شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کے علمی دینی واصلاحی کارنامے
از: مولانا ڈاکٹر سید بدیع الدین صابری، صدر شعبہ عربی‘ عثمانیہ یونیورسٹی
یوں تو دنیا میں بہت سے مصلحین اور رہنماؤں نے اپنی طاقت کے مطابق علمی واصلاحی میدان میں عظیم الشان خدمات انجام دیں لیکن آپ بہت کم ایسے نفوس کو صفحات تاریخ پر ستاروں کی طرح درخشاں پاؤگے جو علمی و اصلاحی دنیا کے مکمل تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی اور علمی و اصلاحی شعبوں کے مختلف پہلوؤں پر انکی نظر تھی۔ انہیں معدودے چند میں سے حضرت شیخ الاسلامؒ کا شمار ہوتا ہے۔ جہاں شیخ الاسلامؒ نے جہالت کی تاریکی میں علم دین کی شمع روشن کرنے کے لئے جنوبی ہند کی سرزمین پر ایک عظیم الشان علمی قلعہ ’’جامعہ نظامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی وہاں آپ نے ایک عظیم الشان کتب خانہ کی بنیاد ڈالی۔جو ہزارہا بیش قیمت اور نایاب وکمیاب کتابوں پر مشتمل ہے یہ درحقیقت مولانا کاذاتی کتب خانہ تھا جس پر آپ ہزاروں روپئے صرف فرمائے آخر کار اس محبوب دولت کو محبوب ذخیرہ آخرت مدرسہ نظامیہ کے نام وقف فرمادیا۔ پھر علم دین کی شمع کو مسلسل روشن رکھنے کے لئے اور علوم قدیمہ کے بیش بہا خزانہ کو محفوظ کرنے کے لئے وقت کی ایک اہم ضرورت تھی کہ ایک مطبع کا قیام عمل میں لایاجائے جو اسلامی نایاب کتب کے ترکہ کو زیور طبع سے آراستہ کر کے دنیا ئے علم میں ایک علمی وتحقیقی فضاء پیدا کرے چنانچہ ’’دائرۃ المعارف‘‘ کی تحریک اٹھائی اور ایک عظیم الشان مطبع کا قیام عمل میں آیا اس دائرے سے سب سے پہلی کتاب شیخ علاء الدین برہان پوریؒ کی تصنیف ’’کنزالعمال‘‘ کی طباعت عمل میں آئی جو احادیث نبویہ کا بہترین مجموعہ بلکہ احادیث نبویہ کا انسائیکلو پیڈیا تصور کیا جاتا ہے جو تقریبا 22ضخیم جلدوں میں دستیاب ہے یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جسے شیخ الاسلامؒ نے اپنے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ہزاروں روپے خرچ کر کے نقل کروائی تھی یہ تو طالبان علوم دینیہ کے لئے فیض کا ذریعہ تھا، عوام الناس کی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے ایک جنرل لائبریری کی تحریک فرمائی یہاں تک کہ قلب شہر میں ’’کتب خانہ آصفیہ‘‘ کا وجود عمل میں آیا۔ جب مسائل کی کثرت بڑھنے لگی تو جامعہ نظامیہ ہی کے احاطے میں ایک ’’دارالافتاء‘‘ کی بنیاد ڈالی، پھر عوام الناس کے استفادہ کے خاطر اپنی تمام مذکورہ مصروفیتوں کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری فرمایا جن کی تعداد تقریباً چالیس تک پہنچتی ہے جن میں خصوصاً قابل الذکر کتابیں انوار احمدی، مقاصد الاسلام ،حقیقۃ الفقہ اور کتاب العقل ہیں ان کتب اور ابنائے جامعہ کے کتب کی طباعت کے لئے ایک انجمن ’’مجلس اشاعت العلوم‘‘ کی تأسیس جسکے تحت بہت سی کتابیں طبع ہوئیں اور طبع ہورہی ہیں۔ آپ اس حقیقت پر بھی نظر ڈالئے کہ حضرت شیخ الاسلامؒ نے جس کام کابیڑا اٹھایا اور تحریک فرمائی آپ کے اخلاص کے نتیجہ میں اسے مثالی شہرت مل گئی چنانچہ جامعہ نظامیہ کی حیثیت ایک چھوٹے سے مکتب کی تھی مگر آپ کی انتھک کوششوں سے تمام عالم میںاسکی دھوم مچ گئی تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ نہ صرف ہند بلکہ بیرونِ ہند ایران‘ یمن، افغانستان، سمر قند، بخارا، سری لنکا و غیرہ سے طالبانِ علوم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔136ایک سو چھتیس سال کا طویل عرصہ گزرجانے پر بھی جامعہ نظامیہ کی یہ جیتی جاگتی تصویر انکی عظمت کی دلیل اور انکی دینی کاوش اور اخلاص نیت اور حسنِ کمالِ علم کی نشانی بنی ہوئی ہے کیوں نہ ہو جبکہ اسکی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر قائم ہے۔
