تصانیف سے امور مذکورہ واضح اور عیاں ہیں ۔کسی کے مبلغ ِعلم کا اندازہ صرف کثرت تصانیف سے نہیں ہوتا بلکہ ان کے احاطہ علمی اور معانی و مطالب کی گہرائی سے ہو تا ہے۔ آپ کی تمام تصانیف اپنے معانی ، مطالب ، اسلوب ِبیان استنباط واستخراج مسائل اور حل مبہمات میں مسلم وممتاز اور نہایت وقیع ہیں اور ہر جہت سے آپ سب میں بلند ہیں ۔
علم حدیث شریف کے دوشعبے ہیں (۱)روایت (۲) درایت، اور ان دونوں شعبوں کے جملہ (۶۰)سے زائد علوم ہیں حضرت شیخ الاسلام ؒنے اپنی تمام تالیفات  میں حسب ضرورت مقام کہیں روایت کہیں درایت اور ان کے مختلف اقسام سے سیرحاصل بحث فرمائی۔ حضرت شیخ الاسلام کی بیس سے زیادہ کتابیں طبع ہو چکی ہیں علم حدیث شریف میں آپ کا ایک قلمی مخطوطہ بنا م ’’مجموعۃ منتخبۃ من الکتب الصحاح‘‘ جامعہ نظامیہ کے کتب خانہ میں  موجود ہے۔اس کتاب سے آپ کے تبحرِ علمی کی شان نمایاں ہے ، اس پر یہ عبارت بھی ہے ’’ محتویۃ علی فوائد مزیدۃ ومنافع کثیرۃ‘‘یہ کتاب نادر فائدے اور کثیر منافع پرمشتمل ہے۔ حضرت شیخ الاسلام ؒنے اس کو بخاری شریف مسلم شریف اور ان کی شروح قسطلانی ، نووی او ردیگر کتب صحاح وغیرہ سے انتخاب فرمایا ہے یہ کتاب مختارات حدیث ہے، اس میں احادیثِ شریفہ کو کتب صحاح ستہ کے ابواب کے تحت ذکرفرمایا پھر حاشیہ او ر اس کا نیا باب قائم فرمایا اوربعض جگہ اس پر عربی میں حاشیہ لکھا۔ اصلاحِ باطن ، استبراک بالآثار ، تزکیہ نفس او رحبّ رسولﷺ جیسے معانی استبناط فرمائے اور اسی کو باب اور عنوان بنایا ، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ حاشیہ نہایت مختصر او روسیع مطالب کا جامع ، گویا دریا کو کوزہ میں بھر دیا گیا ، اور یہ مخطوطہ باحثین (ریسرچ اسکالرس)کے لئے ایک نادر موضوع اور بہترین مواد فراہم کرتا ہے او راس لائق ہے کہ اس کی جانب توجہ کی جائے (۱)اس میں سے صرف دومثالیں پیش ہیں، (۱)امام بخاری عنوان ’’اذاخاف الجنب علی نفسہ المرض‘‘  کے تحت جو حدیث شریف لائے ’’عن ابی وائل قال قال ابو موسی لعبداللہ بن مسعود اذا یجد الماء لایصلی قال عبداللہ لو رخصت لھم فی ھذا کان اذا وجداحدھم البرد قال ھکذاعنی تیمم وصلی ‘‘  اس حدیث شریف کو نقل فرماتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام ؒنے حاشیہ پرعنوان قائم فرمایا ’’لحاظ المصلحۃ فی الفتوی مع انہ خلاف النص‘‘  فتوی میں مصلحت وقت کا لحاظ کرکے شرعی حکم بتایا جائے گا، ایک نہایت وسیع قانون اصول فقہ کا اس سے استنباط فرمایا او رایک جملہ میں اس کو ظاہر کردیا ، جس میں معانی ومطالب کی گہرائی ایک سمندر جیسی ہے اور ہر زمانے میں دنیا کے قضاۃ و مفتیان کے لئے بہترین رہنماہے ۔
