شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
معمارِ اردو زبان وادب
بقلم : شاہ محمد فصیح الدین نظامی اشرفی رضوی،
مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ‘ حیدرآباد دکن
بر صغیر ہندوپاک میں اسلامی تہذیب وتمدن کا سب سے بڑا مظہر اردو زبان ہے اسی لئے کہ اس زبان کے تشکیلی عہد پر مذہبی طرزاحساس کا غلبہ دکھائی دیتا ہے یہ غلبہ اس کے اسماء وصفات کے نظام سے اسکے رسم الخط تک پھیلا ہوا ہے اور تشکیلی دور کے بعض اہم ابواب کا مطالعہ بڑے تاریخی اورعمرانی پس منظر کی طرف ہماری رہنمائی کرتاہے۔
اردو زبان اور خصوصاً اس کے نثری اسلوب کی تشکیل میں علوم دینیہ کے حلقے سرگرم عمل رہے ہیں۔ ترویج اردو ادب میں تشکیل اسالیب کا یہ عہد غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اردو نثرونظم کے ارتقاء میں علماء وصوفیا نے جو کارنامے انجام دئے ہیں اس کے تذکرہ کے بغیر تاریخ اردو ادھوری ہوگی ۔ کیوں کہ اردو کی نشوونما میں صوفیا ء وعلماء کی کوششوں کا بڑا دخل رہاہے اور جب کہ عربی وفارسی علمی وسرکا ری ودرباری زبانیں تھیں اسوقت صوفیاء نے بر صغیر کی عام فہم زبان ہندی کو اپنا یا اس کے ذریعہ عوام سے رابطہ رکھا میٹھے بولوںسے ان کے دلوں کولبھایا روح کوتڑپایا اور یہی زبان بعد کو اردو کہلائی۔ عہد سلاطین دہلی میں اردو کی نشونمامیں امیر خسروؔ کا خاصا ہاتھ رہا پھر اسی دور میں علاؤالدین خلجی اور محمد تغلق کے توسط سے مسلمانوں کے قدم سرزمین دکن میں پہنچے محمد تغلق نے انتظامی ضرروت کے تحت دولت آباد کو دوسرا دارالحکومت بنایا اور اسی طرح دکن میں ایک نئی دلی آباد ہوگئی ۔ اس کا اثریہ ہو اکہ دکنی اردوکی داغ بیل پڑ ی جب دکن میں بہمنی اور قطب شاہی وغیرہ خاندانوںکی خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں تودکنی اردو کو باشاہوں کی سرپر ستی حاصل ہوگئی اور یہ بڑی حد تک درباری زبان بن گئی صوفیا وعلماء نے تصنیف وتالیف کے ذریعہ اس زبان کو مالامال کیا۔
جناب محمداسحاق بھٹی تحریر کرتے ہیںکہ
’’علماء کا یہ کمال ہے کہ انہوںنے اس وقت اس زبان میں تصنیف وتالیف کی طرح ڈالی جب کہ نہ اس کے قواعد وضوابط مرتب ہوئے تھے اور نہ اس کی گرائمر عالم وجود میں آئی تھی اس زمانہ میں اس میں کتابیں لکھنا ، اس کو مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ بنانا اور عربی وفارسی کی ترقی یافتہ زبانوں میں مرقوم مسائل کو اس نوزائیدہ زبان میں منتقل کرنا انتہائی مشکل تھا لیکن علماء دین کی ہمت اور فکری استعداد ملاحظہ ہو کہ وہ اردو کی ترویج واشاعت کے لئے اس طرح کو شاں ہوئے کہ تھوڑے ہی عرصے میں اسے کئی محاورات نئے اسالیب اور الفاظ کے نئے ذخیرے سے مالامال کردیا‘‘( ۱)۔
حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ کا عہد وعصر ۱۸۵۷ء کے بعد کا ہے ۔ جبکہ مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہو چکا تھا اور مسلم تہذیب میں پہلی سی آن بان باقی نہیں تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے دور استبدادکے ذریعہ تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیا تھا۔ یہ تمام اسباب وعلل اردو زبان وادب کی ترقی وترویج میںحائل ہوگئے تھے۔ ان ناگفتہ حالات کے باوجود محمد حسین آزاد، سر سید ، شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالیؔ جیسے معماران ادب اپنی تصنیفات ورشحات علمی سے اردو زبان وادب کے ناتواں سفینہ کو آگے بڑھا رہے تھے۱؎۔ظاہرہے اس دور میں مسلم معاشرت تہذیب وثقافت اور اردوزبان وادب برطانوی حکومت کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے محروم تھی مگر دکن میں جہاں مملکت آصفیہ کا پرچم لہرارہاتھا ۔نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ ششم کی حیثیت سے زمام اقتدار سنبھالے ہوئے تھے۔ اردو کو سرکاری زبان قرار دیکر اردو کی محفل کو بزم چراغاں بنادیا اس کے بعد آصف سابع کی مسیحانفسی نے اردو ذریعہ تعلیم کی اولین درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے ذریعہ اس میں برقی لہر دوڑادی ، ہندوستان میں کہیں اور کسی وقت بھی اردو زبان کی سرپر ستی اور ایسی مستحکم بنیادوںپر تعمیر اس اعلی پیمانہ پر نہیں کی گئی(۲) ۔
’’اس کا اہم سبب حضرت سلطان العلوم کا ذاتی علمی وادبی ذوق تھا۔ تخت نشینی سے پہلے ہی آپ کی تعلیم تکمیل کوپہنچ چکی تھی، اور علم وادب کا صحیح مذاق پیدا ہو چکاتھا۔ آپ کے استاذ مولوی انواراللہ خاںنواب فضیلت جنگ مرحوم نہ صرف ایک زبردست عالم تھے بلکہ اعلی درجہ کے انشاء پرداز بھی انہو ںے متعدد موضوعوں پراردو کتابیں لکھی ہیں جن میں اکثر نہایت اہم ہیں اور اردو زبان میں اپنی قسم کی پہلی کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ غرض ایک ایسے سرچشمہ فضل وکمال کا اثر تھا کہ حضرت سلطان العلوم ابتداء ہی سے سنجیدہ علمی مذاق سے بہرہ ور ہوگے‘‘(۳)۔
ہندوستانی ادب کے معمار ممتازمورخ ومحقق نقادوادیب اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سیدمحی الدین قادری زورؔ (جن کی والدہ بشیر النساء بیگم ،حضرت شیخ الاسلام کی رشتہ دار تھیں)حضرت شیخ الاسلامؒ کی شخصیت علمیت وادبیت کے متعلق اپنی کتاب ’’داستان ادب حیدرآباد‘‘ میں رقمطرازہیں:
’’یہ قندہار کے قاضی تھے اور علوم اسلام کے ماہر……… پچاس سے زیادہ کتابیں مختلف موضوعوں پر لکھیں اورچھپائیں، اردو اورفارسی کے شاعر بھی تھے انوارؔ تخلص کرتے تھے………ان کے کلام کا ایک مجموعہ ’’شمیم الانوار ‘‘چھپ چکاہے اور دوسرے مجموعہ کا قلمی نسخہ ادارہ ادبیات اردو میں محفوظ ہے۔ ان کی تصنیفات میں انواراحمدی ، مقاصد الاسلام (کئی جلدیں) مفاتیح الاعلام وغیرہ بہت مشہور ہیں‘‘(۴)۔
آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں کے عہد (۱۲۸۵ھ تا۱۳۲۹ھ)میں حضرت داغؔ دہلوی ، فصاحت جنگ جلیلؔ مانک پوری، حضرت امیرؔمینائی ،مہاراجہ کشن پرشادشادؔ،نواب خانخاناں آصفیؔ، نواب آصف یاورالملک اور شمال ہند کے شعراء میں حبیبؔ کنتوری، حیدر طباطبائی نظمؔ، کاظم حسین شیفتہؔ، ظہیرالدین ظہیرؔ دہلوی مشہور شعراء گزرے ہیں۔ نظم کے ساتھ ساتھ نثری ترقی میں جن انشاء پردازوں نے نمایاں خدمات انجام دیں ان میں عبدالحلیم شررؔ، پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ،نواب محسن الملک، مولویؔ چراغ علی ، مولانانذیرؔ احمد کے علاوہ حیدرآباد کے چند بلندپایہ انشاء پرداز جنہوںنے ہر موضوع پر قلم اٹھایاہے ان میں نواب عزیز جنگ ولاؔ، انوار اللہ خاں انورؔ (حضرت شیخ الاسلام ) عبدالجبارخاںآصفیؔ اورمانک راؤ وٹھل راؤ وغیرہ خاص طورپر مشہور ہوئے (۵)۔
مرزااحمدعلی بیگ چغتائی تحریرکرتے ہیںکہ ’’مولانا محمد انواراللہ خان بہادر صاحب المخاطب بہ فضیلت جنگ بہادر کی تمام زندگی علم و ادب اور مذہب کی خدمت وتبلیغ میںگزری چونکہ مولانا کا خاندانی تعلق ناندیڑسے ہے اس لئے آپ کی ذات پر اہلیان ناندیڑ جس قدر فخر کریں کم ہے۔
مولانا کی زندگی اور خدمات ومعلومات مذہبی وغیرہ ان معترضین کے لئے دندان شکن جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ناندیڑ بنجر وسنگلاخ زمین ہے اور اس سرزمین میںعلم وادب کا کوئی پودا پروان نہیں چڑھ سکتا(۶)۔
اردو ذریعہ تعلیم کی اولین درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے نامور ادیب وشاعر واستاذ ڈاکٹر سید عقیل ہاشمی ، (سابق صدر شعبہ اردوجامعہ عثمانیہ) حضرت شیخ الاسلام کو اپنا خراج فکرونظر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’حضرت شیخ الاسلام نواب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کے دینی وملی خدمات بے مثال اور قابل تقلید ہیںآپ کی شخصیت کا وہ شاندار پہلو جس میں آپ میدان تصنیف وتالیف کے شہسوار دکھائی دیتے ہیں اس کی تفصیل وتشریح کے لئے یقینا اہل دل اور اہل نظر ہو نا ضروری ہے‘‘(۷)۔
حضرت پروفیسر محمد الیاس برنی ایم اے ایل ایل بی (علیگ) جنہوںنے تصوف تاریخ ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ اور بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کی فرمائش پر’’ علم المعیشت‘‘ تصنیف فرمائی جس کے متعلق ڈاکٹر اقبالؔ جو خود بھی عالم معاشیات تھے فرماتے ہیں ’’آپ کی علم المعیشت اردو زبانی پر ایک احسان عظیم ہے‘‘۔
حضرت شیخ الاسلام سے نہایت قریبی راہ ورسم رکھتے تھے آپ کی ادبی خدمات کا برملا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ تبحرعلمی کایہ عالم کہ تقریباً سوتصانیف چھوڑیں ،میں نے ایک جرمن عالم کو ان کی چند کتابیں بھیجیں تو اس نے تین یونیورسیٹیوں کو دیں اور مجھے لکھا کہ ہندوستان میں صحیح معنی میں مجھے یہی عالم معلوم ہوتے ہیں۔ میںان سے ملنے حیدرآباد آنا چاہتاہوں لیکن وہ جنگ عظیم میں گرفتار ہوگیا(۸)۔
