شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کے خلفاء طریقت
بقلم : مولانا محمد محی الدین قادری محمودی نظامی‘
مولوی کامل جامعہ نظامیہ حیدرآباد
حضرت شیخ الاسلام کو اپنے والد گرامی حضرت مولانا شاہ ابومحمد شجاع الدین فاروقی قادری علیہ الرحمۃ والرضوان (جن کوحضرت علامہ شاہ محمدرفیع الدین قندہاری علیہ الرحمہ سے بیعت وخلافت حاصل تھی اس کے علاوہ حضرت حافظ محمدعلی خیرآبادی رحمۃاللہ علیہ سے طریقہ چشتیہ میں بھی بیعت حاصل تھی)کے علاوہ حضرت ظفر احمد المعروف بہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ العزیز سے تما م سلاسل میں بیعت وخلافت حاصل تھی ،حضرت شیخ الاسلام سے اگر کوئی بیعت میں داخل ہونے کی درخواست کرتا تو فرماتے کہ میں اس قابل نہیں ہوںکسی اور سے بیعت کرلو توبہتر ہوگا اس کے باوجود بھی اصرار ہوتا تو آپ شریک سلسلہ فرمالیتے ،اکثر آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت لیتے اور حسب خواہش دوسرے سلاسل میں شریک فرماتے، ذکر واذکار کی تلقین کے علاوہ حصولِ معارف وعوارف کے لئے فتوحاتِ مکیہ کے درس میں شریک ہونے کی ہدایت فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم آپ کے مرید وخلیفہ ہوئے ۔ تاہم جن اصحاب کو آپ نے بیعت کے ساتھ خلافت سے سرفراز فرمایا وہ یکتائے زمانہ اور علوم وفنون میںیگانہ تھے جن کے اسماء گرامی اس طرح ہیں ۔
(۱) حضرت مولنا مفتی محمد رکن الدین قادری علیہ الرحمۃ، مفتی اول جامعہ نظامیہ (المتوفی 1347ہجری)
(۲) حضرت مولانا مفتی محمدرحیم الدین قادری علیہ الرحمہ،مفتی صدارت العالیۂ وجامعہ نظامیہ (المتوفی 1389ھ م1970ء)
(۳)حضرت مولانا مفتی سید محمود قادری کان اللہ لہ ،خطیب تاریخی مکہ مسجد حیدرآباد(المتوفی1389ھ م1970)
(۴) حضرت سید غلام قادر زعمؔ قادری (والدگرامی ڈاکٹر زورؔ قادری علیہ الرحمہ) (المتوفی1361ھ)
قارئین کے استفادہ کیلئے ہر ایک کے مختصر حالات تحریر کئے جاتے ہیں ۔
حضرت مولنا مفتی محمد رکن الدین قادریؒ
(المتوفی 1347ھ)
حضرت مولنا مفتی محمد رکن الدین قادریؒ کا شمارحضرت شیخ الاسلام کے ارشد تلامذہ میں ہوتا ہے آپ حضرت شیخ الاسلام کی تعلیم وتربیت کا شاہ کار اور درشاہوار تھے جس کی علمی چمک دمک سے اہلِ دکن کی آنکھیں خیرہ تھیں۔ آپ کی ذات وشخصیت، کمالات علم ولیاقت اور خدا داد انتظامی صلاحیت کا پیکر تھی ۔ جامعہ نظامیہ کے قابلِ فخر فرزند ،ذی علم، فقیہ، عمدہ ذوق کے حامل محقق اور جامعہ نظامیہ کے ایوانِ علم وفقہ کے تاجدار تھے ۔ آپ ایک باکمال عالمِ دین اور کہنہ مشق خطیب ہونے کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔حضرت شیخ الاسلام کی 27سالہ صحبتِ بافیض نے آپ کو مختلف علوم بالخصوص فقہ وافتاء میں استاذانہ قابلیت کا حامل بنادیا تھا اس سلسلہ میں خود حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ
’’ شیخی واستاذی حضرت مولانا الحاج الحافظ مولوی محمد انوار اللہ خان بہادر نواب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ معین المھام امورِ مذہبی سرکار عالی نے راقم کو غرئہ رمضان المبارک 1328ہجری سے مفتی مدرسہ نظامیہ مقرر فرماکر دارالافتا کا افتتاح فرمایا تھا۔حضرت کے فیوض و برکات کی تائید سے راقم اس خدمت کو 25شعبان 1337ہجری مطابق 20تیر سنہ1328فصلی تک انجام دیتا رہا ‘‘۔
(فتاوی نظامیہ صفحہ 535جدید ایڈیشن مطبوعہ1998ء)
نوسال کی مدت میں آپ نے ہزارہا محقق ومدلل فتاوی جاری فرمائے جن میں سے انتہائی اہم وضروری فتاوی کو منتخب فرماکر اپنی حینِ حیات حسب الحکم شیخ الاسلام شائع فرمایا ۔ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔
(۱)جلداول:
اسمیں اسلام کے ارکان خمسہ پر متعدد فتاوی کے علاوہ نکاح وطلاق ،بیع وشراء، وقف وہبہ سے متعلق متعدد اور بیش قیمت فتاویٰ جمع ہیں اور اسی میں ایک باب حلال وحرام کا بھی ہے ۔
(۲) جلددوم:
اسمیں بھی اسی طرح کے ابواب ہیں البتہ اضحیہ (قربانی) وذبائح، اَیمان (قسمیں) ونذر اور وصایاکے ابواب کا اضافہ ہے ۔
(۳) جلد سوم:
اسمیں حظر واباحۃ کے باب میں کئی چھوٹے بڑے مسائل کے علاوہ عوام میں مروج بعض غلط رسوم وبدعات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، ان فتاوی کی خصوصیت یہ ہے کہ اہم مسائل میں شرح وبسط کے ساتھ مکمل تحقیق کی گئی ہے اور عام طور پر جوابات میں تفصیل وتوشیح کا وصف نمایا ںہے اور حوالہ جات کا نہایت اہتمام کیاگیا ہے ۔ ضخامت کے لحاظ سے متوسط تینوں جلدوں میں مختلف نوع کے مسائل کو جمع کیا گیا ہے ۔
فتاویٰ بیان کرنے میں حضرت مفتی صاحب ؒنے انتہائی سہل زبان اور نہایت سادہ اسلوب کو اپنایا ہے جس سے آ پ کی اردو زبان وادب پر مضبوط قدرت کا اظہار ہوتا ہے بقول ایک مبصر حقیقت یہ ہے کہ ان فتاوی کو بار بار طبع ہوناچاہیئے۔ جامعہ نظامیہ کے سرکردہ ذمہ داران و مجلس اشاعۃالعلوم کے عہدیداران نے میرِ مجلس حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب مدظلہ العالی کے زیر صدارت 1997ء میں منعقدہ ایک اجلاس میں ان فتاویٰ کو عصری انداز میں جدید ترتیب سے شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ حسبِ قرارداد حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب مصحح دائرۃ المعارف العثمانیہ اور محقق کبیرحضرت مولانا ابوبکر الھاشمی صاحب مصحح دائرۃ المعارف العثمانیہ اور مفکر اسلام حضرت علامہ مفتی خلیل احمدصاحب شیخ الجامعہ نظامیہ کی مراجعت وتصحیح اور خصوصی دلچسپی، شبانہ روز محنت شاقہ و عرق ریزی کے بعد فتاوی نظامیہ کے تین حصے ایک ہی جلد میں بڑی سائز کے تقریبا573صفحات پر مشتمل، فہرست مسائل اور مراجع ومصادر کے جدید انڈکس، بہترین عصری کمپیوٹر کتابت و دیدہ زیب ریگزین سرورق وعمدہ آفسیٹ طباعت سے آراستہ ہوکر شائقین علم وفن خصوصاً فقہ وافتاء کے میدان میں علماء و مفتیان دین متین سے خراج تحسین حاصل کررہی ہے ۔
فتاوی نظامیہ کے علاوہ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت شیخ الاسلام کی حیات وتجدیدی خدمات، عہد وعصر ، افکار و ماثر علمی پر ایک جامع و مانع تذکرہ ’’مطلع الانوار‘‘ بھی رقم فرمایا جو آپ کے 29سالہ مشاہدہ ومطالعہ کا نچوڑ و خلاصہ ہے اس کتاب کو حضرت شیخ الاسلام کی جامع الصفات شخصیت پر تحقیق وریسرچ کیلئے بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
حضرت سیدغلام محمدزعمؔ رفاعی القادری ؒ
پیدائش ۱۲۹۵ھ ۔ وفات ۱۳۶۱ھ م۱۹۴۲ء
سیدشاہ غلام محمدنام‘ ابوالبرکات کنیت ، سانگڑے سلطان مشکل آسان ثانی لقب اور زعمؔ تخلص تھا، سلسلہ ء نسب ۳۲ واسطوں سے سلطان الواصلین حضرت سیداحمدکبیر شاہ معشوق اللہ رفاعی رضی اللہ عنہ، سے ملتا ہے۔
سلسلۂ نسب یو ں ہے:
ابوالبرکات حافظ سیدشاہ غلام محمد زعمؔ ابن صاحب عالم سیدشاہ عنایت اللہ حسینی شہیدابن سیدشاہ بدیع الدین ابن سیدمحمدابن سید جلال الدین ابن سید نجم الدین ابن سید سالار ثانی ابن سید احمد ابن سید سالار ابن سید میرانجی ابن سیدمعین الدین ابن سید احمدمنجھلے چلہ دار ابن سید علی سانگڑے سلطان مشکل آسان قندہاری ابن سیداحمد زکریا ابن سید ابراہیم سپہ سالار ابن سید برہان الدین سیدشریف محمدابن سید احمد حسینی ابن سیدمحمد زکریا ابن سید ابراہیم سپہ سالار ابن سید برہان الدین ابن سیدشریف محمدابن سید احمد حسینی ابن سید تاج الدین عبدالعظیم ابن سید مہذب الدین ابن سلطان الواصلین حضرت سید احمدکبیرمعشوق اللہ رفاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ ۵؍محرم الحرام ۱۲۹۵ھ کو بلدہ حیدرآباد میں پیداہوئے اور یہیں پراون چڑھے مولانا محمدعبدالکریم افغانی سے تفسیر مولانا محمدیعقوب سرہندی سے فقہ اور مولانا محمد عبدالوہاب محدث نقشبندی سے حدیث کی تعلیم پائی شعروسخن میں میرتراب علی زورؔ سے تلمذحاصل کیا ۔۲۵پچیس سال کی عمر میں قبرستان کی ایک آواز اور مولانا محمدعبدالوہاب محدث کے فیض صحبت سے طبیعت نے یکا یک پلٹا کھایا قرآن شریف حفظ کیا او روعظ ورشد وہدایت کی خاطر حیدرآباد سے نکل کھڑے ہوئے حضرت علیہ الرحمہ کو اپنے پدربزرگوار صاحب عالم سید شاہ عنایت اللہ حسینی شہیدؒ سے سلسلہ رفاعیہ اور قادریہ کی مولانا عبدالوہاب محدث سے سلسلہ نقشبندیہ کی اور مولانا انواراللہ خان بہادر فضیلت جنگ مرحوم سے سلسلہ ٔ چشتیہ کی بیعت وخلافت حاصل تھی ۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ بالکل متوکل علی اللہ تھے عمر کا بیشتر حصہ اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام الٰہی میں گزارا حضرت علیہ الرحمہ نے دور دراز مقامات پر پہنچ کر رشدو ہدایت کرنے میں جو محنتیں اٹھائیں اور سینکڑوں کو حلقہ اسلام میں شامل کیا اس کی تفصیلات حضرت کی خود نوشتہ سوانح حیات میں درج ہیں جو چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور حضرت کے خلف اصدق فرزند ارجمند علاّمہ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ کے کتب خا نہ میں محفوظ ہے۔
۱۸؍ماہ صفرالمظفر ۱۳۶۱ھ م ۱۹۴۲ء کو ۶۷سال کی عمرمیں بعہدحکومت شہریاردکن آصفجاہ سابع بلدہ حیدرآباد میں وصال ہوا مسلم جنگ کے پل کے محاذی دریائے موسیٰ کے کنار ے ایک خوبصورت گنبد میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا مزار زیارت گاہ خاص و عام ہے سالانہ عرس ہوتا ہے ۔
محل وقوع:۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مسلم جنگ پُل کے محاذی دریائے موسیٰ کے کنارے خوبصورت گنبدمیں واقع ہے گنبد کا اندرونی میدان ۱۹فٹ۶انچ مربع ہے اور اس میں سمنٹ اور کنکرکا بہترین فرش ہے گنبد میں داخل ہونے کیلئے جنوب او رمشرق کی دوسمتوں میں دروازہ نصب ہے گنبد سید نا غلام محمد کے الفاظ سے اس کا سنہ تعمیر ۱۳۶۶ھ نکلتا ہے ۔
مزار :
گنبد کے عین وسط میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا مزار گچی کا پختہ تعمیر کیا ہوا ہے اور بہتر حالت میں ہے وہ ۶فٹ ۱۱؍انچ لمبا ۳فٹ ۱۱؍انچ چوڑا او ر۲فٹ اونچاہے ، مزار کے اطراف۷فٹ ۷انچ لمبا اور ۴فٹ بلند لکڑی کا چوکھٹا ہے جس کے اوپر بطور شامیانہ کپڑا تانا گیا ہے نیچے ایک فٹ بلند لکڑی کی جالی ہے گنبد کے اندراو ربھی تین قبور حضرت علیہ الرحمہ کی اہلیہ محترمہ ایک صاحبزدہ ایک صاحبزادی کی ہے جن کے سرہانے سنگ سیلوکے چھوٹے چھوٹے کتبے نصب ہیں۔
خانقاہ عنایت اللہی اور بیت الفضائل:
گنبد کی جنوبی سمت موسی ندی کے کنارے خانقاہ عنایت اللہی ہے یہ اس کا تاریخی نام ہے اس کے اندر مغربی حصے میں لوہے کی سبزجالی لگاکر تھوڑی سی جگہ محفوظ کی گئی ہے اس محفوظ حصے میں دودیواری الماریاں ہیں، ایک میں آثارموئے مبارک اوردوسری میں حضرت رحمۃاللہ علیہ کے خاندانی آثار مثلاً پوشاک ، برتن کتابیں اور تحریریں محفوظ ہیں ۔بیت الفضائل کی زمین دوز عمارت قیام حفاظ اور زائرین کے لئے تعمیر کی گئی ہے بظاہر ایک بڑا چبوترہ معلوم ہوتا ہے لیکن اسکے نیچے ۶چھ کمرے ہیں بیت الفضائل اس کا تاریخی نام ہے جس سے اس کا سنہ تعمیر نکلتاہے ۔
حوض اور نقارخانہ:
یہاں دو حوض ہیںایک حوض خانقاہ او رگنبد کے درمیا نی صحن میں مستطیل شکل کا ہے جس پر بطرزقدیم لہردریا کاکام چونہ اور سمنٹ میں کیا گیا دوسرا بڑا حوض خانقاہ کی عمارتوں کے حدود سے باہر نقارخانہ کی سٹرک پر واقع ہے جو اب ٹوٹ پھوٹ گیا ہے نقارخانہ کی دومنزلہ عمارت اس شاہراہ پر واقع ہے جومسلم جنگ پل سے پرانا پل کو براہ جمعرات بازار موسی ندی کے شمالی کنارے جاتی ہے نقارخانہ کی کمان اتنی اونچی ہے کہ صندل کے جلوس کا اونٹ نشان(جھنڈا) کے ساتھ اس میں سے بآسانی گزرتا ہے نقارخانہ سے درگاہ شریف تک سٹرک بنی ہوئی ہے اور اس کے دونوں طرف رنگین پھولوں کے خوش وضع سایہ دار درخت لگائے گئے ہیں۔
کتبے:
درگاہ شریف او راس کی متصلہ عمارت پر چھبیس (۲۶)کتبے نصب ہیں جن کی تفصیل یہ ہے (یہ کتبہ جس پر درود شریف بغدادیہ اورحضرت علیہ الرحمہ کا شجرہ نسب اور شجرہ خلافت سنگ سیلو میں کندہ ہے مزار کے سرہانے اوپر کی بڑی کمان میں نصب ہے ۔
{بسم اللہ الرحمن الرحیم o اللھم صل وسلم علی الرسول السید السند العظم المکرم الممجدالنبی العربی القریشی الھاشمی الزمزمی الا می التھامی سید السادات العرب والعجم وامام الطیبۃ والحرم مولانا ومولی العالمین اما م الحرمین وصاحب الھجرتین شفیع المذنبین ورحمۃ للعالمین سید نا وسندنا وذخرنا وملا ذنا وماونا وملاذنا وقرۃ عیننا محمد تنحل بہ العقد وتنفرج بہ الکرب وتقضٰی بہ الحوائج وتنال بہ الرغائب ویستسقی بہ الغمام وتشفی بہ الانس والجن خواتم الاعمال وعلی اٰلہٖ الکرام الخیرۃ واصحابہ العظام البررۃ صلوٰت اللہ وسلامہ الی یوم الدین۔