مطبع دائرۃ المعارف کو وہ افتخار حاصل ہے جو آج تک ہندوستان کے کسی عربی مطبع کو حاصل نہ ہوا اور نہ اس معیار کے کسی عربی مطبع کا وجود ہے پھر کتب خانہ آصفیہ بلحاظ علمی نوادر‘ ہندوستان کے مایہ ناز کتب خانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دارالافتاء جامعہ نظامیہ کا فیض آج تک قائم ہے۔ جب امت مسلمہ کسی مسئلہ میں پریشان ہوجاتی ہے مختلف مقامات سے فتاوی منگوائے جاتے ہیں مگر اس وقت تک لوگ چین و سکون کی سانس نہیں لیتے جب تک کہ جامعہ کا فتوی نہیں آجاتا۔ جب آپ تصنیف کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ایسی ایسی کتابیں جو آپ کے ذہنی استحضار‘ قوتِ تحقیقی کی بین دلیل اور بالخصوص جذبہء حب رسول اور حمایتِ مذہب اہلِ سنت کی قابلِ قدر خصوصیات سے مزین ہیں ان تصنیفات میں ’’انوار احمدی‘‘ کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اربابِ فکر وقلم نے یہاں تک لکھ دیا کہ’’ اردو زبان میں آج تک ایسی کتاب فضائلِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم طبع نہیں ہوئی‘‘۔
جس طرح آپ نے اپنے فیوضِ ظاہری سے ایک بڑی مخلوق کو فیضیاب کیااسی طرح اپنے باطنی کمالات سے کئی قلوب کی ویرانیوں میں معرفت کے چراغ روشن کیے۔ جس طرح آپ کے درِ اقدس پر طالبانِ علوم اور عوام الناس کا ہجوم رہتا تھا وہیں علماء وفضلاء بھی آپ کے فیض سے مستغنی نہیں تھے۔ چنانچہ تقریباً آدھی آدھی رات تک علماء فضلاء کی جماعت کو تصوف کی دنیا کے معروف ومشہور مصنف محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کی مایہ ناز کتاب ’’الفتوحات المکیہ‘‘ کا درس دیا کرتے تھے ان مجالس میں انوار و تجلیات کا نزول ہوا کرتا تھا۔ اسکے مغلقات کو نہ صرف آپ اپنی اعلیٰ علمی صلاحیتوں سے حل کرتے تھے۔ بلکہ بسا اوقات اپنی توجہ کو بزرگانِ دین اور سرورِ کائنات فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر کر حلِّ مغلقات میں روحانی فیض اور مدد طلب کرتے تھے۔ بعض صاحبِ کشف وصاحبِ نظر نے ارواحِ قدسیہ کی تشریف آوری کو بھی دیکھاہے۔
جس طرح آپ کے فیض کادائرہ علمی میدان میں حد درجہ وسیع تھا اس طرح اصلاحی میدان میں آپ کے عمل کا دائرہ کا ر بغایت درجہ پھیلاہوا تھا شیخ الاسلامؒ نے ناموسِ اسلام کے تحفظ و بقاء کے لئے تمام ممکنہ وسائل کو استعمال کیا ـخواہ وہ معاملہ مسجدوں سے متعلق ہویا درگاہوں کے انتظامات سے متعلق ہو یا مسلخوں کی بد نظمی کی اصلاح ہو یا شاہراہوں اور پر رونق بازاروں میں طوائف کے گھومنے کی روک تھام سے متعلق ہو، ہر میدان میں ہمیں آپ کی ذات فسق و مجور کا انسداد کرتے ہوئے ایک عظیم الشان مصلح کی حیثیت سے نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ جہاں بھی احساسات اسلامی کو تھوڑی سی بھی ٹھیس پہنچتی ہے وہاں آپ کا اصلاحی جذبہ پورے زور وشور کے ساتھ ابھرتا ہے قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کی