اردو زبان وادب کے عظیم مجاہد، مورخ ونقاد نصیرالدین ہاشمی حضرت شیخ الاسلام کی ادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مدرسہ نظامیہ آپ کی زندہ یادگارہے، علوم اسلامیہ میں آپ سندتھے، سیرکلام ، فلسفہ اور مناظرہ وغیرہ میں آپ نے معر کتہ الاراء کتابیں لکھی ہیں(۹)۔
حضرت مولانا قاضی سیدشاہ اعظم علی صوفی قادری ابن سیدالصوفیہ حضرت مفتی سیدشاہ احمدعلی صوفی قادری علیہ الرحمہ (تلمیذخاص حضرت شیخ الاسلامؒ ) حضرت شیخ الاسلام کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’شیخ الاسلام کی گراں بہا تصنیفات نے بھی تجدیدواحیائے دین کے مقصد میں بڑا اہم کردار اداکیا ہے ۔ آپ نے کئی علوم وفنون پر اپنے قلمی شاہکار چھوڑے ہیں، آپ نے جس کسی علمی وفنی عنوان پر قلم اٹھایا تو ایسے گوہر آبدار بکھیردئے کہ صاحبان ذوق اور ماہرین فن کی آنکھیں خیر ہ ہو کر رہ گئیں ۔ تفسیروحدیث یا فقہ ہو کہ ان کے اصول ، عقائد ہو کہ کلام ادب ہو کہ تاریخ ، منطق ہو کہ فلسفہ غرض معقول ہوکہ منقول ہر علم فن پر آپ کی کتب اور حواشی ایسے درشہوار بن کر آج بھی جگمگارہے ہیں کہ جن کو اہل علم ودانش اپنی آنکھوںاور کلیجے سے لگاتے ہیں(۱۰)۔
صدر جمہوریہ ہند ایوارڈ یافتہ ممتاز مفکر واسلامی اسکالر پروفیسر محمدسلطان محی الدین(سابق صدرڈپارٹمنٹ آف عربک عثمانیہ یونیوسٹی) نے حضرت شیخ الاسلام کی ادبی خدمات کو اس طرح سراہاہے ۔
’’ آپ کے اہم کارناموں میں ایک اہم کارنامہ آپ کی تالیفات وتصنیفات ہیں جو علم ومعرفت کا خزانہ ہیں، آپ ایک صاحب طرز انشاء پرداز ہیں، اسلوب تحریر نہایت سلیس وبلیغ اور آسان ہے، اس میں کسی قسم کا اغلاق نہیں ہر تعلیم یافتہ اس کو بآسانی پڑھتا اور سمجھ لیتا ہے ۔ انوار احمدی ، کتاب العقل ، حقیقۃ الفقہ ، مقاصدالاسلام اور افادۃ الافھام آپ کی بڑے معرکہ کی تصانیف ہیں جومطالعہ او رپڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں‘‘ (۱۱)۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) محمداسحاق بھٹی، مقدمہ اردو نثر کے ارتقاء میں علماء کا حصہ، مؤلفہ: ڈاکٹر ایوب قادری
(۲) ڈاکٹر ایم اے حمید اکبر، مولانا محمد انوار اللہ فاروقی شخصیت علمی ادبی خدمات،
(۳) میر احمد الدین علی خاں، عہد عثمانی میں اردو خدمات، ص: ۱۴۰،۱۴۱
(۴) ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ، داستان ادب حیدرآباد ، ص: ۱۷۲۔
(۵) میر احمد الدین علی خان، عہد عثمانی میں اردو خدمات، ص:۱۶
(۶) بحوالہ اکبر الدین صدیقی، تاریخ ناندیڑ دکن،سب رس کتاب گھر، ایوان اردو، مطبوعہ۱۹۶۱ء
(۷) مقالات کل ہند سمینار، شیخ الاسلام، شخصیت، خدمات مآثر علمی، اردو گھر حیدرآباد، نومبر۱۹۹۳ء
(۸) پروفیسرالیاس برنیؒ (علیگ) قول طیب، ص:۴۰۶، مطبوعہ: ۱۹۶۲ء
(۹) نصیر الدین ہاشمی، دکن میں اردو، ص:۶۴۷، ترقی اردو بیورونئی دہلی ۱۹۸۵ء