(۲)امام بخاری نے ’’باب فضل من بات علی الوضوء‘‘ وضوء کی حالت میں رات گزارنا ، میں جو حدیث لائی ہے ، اس میں یہ ہے کہ صحابی نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو سناتے ہوئے ’’بنبیک‘‘کے لفظ کی جگہ ’’برسولک‘‘سنایا، تو حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’بنبیک‘‘ پڑھو۔ اب حضرت شیخ الاسلام ؒ نے اس پر حاشیہ قائم فرمایا ’’لتاثیر فی ماور دفی الحدیث دون معناہ‘‘ حدیث شریف میں جو کلمہ ہے اس میں جو تاثیر ہے اس کے ہم معنی لفظ میں نہیں ، صرف ایک جملہ میں آپ نے معانی ومطالب کا ایک سمندر سمودیا۔
(۳)باب البزاق کی حدیث شریف کاعنوان ’’الاستبراک بالنفحاتہ والبزاق‘‘ ا ور استعمال فضل وضوء الناس کا عنوان ’’التبرک بشرب ماء مج فیہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ اور اس کی دوسری حدیث پر ’’الاقتتال علی وضوئہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ قائم فرمایا ، ساری کتاب اوراس کے حواشی معطر مضامین سے مہک رہے ہیں آپ کا اسلوب محدثین متقدمین کا اسلوب ہے کہ تقریر مختصر ہو اور جامع ہو ، بر خلاف متاخرین کے ان کی تقریر ات طویل سے طویل ہوتی ہیں ۔
’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘ حضرت شیخ الاسلام ؒ کی معرکتہ الارا کتاب ہے علم حدیث میں ’’حدیث موضوع ‘‘ (گڑھی ہوئی بات ) جس کو حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم  کی طرف منسوب کردیا گیا  او رحقیقت میں وہ حدیث شریف نہیں ہے ، اس موضوع پر یہ نہایت وقیع اورجامع کتاب ہے اس کے مطالعہ سے علم حدیث شریف میں آپ کے تجربہ اور علوشان کا پتہ چلتا  ہے ، اس موضوع پر اس قدر تفصیل کے ساتھ اردوزبان میں پہلی اور آخری کتاب ہے ، یہ کتاب شمالی ہند او رجنوبی ہند ہردو جگہ سے شائع ہوئی ، 
آپ نے اس کتاب کو قیام مدینہ منورہ کے دوران کتاب ’’انوار احمدی ‘‘کی تالیف کے بعد قلم بند فرمایا ، اس کتاب کے موضوعات کا تعلق زیادہ تر روایت سے ہے ، اس میں آپ نے قرائن وضع اور قواعد جرح وتعدیل سے بحث فرمائی ہے اس موضوع پر تمام علمی مباحث کا عطر کشیدکردیا ہے آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں
’’الحاصل راویوں کی جرح وتعدیل میں بہت کچھ اختلاف ہوا کرتا ہے ، ایک ہی شخص کسی کے پاس مقبول ہے او رکسی کے پاس مخدوش یہ بات فن رجال سے بخوبی ثابت ہوسکتی ہے اور اس کا مدار قدماء محدثین رحمہم اللہ کی رائے او راجتہاد پر ہے ،جنہوں نے تجربہ اوروجدان سے قاعدے ایجاد کئے اوراپنے معاصرین کی جرح و تعدیل کی چنا نچہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے نکت میں لکھا ہے ’’فاختلف فاقوالھم لا ختلاف  اجتہاد ہم ‘‘ پھر متاخرین نے اپنے اپنے معتمد علیہ کی تقلیدکرکے ہر ایک پر حکم لگایا اور اسی وجدان یا تقلید کی وجہ سے جس کی نسبت جو اعتقاد کیا قائم رہے‘‘حالا نکہ تعدیل بعد جرح کے مفید نہیں ، اسی بحث میں فرماتے ہیں محدثین کے حکم بحسب ظاہر ہے ’’نفس الامری ‘‘ نہیں ہے کتاب  کے شروع میںفرماتے ہیں اس مقام پر مسئلہ وضع کہتے ہیں ، آیا وہ واقع میں کسی کی بنائی ہوئی ہوتی ہے یا صرف ظن ہو ا کرتا ہے محدثین نے لکھا ہے کہ موضوعیت حدیث کی کئی طرح سے معلوم ہواکرتی ہے۔ 
