شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
اور جامعہ نظامیہ کی مقبولیت بارگاہ نبو ی میں
بقلم : مولانا الحاج محمد حبیب الدین ؒ سابق استاذ جامعہ نظامیہ ‘ حیدرآباد
زیر نظر مضمون کی ابتداء میں یہ واضح کر دینا مناسب وضروری ہے کہ مضمون میں جتنے واقعات اور روایا ت کا ذکرآیا ہے ان تمام کا تعلق عالم رویاء (خواب)سے ہے جوبزرگان جامعہ واسلاف جامعہ سے منقول ہیں لہذا ایسے خواب جس میں حضورپاک ﷺ کی زیارت ہو ئی ہو ان کی شرعی حیثیت متعین کردی جائے تاکہ کو ئی محض خواب سمجھ کر انکارنہ کر بیٹھے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جس نے سرکار ﷺ کو خواب میں دیکھا اس نے سر کار دو عالم علیہ الصلواۃ والسلام ہی کی زیارت کی آپ کی صورت مبارکہ میں شیطان نہیں آسکتا ۔ سرکارمدنیہﷺکا ارشاد گرامی ہے ۔
مَنْ رَأنِیْ فِیْ الْمَنَامِ فَقَدْ رَألْحَقْ۔
یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے حق دیکھا (یعنی مجھ ہی کو دیکھا)ایک دوسرے مقام پر آقا ئے دوجہاں کا ارشاد ہے
مَنْ رَأنِیْ فِیْ الْمَنَامِ فَسَیَرَانِیْ فِیْ یَقْظَتِہِ وَلاَیَتَمَثَّلُ بِیْ الشَّیْطَانْ۔
یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب مجھے بیداری میں دیکھے گا اور شیطان میر اہم شکل نہیں ہو سکتا اس حقیقت کے اظہار کے بعد سب سے پہلاواقعہ پیش ہے جس سے بانی جامعہ شیخ الاسلام مولانا حافظ انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی بار گاہ نبویﷺ میں مقبولیت کا پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے کو عالم ظہور میں لاتا ہے تواس کے ظاہر ہو نے سے پہلے غیبی اشارہ کر دیتا ہے جس کو عرف عام میں بشارت کہتے ہیں چنانچہ بانی جامعہ شیخ الاسلام مولانا حافظ انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی پید ائش سے قبل ان کی والدہ ماجدہ ایک واقعہ بیا ن کر تی ہیں کہ جب شادی کے بعد ایک عر صہ تک مجھے کو ئی اولاد نہیں ہوئی تو میں نے ایک مجذوب خدامست بنام شمس الدین عر ف یتیم شاہ ولی مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کچھ میوہ بھیج کر دریافت کر وایا کہ آیا مجھے اولاد ہو گی یا نہیں ۔شاہ صاحب نے فر مایا کہ لڑکا ہو گا جو عالم و فاضل حافظ قرآن اور محافظ علوم فر قان ہو گا اس کے بعد جب حمل کے آثار دکھا ئی دئے تو خواب میں حضور پر نور سردار دوعالم ﷺکو تلاوت قر آن حکیم فرماتے ہو ئے دیکھا (۱)۔
بانی جامعہ نظامیہ کی بارگاہ نبوی ﷺ کی مقبولیت کے بعد جامعہ او راسناد جامعہ کی مقبولیت ملاحظہ ہو کہ 22ذوالحجہ 1321ھ جامعہ کے جلسہ تقسیم اسناد جس میں مشاہیر علماء ومشائخ اور علم دوست اصحاب شریک تھے ۔ مولانا عبدالصمد قندھاریؒ جو جامعہ کی ستائیس رکنی مجلس شوریٰ کے رکن تھے اپنے دست مبارک سے اسنادتقسیم فرمارہے تھے ۔ جلسہ میں مولانا مفتی رکن الدین علیہ الرحمہ بھی موجودتھے مولانا عبدالحق ؒمصنف تفسیر حقانی نے فضیلت علم او رتعلیم علوم دینیہ کی ضرورت اور اہمیت پر تقریر فرمائی اسی شب حضرت مولانا شر ف الدین رودولویؒ نے خواب میں دیکھا کہ حضوراکرم ﷺ تشریف فرماہیں اور اسناد جامعہ کو اپنی دستخط خاص سے مزین فرمانے کیلئے طلب فر مارہے ہیں ۔ چنانچہ منتظم مدرسہ سند یں لے کر حاضر خدمت ہوئے یہ بشارت تمام نظامیہ کے حقیقی وابستگان کیلئے ہے کہ ان کہ کی سعی بارگاہ رحمۃللعلمین ﷺ میں شرف قبولیت پاگئی اس مبارک خواب کا ذکر خود مولانا انواراللہ فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنے مضمون ’’نصاب تعلیم‘‘میں بھی کیا ہے۔ (۲)
اب تیسرا واقعہ ملاحظ ہو جس سے بانی جامعہ شیخ الاسلام مولانا حافظ انوار اللہ فاروقی ؒفضیلت جنگ علیہ الرحمہ کے روحانی مدارج کا اندازہ اور بر وقت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تو جہ خاص کا پتہ چلتا ہے جس کا ذکر کر تے ہو ئے مفتی مولانا رکن الدین علیہ الرحمہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’نجیبہ بیگم صاحبہ مولانا کی ایک خاص مر یدہ ہیں جو مولانا کی رشتہ دار بھی ہیں ۔ کثرت ذکر اللہ کی وجہ سے موصوفہ کا قلب اس در جہ صاف ہو چکا تھا کہ ان کے اکثر انکشافات بالکل صحیح ہو تے تھے جس کا ذکر خود مولانا انوار اللہؒ نے بھی کیا ہے انہی نجبیہ بیگم صاحبہ کا بیا ن ہے کہ میںجب کبھی مر اقبے میں مولانا انواراللہؒ کا تصور کیا ہے آپ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ حضرت رسول کریم ﷺ کے روضہ پاک میں ہیں اور آپ کے دونوں ابر و سے نور کی شعائیں نکل کر آسمان تک جارہی ہیں اور آپ بے خودہیں‘‘۔ (۳)
اور یہی بی بی صاحبہ ہمیشہ مولاناؒ کے در س فتوحات مکیہ سے استفادہ کے لئے قریب کے ایک حجر ہ میں بیٹھی درس سناکر تی تھیں ، چنانچہ یہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارہا حضورغوث پاک رضی اللہ عنہ کو حلقہء درس میں تشر یف لاتے دیکھا کبھی کھڑے کھڑے ہی سماعت فرماتے اور کبھی بیٹھ جاتے ۔ ایسامعلوم ہوتاتھا کہ مولانا کا طرزتعلیم دیکھنا مقصود ہو۔ (۴)
ایسے ہی ایک مرتبہ درس کے وقت حضور اقدس ﷺ کو انہوں نے دیکھاکہ ایک دوسر ے حجرہ میں تشریف فرماہیںاور مولاناانواراللہ ؒدرس دے رہے ہیں اور آنحضرت ﷺ درس میں مصروف ہیں ۔ایک او ردفعہ مولانا کسی اہم مسئلے کو سلجھاتے وقت باربار رک جاتے تھے تو نجیبہ بیگم صاحبہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ یہا ں سے حرم پاک تک ایک صاف راستہ ہے اور حضور انور ﷺ حطیم کعبہ میں جلوہ فرماہیں اور تعلیم وتدریس میں مصروف ہیں ۔ پھر آپ نے کچھ دیر کیلئے توقف فر مایا او رحاضرین سے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ ٹھیر جا ئیں کہ اس وقت میر ا بچہ (مولاناانواراللہ )حل مضمون سے قاصر ہوگیا ہے پھر مولانا انواراللہ علیہ الرحمہ کی جانب تو جہ فرمائی آپ کی توجہ پاک سے مضمون حل ہوگیا توحضور اکرم ﷺ بھی نہایت مسرور ہو ئے پھر ادھر اپنے حلقہ درس میں مصروف ہوگئے (۵)۔