(۱۰) مقالات کل ہند سمینار، شیخ الاسلام شخصیت، خدمات، مآثر علمی، منعقدہ اردو گھر حیدرآباد، نومبر۱۹۹۳ء
(۱۱)اسلامی افکار مدیر محمد فصیح الدین نظامی ’’شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ نمبر مطبوعہ ۱۹۹۴ء
٭٭٭
اردو زبان اور خصوصاً اس کے نثری اسلوب کی تشکیل میں علوم دینیہ کے حلقے سرگرم عمل رہے ہیں۔ ترویج اردو ادب میں تشکیل اسالیب کا یہ عہد غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اردو نثرونظم کے ارتقاء میں علماء وصوفیا نے جو کارنامے انجام دئے ہیں اس کے تذکرہ کے بغیر تاریخ اردو ادھوری ہوگی ۔ کیوں کہ اردو کی نشوونما میں صوفیا ء وعلماء کی کوششوں کا بڑا دخل رہاہے اور جب کہ عربی وفارسی علمی وسرکا ری ودرباری زبانیں تھیں اسوقت صوفیاء نے بر صغیر کی عام فہم زبان ہندی کو اپنا یا اس کے ذریعہ عوام سے رابطہ رکھا میٹھے بولوںسے ان کے دلوں کولبھایا روح کوتڑپایا اور یہی زبان بعد کو اردو کہلائی۔ عہد سلاطین دہلی میں اردو کی نشونمامیں امیر خسروؔ کا خاصا ہاتھ رہا پھر اسی دور میں علاؤالدین خلجی اور محمد تغلق کے توسط سے مسلمانوں کے قدم سرزمین دکن میں پہنچے محمد تغلق نے انتظامی ضرروت کے تحت دولت آباد کو دوسرا دارالحکومت بنایا اور اسی طرح دکن میں ایک نئی دلی آباد ہوگئی ۔ اس کا اثریہ ہو اکہ دکنی اردوکی داغ بیل پڑ ی جب دکن میں بہمنی اور قطب شاہی وغیرہ خاندانوںکی خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں تودکنی اردو کو باشاہوں کی سرپر ستی حاصل ہوگئی اور یہ بڑی حد تک درباری زبان بن گئی صوفیا وعلماء نے تصنیف وتالیف کے ذریعہ اس زبان کو مالامال کیا۔
جناب محمداسحاق بھٹی تحریر کرتے ہیںکہ
’’علماء کا یہ کمال ہے کہ انہوںنے اس وقت اس زبان میں تصنیف وتالیف کی طرح ڈالی جب کہ نہ اس کے قواعد وضوابط مرتب ہوئے تھے اور نہ اس کی گرائمر عالم وجود میں آئی تھی اس زمانہ میں اس میں کتابیں لکھنا ، اس کو مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ بنانا اور عربی وفارسی کی ترقی یافتہ زبانوں میں مرقوم مسائل کو اس نوزائیدہ زبان میں منتقل کرنا انتہائی مشکل تھا لیکن علماء دین کی ہمت اور فکری استعداد ملاحظہ ہو کہ وہ اردو کی ترویج واشاعت کے لئے اس طرح کو شاں ہوئے کہ تھوڑے ہی عرصے میں اسے کئی محاورات نئے اسالیب اور الفاظ کے نئے ذخیرے سے مالامال کردیا‘‘( ۱)۔
حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ کا عہد وعصر ۱۸۵۷ء کے بعد کا ہے ۔ جبکہ مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہو چکا تھا اور مسلم تہذیب میں پہلی سی آن بان باقی نہیں تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے دور استبدادکے ذریعہ تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیا تھا۔ یہ تمام اسباب وعلل اردو زبان وادب کی ترقی وترویج میںحائل ہوگئے تھے۔ ان ناگفتہ حالات کے باوجود محمد حسین آزاد، سر سید ، شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالیؔ جیسے معماران ادب اپنی تصنیفات ورشحات علمی سے اردو زبان وادب کے ناتواں سفینہ کو آگے بڑھا رہے تھے۱؎۔ظاہرہے اس دور میں مسلم معاشرت تہذیب وثقافت اور اردوزبان وادب برطانوی حکومت کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے محروم تھی مگر دکن میں جہاں مملکت آصفیہ کا پرچم لہرارہاتھا ۔نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ ششم کی حیثیت سے زمام اقتدار سنبھالے ہوئے تھے۔ اردو کو سرکاری زبان قرار دیکر اردو کی محفل کو بزم چراغاں بنادیا اس کے بعد آصف سابع کی مسیحانفسی نے اردو ذریعہ تعلیم کی اولین درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے ذریعہ اس میں برقی لہر دوڑادی ، ہندوستان میں کہیں اور کسی وقت بھی اردو زبان کی سرپر ستی اور ایسی مستحکم بنیادوںپر تعمیر اس اعلی پیمانہ پر نہیں کی گئی(۲) ۔
’’اس کا اہم سبب حضرت سلطان العلوم کا ذاتی علمی وادبی ذوق تھا۔ تخت نشینی سے پہلے ہی آپ کی تعلیم تکمیل کوپہنچ چکی تھی، اور علم وادب کا صحیح مذاق پیدا ہو چکاتھا۔ آپ کے استاذ مولوی انواراللہ خاںنواب فضیلت جنگ مرحوم نہ صرف ایک زبردست عالم تھے بلکہ اعلی درجہ کے انشاء پرداز بھی انہو ںے متعدد موضوعوں پراردو کتابیں لکھی ہیں جن میں اکثر نہایت اہم ہیں اور اردو زبان میں اپنی قسم کی پہلی کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ غرض ایک ایسے سرچشمہ فضل وکمال کا اثر تھا کہ حضرت سلطان العلوم ابتداء ہی سے سنجیدہ علمی مذاق سے بہرہ ور ہوگے‘‘(۳)۔
ہندوستانی ادب کے معمار ممتازمورخ ومحقق نقادوادیب اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سیدمحی الدین قادری زورؔ (جن کی والدہ بشیر النساء بیگم ،حضرت شیخ الاسلام کی رشتہ دار تھیں)حضرت شیخ الاسلامؒ کی شخصیت علمیت وادبیت کے متعلق اپنی کتاب ’’داستان ادب حیدرآباد‘‘ میں رقمطرازہیں:
’’یہ قندہار کے قاضی تھے اور علوم اسلام کے ماہر……… پچاس سے زیادہ کتابیں مختلف موضوعوں پر لکھیں اورچھپائیں، اردو اورفارسی کے شاعر بھی تھے انوارؔ تخلص کرتے تھے………ان کے کلام کا ایک مجموعہ ’’شمیم الانوار ‘‘چھپ چکاہے اور دوسرے مجموعہ کا قلمی نسخہ ادارہ ادبیات اردو میں محفوظ ہے۔ ان کی تصنیفات میں انواراحمدی ، مقاصد الاسلام (کئی جلدیں) مفاتیح الاعلام وغیرہ بہت مشہور ہیں‘‘(۴)۔
آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں کے عہد (۱۲۸۵ھ تا۱۳۲۹ھ)میں حضرت داغؔ دہلوی ، فصاحت جنگ جلیلؔ مانک پوری، حضرت امیرؔمینائی ،مہاراجہ کشن پرشادشادؔ،نواب خانخاناں آصفیؔ، نواب آصف یاورالملک اور شمال ہند کے شعراء میں حبیبؔ کنتوری، حیدر طباطبائی نظمؔ، کاظم حسین شیفتہؔ، ظہیرالدین ظہیرؔ دہلوی مشہور شعراء گزرے ہیں۔ نظم کے ساتھ ساتھ نثری ترقی میں جن انشاء پردازوں نے نمایاں خدمات انجام دیں ان میں عبدالحلیم شررؔ، پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ،نواب محسن الملک، مولویؔ چراغ علی ، مولانانذیرؔ احمد کے علاوہ حیدرآباد کے چند بلندپایہ انشاء پرداز جنہوںنے ہر موضوع پر قلم اٹھایاہے ان میں نواب عزیز جنگ ولاؔ، انوار اللہ خاں انورؔ (حضرت شیخ الاسلام ) عبدالجبارخاںآصفیؔ اورمانک راؤ وٹھل راؤ وغیرہ خاص طورپر مشہور ہوئے (۵)۔
مرزااحمدعلی بیگ چغتائی تحریرکرتے ہیںکہ ’’مولانا محمد انواراللہ خان بہادر صاحب المخاطب بہ فضیلت جنگ بہادر کی تمام زندگی علم و ادب اور مذہب کی خدمت وتبلیغ میںگزری چونکہ مولانا کا خاندانی تعلق ناندیڑسے ہے اس لئے آپ کی ذات پر اہلیان ناندیڑ جس قدر فخر کریں کم ہے۔
مولانا کی زندگی اور خدمات ومعلومات مذہبی وغیرہ ان معترضین کے لئے دندان شکن جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ناندیڑ بنجر وسنگلاخ زمین ہے اور اس سرزمین میںعلم وادب کا کوئی پودا پروان نہیں چڑھ سکتا(۶)۔
اردو ذریعہ تعلیم کی اولین درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے نامور ادیب وشاعر واستاذ ڈاکٹر سید عقیل ہاشمی ، (سابق صدر شعبہ اردوجامعہ عثمانیہ) حضرت شیخ الاسلام کو اپنا خراج فکرونظر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’حضرت شیخ الاسلام نواب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کے دینی وملی خدمات بے مثال اور قابل تقلید ہیںآپ کی شخصیت کا وہ شاندار پہلو جس میں آپ میدان تصنیف وتالیف کے شہسوار دکھائی دیتے ہیں اس کی تفصیل وتشریح کے لئے یقینا اہل دل اور اہل نظر ہو نا ضروری ہے‘‘(۷)۔
حضرت پروفیسر محمد الیاس برنی ایم اے ایل ایل بی (علیگ) جنہوںنے تصوف تاریخ ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ اور بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کی فرمائش پر’’ علم المعیشت‘‘ تصنیف فرمائی جس کے متعلق ڈاکٹر اقبالؔ جو خود بھی عالم معاشیات تھے فرماتے ہیں ’’آپ کی علم المعیشت اردو زبانی پر ایک احسان عظیم ہے‘‘۔
حضرت شیخ الاسلام سے نہایت قریبی راہ ورسم رکھتے تھے آپ کی ادبی خدمات کا برملا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ تبحرعلمی کایہ عالم کہ تقریباً سوتصانیف چھوڑیں ،میں نے ایک جرمن عالم کو ان کی چند کتابیں بھیجیں تو اس نے تین یونیورسیٹیوں کو دیں اور مجھے لکھا کہ ہندوستان میں صحیح معنی میں مجھے یہی عالم معلوم ہوتے ہیں۔ میںان سے ملنے حیدرآباد آنا چاہتاہوں لیکن وہ جنگ عظیم میں گرفتار ہوگیا(۸)۔
اردو زبان وادب کے عظیم مجاہد، مورخ ونقاد نصیرالدین ہاشمی حضرت شیخ الاسلام کی ادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مدرسہ نظامیہ آپ کی زندہ یادگارہے، علوم اسلامیہ میں آپ سندتھے، سیرکلام ، فلسفہ اور مناظرہ وغیرہ میں آپ نے معر کتہ الاراء کتابیں لکھی ہیں(۹)۔