سلسلۂ نسب:
(۱)حضرت امام المشارق والمغارب امیر المومنین حضرت سید نا علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۲)حضرت امام ابی عبداللہ الحسینؓ (۳)حضرت سیدنا امام زین العابدین ؓ (۴)حضرت سیدنا امام محمدباقرؓ (۵)حضرت سیدنا امام جعفرالصادق ؓ (۶)حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم ؓ (۷)حضرت سیدابراہیم المرتضی المشہوربالمحاربؓ(۸)حضرت سید موسی ثانی(۹)حضرت سیداحمدالاسدؓ (۱۰)حضرت سیدحسن ؓ(۱۱) حضرت سیدابوالقاسم محمدؓ (۱۲)حضرت سیدحسن معروف بہ سلطان مہدیؒ (۱۳)حضرت سیدابی علی مکی ؒ (۱۴)حضرت سیدحازم حسینی ؒ (۱۵) حضرت سیدثابتؒ (۱۶)حضرت سیدیحییٰ مدنی ؒ(۱۷)حضرت سید ابوالحسن نورالدین مکیؒ (۱۸)حضرت سیدسلطان الواصلین سید احمد کبیر معشوق اللہ رفاعیؒ (۱۹)حضرت سیدشاہ مہذب الدین رفاعیؒ (۲۰) حضرت سیدتاج الدین عبدالعظیم رفاعیؒ (۲۱) حضرت سید احمد حسینی رفاعیؒ (۲۲) حضرت سید شریف محمد رفاعیؒ (۲۳) حضرت سید شاہ برہان الدین رفاعیؒ (۲۴) حضرت سید شاہ شیخ ابراہیم سپہ سالار رفاعیؒ (۲۵) حضرت سید محمد زکریا رفاعیؒ (۲۶) حضرت سید احمد زکریا رفاعیؒ (۲۷) حضرت سید شاہ علی معروف بہ سانگڑے سلطان مشکل آسان قندہاریؒ (۲۸) حضرت سید شاہ احمد منجھلے چلہ دار رفاعیؒ (۲۹) حضرت سید شاہ معین الدین رفاعیؒ (۳۰) حضرت سید شاہ میرانجی رفاعیؒ (۳۱) حضرت سید شاہ سالار رفاعیؒ (۳۲) حضرت سید شاہ احمد رفاعیؒ (۳۳) حضرت سید شاہ سالار ثانیؒ (۳۴) حضرت سید شاہ نجم الدین رفاعیؒ (۳۵) حضرت سید شاہ جلال الدینؒ (۳۶) حضرت سید شاہ محمد رفاعیؒ (۳۷) حضرت سید شاہ بدیع الدین رفاعیؒ (۳۸) حضرت صاحب عالم سید شاہ عنایت اللہ حسینی شہیدؒ (۳۹) حضرت سید ابوالبرکات شاہ غلام محمدؐ رفاعی القادری الچشتی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
شجرہ خلافت
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا وشفیعنامحمدالرسول اللہ ا
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ عبدالواحد بن زید رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سید نا خواجہ فضیل بن عیاض ؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا سلطان ابراہیم ادھمؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ حذیفہ ؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ ابوہبیرہ ؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ ممشاد ؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ ابواسحاقؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ ابو احمد ابدال چشتیؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ ابو محمد ؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ ابو محمد یوسف چشتیؒ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ مودود چشتیؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ عثمان ہارونیؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتیؒ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا شاہ فرید الدینؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا شاہ مخدوم علاؤ الدینؒ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا شمس الدینؓ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا شاہ جلال الدین رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا شاہ احمد عبدالحق رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سیدنا شاہ عارف بن احمد رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ محمد عارف رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ عبدالقدوس رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ جلال الدین رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ نظام الدین رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ شیخ ابو سعید رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ محب اللہ بہاری رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ محمد فیاض رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ محمد حامد رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت سید شاہ عضد الدین رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ عبد الہادی رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ عبدالباری رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ عبدالرحیم رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت شاہ نور محمدجھنجھانوی رضی اللہ عنہ
الٰہی بحرمت خرقہ خلافت حضرت مولانا امداداللہ شاہ رضی اللہ عنہ
محمد انوار اللہ واخی الصالح الحافظ مولوی غلام محمد صاحب رابزمرئہ حضرات موصوفین محشورگرداں فقط
در طریقۂ چشتیہ حافظ صاحب موصوف را اجازت دادم فقط
محمد انوار اللہ عفی عنہ
کتبہ
(۱) یہ قطعہ سنگ موسیٰ پر ابھر ے ہوے حروف میں کندہ اور مزار کے سرہانے چھوٹی کمان میں نصب ہے ۔
(۲)
عاشق دیں وعارف کامل
کچھ نہ تھی ان کو دنیوی خواہش
داخلِ خلد ہوگئے عارفؔ
سال ہے زعمؔ طالب بخشش
۱ ۶ ھ ۳ ۱
(۳)یہ کتبہ خط نستعلیق میں سنگ پر کندہ او رمزار کے سرہانے دائیں جانب نصب ہے ۔
{الحمدللہ علی کل حال }
حضرت سید السادات حافظ شاہ غلام محمد ابوالبرکات رفاعی القادری الچشتی قدس سرہٗ کا یہ گنبد او راس سے ملحقہ خانقاہ عنایت اللہی بہ تحریک محترمہ بشیر النساء بیگم صاحبہ بشیرؔ ومولوی سید مرادعلی صاحب طالعؔ ومولوی خواجہ حمید الدین صاحب شاہدؔ ایم ۔اے حسب نقشہ مولوی فیاض الدین صاحب آر کیٹکٹ بعہد سلطنت شہر یا ردکن وبرار میر عثمان علیخاں بہادر آصفجاہ سابع وبدور سجاد گی سید شاہ تقی الدین احمد قادری ابن ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ بحسن سعی واہتمام مولوی مرزاضامن علی صاحب غازی صفوی ۱۳۶۴ھ مطابق ۱۹۴۵ء میں تعمیر کیاگیا ، اس کی تعمیر کا آغاز ۵؍ ربیع الاول کو ہوا او ر اسی سال ماہ رمضان المبارک میں تکمیل عمل میں آئی ۔
(۴)سنگ سیلوکا یہ کتبہ مزار کے سرہانے بائیں جانب نصب ہے ۔
{الحمدللہ علی کل حال }
اسی گنبد شریف یا اس کے قرب وجوار میں حضرت سید شاہ غلام محمد ابوالبرکات قدس سرہٗ کے حقیقی دادا حضرت مولانا سید شاہ بدیع الدین رفاعی القندہاری دفن ہیں جو حضرت فضیلت جنگ مولانا انوار اللہ قادری الچشتی القندہاریؒ کے استاد تھے اور جنکا وصال اپنے فرزند حضرت صاحب عالم سیدشاہ عنایت اللہ حسینی شہید کے مکان میں (واقع محلہ چمپادر وازہ جہاں اب سٹی کالج کی عمار ت ہے)۸؍محرم الحرام ۱۳۰۹ھ کو ہوا تھا ،اورجس کا مادّہ تاریخ محمد قطب الدین مرحوم خطیب قندہارنے ’’داغ شد‘‘ نکالا تھا جس کوحضرت ابوالبرکات زعمؔ قدس سرہٗ نے ایک قطعہ میں منظوم کرکے اپنے سوانح حیات میں درج فرمایا چونکہ طغیانی رودموسیٰ کے باعث حضرت کے مزار کا نشان باقی نہ رہاتھا اس لئے یہ قطعہ تاریخ بطور یادگار سنگ مزار یہاں نصب کیا گیا۔
حضرت بدیع دین کہ جد حقیقی ام
زیں رہگزر چوں راہی فردوس باغ شد
از بہرِ فاتحہ بہ مزارش چورفتہ ایم
آوازایں غیب بر آمد کہ داغ شد
۹ ۰ ۳ ۱ ھ
(۵تا۸)گنبد کے اندر چاروں پہلو کی درمیانی کمانوں کے اوپر گنبدکی گردن کے نیچے چار مستطیل کتبے بخط نسخ سنگ سیلومیں کند ہ اور نصب ہیں وہ یہ ہیں ۔
سرہانے کا کتبہ (جانب شمال )
{الا انّ اولیاء اللہ لا خوف علیم ولاھم یحزنون}
کتبہ جانب مغرب
{قل یا عبادی الذین اسرفوعلی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ لیغفرالذنوب جمیعاانہ ھوالغفور الرحیم}
کتبہ جانب مشرق
{وکفاو اعظا بالموت ولکل امۃ اجل فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولایستقدمون}
کتبہ جانب جنوب
{قال محمد نبی الکونین، للمومن حتی فی الدارین المومنون لایموتون بل ینتقلون من دارالی دار}
۹۔یہ کتبہ خط نستعلیق میں سنگ سیلوپر کندہ ہے اور گنبد کے بیرونی رخ پر جنوبی پہلومیں جو خانقاہ کے مقابل ہے ، ایک گوشہ میں بنیاد کے اوپر نصب ہے ۔
گنبد پر طریقت شدبنا(۶۴ھ۱۳)