متعدد مثالیں شاہدِ عدل ہیں مسلمانوں کی اصلاح کی خاطر آپ نے ’’صدارت العالیہ‘‘ کو مستقل محکمہ کی صورت عطاء فرمائی اور اسی سلسلہ میں ایک انجمن ’’انجمن اصلاحِ مسلمانان‘‘ قائم فرمائی جس کا مقصد اس کے نام سے ظاہر ہے اور کئی واعظین کو مقرر کیا جن کے ذمہ یہ خدمات تفویض تھیں کہ نہ صرف وہ شہر میں لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں بلکہ اضلاع و دیہی علاقوں میں جاکر مسلمانوں کی اصلاح کریں آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے امورِ مذہبی کے لئے اتنی رقم منظورکروائی کہ بعض عہدیدار کہنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا آپ ملک کا خزانہ اسی میں خرچ کروائیں گے۔
دیکھنے میں انوار اللہ رحمہ اللہ ایک ذات کانام ہے درحقیقت وہ ایک انجمن ہے ہر میدان میں آپ شہسوار نظر آتے ہیں آپ کی ذات جہد وسعی کا ایک حیرت انگیز نمونہ تھی بہت کم ایسے دماغ ہوا کرتے ہیں جو وقتِ واحد میں کئی کام انجام دیتے ہیں ان کے اعمال میں خدا کی قدرت کے جوھر نظر آتے ہیں جب وہ کسی کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو خدا کی قدرت یادآجاتی ہے میرے ان کلمات کو مبالغہ آمیزی پر محمول مت کیجئے کیونکہ مرد ان خدا کی یہ عظمت وطاقت بخاری شریف کی اس حدیث قدسی سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جب میں کسی کو اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے وَلَئِنْ سَأَلَنِیْ لأُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنْ إسْتَعَاذَنِیْ لأُعِیْذَنَّہُ اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور ضرور اس کو پورا کرتا ہوں اور اگر وہ پناہ طلب کرے تو میں ضرور ضرور اس کو پناہ دیتا ہوں۔
اندازہ کیجئے کہ جس کی یہ شان ہو تو اس کی عظمت وطاقت کا اندازہ لگانا ہماری طاقت سے باہر ہے۔ جس طرح شیخ الاسلامؒ نے اصلاحِ اعمال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس طرح اصلاحِ عقائد میں بھی آپ نے ایک بڑا میدان سر کیا اس پر فتن دور میں جب کہ بدعات و منکرات عام تھیں مختلف افکار ونظریات کی حامل تحریکیں اسلام کے استحکام کو ختم کرنا چاہتی تھیں شانِ رسالت میں گستاخیاں کی جارہی تھیں عین اس ماحول میں آپ کی رگِ فاروقی جوش میں آتی ہے اور اپنی تصنیفات کے ذریعہ اہلِ اسلام کو عقائدِ حقہ کی روشنی دکھاتے ہیں اور اہلسنت و الجماعت کے مسلک کو واضح کر کے اس کے ثبوت و استقلال کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلامؒ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی توجہ کسی ایک خاص جماعت ہی کے رد کرنے پر مر کوز نہیں رہی بلکہ جس جماعت نے بھی مسلکِ حق کے خلاف قدم اٹھایا تو آپ نے ان کے کذب و افتراء کے جوابات انتہائی متانت سے دے کر باطل کا قلع قمع کیا اور ہر باطل پرست کے عقائدِ باطلہ کا پردہ چاک کیا خواہ وہ عقیدہ وہابیت ہو یا نظریہ قادیانیت یا خیالات رافضیت ہوں۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و محبت شیخ الاسلامؒ کی تحریر کی سطرسطر سے نمایاں ہے ان کے رشحات قلم اس دورِ بے ادبی کے لئے ہدایت ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار فضیلتوں سے نوازا اس طرح آپ کو شعر گوئی کی اعلیٰ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی آپ ایک قادر الکلام شاعر تھے چنانچہ آپ کا شعری مجموعہ ’’شمیم الانوار‘‘ سے مشہور ہے آپ کی معرکۃ الاراء تصنیف ’’انوار احمدی‘‘ آپ کی ایک طویل نظم کا خلاصہ ہے جس میں آپ کی شعری و ادبی کمال کے گوہر موجود ہیں اس کا ایک ایک شعر عقائدِ صحیحہ کی ایسی ترجمانی کرتا ہے کہ جس کو سن کر روحِ ایمانی وجد میں آجاتی ہے چنانچہ چند قطعات ملاحظہ فرمائیے۔ نعت شریف کی فضیلت پر اپنے جذبۂ دل کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
نعت وہ ہے جس کا حضرت نے کیا خود اہتمام
حق تعالیٰ نے لیا جملہ نبیوں سے یہ کام
ہو جو محروم اس سے ہے ایمان اس کا نا تمام
اور جو دشمن ہو تو اس کے کفر میں پھر کیا کلام
کی بذاتِ خود خدا نے نعت جب محبوب کی
پھر ثنا دل سے کریں کیونکر نہ سب محبوب کی
میلادو قیام کے جواز میں نہایت مسکت اور تشفی بخش دلیل کو کتنے اچھوتے پیرائے میں قلمبند کرتے ہیں۔
مجلسِ میلاد بھی حَاکیِ ہے وقتِ خاص کی
جس میں حسبِ حکمِ خالق خَلق نے تعظیم کی
پھر بھلا تعظیم وقتِ ذکرِ میلادِ نبی
ہو خلافِ مرضی حق یہ نہیں ممکن کبھی
حق تعالیٰ تو کراوے سجدے باصد عزو شان
اور کھڑا رہنا نہو جائز یہ کیسا ہے گمان
بو لہب جس کی ہے ذم میں سورئہ تبت یدا
مژدئہ میلادِ حضرت جب ثویبہ سے سنا
ہو کے شاداں اَنتِ حُرہ اِذھَبِی اس کو کہا
ساتھ اس کہنے کے اس کا ہاتھ بھی کچھ ہل گیا
عین آتش میں ہے جاری آب اس کے ہاتھ سے
جس کے پینے سے ہے تسکیںپیاس کے صدمات سے
یہ اثر اللہ اکبر مجلسِ میلاد کا
کفر و دوزخ میں ہو جس کی آ بیاری برملا
پھر جو ایمان بھی ہو ساتھ اس جشن کے سوچوذرا
مبغضوں کی طرح کیامحروم وہ رہ جائے گا
یہ نہیں ممکن کہ رنج و شادمانی ایک ہوں
یہ تو ایسا ہے کہ جیسے آگ پانی ایک ہوں
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کے بارے میں انتہائی محققانہ انداز میں اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
حضـرت موسیٰ نے جب دیکھی تجلّی طور پر
گو نہ دیکھا حق کو پھر بھی بڑھ گئی ایسی نظر
کہ شبِ یَلدَا میں دس فرسخ پہ چیونٹی ہو اگر
دیکھ لیتے طور کی رویت کا تھا ایسا اثر
پھر جو خود اللہ کو دیکھا شہِ دین نے دوبار
کونسی شیٔ ہے جو حضرت پر نہ ہوتی آشکار
فرقہ ہائے باطلہ کا رد منقول جوابات کے ساتھ معقول طور پر بھی کرتے تھے، ایک نمونہ ملاحظہ کیجئے ، آپ افادۃ الافہام حصہ دوم میں قادیانیت کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’مرزا صاحب جو کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ راویوں نے عمداً یا سہواً خطا کا امکان پیش کر کے وہ اکابرین نشانہ ملامت بنائے جائیں‘‘۔
آپ کی حیات طیبہ اس حدیث شریف کے مطابق احقاق حق اور ابطال باطل کا نمونہ تھی جیسا کہ صاحب مشکواۃ المصابیح نے کتاب العلم میں بیہقی سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر ایک دوسرے کے پیچھے آنے والی پرہیز گاروں کی جماعت اس علم کی وارث ہوگی جو غلو کر نے والوں کی تحریف اور باطل پرستوں کی دروغ بیانی اور جاہلوں کی تاویل کی اس علم سے دور کرتے رہیں گے۔
غرض کہ آپ دین کے ’’ہادی‘‘ اور ضلالت کو مٹانے میں ’’مجاہد اعظم‘‘ تھے گر چیکہ آپ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن ان کی روحانیت کا اثر اور ان کافیض آج تک قائم ہے اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment