Breaking

Sunday, June 9, 2019

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی دبستان علم و عرفان جامعہ نظامیہ کا تاریخی پس منظر

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
دبستان علم و عرفان جامعہ نظامیہ کا تاریخی پس منظر


بقلم:  شاہ محمد فصیح الدین نظامی ،
 مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ



حیدرآباد کو شروع ہی سے علمی مرکز ہونے کا شرف حاصل رہا ہے جہاں رُودِ موسی کے ساتھ علم و معرفت کے دریا بھی موجزن ہیں۔ قلی قطب شاہ کے 400سالہ قدیم شہر میں قائم جامعہ نظامیہ محتاج تعارف نہیں، جامعہ نظامیہ قرآن و سنت کی تعبیر و امانت ، علم و معرفت کا حسین امتزاج ، اسلامی تہذیب و تمدن کا ترجمان، دینی آثار و افکار و اقدار کا نقیب ہے، جس طرح مدرسہ نظامیہ بغداد سے نامور علماء ومفکرین، صاحب دل روشن ضمیر افراد پیدا ہوئے اور دنیا کو علم وفضل سے منور کیا اسی طرح مدرسہ نظامیہ حیدرآباد سے بھی ایسے علماء خطباء، ادباء، وشعراء، محققین، مصنفین، مصلحین و ماہرینِ تعلیم پیدا ہوئے جن کی علمی و ادبی خدمات نے ایک دنیا کو فیضیاب کیا۔ ایک ماہر تعلیم کے بقول جامعہ نظامیہ کو جو شہرت اور عظمت ملی ہے اس میں اس کے بانی مبانی شیخ الاسلام ابوالبرکات، حافظ محمد انوار اللہ فاروقی رحمہ اللہ کے خلوص نیت اور توکل علی اللہ کا اثرہے۔ آپ صاحبِ بصیرت عالم، باخبر مصلح اور وسیع النظر مصنف تھے ایک طرف جامعہ نظامیہ ان کی اشاعتِ علوم نبوت کا ’’علمی نشان‘‘ ہے تو دوسری طرف کتب خانہ آصفیہ کے قیام میں کلیدی وبنیادی رول اور تیسری طرف عظیم عربی ریسرچ اکاڈمی ’’دائرۃ المعارف العثمانیہ‘‘ کی تاسیس ان کے کتابی ذوق کی پہچان اور تحقیقی کردار کو اجاگر کرتا ہے، چوتھی طرف مروجہ بے جا رسومات و خرافات کا انسداد اصلاح معاشرہ اور دینی تعلیم کو عام کرنے مصلحانہ جد وجہد اور داعیانہ کوشش و سعی نے مصلحینِ امت کی صف میں شامل کر کے انہیں صاحبِ کار نہیں بلکہ صاحبِ کارنامہ بنادیا ہے۔ 1292ہجری 1875ء میں جامعہ نظامیہ نے اپنا جو تعلیمی سفر شروع کیا تھا وہ اب تک جاری ہے۔ اخلاقی اقدار و روایات اور آسمانی تعلیمات کا یہ مرکز انسانیت کی فلاح ، ملت کی خدمت اور قوم کی جدید تعمیر و تشکیل میں اپنا تاریخی کردار ادا کر رہا ہے۔
تاریخ کے آئینے میں:
جامعہ نظامیہ ابتداء میں مولوی مظفر الدین مددگار ناظم پوسٹ حکومت آصفیہ کے مکان واقع افضل گنج میں قائم ہوا۔ ہاسٹل کے انتظام کے بعد جگہ ناکافی ہونے کی وجہ قیام کے دس سال بعد 1302ھ میں مولوی امیر الدین پونیری کے مکان چنپہ دروازہ منتقل ہوا۔ جہاں سے چند سال بعد نواب فیروز جنگ کے مکان میں منتقل ہوا۔ وہاں سے جناب رفیع الدین کے مکان میں منتقل کیا گیا۔ قیام کے 27سال بعد 1319ھ میں آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں نے محلہ شاہ گنج میں ایک شاندار وسیع اور پختہ مکان عطا کیا۔ چند سال بعد یہ بھی ناکافی ہونے لگا تو آصف سابع نے محلہ شبلی گنج میں وسیع وعریض مکان دیا اور تعمیر کے لئے بارہ ہزار روپیہ بھی دئیے۔ اسی مقام پر اب جامعہ نظامیہ موجودہے ۔ اس عظیم مرکزی دینی درس گاہ سے ہزاروں علماء خطباء، شعراء، صلحاء، قانونی ماہرین، معلمین، محققین، مصنفین، واعظین، صحافی وقائدین نکلے جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے حیات میں قومی وملی خدمات کے ذریعہ اعلی مقام پیدا کیا۔
جامعہ نظامیہ کے فیض یافتہ وفارغ التحصیل مشاہیر میں مولانا مفتی رکن الدین ، مولانا عبدالصمد قندھاری، مولانا عبدالباسط، مولانا مفتی سید احمد علی، مولانا مفتی محمد رحیم الدین، مولانا ڈاکٹر عبدالحق، مولانا حکیم ابوالفداء محمود احمد ، حضرت مظفر الدین معلیؔ، مولانا حکیم محمود صمدانی، مولانا سید ابراہیم ادیب رضوی، مولانا سید محمد پادشاہ حسینی، مولانا نذر محمد خاں نقشبندی، مولانا محمد اکبر علی مدیر صحیفہ، مولانا عبدالواحد اویسی ایڈوکیٹ، مولانا مفتی اشرف علی اشرفؔ، مولانا مفتی سید مخدوم حسینی، مولانا مفتی مخدوم بیگ، مولانا شیخ صالح باحطاب، مولانا شیخ سالم بن صالح باحطاب، مولانا سید شاہ سیف شرفی، مولانا سید فرید پاشاہ،مولانا قاری عبدالرحمن بن محفوظ، مولانا مفتی عبدالحمید صدیقی، مولانا حاجی منیر الدین خطیب مکہ مسجد،شہنشاہ رباعیات سید احمد حسین امجدؔ حیدرآبادی، حضرت صفیؔاورنگ آبادی، حضرت علی افسرؔ شاعر محمد نامہ، مفسر قرآن مولانا قاری عبدالباری، مورخ نظامیہ مولانا ابوالخیر کنج نشین، مولانا غلام احمد، مولانا الطاف حسین فاروقی، حضرت سید حبیب اللہ قادری رشید پاشا، مولانا نور اللہ قادری، مولانا سید عطاء اللہ نقشبندی ،مولانا حافظ عزیز بیگ قابل ذکر ہیں۔
 پچھلے 136سال میں جامعہ نظامیہ نے جو یادگار اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ اس کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلا دور 1292ھ تا 1336ھ 
 یہ 44سالہ عرصہ موسس جامعہ حضرت ابوالبرکات انوار اللہ فاروقی ؒکا عہد ہے۔ جس میں آپ بہ نفس نفیس تدریس کے علاوہ طلبہ کا امتحان لیتے اور شوقین طلبہ کی انعامات کے ذریعہ حوصلہ افزائی فرماتے۔ پہلی مجلس مشاورت کی تشکیل بھی اسی عہد میں ہوئی جس میں مولانا غلام قادر مہاجر، مولانا مظفر الدین معلیؔ، مولانا عبدالعزیزخاں صاحب شامل تھے۔ اسی دورمیںہندوبیرون ہند سمر قند، بخارا، بدخشاں، افغانستان اور عالم عرب کے طلباء اپنی پیاس بجھانے کے لئے جامعہ آتے اور سیراب ہوکر اپنے وطن لوٹتے۔
کتب خانہ
  1322ھ میں حضرت شیخ الاسلام نے ایک کتب خانہ ’’امداد المعارف‘‘ قائم کیا جس میں پچاس ہزار مطبوعات نادر نایاب قلمی مخطوطات ہیں اس وقت اس سارے قیمتی اثاثہ کو کتب خانہ جامعہ نظامیہ کا نام دیاگیا ہے۔ یہاں کا سب سے قدیم قلمی مخطوطہ753ھ کا تحریر کردہ ہے،اس کے علاوہ سریانی زبان کی کتب اور انجیل، رگ وید، مہابھارت، پدماوت اور بانی جامعہ کے مخطوطات بھی موجود ہیں۔
اسناد جامعہ
 حکومت آصفیہ نے جامعہ نظامیہ کے اسناد کو مغربی جامعات کے مماثل قراردیا، اس اعتبار سے مولوی فاضل اور B.Aمساوی قرار دئے گئے۔ 1345فصلی میں عثمانیہ یونیوسٹی نے بھی جامعہ نظامیہ کے اسناد کو مسلمہ قرار دیا نیز 1985ء میں تبدیل شدہ جدید اسنادات کو بھی اپنے 12-10-1992کو جاری کردہ لیٹر 3362/1/5555/ aead/92کے ذریعہ تسلیم کرلیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور مصر کی یونیورسٹی میں بھی جامعہ کی اسنادات مسلمہ ہیں۔ چنانچہ اس وقت جامعہ کے طلبہ جامعہ ازہر ودیگر جامعات میں ریسرچ کررہے ہیں۔
دار الخطابت
  1323ھ طلبہ میں تحریری و تقریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے قائم کیاگیا۔ باضابطہ معلم صاحبان اس کا م پر مامو رتھے۔ سالانہ جلسہ (کانوکیشن) میں اکثر عمائدین شہر و علماء شریک رہتے اور ہر سال فارغ التحصیل طلباء کی دستار بندی وخلعت پوشی ہوتی۔
1321ھ کا تاریخی واقعہ
 حسب روایت سالانہ جلسہ تقسیم اسناد 22ذی الحجہ 1321ھ منعقد ہوا، جس میں مشہور علماء اور عوام شریک تھے۔ تقاریر بھی ہوئیں۔ مشہور صوفی و عالم مولانا عبدالصمد قندھاری نے اسنادات تقسیم فرمائے۔ اسی رات ایک بزرگ مولانا شرف الدین رودولوی نے خواب میں معلم انسانیت حضور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ جامعہ کی اسنادات کو اپنی دستخط خاص سے مزین فرمانے کے لئے طلب فرمارہے ہیں۔ چنانچہ جامعہ کے منتظم صاحب اسنادات لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ یہ بشارت جامعہ کی مقبولیت کی علامت قرار پاتی ہے۔ اس مقبولیت کی ایک وجہ جامعہ کا نصاب  تعلیم ’’درس نظامی‘‘ بھی ہے، جو وقتا فوقتاحالات سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔ مختلف علوم و فنون کی 72کتب پر مشتمل یہ نصاب تحتانی، وسطانی، کلیہ، علیا اور ڈاکٹریٹ پر محیط ہے اس نصاب نے ہزار سالہ تعلیمی روایات کو برقرار رکھا ہے۔
عہدیداران جامعہ
تعلیمی شعبہ کے نگران کو ابتداء میں ناظم کہا جاتا تھا لیکن اب ’’شیخ الجامعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس اہم عہدہ پر سب سے پہلے مولانا مفتی محمد رکن الدین صاحبؒ منتخب ہوئے۔ اس وقت مولانا مفتی خلیل احمد صاحب شیخ الجامعہ ہیں، آپ کی فعال و متحرک شخصیت نے جامعہ کو بام عروج پر پہنچانے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عصری تقاضوں کی تکمیل بھی آپ کے ہاتھو ں ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے حجتہ الاسلام مولانا انوار اللہ فاروقی 1292)تا (1336 چوالیس سال جامعہ کے امیر رہے۔ اس وقت اس عہدہ جلیلہ پر مولانا سید علی اکبر نظام الدین صابری صاحب فائز ہیں۔ سب سے پہلے معتمد حضرت محمد مظفر الدین معلی تھے جو بہترین اڈمنسٹریٹر، شاعر اور مہاراجہ کشن پرشاد کے استاذ سخن تھے۔ 1995ھ میں جناب سید احمد علی صاحب اس عہدہ پر منتخب ہوئے آپ ایک قابل فعال حرکیاتی شخصیت ، تجربہ کار اور جہاں دیدہ اڈمنسٹریٹر ہیں آپکے کے دور معتمدی میں جامعہ نظامیہ کے ترقیاتی پراجیکٹ نہایت کامیابی سے ہمکنار ہوئے جامعہ کی جائیدادوں کے تحفظ اور جامعہ نظامیہ اسٹیٹ گن فاؤنڈری کی تعمیروتکمیل ایک یادگار کارنامہ متصور ہوگا۔جشن تاسیس کے علاوہ تنظیمی مسائل ومالی وسائل میں آپکی کاوشیںمشعل را ہ ہیں ۔ آپ بہترین مترجم بھی ہیں ۔ مشہور زمانہ فقہی کتاب ’’نصاب اہل خدمات شرعیہ‘‘ کا سلیس انگریزی ترجمہ کیا جومقبولیت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے بالخصوص نوجوانوں اور نومسلمین میں دین آموزی کا وسیلہ ثابت ہورہا ہے ۔
دور ثانی:   1336تا 1370 ھ 
یہ 34سالہ دور موسس جامعہ کے وصال کے بعد آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کی شاہانہ سرپرستی کا دور بھی ہے۔
شاہانہ سرپرستی
  یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جامعہ کو عروج و دوام بخشنے میں شاہانہ سرپرستی کا بڑا ہم رول رہاہے۔ چنانچہ مملکت آصفیہ کے چھٹے حکمران نواب میر محبوب علی خاں اور سلطان العلوم میر عثمان علی خاں بہادر نے بہ نفس نفیس جامعہ کی سرپرستی قبول فرمائی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ آصف سادس 6سال اور آصف سابع کو 22سال 1307)تا 1329 ھ( تک حضرت فضیلت جنگ سے تلمذ حاصل رہا ہے۔ 1301ھ میں آصف سادس نے اپنی تخت نشینی کے موقع پر حضرت انواراللہ فاروقی علیہ الرحمہ کو’’ خان بہادر‘‘ کا خطاب اور منصب یکہزاری سے سرفراز کیا آصف سابع نے 1322ھ میں اپنی جشن سالگرہ کے موقع پر مولانا انوار اللہ کے شایان شان اسم بامسمی ’’فضیلت جنگ‘‘ کا خطاب دیا۔ حضرت فضیلت جنگ جب آصف سابع کی تعلیم وتربیت پر مقرر ہوئے تو جامعہ کو 700روپئے امداد مقرر فرمائی۔ 1329ھ میں جب آصف سابع تخت نشین ہوئے اس امداد میں ایک ہزار تین سو کا اضافہ فرمایا کچھ عرصہ بعد امداد دو ہزار پانچ سو روپئے ہوگئی۔ 1330ھ میں دوہزار روپئے منظورہوئے اور یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ اس مدرسہ کا انتظام مولوی حافظ محمد انواراللہ خاں صاحب بہادر کی زندگی تک انہیں کے سپرد رہے گا۔ 1913تا 1914ء میں جاری کئے گئے فرمان میں جامعہ کی گرانٹ او رانتظامی امور سے متعلق تفصیلی ہدایات درج ہیں۔ اس کے علاوہ1336ھ میں جب حضرت فضیلت جنگ کا وصال ہوا آصف سابع بمبئی میں تھے واپسی کے بعد مزار پر حاضری دی فاتحہ پڑھی دیر تک استاد محترم کی خوبیاں بیان کیں اور فرمان جاری کیا جس میں جامعہ اور بانی جامعہ کے ساتھ اپنے جذبات قلبی کے اظہار کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ تلمذ کے خاص تعلق کے باعث مولوی صاحب مرحوم کی جدائی کا سخت افسوس ہے اور مولانا کی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے مدرسہ نظامیہ میں دو تعلیمی وظیفے 25-25جاری کئے ۔ ایک اور فرمان میں یہ ارشاد فرمایا ’’جامعہ نظامیہ کی تنظیم جدید ہوگی اور اس وقت یہ جامعہ ہر قسم کی معاونت کا مستحق ہے جس کو دینے ایک شاگرد آمادہ ہوگیا ہے اپنا فرض منصبی سمجھ کر زمانہ گزشتہ میں بشمول شاگرد کلاں (مرحوم سرکار نظام سادس) ہر دو نے علم دین حاصل کر کے اپنے استاذ کا نام دنیا میں روشن کیاہے۔ جس کے مولوی صاحب مستحق تھے لا شک فیہ۔ خدا بانی جامعہ کی روح اقدس کو ان کے بیش بہا خدمت کے سلسلہ میں حرمین شریفین میں آسودہ رکھے۔
عہد آصفی کے ممتاز مورخ مانک راؤ وٹھل کی ’’بستان آصفیہ‘‘ جلد سوم کے مطابق 16جمادی الثانی 1330ھ کو مدرسہ اپنے پچھلے مکان سے اس مکان میں منتقل ہوگیا اور 10جمادی الثانی1335ھ کو مدرسہ مذکور سے متعلق ایک دارالاقامہ قائم کیاگیا۔
آصف جاہ سادس وسابع نے اپنے استاد اور ان کی قائم کردہ درس گاہ جامعہ نظامیہ کے تعلق سے جن تاثرات کا اپنے فرامین میں اظہار کیا ہے یہ علمی سرپرستی و قدردانی کی بہترین مثال ہے اس کے علاوہ اس جامعہ کو پروان چڑھانے نواب اقبال یار جنگ، نواب حیدر نواز جنگ۔ نواب مرزا یار جنگ، نواب مہدی یارجنگ، اختر جنگ ، فخر یار جنگ، محمد یار جنگ، احسن یار جنگ، ناصر یار جنگ، نواب معشوق یار جنگ، حضرت سید پیر بغدادیؒ، پروفیسر الیاس برنی، ملا عبدالقیوم نے بھی تاریخی کردار ادا کیا۔
جامعہ نظامیہ کا دورثالث 
 1370تا 1398ھ کا ہے، یہ 28سالہ عرصہ جامعہ کا قومی دور ہے اس میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن جامعہ کے عزم سفر میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے ہی بڑھتا گیا۔مکتب سے مدرسہ، مدرسہ سے جامعہ بنا۔ 1935ء میں انجمن طلباء قدیم کے نمائندہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحریک پر سب سے پہلے نواب سر حیدر نواز جنگ صدر اعظم حکومت حیدرآباددکن نے اعلان کیاکہ اس درس گاہ میں جملہ علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں۔ اس لئے یہ مدرسہ کے بجائے جامعہ نظامیہ کہاجائے گا۔ آصف سابع بھی ایک فرمان میں جامعہ نظامیہ سے مخاطب ہوئے۔(رہبر دکن 2جمادی الثانی 1359ھ)