حضرت مولانا قاضی سیدشاہ اعظم علی صوفی قادری ابن سیدالصوفیہ حضرت مفتی سیدشاہ احمدعلی صوفی قادری علیہ الرحمہ (تلمیذخاص حضرت شیخ الاسلامؒ ) حضرت شیخ الاسلام کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’شیخ الاسلام کی گراں بہا تصنیفات نے بھی تجدیدواحیائے دین کے مقصد میں بڑا اہم کردار اداکیا ہے ۔ آپ نے کئی علوم وفنون پر اپنے قلمی شاہکار چھوڑے ہیں، آپ نے جس کسی علمی وفنی عنوان پر قلم اٹھایا تو ایسے گوہر آبدار بکھیردئے کہ صاحبان ذوق اور ماہرین فن کی آنکھیں خیر ہ ہو کر رہ گئیں ۔ تفسیروحدیث یا فقہ ہو کہ ان کے اصول ، عقائد ہو کہ کلام ادب ہو کہ تاریخ ، منطق ہو کہ فلسفہ غرض معقول ہوکہ منقول ہر علم فن پر آپ کی کتب اور حواشی ایسے درشہوار بن کر آج بھی جگمگارہے ہیں کہ جن کو اہل علم ودانش اپنی آنکھوںاور کلیجے سے لگاتے ہیں(۱۰)۔
صدر جمہوریہ ہند ایوارڈ یافتہ ممتاز مفکر واسلامی اسکالر پروفیسر محمدسلطان محی الدین(سابق صدرڈپارٹمنٹ آف عربک عثمانیہ یونیوسٹی) نے حضرت شیخ الاسلام کی ادبی خدمات کو اس طرح سراہاہے ۔
’’ آپ کے اہم کارناموں میں ایک اہم کارنامہ آپ کی تالیفات وتصنیفات ہیں جو علم ومعرفت کا خزانہ ہیں، آپ ایک صاحب طرز انشاء پرداز ہیں، اسلوب تحریر نہایت سلیس وبلیغ اور آسان ہے، اس میں کسی قسم کا اغلاق نہیں ہر تعلیم یافتہ اس کو بآسانی پڑھتا اور سمجھ لیتا ہے ۔ انوار احمدی ، کتاب العقل ، حقیقۃ الفقہ ، مقاصدالاسلام اور افادۃ الافھام آپ کی بڑے معرکہ کی تصانیف ہیں جومطالعہ او رپڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں‘‘ (۱۱)۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) محمداسحاق بھٹی، مقدمہ اردو نثر کے ارتقاء میں علماء کا حصہ، مؤلفہ: ڈاکٹر ایوب قادری
(۲) ڈاکٹر ایم اے حمید اکبر، مولانا محمد انوار اللہ فاروقی شخصیت علمی ادبی خدمات،
(۳) میر احمد الدین علی خاں، عہد عثمانی میں اردو خدمات، ص: ۱۴۰،۱۴۱
(۴) ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ، داستان ادب حیدرآباد ، ص: ۱۷۲۔
(۵) میر احمد الدین علی خان، عہد عثمانی میں اردو خدمات، ص:۱۶
(۶) بحوالہ اکبر الدین صدیقی، تاریخ ناندیڑ دکن،سب رس کتاب گھر، ایوان اردو، مطبوعہ۱۹۶۱ء
(۷) مقالات کل ہند سمینار، شیخ الاسلام، شخصیت، خدمات مآثر علمی، اردو گھر حیدرآباد، نومبر۱۹۹۳ء
(۸) پروفیسرالیاس برنیؒ (علیگ) قول طیب، ص:۴۰۶، مطبوعہ: ۱۹۶۲ء
(۹) نصیر الدین ہاشمی، دکن میں اردو، ص:۶۴۷، ترقی اردو بیورونئی دہلی ۱۹۸۵ء
(۱۰) مقالات کل ہند سمینار، شیخ الاسلام شخصیت، خدمات، مآثر علمی، منعقدہ اردو گھر حیدرآباد، نومبر۱۹۹۳ء
(۱۱)اسلامی افکار مدیر محمد فصیح الدین نظامی ’’شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ نمبر مطبوعہ ۱۹۹۴ء
٭٭٭
No comments:
Post a Comment