۱۰۔ یہ کتبہ جو خانقاہ کی پیشانی پر نصب ہے اسم بامسمیٰ اور تاریخ ہے اس لئے کہ حضرت کے والدبزرگوار کا نام سید شاہ عنایت اللہ حسینی تھا اور موجودہ سجادہ سید شاہ تقی الدین قادری رفاعی کا عرف بھی عنایت بادشاہ ہے ،۔ بحساب ابجد اس کے اعداد سے سنہ تعمیر ۱۳۶۴ھ ۔
۱۰)خانقاہ عنایت اللہّی(۱۳۶۴ھ)
۱۱۔ و۱۲نمبر کتبہ خانقاہ کے بیرونی ہال میں وسطی درازہ پر نصب ہے اور نمبر ۱۲ کتبہ اسی ہال میں غربی دیوار پرنصب ہے ۔
۱۱) یک ذرّہ عنایت الٰہی ، بہتر زہزار بادشاہی
خانقاہ عنایت الہی بیاد گار حضرت صاحب عالم سید شاہ عنایت اللہ حسینی شہید جو یکم رمضان ۱۲۴۶کو اسی مقام کے قریب طغیانی رود موسیٰ میں غریق رحمت ہوئے اور جن کے حالات زندگی واو صاف باطنی مشہور مورخ ادیب شمس الدین امیر حمزہ نے کتاب ’’روـضہ شہید زاہد غریق‘‘ ، میں قلمبندکرکے ۱۳۲۷ھ میں مطبع مفید دکن سے شائع کئے ان کے خلف صالح حضرت حافظ سیدشاہ ابوالبرکات غلام محمد قادری رفاعی الچشتی کے گنبد کے ساتھ ۱۳۶۴ھ میں تعمیر کی گئی ۔
۱۳۔تا۲۰۔ یہ آٹھ کتبے خانقاہ کے اندرونی حصّے میں نصب ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
غربی دیوار کا کتبہ:
برقصر عمر تکیہ کن استوار نیست
درداربے قرار کے راقرارنیست
خوش منزلیست رونق دنیا بچشم ما
خوش دولت دست عمرولے پائدارنیست
جنوبی دیوار میں دائیں سے بائیں طرف حسب ذیل ۳ کتبے ہیں۔
۱۴۔
ان اللہ لا ینظر الی صورکم واموالکم
ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم
۱۵۔ تلک الجنۃ نورث من عبادنامن کان تقیا
۱۶۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا
من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب
مشرقی دیوار کا کتبہ
(۱۷)محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعا سجد ایبتغون فضلا من اللہ ورضوانا۔
(۱۸)شمالی دیوار میں دائیں سے بائیں جانب حسب ذیل ۳کتبے نصب ہیں ۔
ائے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا وسکند رسے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوائے اسد اللہی
آئینِ جوانمرداں حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
تواے اسیر مکاں لامکاں سے دورنہیں
وہ جلوہ گاہ ترے خاکداںسے دورنہیں
وہ مرغزار کہ بیم خزاں نہ ہو جس میں
غمگینی نہ ہوکہ ترے آشیاں سے دورنہیں
فضاتری مہ وپرویں سے ہے ذراآگے
قدم اٹھا یہ مقام آسماں سے دورنہیں
۱۹۔
تواں کردن تمامی عمر خود مصروف آب وگل
کہ شاید یک دلے صاحب ولے دروے کندمنزل
۲۰۔ خط کوفی میں سورہء اخلاص کا ایک کتبہ ہے وہ سنگ سیلوکی ایک مربع تختی پر کندہ او رخانقاہ سے متصلہ مشرقی کمرہ میں نصب ہے ۔
۲۱۔سنگ سیلو کا یہ کتبہ جس پر راقم الحروف کا قطعہ تاریخ کندہ ہے گنبد اور خانقاہ کے درمیانی مستطیل حوض پر نصب ہے ۔
۲۲۔
اے محی دین بوالحسنات ، اعطاک اللہ اجروبرکات
طالع ؔکردہ فکر تاریخ ، ہاتف گفتہ ۔حوض الحسنات
(۴ ۶ ھ ۳ ۱ )
۲۳یہ کتبہ جو ہم نام او رہم تاریخ ہے سنگ سیلومیں کندہ اور بیت الفضائل کی عمار ت پر نصب ہے۔
بیت الفضائل
۱۳۶۴ھ
۲۴۔ بیت الفضائل کی چھت سے متصل جنوبی سمت میں جوبر آمدہ ہے اس کے اوپر خط نسخ کا یہ کتبہ سنہرے حروف میں کندہ او رنصب ہے ۔
لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ
۲۵۔نقار خانہ سے اندر کی طرف آنے والے راستہ پر ایک بڑا حوض ہے اس کے جنوبی گوشے پر راقم الحرف فقیر کا قطعہ تاریخ ایک بڑے سنگ سیلوپر نستعلیق خط میں کندہ اور نصب ہے ۔
ڈاکٹر سید محی الدینؔ زور آپ کو دیں ساقی کوثر صلہ
سال تعمیراس کا طالعؔ نے کہا کتنا اچھا حوض آبی جب بنا
۶ ۶ ھ ۳ ۱
۲۶۔ یہ کتبہ نقارخانہ کی کمان کے اوپر شاہراہ کے رخ بخط نستعلیق سنگ مرمر میں کندہ او رنصب ہے
۲۷۔
درگاہ حضرت سید السّادات حافظ ابوالبرکات قدس سرہٗ
عرس :۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا سالانہ عرس ۵؍۷؍ماہ ربیع الاول کو ہوتا ہے پہلے روز صندل اور زیارت آثار موئے مبارک ، دوسرے روزجشن چراغاں قوالی اور مہمانوں کی دعوت اور تیسرے دن ختم قرآن او ر فاتحہ کی تقریب اداہوتی ہے صندل مسجد چوک سے در گاہ شریف لایاجاتا ہے نل اوربرقی روشنی کے مستقل انتظام کی وجہ سے زائرین او ر عوام کو خاصی مدد ملتی ہے مولوی سید شاہ تقی الدین قادری رفاعی چشتی … مراسم عرس اداکر تے ہیں ۔
(تلخیص ، تذکرہ اولیائے حیدرآباد حصہ چہارم، ص۱۰۶ تا ۱۱۷، سید مراد علی طالعؔ)
تاج العلماء حضرت مولانا مفتی رحیم الدین قادریؒ
( المتوفی 1389ھ1970)
فخرالفضلاء، عمدۃ الفقہاء،استاذ الاساتذہ،مفسرِ شہیر، محدثِ کبیر،مفتی شریعت،ہادی طریقت، مولانا مفتی محمد رحیم الدین قادری ابن حضرت محمد سراج الدین علیہما الرحمۃ ،حضرت شیخ الاسلام کے خلفاء میں منفرد کمالات کے حامل تھے۔ آپ چودہویں صدیں ہجری کے نامورعالم دین تھے قدرت نے آپکی ذات میں بہت سی خوبیاں ودیعت کی تھیں ۔ علوم اسلامیہ میں یگانہ ،فقیہ ، محدث ،مفسر اور دقیقہ سنج ونکتہ رس علماء میں آپ کا شمار ہوتا ہے آ پ کے مورثِ اعلیٰ قریشی النسل تھے اور حضرت نے براہِ دہلی سرزمینِ علم وفن حیدرآباد دکن کو اپنا ثانی وطن و مسکن بنالیا ۔ 7ربیع الآخر 1311ہجری م1893ء حیدرآباد دکن میں آپ کی ولادت ہوئی ۔
ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کی تحصیل وتکمیل کے لئے درسِ نظامی کی قدیم دانش گاہ جامعہ نظامیہ اسلامیہ میں داخلہ لیا خدا داد ذہانت وفطانت کے سہارے بہت جلد ہی تعلیمی مراحل طئے کرلئے شیخ الحدیث حضرت مولانا حکیم محمد حسین علیہ الرحمۃ کے بموجب حضرت مفتی صاحب کو فن فقہ وافتاء سے زیادہ لگاؤ تھااسی نسبت سے ان کے شیخ ان کو ’’مفتی‘‘ کے نام سے پکارتے ۔ اساتذہ کا دیا ہوا یہ لقب آ پ کے نام کا جزء بن گیا ۔
آ پ کے تبحر علمی کی شہرت مادر علمی جامعہ نظامیہ کے در ودیوار سے نکل کر مملکتِ آصفیہ کے ایوان تک پہنچ گئی اور آ پ کو حکومت آصفیہ کے انتہائی اعلیٰ محکمہ ’’ صدارت العالیہ ‘‘کے منصب پر فائز کیاگیا ، آ پ کے فتاویٰ نہ صرف دکن بلکہ سرزمین ہند کے مختلف علاقوں اورعالمِ اسلام میںبڑی وقعت وعزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔حضرت مفتی صاحب کو اس مقام تک پہنچانے اور آ پ کی شخصیت کی تشکیل میں جن فضلاء وادباء کا ہاتھ تھا ان میں مولانا عبدالصمد قندہاری ،مولانا مفتی رکن الدین قادری، مولانا مفتی سید عبدالکریم افغانی،مولانامحمدیعقوب محدث، مولانا ابوبکر شہاب، مولانا قاری تونسی کے علاوہ آپ کے مربی ومحسن استاذشریعت پیر طریقت حضرت شیخ الاسلام کی نظر کیمیاء اثر کا بھی فیضان شامل رہا ۔ واردات ومکاشفات ، عوارف ومعارف، رموز واسرار سے واقفیت کیلئے مشہور زمانہ ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ و ’’فصوص الحکم‘‘ کے درس میں شرکت اور حضرت شیخ الاسلام کی توجہ خاص نے ظاہری وباطنی علوم کا مخزن اور آئینہ کمال بنادیا۔
حضرت شیخ الاسلام نے آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفرازکرنے کے بعد یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ’’اوراد و وظائف کے بجائے ہمیشہ علوم دینیہ کی تعلیم واشاعت میں کوشاں رہیں کیوں کہ اس کے برابر کوئی عبادت تقربِ الٰہی کا باعث نہیں جو لوگ اس کا م میںمصروف رہتے ہیں ان کے مدارج میں روز افزوںترقی ہوتی رہتی ہے‘‘ ۔ اس ہدایت پر عمر بھر آپ عمل پیرا رہے اور اپنی مادر علمی کی خدمت کو اس ہدایت کی تکمیل کے لئے منتخب کیا۔ حدیث وتفسیر وفقہ کی امہات الکتب کی تدریس کے علاوہ جامعہ کے انتظامی ہیکل کی تشکیل وتنظیم میں بھی نمایاں اور ناقابل فراموش کردار ادا کیا ۔
چنانچہ 1929ء میں جامعہ نظامیہ کی مجلس منتظمہ کے رکن منتخب ہوئے اسی عہد میں جامعہ کے نصاب تعلیم اور امتحانات کے قواعد مرتب ہوئے ۔ 1945ء میں فرمان شاہی کے مطابق شیخ الجامعہ اور معتمد جامعہ مقرر ہوئے ۔ 1952ء تک یہ خدمت انجام دی ۔ جامعہ کیلئے جدید عمارات آپ ہی کے عہد میں خریدے اور بنائے گئے۔ 1929ء میں فقہ حنفی کی نایاب کتب اشاعت کیلئے قائم کی جانے والی ’’مجلس احیاء المعارف النعمانیہ‘‘ کی تاسیس وترقی میںبھی آپ کا سرگرم رول رہا ۔