جامعہ نظامیہ کا دور رابع
 1394تا 1418ھ کا ہے جو 125سالہ جشن تاسیس پر ختم ہوتاہے۔ جامعہ کے قدیم ریکارڈ اور مطبوعہ رپورٹوں سے یہ ثبو ت فراہم ہوتا کہ اس طویل عرصہ میں دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد فیضیاب ہوئے جن میں کاملین، فاضلین، حفاظ، قاری، منشی، منشی فاضل، اہل خدمات شرعیہ (قاضی، خطیب، امام، موذن، ملا) طبیب یونانی، قائدین، شعراء اور ادباء شامل ہیں۔
کاروانِ علم وعمل
 جامعہ نظامیہ کے دور حاضر کے ممتاز علماء میں ڈاکٹر حمیداللہ صاحبؒ (امریکہ) مولانا سید نوراللہ قادریؒ، مولانا سید طاہر رضویؒ صاحب، مولانا مفتی ولی اللہ صاحب، پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی (پاکستان)، مولانا سید جعفر محی الدین قادری(امریکہ)، مولانا مفتی محمد عظیم الدین(صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ) شیخ الحدیث مولانا محمد خواجہ شریف صاحب،مولانا مفتی خلیل احمد صاحب، پروفیسر مولانا محمد سلطان محی الدین، مولانا قاری عبداللہ قریشی، ڈاکٹر سمیع اللہ خان، ڈاکٹرمولانا محمد عبدالمجید نظامی(صدرشعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی و ڈائرکٹر دائرۃ المعارف العثمانیہ)، مولانا عبداللہ قرموشی صاحب، مولاناسید خورشید علی مظہری (ریسرچ آفیسر سالارجنگ میوزیم)، ڈاکٹر عبدالشکور نظامیؒ (سابق پرنسپل اسلامیہ کالج کرنول)، مولانا سید بدرالدین قادری گلبرگہ، مولانا مفتی سید صادق محی الدین ، مولانا محمدفاروق علی صاحب،ڈاکٹر عبدالحلیم نظامی و دیگر اصحاب شامل ہیں۔
دار الافتاء جامعہ نظامیہ
شیخ الاسلام نے 1328ھ میں مستقل شعبہ کی حیثیت سے دارالافتاء قائم فرمایا اور سب سے پہلے اپنے خاص شاگرد، مرید وخلیفہ، بلند پایہ فقیہ، علوم ظاہری و باطنی کے جامع حضرت مولانا مفتی رکن الدین صاحب علیہ الرحمۃ کو منصب افتاء پر فائز فرمایا۔ حضرت کو تمام طبقات فقہاء، طبقات کتب اور سارے متون وشروح وحواشی وفتاوی پر گہری و کامل دسترس حاصل تھی۔ اسی لئے اس عظیم گراں بہا عہدہ افتاء پر برسوں کام کیا۔ آپ کے عہد مبارک میں فتاوی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ مدون ہوا جس کی تین جلدیں آپ کی حیات میں شائع ہوئیں۔ یاد رہے کہ جامعہ نظامیہ میں مفتی صاحب کے فتوی کو جاری کرنے سے پہلے دیگر شیوخ کرام کے پاس پیش کیا جاتا ہے اور ان کی تصدیق و تصویب کے بعد ضبط (رجسٹر) کر کے اس کو جاری کیا جاتا ہے۔
حضرت مولانا مفتی صاحب علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد حضرت مفتی سید مخدوم حسینی علیہ ا لرحمۃ اس منصب جلیل پر فائز ہوئے آپ علم وفضل زہدو و رع میں اپنے معاصرین پر فائق تھے علم فقہ و افتاء میں بے نظیر تھے۔ بڑے بڑے بظاہر پیچیدہ اور لا ینحل مسائل کے استخراج و استنباط میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ کے زمانہ میں افتاء کا کام بڑھتا گیا اور فتاوی کی کئی جلدیں مدون ہوئیں آپ کے فتاوی کو دیکھنے سے علماء سلف کی شان ارفع نظر آتی ہے۔
آپ کے وصال کے بعد حضرت مولانا مفتی مخدوم بیگ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس عظیم خدمت پر متمکن ہوئے۔ حضرت مفتی صاحب کے علم و فضل کی دنیا معترف ہے۔ آپ کو اللہ نے ایسا ملکہ عطا فرمایا کہ آپ منٹوں میں مسائل حل فرماتے تھے۔
آپ کے دور میں ہندوستان کے دار الحرب ہونے کافتوی شائع ہوا۔ آپ کا یہ فتوی اس کے دلائل اور ان کاخلاصہ کئی مرتبہ اخبارات و رسائل کے ذریعہ شائع ہوتا رہا۔ آپ کے عہد مبارک میں فتاوی کی کئی جلدیں مدون ہوئیں۔ حضرت علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد حضرت فضل الرحمن صاحب مفتی کی حیثیت سے متعین ہوئے۔ مولانا اپنے علم وفضل کی بلندی کے ساتھ ساتھ نہایت سنجیدہ مزاج، تحمل، وبردباری کے حامل تھے۔ آپ فتاوی تحریر کرنے سے پہلے شیوخ جامعہ سے خصوصی مراجعت فرماتے تھے۔ آپ حیدرآباد سے دلی منتقل ہوگئے۔ آپ کے بعد مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب مدظلہ کا تقرر عمل میں آیا۔ حضرت ممدوح کو فقہی فروعات اور مسائل حاضرہ میں تعمق  اور گہری نظر ہے ونیز آپ کو حضرت مفتی رحیم الدین صاحب علیہ الرحمہ جیسے عظیم المرتبت فقیہ کی سرپرستی حاصل رہی اور حضرت سے مراجعت کے لئے تمام سہولتیں آپ کو حاصل تھی۔
