امام محمدانوار اللہ فاروقی
کے جلیل القدر اساتذہ کرام
بقلم: مولانا حافظ و قاری قاسم صدیقی تسخیر ، استاذ جامعہ نظامیہ
نام مع ولدیت :۔ الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد العربی الطائی الحاتمی۔ یہ قبیلہ بنی طے اور حاتم طائی کی اولاد میں سے ہیں ۔
ولادت :۔سترھویں رمضان ۵۶۰ھ میں تولد ہوئے آپ کی تاریخِ ولادت ’’نعمت‘‘ہے۔
مولد:۔ مریسیہ ازمتعلقات اندلس یا اسپین یا ہسپانیہ ۔
وفات:۔ بائیس ربیع الثانی ۶۳۸ھ میں اس جہانِ فانی سے جہان باقی کی طرف توجہ کی ۔ آپ کا سال وفات ’’صاحبُ الارشاد‘‘ سے نکلتا ہے۔
مزار:۔ آپ کا مزار دمشق شام میں ہے مزار پر نہایت عمدہ گنبد ہے اور ایک بہت عمد ہ مسجداس سے ملحق ہے یہ مزار محلہ صالحیہ میں ہے پاس قاسون پہاڑ ہے جس پر غارِ اہلِ کہف ہے اس پہاڑ پر ہابیل کا خون بھی بتاتے ہیں ۔
شیخ ابن عربی کا طریقہ اکبریہ
سید المرسیلن حبیب رب العالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
وعنہ الامام مظہر العجائب علی ابن أبی طالب رضی اللہ عنہ
وعنہ سید نا الحسن البصری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا أبو محمد الحبیب العجمی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا داؤد الطائی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا معروف کرخی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا السری السقطی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا سید الطائفہ ابوالقاسم جنیدالبغدادی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابوبکر محمد بن خلف شبلی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا عبدالعزیز التمیمی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا عبدالواحد بن عبدالعزیزالتمیمی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو الفرح محمد بن عبداللہ الطرطوسی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا علی بن احمد الہنکاری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا أبو سعید المبارک بن علی المخرمی المخزومی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو محمد الغوث الأعظم محی الدین عبدالقادرالحسنی الحسینی الکیلانی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو السعود ابن الشبلی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد الاندلسی الدمشقی المشہور بالشیخ اکبرر ضی اللہ عنہ
شیخ کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے
سیدنا مرآۃ الذّات واوّل التجلیات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
وعنہ الامام الہمام أسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا الشیخ الحسن البصری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا عبدالواحد بن زید رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا فضیل بن العیاض رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا سلطان ابراہیم بن أدہم البلخی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابوعلی شقیق بن علی بن ابراہیم رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا أبو تراب عسکر بن الحصین النخشی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو عمر والا ضطخری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا جعفر الحذاء رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو عبداللہ بن الحفیف رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا الحسن الاکّار رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو اسحاق بن شہر یا ر المرشد رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابوالفتح محمودبن احمدبن علی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدناابو الحسن علی بن محمد البصری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو الفتح محمدبن قاسم الفاسی العد ل رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا شیخ الاکبر محی الدین بن علی العربی الطائی الاندلسی الدمشقی رضی اللہ عنہ
شیخ کے معاصرین
الشیخ شہاب الدین عمرالصدیقی السہروردی رضی اللہ عنہ
الشیخ اوحدالدین الکرمانی رضی اللہ عنہ
الشیح صدرالدین القونوی رضی اللہ عنہ
الشیخ موئد الدین الجندی رضی اللہ عنہ
الشیخ عمر بن فارص البکری المصری رضی اللہ عنہ
الشیخ فخر الدین العراقی رضی اللہ عنہ
شیخ کے آخر زمانے میں جلال الدین صدیقی رومی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ کے تصنیفات
عقلہ المستوفرہ
عقیدۂ مختصرہ
عنقائے مَعَرَّب
قصیدہ البلادرات العینیہ
القول النفیس
کتاب تاج الرسایل
کتاب الثمانیہ والثلاثین وہو کتاب الازل
کتاب الجلالہ
کتاب مااتی بہ الوارد
کتاب النقبا
کتاب الیاد ہو کتاب الہود
مجموعہ رسایل ابن العربی
مراتب الوجود
مواقع النجوم
فتوحاتِ مکیہ : چار بڑی بڑی جلدوں میں ہے۔
نقش النصوص :۔ اس کی شرح مولانا جامیؔ نے کی ہے اور اس کانام نقد النصوص ہے بمبئی میں ملتی ہے ۔
تفسیر صغیر:۔ جو مطبوعہ مصر ہے عام طور سے ملتی ہے ۔
تفسیر کبیر :۔جو سنتے ہیں کہ فرانس کے کتب خانے میں قلمی ہے
کتب مندرجۂ بالاکتب خانہ آصفیہ میں موجو دہ ہیں اور ان میں کی بہت سی کتابیں فقیر کے پاس بھی موجود ہیں ان کے سوا شیخ کی بہت سی تصنیفات ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔
شیخ فتوحات مکیہ جلداوّل صفحہ (۳۶)میں فرماتے ہیں۔
اے میرے برادران واحباب اللہ تعالیٰ تم سے راضی رہے۔تم کو گواہ بناتا ہے ـضعیف مسکین جوہرآن ہر لحظہ فقیرومحتاج الی اللہ ہے ۔ وہ اس کتاب کا مصنف ومنشی ہے۔وہ تم کو اپنے نفس پر گواہ کرتا ہے بعد اس کے کہ وہ گواہ کرتا ہے اللہ کو اس کے فرشتوں کو اور تمام حاضرمومنین کو اور جو سنیں ان کو بھی اپنے قول وعقیدے پر شاہد بناتاہے کہ
اللہ ایک ہے ، الوہیت میں اس کا ثانی نہیں وہ بیوی بچوں سے پاک ہے منزہ ہے وہ سب کا مالک ہے، اسکا کوئی شریک نہیں بادشاہ ہے ، اسکاکوئی وزیر نہیں ، صانع ہے اس کو کوئی تدبیر بتانے والا نہیںوہ بذاۃ موجودہے ، وہ کسی موجد کا محتاج نہیں اللہ کے سوا جتنی چیزیں ہیں اپنے وجود میں سب اس کے محتاج ہیں پس تمام عالم اس سے موجود ہے ۔ وجو دبالذّات وبنفسہ سے صرف وہ موصوف ہے،وہ عرض نہیں ہے کہ اس کی بقا مستحیل ہو، وہ جسم نہیں ہے کہ اسکے لئے جہت اور مقابلہ ہو، وہ جہات واقطار سے مقدس وپاک ہے اس کا دیداردل سے بھی ہوسکتا ہے اور آنکھوں سے بھی جب چاہے اپنے عرش پر مستوی وجلوہ گر ہوتاہے اس استوا سے اللہ کی جو مراد ہومیں اس پر ایمان رکھتاہوں ، عرش وماسوائے عرش حق جل وعلاہی سے قائم ہے دنیا بھی اسی کی ہے آخرت بھی، اول آخر سب اسی کا ہے، اس کا مثل معقول نہیں ، اسکی بے نظیری مجہول نہیں ،زمانہ اس کو محدود نہیںکرسکتا، مکان اس کو بلند نہیں کرسکتا ، وہ اس دم بھی تھا جب مکان نہ تھا وہ جیسا تھا ویسا ہی رہا او ررہے گا ، مکان اور متمکن دونوں کو ا س نے پیدا فرمایا، زمانے کو بھی اس نے پید اکیا، وہ فرماتا ہے میں ایک ہوں زندہ ہو ں مجھے حفاظت مخلوقات دشوارنہیں ، اس کی کوئی صفت ایسی نہیںجو مصنوعات کے پیدا کرنے میں پہلے سے نہ تھی اللہ تعالی اس سے اعلیٰ ہے کہ حوادث اس میں حلول کریں یااس کے صفات اس کے بعد پیداہوئے ہوں یااللہ تعالیٰ اپنے صفات سے پہلے ہو، کیونکہ یہ قبل ومابعد زمانے کے لحاظ سے ہیں جو اس کا مخلوق ہے وہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی دوسری شئے نہ تھی، وہ قیوم ہے اس پر سب کا قیام ودارومدار ہے، وہ کبھی نہیں سوتا، وہ قہار ہے اس کی ساحت عزت تک کسی کی رسائی نہیں، اس کا مثل کوئی نہیں، اس نے عرش پیداکیا اور استوا کو سلطنت کی حدبنایا، اس نے کرسی پیدا، پست زمین اور بلند آسمانوں سے اس کو وسیع تر پیدا کیا ، اس نے لوح وقلم کوپید اکیا او رروزقیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اپنے علم کے مطابق قلم سے لکھوایا، اس نے بغیر کسی سابقہ نمونے کے عالم کوپیدا کیا ، مخلوقات کوپیداکیا اور ان کو کہنہ بھی کردیا ، ارواح کو اجساد میں امین بناکر اتار ا۔ جن میں روح اتری ہے اپنا خلیفہ بنایا، آسمان زمین میں جو کچھ ہے اسکو اپنی قدرت سے انسان کا مطیع فرمادیا، جو ذرّہ حرکت کرتا ہے اس سے اسی کی طرف حرکت کرتا ہے، سب کچھ اس نے پیدا کیا، اس کو کسی کی حاجت نہ تھی، اس پر ان کے پیدا کرنے کو کسی نے واجب نہیں کیا، پیداکرنے سے پہلے اس کو ان سب کا علم تھا لہذا وہی اوّل ہے وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے، وہ ہر شئی پر قادر ہے سب کوعلم سے احاطہ کیا ہوا ہے، تمام اشیا کے عدد سے وہ واقف ہے، وہ رازوں کو اورخفی تر چیزوں کو جانتا ہے، آنکھوں کی خیانت اور سینے جن چیزوں کو چھپا تے ہیں سب کو جانتاہے ، بھلا جس کو اس نے پیدا کیا ہواس کو کیوں نہ جانے گا، کیا خود خالق بھی ہوگا اور پھر مخلوق کو نہ جانے گا ، وہ لطیف وخبیر ہے ، اشیاء کے پہلے ان کو جانتا تھا پھر اپنے علم کے موافق ان کو پیدا کیا، جب علم کے مطابق اشیا مخلوق ہوئے تواسکا علم متجدد نہ ہوا،تمام چیزوں کواتفاق وضبط سے پید ا کیا، اسی علم کے موافق تمام اشیاپر حکومت کرتا ہے اور ان پر دوسروںکو حاکم بناتاہے ، وہ تمام کلیات کو جانتاہے، جیسے وہ تمام جزئیات کا علم رکھتاہے، اس مسئلے پر تمام عقل سلیم ورائے صحیح رکھنے والوںکا اتفاق واجماع ہے پس وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے، جن چیزوں سے لوگ شرک کرتے ہیں ان سے وہ اعلیٰ وارفع ہے، اس کی قدرت کسی شئے سے متعلق ہوتی ہے تو اس سے پہلے اس کا ارادہ متعلق ہوتاہے، اس