ملکی ملی وقومی مسائل پر بھی آپ گہری نظر رکھتے تھے ۔دکن کے علماء کی نمائیدہ جماعت’’ مجلس علماء دکن‘‘کے اساسی ممبر تھے یہ جماعت آج تک مسلمانوں کی ملی ومذہبی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ حضرت مفتی صاحبؒ مذاہب اربعہ کے جید عالم تھے لیکن حضرت امام اعظمؒ کے مسلک پر سختی سے عامل اور کاربند تھے۔مجلس اشاعت العلوم واقع جامعہ نظامیہ کے معتمدبھی رہے اور مختلف کتابوں کی اشاعت کے تسلسل کو جاری رکھا ۔
دومرتبہ حج وزیارت حرمین شریفین سے بھی مشرف ہوئے ،تقوی وطہارت ،دعوت وعزیمت، استقامت، شیریں لسانی ،خوش اخلاقی ،اصابت رائے،اور قوتِ فیصلہ کا پیکر تھے۔ایک باکمال عالم ہونے کے ساتھ آپ ایک بہترین قلمکار ومصنف بھی تھے۔ آ پکی حسب ذیل تصنیفات وتالیفات ہیں ۔
(۱) فتاوی صدارت العالیہ :
یہ ان فتاوی کا مجموعہ ہے جو آپ نے حکومت آصفیہ کے کلیدی محکمہ ’’صدارت العالیہ‘‘ سے صادر فرمائے تھے۔ عبادات، مناکحات، عقود ومعاملات، اعتقادات، حظر واباحت سے متعلق کوئی 25ابواب پر محیط ہے جس میں مختلف ومتنوع اسلامی احکامات جمع ہیں ،حوالہ جات کا اہتمام بھی ہے ،جوابات کی اردو تحریر مختصر لیکن جامع ومانع ہے لیکن حوالہ جات تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیں مجموعی لحاظ سے یہ ایک بہترین فتاوی ہیں جو 1352ہجری حیدرآباد سے طبع ہوئے فتاوی کے سرورق پر یہ سرخی نمایاں ہے ۔ مجموعہ مہمات مسائل اور احکام فقہیہ مجریہ محکمۂ شیخ الاسلام صدر الصدور دولت عالیہ آصفیہ موسوم فتاوی صدارۃالعالیہ۔
(۲)صفۃ الحج۔
(۳) دعوۃ الاخوان لاحیاء المعارف النعمان۔
(۴) مسئلہ فاتحہ
حضرت مولانامفتی سید محمود قادریؒ کان اللہ لہ
(المتوفی 1389ھ م1969ء)
خطیب دکن، علامۃ الزمن، حضرت مولانامفتی سید محمود قادری کان اللہ لہ اپنے عہد کے جلیل القدر علماء میں امتیاز ی شان کے مالک تھے ۔ آ پ ایک اعلی اور شریف خاندان کے چشم وچراغ تھے ۔ جامعہ نظامیہ کے قابل فخر فرزند اور حضرت شیخ الاسلام کے قابل صد ناز تلامذہ میں آپ کا شمار ہوتا ۔ جامعہ نظامیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جمعیۃ عروب بارکس میں درس وتدریس کی مسند پر فائز ہوئے اور اپنے علوم ظاہری وباطنی کے فیضان سے کئی سال تک خلقِ کثیر کو فیضیاب کیا۔ دیگر علوم کے ساتھ ساتھ آ پ کو عربی زبان وادب میں مہارت اور فن عروض وبلاغت میں ید طولیٰ حاصل تھا ۔ آپ بسطۃً فی العلم والجسم کی تصویر تھے۔ حق گوئی وبے باکی آپ کاطرئہ امتیاز تھا اور اقبالؔ لاہوری کے اس شعر کے مصداق تھے ۔
آئینِ جواں مرداں حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
امیر جامعہ مقصود جنگ کے عہد میں جب جامعہ نظامیہ کے اسلامی تشخص اور انفرادیت کے نقوش تاباں کو نصاب کی اصلاح کے پردے میں ختم کرنے کی کو شش کی گئی تو اس وقت سب سے پہلے آپ نے صدائے احتجاج بلند کیا اور دوسروں کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروائی اور احتجاجاً شیخ الجامعہ کے عہدہ سے استعفی پیش کردیا ۔
آ پ جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں درس تدریس فقہ وافتاء میں استادانہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ قطب شاہی دور کی یادگار 400سالہ قدیم وعظیم تاریخی مکہ مسجد کے خطیب بھی تھے۔ اپنی فصیح وبلیغ خطابت سے ایک دنیا کو مسخر کررکھاتھا ۔ قدرت نے آپ کو بڑی عمدہ اور پرکشش آواز سے سرفراز کیا تھا ۔ ہزار ہا لوگ بغیر لاؤڈاسپیکر کے آپ کے خطبہ کو یکساں سناکرتے تھے۔ اس اعجازِ خطابت سے مکہ مسجد کے محراب ومنبربرسوں گونجتے رہے ۔ آ پ کی شخصیت کو مقبول عام بنانے میں حضرت شیخ الاسلام کے علمی وعملی فیضان کا بڑا حصہ رہا۔
مختلف علوم وفنون کے ساتھ آپ کو شعر وادب سے بھی کافی ذوق وشوق تھا ۔ عربی کے علاوہ فارسی میں ایک قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے آ پ نے اہل علم واصحاب فکر وفن سے اپنی شخصیت وعلمیت کا لوہا منوایا اور داد تحسین حاصل کی ۔
آپ نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور کلام موزوں کیا اور عربی میںخطبات جمعہ پر مشتمل ایک کتاب تصنیف فرمائی ،مگر افسوس کہ یہ د ونوں بھی حوادث زمانہ کی نذر ہوگئے ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
ٔ ٔ ٔ
No comments:
Post a Comment