اب چوتھا واقعہ ملاحظہ ہو ۔ بانی جامعہ شیخ الاسلام مولانا حافظ انوار اللہ فاروقیؒ فضیلت جنگ علیہ الرحمہ نے متعدد حج فرمائے ایک سفر حج کی روداد مطلع انوار میں اس طرح لکھی گئی کہ 1301ھ میں آپ عازم حج وزیارت ہوئے بعد فراغ حج جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو دیا ررسول ﷺ کی محبت نے وطن کی یاد بھلادی اور آپ قافلہ سے جداہو گئے ۔ رفیق سفر مولانا مظفر الدین معلّٰیؒ کا بیا ن ہے کہ جب قافلہ روانہ ہو نے لگا تومیں مولانا کی قیام گاہ پر حاضر ہو ا وہاں نہ پاکر تلاش کر تا ہو ا نکلااور دیکھا کہ آپ قبہ سید نا اسمعیل علیہ السلام میں مر اقب ہیں پاس جاکر عر ض کیا کہ قافلہ جارہا ہے جلد تشریف لے چلئے ۔ جواب میں فرمایا کہ اس وقت مجھے آستانہ رسول ﷺ کی مفارقت گو ارا نہیں آپ جایئے میں نہیں چل سکتا مگر میں نے ساتھ چھوڑنا پسندنہیں کیا ۔ آخر بڑے اصرار پر اٹھے اس عرصہ میں قافلہ نکل چکاتھا قافلہ کو ملانے کے لئے دوسر ی تیز رفتار سواری لے کر روانہ ہوئے اور پانچ کو س کے فاصلہ پر قافلہ سے جاملے (۶)۔
ا س طرح تیسرا سفرحج 1305ھ میں فرمایا اس کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے کہ تین سال تک آپ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں مقیم رہے اور اسی دوران قیام مدینہ منورہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’انواراحمدی ‘‘تصنیف فرمائی جس کا ہر ہر لفظ حب رسول ﷺ کی صدادیتا ہے ۔ سفر حج میں6شوال 1307ھ کو آپ کے (9)سالہ صاحبزادے محمدعبدالقدوس کا انتقال ہو ا جو سفر حج میں آپ کے ساتھ تھے ۔ جب جنازہ تیار کیا گیا تو فرمایاکہ مجھے جنازہ پر لے چلو۔ آپ جنازہ پرتشریف لائے تو آپ نے میت کے کا ن میں فرمایا میرے پیارے بچے حضرت رسول ﷺکی جناب میں ہمارا سلام عر ض کرنا‘‘ پھر واپس آئے او ربیہو ش ہو گئے(۷) ۔
جب ہمر اہیوں نے دیکھا کہ آپ کی حالت دن بدن سقیم ہو رہی ہے تو کو شش کی کہ کسی طرح آپ کو وطن لے چلیں ایسی حالت میں بھی دیارحبیب ﷺ کو چھوڑنا پسند نہیں کیا اور اصرار شدید ہو اتو عذر پیش کیا کہ پہلے استخارہ کرونگا میر اچلنا اجازت پرمنحصرہے چنانچہ استخارہ کیا ۔ اسی رات عالم رویامیں دیکھا کہ ایک لڑکا کتاب کھولے بیٹھا ہے اورآپ کے والد ماجد فر ماتے ہیںکہ اس کو پڑھاؤ اسلاف کر ام اکابر جامعہ سے یہ بھی سنا گیا کہ آقائے دوجہاں حضورپر نور ﷺخواب میں تشریف لائے اور چراغ دکھاتے ہو ئے فرمایا ۔ انواراللہ دکن واپس جا ؤ ہر دو خواب مبارک تھے جس میں درس تدریس اور علم کی اشاعت کی طرف اشارہ ہے چونکہ تعبیر اچھی تھی مجبور اًچلنے پر راضی ہو گئے موسم حج قریب تھا اس لئے کعبۃاللہ پہونچے اور حج سے فارغ ہو کر محرم 1308ھ دکن کی جانب مراجعت فر مائی ۔
جامعہ او ربانی کی مقبولیت بارگاہ نبو ی ﷺ میں واضح کرنے کے ساتھ طلباء جامعہ کی مقبولیت کو بھی اجاگر کردینا نہایت ضروری ہے۔ حلقۂ جامعہ میں یہ واقعہ بڑا مشہورہے او راکابر جامعہ سے بارہاسنا گیا کہ ایک طالب علم کاحصہ مسد ود ہو گیا مخفی مبادکہ دار الاقامہ میں مقیم طلباء کیلئے تین وقت طعام کا انتظام ہے او رتادیبی واصلاحی کا روائی کے تحت ایک وقتہ یا پورا دن یا پھر تاحکم ثانی حصہ مسدود (کھانابند )کیا جاتا ہے جبکہ بانی جامعہ شیخ الاسلام مولانا حافظ انوار اللہ فضیلت جنگ علیہ الرحمہ بقید حیات تھے اسی قاعدہ و قانون کے تحت ایک طالب علم کاحصہ مسدود ہو گیا معززطالب علم بڑے خوددار تھے کھانا نہ کھانے کا کسی سے اظہارنہ کیا او ربھوکے سو گئے لیکن شد ت بھوک سے بے چین کر و ٹیں بدلنے لگے اچانک حضور رحمۃ للعلمین ﷺ بانی جامعہ شیخ الاسلام مولانا حافظ انوار اللہ فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کے خواب میں تشر یف لائے اور کہا کہ ’’انواراللہ ‘‘تمہارے مدرسہ میں ایک بچہ شدت بھو ک سے بے چین ہے فوری جاؤ اور اس کے کھانے کا انتظام کرو ۔اچانک بانی جامعہ شیخ الاسلام مولانا حافظ انوار اللہ فضیلت جنگ علیہ الرحمہ جب کہ رات کا کا فی حصہ گذر چکا ہے مدرسہ تشریف لا ئے نگر ان کار او رمو دب جامعہ اتنی رات کو آتے ہوئے دیکھ کر کچھ پر یشان ہو گئے مولانا نے اس طالب علم کو طلب فرمایا جسکی شکل و شبا ہت حضو ر پاک ﷺ نے خواب میں دکھادی تھی ۔ مودب جامعہ نے فو راً طالب علم کوحاضر کیا اور دریا فت حال فر مایا ۔ بعد ازاں ان کے کھانے کا انتظام فرمایا جب طالب علم کھانے سے فارغ ہو ئے تو مولانا نے دریافت فرمایا کہ باباتم کیا عمل کر تے ہو اورشب ور وزکے معمولات کیا ہے ؟طالب علم نے عر ض کیا کہ کچھ نہیں نمازپابندی سے پڑھتاہوں اور درسی کتابو ں کے پڑھنے اور مطالعے کے بعد جو بھی وقت ملتا ہے سب کا سب آقائے نامدار محمدمصطفی احمدمجتبیٰ ﷺ پر درود شریف پڑھنے میں گذارتا ہو ں مولانا نے کہا کہ یہی درو دوپاک کی بر کت ہے کہ حضورﷺ ابھی خواب میں تشریف لائے تھے اور تمہاری بھوک سے بے چین تھے او رمجھے حکم دیاکہ فوری مدرسہ جاؤاورمیرے بچے کو کھا نا کھلاؤ۔یہ واقعہ یقینا تمام طلبائے جامعہ کیلئے مسر ت وسعادت کا باعث ہے کہ حضورﷺ ان کی ہر ضرورت و تکلیف سے واقف ہیں(۸)۔