کا ارادہ کسی شئے سے متعلق نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس سے پہلے علم متعلق رہتا ہے، یعنی جان کر ارادہ کرتا ہے ، ارادہ کرکے کام کرتا ہے، عقل محال سمجھتی ہے کہ بغیر علم کے ارادہ کرے اورپھر فاعلِ مختار صاحب قوت واقتدار بھی ہو، ترک فعل کی طاقت رکھتا بھی ہو ،اسی طرح محال ہے کہ صفات بغیر ذات کے قائم رہیں، پس پہلے ذات کا مرتبہ ہے پھر صفات کا، صفات میں پہلے حیات ہے پھر علم پھر ارادہ پھر قدرت وکلام ، اس سے معلوم ہوگیا کہ تمام چیزیں ارادہ الہیٰ ہی سے ہیں، خواہ طاعت ہوخواہ عصیان خواہ فائدہ ہو خواہ نقصان ، بند ہ ہویا آزاد حیات ہو یا موت حصول ہو یا قوّت، دن ہو یا رات، اعتدال ہو یا میل، برہویابحرجفت ہو یا طاق ، جوہر ہو یا عرض، صحت ہو یا مر ض ، خوشی ہو یا غمی روح ہو یا جسد، روشنی ہویاتایکی، زمین ہویا آسمان، ترکیب ہو یا تحلیل، کثیر ہو قلیل، صبح ہویا شام، سپیدی ہو یا سیاہی ، سونا ہو یاجاگنا، ظاہر ہویاباطن، متحرک ہو یا ساکن،خشک ہو یا تر،پوست ہو یا مغز ،یہ نسبتیں جو متضاد بھی ہیں مختلف بھی ، مماثل بھی سب تحت ارادہ حق جل وعلا ہیں، یہ تحت ارادہ الہی کیونکر نہ ہوں گی جب کہ اللہ ان کا ایجاد کرنے والا ہے، کیا بے ارادہ کام کرنے والا مختار بھی ہوسکتا ہے، کوئی اس کے ارادے کو روک نہیں سکتا ،کوئی اس کے حکم سے پیٹھ نہیںپھیر سکتا، جس کو چاہتا ہے ملک حکومت دیتا ہے، جس سے چاہتا ہے ملک وحکومت کو نکال لیتاہے، جس کوچاہتا ہے عزّت دیتاہے، جس کوچاہتا ہے ذلّت دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے گم راہ کرتاہے جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے ، جو چاہا ہو ا جو نہ چاہا نہ ہوا، بغیر اللہ کے ارادے کے کوئی ارادہ بھی نہیں کرسکتا بندے کسی کام کا لاکھ ارادہ کریں جب تک خدانہ چاہے وہ کام نہ ہوگا ، نہ اس کے کرنے کی استطاعت وقوّت ہی پید ا ہوگی، پس کفروایمان طاعت وعصیان اس کی مشیت وحکمت وارادت سے ہیںخدائے تعالی کا ارادہ ازلی ہے، عالم، بالذّات معدوم ہے غیر موجود فی الخارج ہے اگر چہ ذات الہی میں ثابت موجود ذہنی کے طور پر ہے، عالم کو خدانے ایجاد کیا مگر اس نے نہ فکرکی نہ جہل وعدم علم سے تدبیر کیا اور نہ تفکر وتدبر سے علم مجہول حاصل ہوا، وہ اس سے اعلیٰ وارفع ہے، اللہ نے عالَم کو ایجاد کیا تو اپنے علم سابق کے موافق اور ارادہ منزہ ازلی کے فیصلے اور تعیین کے مطابق خواہ مکان ہو یا زمان یا اکوان حقیقی وبالذّات ارادہ اللہ ہی کا ہے ، وہ خود فرماتا ہے وماتشاؤ ن الاان یشاء اللہ، اللہ تعالی نے علم کے موافق حکم کیا ، ارادے کے موافق خصوصیتیں عطاء کیں اندازہ وتقدیر کے موافق ایجاد کیا جو متحرک وساکن ہے، جو عالم اعلیٰ واسفل میں ناطق وگویاہے سب کو دیکھتا سنتاہے بُعد اس کی سماعت کا حجاب نہیں ہو سکتا، وہ قریب ہے قرب اس کی بصارت کا حجاب نہیں ہوسکتا، وہ بعید ہے دل ہی دل میں جو گفتگو کرو اسکو وہ سنتا ہے،ہاتھ کی رگڑکی خفیف سی خفیف آواز سنتا ہے، سیاہ چیز کو اندھیری وظلمت میں پانی کو پانی میں دیکھتا ہے نہ ریزش وامتزاج حجاب ہوتاہے نہ ظلمات ونور مانع ، ھوالسمیع البصیر، اللہ تعالیٰ کلام فرمایا ، مگر اس سے پہلے نہ وہ صامت تھانہ ساکت جیسا اس کا علم ، ارادہ اور قدرت قدیم ہے اسی طرح اس کا کلام بھی قدیم ہے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایااپنے کلام کا نام تنزیل وزبور وتورات انجیل رکھا، اس کاکلام نہ انسان کی طرح حرف ہے نہ صوت نہ نغمہ نہ لغات بلکہ وہ خالق اصوات وحروف ولغات ہے، اس کے کلام کے لیے نہ زبان کی ضرورت ہے نہ کوّے کی حاجت۔ جس طرح کہ اس کی سماعت کیلئے نہ سوراخ گوش کی ضرورت ہے نہ کان کی جس طرح اس کی بصر کے لیے نہ دید ے کی ضرورت ہے نہ پپوٹے کی، جیسے اس کے ارادے کا مقام نہ دل ہے نہ دماغ ،اسکاعلم نہ اضطرارسے ہے نہ دلیل وبرہان میں غور وفکر سے، نہ اس کی حیات اس بخار سے ہے جو امتزاجِ ارکان سے تجویف قلب سے نکلتاہے، اس کی ذات نہ قابل زیادت ہے نہ نقصان، سبحان اللہ وہ قریب بعیدہے، اس کی سلطنت عظیم ہے اس کے احسانات عمیم ہیں اس کاامتنان کثیر ہے، ماسویٰ اللہ اس کے جو د وسخا سے فایـــض ہے اس کا فضل وعد ل ، باسط ہے قابض ہے، عالم کی پیدایش کو کامل وعجیب وغریب بنایا جب کہ اس کو ایجاد کیا اختراع کیا، اس کا اس کے ملک وسلطنت میں کوئی شریک نہیں،نہ اسکے ملک میں کوئی اس کے ساتھ مدبر ہے نہ مشیر ہے، اگر اس نے انعام عطا کیا اور اچھا انعام عطا کیا تو ا س کا فضل ہے، اگر عذاب میں مبتلا کیا تو اس کا عدل ہے، اپنے غیر کے ملک میں اس نے تصرف نہیں کیا کہ جو روستم کی اس کی طرف نسبت کی جائے، کوئی اس پر حکم نہیں لگا سکتا کہ اسے جزع وفزع کرنا پڑے، ہر ایک اس کے سلطان قہر کے ماتحت ہے، وہ اپنے ارادے وامر سے متصرف ہے، وہ نفوس مکلفین میں تقویٰ وفجور ڈالتا ہے، لوگوں کے گناہو ں سے جس سے چاہتاہے تجاوزکرتاہے ،اور جس سے چاہتاہے مواخدہ کرتا ہے، یہاں بھی اور روزقیامت میں بھی، فضل کے موقع پر عدل نہیں کرتا اور عد ل کے موقع فضل نہیں کرتا، عالم دومٹھیوں سے نکالا، اور ان کے دودرجے کیے پھر فرمایا یہ جنت کیلئے اور مجھے اسکی کیا پرواہے اور یہ دوزخ کیلئے اور مجھے اس کی کچھ پروا نہیں،اس وقت اس پر کسی نے اعتراض نہ کیا کیونکہ اس وقت اس کے سوا کوئی تھا ہی نہیں، سب اس کے اسما کے زیر تصرف ہیں ایک مٹھی میں کے توبلاانگیزاسماکے ماتحت ہیں اور ایک مٹھی میں انعام واکرام بخش اسماکے ماتحت ہیں، اللہ سب کو خوش بخت کرنا چاہتا توہو سکتا، بدنصیب کرنا چاہتا تو کرسکتا ، مگر اس نے ایسا نہ چاہا، ہو ا وہی جیسا کہ اس نے چاہا، لہذا اُن میں سے بعض شقی ہیں بعض سعید ، یہاں بھی اور آخرت میں بھی، اللہ کے حکم قدیم میں تغیر وتبدل نہیں ہے، نمازکے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا بظاہر یہ پانچ ہیں او ردرحقیقت پچاس ہیں ۔
میری بات بدل نہیں سکتی، میں بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا، میراتصرف میری ملک میں ہے اور میری مشیت میری ملک میں ہے، اس کی ایک حقیقت ہے، جہاں تک نہ بصارت کی رسائی ہے نہ بصیرت کی اور نہ فکر وضمیر کو اس سے واقفیت ہے مگر یہ کہ اللہ کی موہبت اور رحمان کی سخاوت ان بندوں سے متعلق ہو، جن پرتوجہ خاص مبذول ہے، اُس کے نظام نامے میں مکتوب ہے، ان سب سے معلوم ہوگیا کہ شان الوہیت نے یہ تقسیم کی ہے، اور اس میں حکمت قدیم ہے، سبحان اللہ اس کے سواکوئی فاعل نہیں ،وہ سب کاخالق ہے۔اس کا کوئی خالق نہیں خلقکم وماتعملوناللہ نے تم کو بھی پیدا کیا او رتمہارے افعال کو بھی، لا یسئل عمایفعل وھم یسئلون اسکے کام پر کسی کو سوال کرنے کا مقدرونہیں ، بندوںسے جواب پر سی کا اس کو حق ہے، للہ الحجۃ البالغۃ لوشاء لھدکم اجمعین، اللہ کی حجت تام ہے ، وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کردیتا۔