(۱) کبھی راوی میں کوئی قرینہ ہوتا ہے 
(۲) کبھی نفس ِحدیث میں 
(۳) اور کبھی خارج میں 
پھر اس پر اور اسکے ہر قاعدہ اوراصل پر سیر حاصل بحث فرمائی ، جو کئی صفحات پر مشتمل ہے ، مزید برآں اس کتاب میں حضرت شیخ الاسلام ؒ نے مجتہدین ومحدثین کا فرق اور ہر ایک کے وظائف ،فرقہ ضالہ اور متبدعہ او روضّاع و متروک کی روایتوں کا حکم ، عالم رؤیا میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ کی بابت تصدیق حاصل کرنے کا حکم ونیز بعص محدثین کرام کے احوال ، مثلاً حضرت امام شافعی ، محمدبن یحیی ، محمد بن جعفر ، علی بن مسہر  ابن جوزی ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ذھبی وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم کے احوال او ران کی روایتوں اور ان کے تفردات سے مفصلاً بحث فرمائی ، اس کتاب سے علم حدیث شریف اور اسکے متعلقات، فن رجال ، اصول نقد ، قواعد جرح وتعدیل میں آپ کی رفعت علمی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے وقت کے محدثین کرام میں بلند مرتبہ  اور ان کے امام تھے ۔
آپ کی تمام تصانیف میں احادیث وآثار کے مضامین ہیں چنانچہ آپ صحیحین او رسنن اربعہ کے علاوہ مسند احمد بن حنبل ، سنن دارمی، سنن بیہقی ، بزاز ،طبرانی ،حاکم، ابو نعیم، ابن عساکر ،دیلمی ، کنزالعمال اور بیشتر حدیثی کتب سے حدیث شریف کے متن کی بڑی بڑی عبارتیں نقل کرتے جاتے ہیں ، پھر فن حدیث ورجال کے نقطہ نظر سے بحث کرتے ہیں ۔
آپ کی تالیف ’’انوار احمدی ‘‘ جو حضور ﷺ کی شان رفعت میں بزبان اردوسب سے روشن کتاب ہے ، اس میں لکھتے ہیں کہ
’’اس کتاب میں التزام اس امر کا کیا گیا ہے کہ حتی الامکان احادیث وآثار کا مضمون لکھا جائے ، مگر کہیںکہیں بطور ِنکات کے اور  مضامین بھی جو منقو ل ہی سے مستفاد ہیں بڑھائے گئے ہیں باقی رہی یہ بات کہ سواء صحاح ستہ کے اور کتب حدیث سے بھی احادیث اس میں نقل کی گئی ہیں سواس کی وجہ یہ ہے کہ کل احادیث صحاح ستہ میں موجود ومنحصرنہیں ہے ۔ (۲)
پھر حضرت شیخ الاسلام ؒنے اس کے اثبات کے لئے جو تقریر کی ہے او رکتاب مستطاب میں ایمان و حلاوت سے بھر پور تعظیم حبیب پاک  علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق مضامین پر احادیث شریفہ کی روشنی میں جو بحث کی ہے وہ قلب کو روشن کردیتی ہے …قدوۃ المحققین، ہادی منازل تحقیق، حضرت شاہ امداد اللہ قدس سرہ العزیز اس پر تقریظ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’انی سمعت ھذ الکتاب من اولہ الی آخر بحث  الاداب ووجدتہ موافقا للسنۃ السنیۃ‘‘ (۳)۔
اصول ترجیح وتصحیح  کے تحت احادیث میں تطبیق پر اللہ تعالی نے آپ کو عظیم فراست وملکہ عطاء فرمایا تھا ،’’الابذ کر اللہ تطمئن القلوب‘‘ کی تفسیر میں درمنثور سے نقل فرماتے ہیں ذکر اللہ سے مراد ذکرمحمد واصحابہ ہے اس پر تعلیق کرتے ہوئے امام ترمذی ؒ کی عبارت نقل فرماتے ہیں ’’انھم خسروا القرآن فلیس الظن بھم انھم قالوا فی القرآن بغیر علم او من قبل انفسھم وقدروی عنھم ماید ل علی ماقلنا انھم لم یقولو امن قبل انفسہم بغیر علم ‘‘ 