آپ کے بعد حضرت مولانا مفتی حافظ ولی اللہ صاحبؒ کو انتظامی کمیٹی نے دارالافتاء کے عہدہ جلیلہ کے لئے منتخب کیا۔ حضرت مفتی صاحب کسرِ نفسی کی وجہ سے اس کے لئے آمادہ نہیں ہورہے تھے لیکن کمیٹی کے اصرار پر اس کو قبول فرمایا:
حضرت کو تمام فتاویٰ اور اصول فروغ پر گہری نظر ہونے کے ساتھ ساتھ حالات زمانہ اور اس کے تقاضوں پر بھی دقیق نظر تھی اور بحیثیت مفتی تمام او صاف حمیدہ سے مزین، طلبہ اور مستفتیوں کے ساتھ نہایت شفقت کا برتاؤ آپ کا وطیرہ رہا۔ بلا شبہ حضرت جامعہ کے سلف کا نمونہ،  صاحب ورع وتقوی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ آپ کے بعد حضرت مولانا مفتی خلیل احمد حفظہ اللہ اس منصب افتاء پر فائز ہوئے اللہ تعالی نے مولانا ممدوح کو مسائل کے سمجھنے اور قضایا کے حل کرنے میں فقہی بصیرت عطاء فرمائی۔ آپ تمام فقہاء جامعہ میں ممتاز مقام رکھتے ہیں آپ کے زمانہ میں دارالافتاء کے عمل میں کافی وسعت ہوئی اور مستفتیوں کا جم غفیر رجوع ہونے لگا اس عہد میں آپ عبقری شخصیت کے مالک ہیں۔ راقم الحروف (محمد فصیح الدین نظامی) کو سات سال تک آپ کے زیر نگرانی فتوی نویسی کی سعادت حاصل ہے۔
آپ کے بعد مولانا ابراہیم خلیل ہاشمی مدظلہ مسند نشین ہوئے۔ علم فقہ کے اصول وفروع اور فتاوی قدیم وجدید پر مولانا کو کامل معرفت حاصل ہے آپ کو نہ صرف اپنے والد بزرگوار حضرت مفتی مخدوم بیگ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت حاصل رہی بلکہ عالم اسلام کی معروف شخصیت ابو حنیفہ ثانی حضرت ابوالوفاء افغانی قدس سرہ العزیز کی علمی تربیت و سرپرستی حاصل رہی، اس وقت حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب صدر مفتی اور حضرت مولانا سید صادق محی الدین صاحب نائب مفتی کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں ۔
آئے دن فتاوی کی تعداد اور دارالافتاء کو رجوع کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ دارالافتاء کی سابقہ عمارت اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھی چونکہ خواتین کی بھی ایک کثیر تعداد دارالافتاء کو روزانہ رجوع کرتی رہتی ہے اس لئے احاطہ جامعہ کے ابتدائی حصہ میں جنوبی جانب دالافتاء کی تمام تر سہولتوں سے آراستہ دو منزلہ عمارت تعمیر کی گئی ہے جس میں صدر مفتی اور معاون مفتیان اور افتاء کی تربیت حاصل کرنے والے طلبہ اور مستفتیان مرد وخواتین اور دارالافتاء کی ضرورت کی تمام کتب پر مشتمل مناسب الگ الگ حصے قائم کئے گئے ہیں۔ دارالافتاء انٹرنیٹ سے بھی مربوط ہے جس کے ذریعہ دنیا بھر سے آئے ہوئے سوالات کا تشفی بخش جواب دیاجارہا ہے۔ E-mail:fatwa@jamianizamia.org
کتب خانہ جامعہ نظامیہ
کتب خانوں میں انسانی زندگی کے تاریخی کردار محفوظ ہوتے ہیں اس کے ضبط نظم کے احیاء کو تعمیر ملی کا ایک اہم بنیادی وسیلہ تصور کیا جاتا ہے انہی وجوہات کے پیش نظر ابتداء ہی سے جامعہ نظامیہ میں ایک کتب خانہ قائم ہے۔ ابتدائی دور میں’’ امدادالمعارف‘‘ سے موسوم تھا ۔ جس کی نسبت حضرت امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ کی طرف تھی ’’انوارالمعارف‘‘ بانی جامعہ نظامیہ حضرت مولاناانواراللہ فاروقی رحمۃاللہ علیہ کا ذاتی کتب خانہ تھا جس کو آپ نے اپنی حین حیات جامعہ کے لئے وقف فرمادیا تھا حضرت شیخ الاسلام نے اپنی تنخواہ کا ایک خاص حصہ کتب کی خریدی کے لئے  مختص کردیا تھا جس سے آپ مطبوعات کے علاوہ نادر مخطوطات بھی خریدا کرتے تھے  اس طرح کتب کے ذخیرہ میں اضافہ ہواکرتا ۔ جب آپ زیارت حرمین شریفین کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں حدیث شریف کی ایک جامع کتاب’’کنزالعمال‘‘ جو آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ہزاروں روپے خرچ کرکے مخطوطے کی نقل کرواکر اپنے ساتھ لائے۔ ایڈٹ ہونے کے بعد یہ مخطوطہ بائیس جلدوںمیں مشہور عالمی تحقیقی ادارہ دائرۃالمعارف العثمانیہ سے شائع ہوا ۔ جامعہ کی قدیم تاریخ کے مطالعہ سے اس بات کا علم ہوتاہے کہ آصف جاہ سابع اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خاں کی جانب سے جب جامعہ کی جدید عمارت کی تعمیر کا فرمان جاری ہوا تواس کے ساتھ کتب خانہ کیلئے علحدہ گوشہ بنانے کا حکم دیاگیا اور نذری باغ کی بعض کتابیں یہاں منتقل کی گئیں ۔