طلباء جامعہ کی مقبولیت ملاحظہ فرمانے کے بعد ان حضرات کی مقبولیت کو واضح کر دیا جا ئے جو جامعہ کے معاو نین وعطیہ دہند گان ہیں اور دامے درمے ہر طر ح جامعہ کی مدد و تعاو ن فرماتے ہیں ۔ حضرت مولانا مفتی خلیل احمد صاحب شیخ الجامعہ نے اپنے حج و زیارت سے واپسی کے بعد تاثرات حج بیا ن کر تے ہوئے فرمایا تھا۔ مفتی صاحب قبلہ نے 1410ھ1990ء میں حج کی سعادت حاصل کی آپ کے ساتھ حضرت مولانا خواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث ومولاناحافظ میر وحیدالدین سلیم صاحب استاذجامعہ بھی شریک تھے ان حضرات نے بھی اس واقعہ کی تصدیق فر مائی ہے ۔ واقعہ اس طرح ہے کہ محمدعار ف علی صاحب ایڈوکیٹ مشیرانکم ٹیکس بھی اسی سال حج میں شریک تھے بعد حج مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے سر زمین مدینہ پر اس خیال سے کچھ چلر رقم لیکر نکلے اس سر زمین پا ک میں تقسیم کردوں لیکن اتفاق ایسا ہوتا کہ کو ئی نہ کو ئی رقم کا ضرورت مندان سے چلررقم لے لیتا اور وہ پھرنوٹ میں تبدیل ہوجاتی اور ایسا متعدد بارہو ا۔جسکی وجہ سے وکیل صاحب (جو اس وقت مرحوم ہوچکے ہیں)کے دل میں یہ خیال آیاکہ کیا میں اس خدمت کے لائق نہیں ہو ں یا مجھ سے کو ئی خطا ہو ئی ہے ۔ اس رنج وملال میں رجو ع ہو ئے تو خواب میں اشارہ ہواکہ یہ رقم جامعہ نظامیہ میں دید و ۔ انہوں نے عر ض کی میر ی تمنا یہ ہے کہ اس سرزمین پاک پر یہ نیکی حاصل کرو ں، جامعہ نظامیہ ہند اور شہر دکن میں ہے اور میں مدنیہ میں ہوں جو یہاں سے بہت دور ہے تو حکم ہو ا جامعہ نظامیہ کے مفتی (مفتی مولاناخلیل احمد صاحب )یہا ں آئے ہو ئے ہیں یہ رقم ان کو دید ی جا ئے چنانچہ وکیل صاحب مرحوم نے حرمِ پاک میں اپنا یہ واقعہ اور خواب مولانا مفتی خلیل احمدصاحب سے ذکرکیا اور و ہ رقم ان کے حوالے کردی جس کو مفتی صاحب نے بعد واپسی حج وزیارت جامعہ میں جمع فرمادیا(۹)۔
اس واقعہ سے معاونین جامعہ کی نہ صرف مقبولیت بلکہ حضور ﷺ کی معاونین کو تر غیب اورآپ کی خوشنودی کا پتہ چلتاہے ۔
آخرمیں ایک اور واقعہ جس سے مولانا انوار اللہ فاروقی ؒ کی زبر دست روحانیت اور عاشق رسول ہو نے کا ثبوت ملتاہے جس کو بحر العلوم مولانا رشید پاشا ہ صاحب قبلہؒ سابق امیر جامعہ نے ایک مرتبہ جلسہ تقسیم اسناد میں بیا ن فر مایا تھااو راس کی تصدیق مولا نا سید صد یق حسینی عر ف عارفؔ پا شا ہ (سجادہ نشین قطب دکن حضرت یحییٰ پا شا ہ صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ)نے فرمائی ہے واقعہ اس طرح ہیکہ قطب دکن حضرت یحییٰ پاشاہ قبلہ رحمۃ اللہ علیہ، ایک مرتبہ ذکر واشغال میں مراقب تھے کہ اچانک کھڑ ے ہو گئے او رانکی آنکھو ں میں آنسوتھے اپنے صاحبزادوں کو طلب فرمایا اور کہا کہ فوری معلوم کروکہ مولانا انواراللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کا مزاج کیساہے۔ ان دنوں مولانا کی علالت کا سلسلہ چل رہا تھا۔ صاحبزادوں نے عرض کیا کہ ابھی اطلاع آئی کہ مولانا کا انتقال ہوچکاہے پھر صاحبزادوںنے اس حیرانی میں مزاج دریافت کرنے کی وجہ معلو م کی توفرمایا ابھی میں مر اقب تھا مراقبہ میںکیا دیکھتا ہوںکہ شہر کے سارے راستے اس طرح روک دئے گئے ہیں جس طرح کسی بادشاہ کی آمدپر روک دئے جاتے ہیں اور تمام ہجوم سٹرکو ں کے کنارے اس طرح کھڑا ہے جس طرح کسی اولوالعزم بادشاہ کا انتظار ہے میں ہجوم میں داخل ہو ا او ردریافت کیا کہ تم لوگ کس کے انتظار میں کھڑے ہو تو جواب ملاکہ مولانا انوار اللہ کاانتقال ہو گیا ہے اور جنازہ میں آقائے نامدار محمدمصطفی ﷺ کی تشر یف آوری ہو نے والی ہے اس لئے ہم آقا ﷺکے استقبال کیلئے کھڑے ہیں ا ور شہر کے سارے راستے روک دئے گئے (۱۰)۔
یہ واقعہ یقینا شیخ الاسلام، عاشقِ رسول، عار ف باللہ مولانا حافظ انوار اللہ فاروقیؒ فضیلت جنگ کی زبر دست روحانیت کا ثبوت اور عاشق رسول ہونے کی کھلی دلیل ہے ۔
ذرا دیکھو انورؔ کہ انوارِ غیبی
نہاں کس قدر ہیں عیاں کیسے کیسے
حواشی و حوالہ جات
(۱) مولانا مفتی محمد رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ ؍مطلع الانوار، ص۱۲، مطبوعہ۱۴۰۵ھ۔ زیر اہتمام: جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ، حیدرآباد۔
(۲) حضرت شیخ الاسلام، مقاصد الاسلام،حصہ چہارم، ص۸، مجلس اشاعۃ العلوم، حیدرآباد مطبوعہ۱۳۳۸ھجری)
(۳) مولانا مفتی رکن الدین قادریؒ، مطلع الانوار،ص۸۲، مطبوعہ ۱۴۰۵ھ، زیر اہتمام جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ، حیدرآباد)۔
(۴) مولانا مفتی رکن الدین قادریؒ، مطلع الانوار،ص۸۲، مطبوعہ ۱۴۰۵ھ ، زیر اہتمام جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ، حیدرآباد)۔
(۵) مولانا مفتی رکن الدین قادریؒ، مطلع الانوار،ص۸۲، مطبوعہ ۱۴۰۵ھ ، زیر اہتمام جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ، حیدرآباد)۔
(۶) مولانا مفتی رکن الدین ؒ ، مطلع انوارص۲۰، مطبوعہ ۱۴۰۵ھ، زیر اہتمام جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ، حیدرآباد
(۷) مولانا مفتی رکن الدین ؒ ، مطلع انوارص۲۰، مطبوعہ ۱۴۰۵ھ، زیر اہتمام جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ، حیدرآباد
(۸) جناب مسعود انصاری، روزنامہ منصف (جشن تاسیس جامعہ نظامیہ سپلیمنٹ) ص۳، ۱۱؍اکٹوبر ۱۹۹۶ء حیدرآباد)
(۹) جناب مسعود انصاری، روزنامہ منصف(جشن تاسیس جامعہ نظامیہ سپلیمنٹ) ص۳، ۱۱؍اکٹوبر۱۹۹۶ء حیدرآباد)۔
(۱۰)جناب مسعود انصاری، روزنامہ منصف (جشن تاسیس جامعہ نظامیہ سپلیمنٹ) ص۳، ۱۱؍اکٹوبر۱۹۹۶ء، حیدرآباد)
ژژژ
No comments:
Post a Comment