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’ جب ا س درجہ کے علماء ایسے مواقع احتیاط میں اقوال متقدمین کی نسبت کسی قدر حسن ظن چاہئے کہ نہ ہمیں ویسا علم ہے نہ ویسا فہم‘‘ ۔ 
حدیث ’’لولاک‘‘  کے تمام طرق کا احاطہ کرتے ہوئے اصول تطبیق سے بحث کرتے ہیں کہ اکثر احادیث میں بظاہر اختلاف ہوتاہے کہ جس کی توفیق ہر شخص سے ہو نہیںسکتی ، ایسے مواقع میں یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ دونوںحدیثوں میں کچھ ضعف آجاتاہے بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ ہر ایک حدیث کو دوسری حدیث سے تعداد کی وجہ سے قوت پیداہوجاتی ہے ، اس لئے کہ ہر ایک حدیث نقل واقعہ کی صداقت پر گویا دوسری حدیث کی گواہ ہوتی ہے ہا ں جن امور زائدہ میں تعارض ہے ، ان میں شک پیدا ہوگانہ کہ نفس واقعہ  اس میں غرـض یہ کہ ہر کتاب  میں علم حدیث کی اصولی بحثیں ہیں ۔
کتاب ’’حقیقۃالفقہ‘‘ جلداول میں قرآن وحدیث شریف سے استنباط مسائل ، محدثین وفقہاء کے فرائض منصبی ، روایت ودرایت ،محدثین کی اہمیت ، محدثین کا حافظہ  ، تبلیغ احادیث ، وضع روایات ، تخالف درایت ، احتیاط محدثین، کتابت حدیث ، تدلیس ، روایت بالمعنی ضرورت اعتبار حدیث جیسے بے شمارموضوعات پر تفصیل  سے روشنی ڈالی ہے اور درایت حدیث کے اصول سے جگہ جگہ بحث کرتے ہیں ،ناسخ منسوخ کو جاننا نہایت  مشکل کام ہے ، اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے تقریبا ایک سو صفحات تک درایت وروایت سے متعلق امور کی بحثیں ہیں۔
’’افادۃ الافہام‘‘( حصہ دوم )جو رد قادیانی میں ہے ، آغاز ہی سے روایت و درایت حدیث کے متعد د دقیق امور پر گفتگو کی ہے صفحہ ۵ پر ’’شرح الاشباہ والنظائر ص ۳۹۷‘‘کی ایک صفحہ کی طویل عبارت نقل فرماتے ہوئے پھر اس پر چشم کشا تبصرہ بھی فرمایا ہے حاصل اس کا یہ ہے کہ آدمی کامل محدث نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ امور ذیل پر  پورے طور سے واقف اور ماہرنہ ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخبار اور احکام جو حضرت شیخ الاسلام مقرر فرمائے ہیں ونیز صحابہ کرام کے اخبار وحالات اور تابعین اور جمیع علماء کے احوال تواریخ  ہر ایک کا نام کنیت وطن زمانہ اور احادیث کے اقسام ، کونسی حدیث مسند ہے اورکونسی موقوف وغیرہ  اسکے سواء رسم الخط اور صرف ونحو اورلغت کا بھی ماہر ہو اور عمر بھر خالصا لوجہ اللہ اسی کام میں لگارہے الغرـض امور مذکورہ سے علم حدیث شریف میںحضرت شیخ الاسلام کا مرتبہ معاصرین میں سب سے بڑا ہے۔ 
علم حدیث سے آپ کو ہمیشہ اشتغال رہا ، سینکڑوں بزرگوںنے آپ سے استفادہ کیا ہے آپ کے شاگردوںمیںکتنے ایک اہل اللہ او رعلماء وصالحین ، اصحاب ورع وتقوی او ربے بدل اہل علم وفضل ہیں۔ علم حدیث میں آپ کا یہ اشتغال ہمیشہ قائم رہا حتی کہ سفر میں بھی اس میں فرق نہ آنے دیتے تھے چنانچہ حرم نبوی علی صاحبہ وآلہ الصلوۃ والسلام کے تین سالہ قیام کے دوران وہاں کے اہم کتب خانوں سے نادر کتابوں کو نقل فرمائے ان میں سے تین کتابیں حدیث شریف میںبہت اہم ہیں 