کتب خانہ میں مطبوعات اور مخطوطات کے دو شعبے ہیں ۔ مطبوعات کے شعبہ میں درسیات اور غیر درسیات کے الگ الگ حصے ہیں درسیات کا حصہ جامعہ کی نصابی کتاب پر مشتمل ہے ، جملہ کتب کی فہرست و کارڈ موجود ہیں۔ اردو ، فارسی ، انگریزی ،ہندی ، تلگو میں تفسیر ، حدیث شریف ، فقہ اسلامی، مصاحف شریفہ ، تجوید ، اسماء الرجال ، سیرت النبیؐ ، تاریخ اسلام ، تاریخ عالم ، فرائض ومیراث ، عقائد وکلام ، سوانح وحالات ، تصوف ، اخلاق، سائنس وٹکنالوجی ، کمپیوٹر سائنس، جمالیات، لسانیات، ادبیات ،سماجیات، معاشیات ، نجوم وفلکیات ، کے علاوہ تقابلی مطالعہ کے لئے مختلف مذاہب کے کتب مشتمل یہ خزانہ شاندار اور بھاری الماریوں میں محفوظ ہے جسے بطور خاص کتب خانہ کے لئے بنایاگیاہے ۔ مختلف زبانوں میں روزنامے ، ہفت روزہ ، ماہنامہ مجلات ورسائل اخبارات مطالعہ کیلئے دستیاب رہتے ہیں جس سے طلباء وعوام کی کثیر تعدادکے علاوہ دنیا بھر کے ریسرچ اسکالر س استفادہ کرتے ہیں ۔ ’’گوشہ نظامیہ‘‘ کے نام سے ایک خصوصی زاویہ بھی 1996ء سے قائم ہے راقم کی تحریک پر قائم شدہ اس گوشہ نظامیہ میں فرزندان جامعہ نظامیہ کی علمی ادبی وتحقیقی تصنیفات وتالیفات رکھی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ تین ہزار مخطوطات ہیں جن میں بعض اپنی قدامت کے باعث تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان  انمول نگینوں کو اکھٹا کرنیوالی شخصیت وہ ہے جن کی آنکھیں کتابوں کے قرب سے منور اور جن کا دل کتابوں کے در دسے معمور تھا۔ علامہ انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ نے ایسے مخطوطات کا بیش قیمت ذخیرہ جمع کیا ہے جن کی بنیاد پر قوموں ملکوں اور معاشروں کی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ علم و حکمت کے ان خزانوں اور تاریخ کے اس ورثہ کو حالات کی گرد قدامت کے کیڑوں سے بچانے کیلئے فیمی گیشن کا کیمیاوی عمل جاری رہتا ہے۔
کتب خانہ میںایسے کئی نسخے جن پر سونے کے پانی سے منقش حاشیے اور بیل بوٹے بنائے گئے ہیں عمدہ حالت میں موجود ہیں۔ انہیں بڑی احتیاط اور اہتمام سے محفوظ کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مطبوعات (چھپی ہوئی کتابیں)ہوں یا مخطوطات (ہاتھ سے لکھی ہوئی) ہر دو کے ساتھ عشق چاہیے۔ ساتھ ہی علم کا بھی شوق چاہئیے۔ عصر حاضر نے ہمارے گھروں میں سب کچھ دیا لیکن کتابوں سے ہمارے گھر خالی ہوگئے الا ماشاء اللہ۔ ہندوستان میں بہت سے کتب خانے ہیں جن میں جامعہ نظامیہ کے کتب خانہ پر ملک وقوم جتنا فخر کرے کم ہے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبالؔ کے بقول آباء واجداد کی ان کتابوں میں علم وحکمت کے خزانے بھرے پڑے ہیں۔ یہاں قدر شناس اور تشنگان علم وتحقیق آتے ہیں اور علمی جواہرات سے اپنے دامن کو بھرلے جاتے ہیں۔ اس کتب خانہ کی مطبوعات ہوں یا مخطوطات دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت فضیلت جنگ نے اپنے دونوں ہاتھوںسے جہاں علم کے موتی لٹائے ہیں وہیں کتابوں کے اس بڑے ذخیرہ کو بھی جمع کیا یہاں قدیم کتابوں کی از سر نو جلد بندی بھی ہورہی ہے جس کے لئے ماہر جلد ساز جناب عبدالشکور کا تقرر کیا گیا ہے جو قدیم کتب و مخطوطات کی جلد سازی میں فنی مہارت رکھتے ہیں  ۔
اور اب ملاحظہ کیجئے مخطوطات کی طویل فہرست سے چند نام جو قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لئے یہاں پیش کئے جارہے ہیں: 
(1کتاب التبصرۃ فی القراات العشرہ، مصنف ، ابی محمد المکی طالب سنہ کتابت 753ھ دنیا بھر میں اس کے صرف دو نسخے ہیں ایک جامعہ نظامیہ میں اور دوسرا نسخہ ترکی کے ’’کتب خانہ نور عثمانیہ‘‘ میں موجود ہے۔ جامعہ کے ایک قدیم طالب علم مولانا ڈاکٹر قاری محمد غوث (امریکہ)  نے اس مخطوطہ پر تحقیق کر کے عثمانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
(2نفحات الانس: مصنف علامہ عبدالرحمن جامیؒسنہ 
کتابت 874ھ 
(3جواھر التفسیر: مصنف ملاحسین کاشفی، 897ھ
(4فتوح الحرمین: (نستعلیق، فارسی) مصنف علی بن 
موفق، سنہ کتابت 973ھ۔
(5اثبات الواجب: مصنف محمد ابن اسعد الدوانی، سنہ 
کتابت 952ھ
(6شرح الوقایہ (فقہ عربی) مصنف برہان الدین 
محمود،سنہ کتابت  994ھ۔ 
(7وقائع ایام محاصرہ حیدرآباد: مصنف نعمت 
خان عالیؔ، سنہ کتابت 1058ھ۔
(8پدماوت:(اردو نظم)سنہ کتابت 1107ھ جلوس 
میمنت مانوس۔
(9من لگن:مصنف، محمود بحری۔
مجلس اشاعت العلوم
  (عربی، فارسی، اردو، تلگو، انگریزی کی تقریبا (150)سے زائد کتب شائع کرنے کا اعزاز) 