(۱) کنزالعمال 
(۲) جامع مسانید امام اعظم 
(۳) جوہر النقی علی سنن البیہقی 
تین مرتبہ خواب میں حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے دید ار مبارک سے مشرف ہوئے اورا س میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارے کے امتثال میں حیدرآباد کو مراجعت فرما ہوئے جامعہ نظامیہ کااستحکام فرمایا ، ’’دائرۃ المعارف ‘‘اور’’ کتب حانہ آصفیہ‘‘ کے قیام کے لئے تحریک فرمائی اوردائرۃ المعارف سے سب سے پہلے ’’کنزالعمال ‘‘ کی طباعت کا اہتمام فرمایا ، آپ ہی کی مساعی جمیلہ کی بدولت دنیا ئے بر صغیران کتابو ں سے استفادہ کرسکی ہے ، کتب خانہ میں او رکتابوں کے علاوہ کتب حدیث شریف کا بڑا ذخیراہ جمع ہوا ، خود آپ کے کتب خانہ میں حدیث شریف کی سب سے زیادہ کتابیں جمع تھیں آپ کے وصا ل کے بعد اس کتب خانہ کو بنام ’’انوارالمعارف ‘‘ جامعہ نظامیہ میں منتقل کردیا گیا اس کے ساتھ ساتھ آپ نے درس وتدریس کا بھی سلسلہ جاری رکھا ۔علم وفضل میں باکمال اور خصوصاً علم حدیث شریف  میں کامل معرفت رکھنے والے سینکڑوں علماء کا ایک سلسلہ جاری ہوا ، جنہوںنے اپنے آپ کو علمی خدمت او ردرس وتدریس کے لئے وقف کردیا ۔آپ کا طریقہ درس جیسا کہ اوپر کی تفصیلات سے واضح ہے علماء متقدمین کا طریقہ تھا اور اعجاز واختصار کے ساتھ ہر مسئلہ اور ہر بحث میں احادیث سے استدلال ان کے مراتب ورجال سے بحث ، ایمانی حلاوت او رعشق ومحبت سے بھر پور گفتگو آپ کی درسی خصوصیات تھیں ، اور یہی صبغۃاللّہی رنگ جامعہ نظامیہ کے تمام محدثین وشیوخ حدیث میں ہمیشہ نمایاں رہاہے۔ 
(بشکریہ : روزنامہ سیاست حیدرآباد۔جمعہ ۳؍اکتوبر۱۹۹۷؁ء)
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ کے نادر قلمی مخطوطہ حدیث شریف ’’مجموعہ منتخبہ من الکتب الصحاح‘‘ پر باضابطہ تحقیقی مقالہ مولانا شبیر احمد یعقوبی نظامی استاذ جامعہ نظامیہ ترقیم و تکمیل کررہے ہیں۔ مرکز تحقیقات اسلامیہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی سرپرستی اور صاحب مقالہ ہذا شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد خواجہ شریف قادری مدظلہ، ناظم مرکز تحقیقات اسلامیہ کے زیر نگرانی یہ عظیم تحقیقاتی پراجکٹ سر انجام دیا جارہا ہے۔ 
(۲) امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ؍ انوار احمدی، ص و، طبع پنجم، اگست 2000 ، مطبوعہ، مطبعہ ابوالوفا افغانیؒ جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(۳) امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ؍ انوار احمدی، ص ۳، طبع پنجم، اگست 2000 ، مطبوعہ،  

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Recent In Internet

Popular Posts