بر صغیر ہند و پاک کے دینی و علمی ادارے علمی تحقیقی ادبی میدان میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں اور قلمی و تحریری میدان میں پیش قدمیاں جاری ہیں ان اشاعتی اداروں  میں جامعہ نظامیہ کیمپس میں قائم ’’مجلس اشاعت العلوم‘‘  بھی شامل ہے جس نے دین حق کی تعلیمات وپیام امن و اخوت کو فروغ دینے اپنی تاریخ ساز خدمات کے ذریعہ نمایاں رول ادا کیا ہے اور آج بھی ملت اسلامیہ نے اس سے جو نیک توقعات وابستہ کررکھی ہیں ان کی تکمیل میں شب و روز مصروف ہے سچ تو یہ ہے کہ اشاعت العلوم نے خود غرضی اور خود فراموشی کے ماحول میں اخلاص و اایثار کا فانوس روشن کر رکھا ہے جس نے ہزاروں ذہنوں کو جلا بخشی ہے اور خفتہ جذبات کو بیدار کرکے کردار عمل کی راہ پر لگایا۔
1330 ھ میں مجلس اشاعۃ العلوم کا قیام درصل مصلح قوم و ملت شیخ الاسلام علامہ محمد انوار اللہ فاروقی کی علمی بیداری کا ایک اہم اور واضح ثبوت ہے۔ کتب کی اشاعت سے آپ کا مقصد ملت میں اخلاق و کردار کا عملی نفاذ، مطالعہ اور علم کا ذوق عام کرنا تھا۔ اس بات کو شاہ وقت آصف سابع میر عثمان علی خان نے بھی بہت شدت سے نہ صرف محسوس کیا بلکہ پانچ سو روپئے ماہانہ امداد جاری کی۔ حضرت شیخ الاسلام (جو اس کے میر مجلس بھی رہے) کے عہد میں مختلف موضوعات پر کئی کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پرآئیں۔ 
اشاعت العلوم کا جملہ نظم و نسق مجلس انتظامی کے ذمہ رہتا ہے جو صدر، معتمد، شریک معتمد اور گیارہ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ مولانا محمد ولی الدین فاروقی  ؒرحمۃ اللہ علیہ، مولانا غلام مرتضی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا محمد ندیم اللہ حسینی بختیاری، محترم مجید عارف، نواب صدر یارجنگ بہادر، مولانا حبیب الرحمٰن خان شروانی، حضرت علامہ رشید پاشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، پروفیسر محمد سلطان محی الدین صاحب جیسے سرکردہ اصحاب اس مجلس کے ذمہ دار عہدہوں پر فائز رہے اور اسکو فروغ دیا۔ مولانا مفتی خلیل احمد صاحب نے عصری خطوط پر اس مجلس کی صورت گری کی اور طباعت، اشاعت، فروخت و انتظامی مسائل پر ایک نئی روشنی دکھائی جس نے مجلس کے وقار اور افادیت کو دوبالا کردیا۔ اس وقت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب صدر نشین اور مولانا محمد خواجہ شریف صاحب معتمد ہیں۔ مولانامحترم مجلس کو پروان چڑھانے میں شبانہ روز مصروف ہیں، مولانا عبیداللہ فہیم اور مولانا قاضی سید لطیف علی شریک معتمدین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اس وقت مجلس کئی قدیم اور اہم کتب کی اشاعت کے لئے کوشاں ہے۔ اس کے لئے ملت کے اہل ثروت اصحاب کا تعاون ضروری ہے۔ مجلس کی رکنیت صرف 1000/- روپئے ہے۔ جامعہ کی جانب سے بھی مجلس کو سالانہ امداددیجاتی ہے۔ اب تک تفسیر، حدیث ، فقہ، اسلامی تاریخ، سیرت النبی[ا]اخلاق ، تہذیب اسلامی، عقائد و کلام، فتاوی جیسے اہم موضوعات پر0 15 سے زائد اردو، عربی، انگریزی کتب شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ 
کلیۃ البنات جامعہ نظامیہ 
انصارکی خواتین کے حصول علم کے جذبہ و تڑپ کو آنحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان الفاظ میںسراہا کہ انصار کی عورتیں بہترین عورتیں تھیں کہ ’’حیا ان کے فہم دین حاصل کرنے میںحائل نہ ہوئی‘‘ اور صحیح بخاری سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور پاکﷺ نے ایک دن خواتین کی تعلیم کے لئے مخصوص فرمایا۔ ہندوستان میں سلطان رضیہ بیگم نے دو مدرسے قائم کئے۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے ایسے تین مدرسوں کا تذکرہ کیا ہے جو لڑکیوں کیلئے خاص تھے۔ تاریخ فرشتہ میں ابو القاسم نے تحریر کیا ہے کہ غیاث الدین خلجی کے محل میں دس ہزار کنیزوں میں ایک ہزار حافظات قرآن، قاریات، عالمات دین اور معلمات شریعت تھیں، مغل حکمرانو ںکے دور میں بھی عالمہ ، ادیبہ، شاعرہ ، صوفیہ، علم نجوم کی ماہر اور تصنیف وتالیف سے شغف رکھنے والی خواتین پائی جاتی تھیں، سرزمین دکن پر بھی مختلف انداز سے خواتین کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ کلیۃ البنات جامعہ نظامیہ اسی تاریخی تسلسل کی ایک سنہری کڑی ہے۔ 125سالہ جشن تاسیس جامعہ نظامیہ کے موقع پر ارباب جامعہ نے ایک سالہ طویل تقاریب تعلیمی کو بیداری سے موسوم کیا اور کلیۃ البنات کے قیام کو ترجیح دی۔ کلیۃ البنات کا قیام دراصل بانی جامعہ حضرت فضیلت جنگ کی علمی تحریک کی عملی صورت ہے کہ اغیار کے تسلط سے امت مسلمہ کی 1400سالہ علمی روایات کا تحفظ کیا جائے اور مغربی تہذیب و تمدن، افکار و نظریات سے نونہالانِ اسلام و دخترانِ ملت کو محفوظ رکھا جائے۔ چنانچہ کلیۃ البنات کے قیام کو ملت کے ہر طبقہ نے پسند کیا  اور تحسین و آفرین کی صداؤں سے دکن تا حجاز کی فضائیں گونج اٹھیں۔ 1997ء میں سر سید دکن تقدس مآب حضرت سید شاہ محمد محمد الحسینی صاحبؒ سجادہ نشین روضہ بزرگ گلبرگہ شریف نے اللہ تعالیٰ کے نام سے کلیۃ البنات کاافتتاح فرمایا۔ کلیۃ البنات کا آغاز موتی گلی، (خلوت مبارک) ایک کرایہ کی عمارت میں کیا گیا تھا۔ آج الحمد للہ اپنی عصری سہولتوں سے لیس جدید وسیع عمارت (قاضی پورہ )میں فروغ علم و فن میں شب وروز مصروف ہے۔ کلیۃ البنات صرف ایک خوبصورت عمارت کا نام نہیں بلکہ علم وفضل ، اخلاق، آداب، تہذیب وشائستگی، تمدن وثقافت اسلامی کی صدا بہار خوشبو کا تسلسل ہے۔ جس سے علم و فن کے ایوان مہک اٹھتے ہیں۔ کلیۃ البنات دختران اسلام کی دینی، علمی، ادبی، اصلاحی، فکری کاوشوں کا مرکز ہے جو ملک وقوم کی خواتین سے تعلیمی پسماندگی کے خلاف جد وجہد میں زبردست کردار ادا کررہا ہے۔ جہاں ماضی کے ورثہ کے تحفظ کے ساتھ مستقبل کی صورت گری کا خاص عنصر پایا جاتاہے۔ کلیۃ البنات کے نصاب تعلیم میں عصری تقاضوں کی تکمیل کا سامان موجود ہے۔ یہاں کا نصاب تعلیم چار مرحلوں (۱)اعدادیہ (۲)کلیہ (۳)علیاء (۴)دکتورہ (P.H.D.)پر مشتمل ہے۔ آٹھ سالہ مقصدی مراحل تعلیم میں تفسیر ، حدیث، فقہ ، عقائد وکلام ، سیرت النبیؐ ، عربی ادب، تاریخ اسلام، تجوید و قرات فکری ذہنی تربیت سے آراستہ کیا جاتا ہے ۔ یہاں کے اسناد ملک و بیرون ملک مسلمہ ہیں ۔ کلیۃ البنات کے قیام کو یقینی بنانے میں ارباب جامعہ ابناء مادر علمی کے علاوہ ملت کے باشعور اصحاب بالخصوص این آر آئیز نے تاریخ ساز عملی تعاون و اشتراک کا مثالی مظاہرہ کیا۔ رب کائنات ان سب کے خلوص کو شرف قبول سے نواز ے۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان کے علمی افق پر کلیۃ البنات اپنی تابانیاں بکھیرے گا اور ملت کی نیک توقعات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ دختران اسلام کی تعلیم وتربیت کا عظیم مرکز ثابت ہوگا۔
125سالہ جشن تاسیس
 1996ء میں مجلس انتظامی نے ایک اہم فیصلہ کے تحت 125 سالہ جشن تاسیس کی ایک سالہ تقاریب 1996تا 1997ء منعقد کیں۔ مولانا پروفیسر محمد سلطان محی الدین ڈائرکٹر جشن کے زیر نگرانی ایک دس نکاتی پروگرام ’’زندہ ہوجائے وہ آتش جوتیری خاک میںہے‘‘ کے بمصداق قوم کی تعلیمی بیداری کے لئے پیش کیاگیا۔ کرئہ ارض کے مختلف حصوں کے ماہرین تعلیم، اسکالرس، پروفیسرس، ڈاکٹرس، اداروں کے سربراہ، مصلحین، قائدین، مشائخین، علماء ، ادباء، شعراء کی کہکشاں سے افق حیدرآباد چمک اٹھا۔ امریکہ ، سعودی عرب، قطر، کویت، پاکستان، متحدہ عرب امارات، یمن، جرمنی، افغانستان، مصر سے شرکت کرنے والے بیرونی وفود کو حکومت اندھرا پردیش نے سرکاری مہمان قرار دیا۔اس وقت کے وزیر اعظم شری دیوے گوڑا، وزیر ریلوے سی ۔ کے۔ جعفر شریف ناظم درگاہ اجمیر شریف، انجمن طلباء قدیم جدہ نے پیامات تہنیت روانہ کئے۔
عالمی مشاہیر کا خراج فکر و نظر
 جامعہ نظامیہ کی علمی وادبی خدمات کو جن عالمی ماہرین تعلیم پروفیسرس، اسکالرس، سیاسی قائدین نے اپنا خراج و نظر پیش کیا، ان میں مولانا ابوالکلام آزاد،حضرت عبدالحلیم محمود(جامع ازہر مصر)، شیخ عبدالفتاح ابوغدہ (شام)، ڈاکٹر عمر بن فلاتہ(مدینہ منورہ)، الشیخ عبدالمعز عبدالستار احمد (قطر)،فضیلۃ الشیخ حسن ھیتو الجیلانی (جرمنی)، عثمان علی الند (سوڈان)،  سعد محمد عثمان، الشیخ محمد سعید دار الکتاب (لبنان)، الشیخ عکرمہ صبری امام و خطیب مسجد اقصیٰ، (فلسطین) پروفیسر انامیری شمل(ہارورڈ یونیورسٹی)، حضرت بیکلؔ اتساہی (ممتاز شاعر ورکن پالیمنٹ)، حضرت سید محمد مختار اشرف ؒ(کچھوچھہ)، مولانا ابوالحسن زید فاروقیؒ(دلی)، ڈاکٹررضوان اللہ (علیگڑھ مسلم یونیورسٹی)، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب(لندن)، ڈاکٹر محمد طنطاوی(جامعہ ازہر مصر)، ڈاکٹر محمد فواد البرازی (ڈنمارک)، ڈاکٹر عنایت اللہ ابلاغ افغانی(افغانستان)، الشیخ یوسف قرضاوی (قطر)، پرو فیسر طاہر القادری (منھاج القرآن) ڈاکٹر ضیاء الدین اے دیسائی(ناگپور)، ڈاکٹر سید محی الدین قادر زورؔ،محمد مختار الفحل، ایڈیٹر اردو نیوز جدہ، مولانا ابوالحسن علی میاں(لکھنو)، مولاناارشدالقادری(سکریٹری ورلڈ اسلامک مشن)، مسٹر میتھیو، مسٹر گلانسی اسکوائر ودیگر مشاہر شامل ہیں۔٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Recent In Internet

Popular Posts