دوسری شہادت :۔
میں گواہ بناتاہوں اللہ کو نیزاس کے فرشتوں کو اور تمام خلق کو اور تم کو اپنے نفس پر کہ میں توحیدالہی کا قائل ومعتقدہوں نیز اللہ سبحانہ کو گواہ بناتاہوں اور فرشتوں کو اورتم کو اپنے نفس پر کہ میں حضرت محمد مصطفی مختار ومجتبیٰ برگزیدہ خلایق وموجودات صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتاہو ں، اللہ تعالی نے آپ کو تمام لوگوں پر بشیرونذیر بناکر بھیجا، آپ اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، آپ سراج منیر ہیں ، شمع روشن ہیں، اللہ تعالی نے آپ پرجوکچھ اتارا اس کی تبلیغ کی، اللہ کی امانت کو آپ نے ادا، کیاآپ نے حجۃ الوداع آخرحج میں تمام حاضرین کے سامنے خطبہ پڑھا، آپ نے نصیحت کی ڈرایا دھمکایا خوشخبری دی وعدووعید فرمایا، گویا آپ بر سے بھی گرجے بھی، آپ کی نصیحت کسی سے خاص نہ تھی یہ سب بحکم واحد وصمدتھا، پھرآپ نے فرمایا دیکھو کیا میں نے تبلیغ نہیں کردی، لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ نے تبلیغ کی سب کچھ پہنچا دیا، آپنے فرمایا اللہ تو گواہ رہ، پھرآپ سے کہتاہوں کہ حضرت جو کچھ عقایدو احکام لائے ہیں میں اس پر ایمان لایاہوں، میں اس کامومن ہوں، احکام نبوی میں سے جن کو جانتا ہوں جن کو نہیں جانتا سب پر ایمان ہے ، میں ایسا ایمان رکھتاہوں جس میں نہ شک ہے نہ شبہ ، میں ایمان رکھتاہو ںکہ وقت مقرر پر موت حق ہے میں ایمان رکھتا ہوں کہ قبرمیں ، منکرنکیر کا سوال حق ہے اجساد کا قبروں سے بعث اور اٹھنا حق ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض اور پیش ہونا حق ہے، حو ض کوثر حق ہے میزان حق ہے، اعمال ناموں کا اڑکر ہاتھوں میں آنا حق ہے، صراط پر سے گزرناحق ہے، جنت بھی حق ہے دوزخ بھی حق ہے۔بعض لوگوں کا جنت میں جانا اور بعضـ کا دوزخ میں جانا حق ہے، بروزقیامت بعض لوگوں پر کرب وبے قراری بھی حق ہے، بعض لوگوں کو اس پر یشانی کے وقت حزن وغم نہ ہونا بھی حق ہے، انبیاء ملائکہ اور مومنین کی شفاعت بھی حق ہے،ارحم الراحمین کاسب کی شفاعتوں کے بعد بعض کو دوزخ سے نکالنا بھی حق ہے، خواہ کبیرہ گناہ کرنے والے گناہگاروںکو دوزخ میں ڈالنا پھر نکالنا بھی حق ہے، خواہ شفاعت سے، خواہ امتنان واحسان سے مومنین وموحدین کا جنت میں دائمی نعمتوںمیں ابدتک رہنابھی حق ،دوزخیوں کا ابدتک دوزخ میں رہنا بھی حق ہے ۔کتب آسمانی اور انبیاء سے جو کچھ پہنچا ہے حق ہے، خواہ ہم کو معلوم ہو یا نہ ہو، یہ میر ی شہادت ہے میرے نفس پر، یہ میری امانت ہے جس کے پاس یہ امانت پہنچے ، اگراس سے کوئی سوال کرے تووہ اس کو ظاہر کردے ، اللہ تعالی ہم کو تم کو اس ایمان سے نفع بخشے،جب ہم اس دار فانی سے انتقال کریں اس پر ثابت وقائم رکھے۔
شیح کا فلسفہ
شیح کے فلسفے یا تصوّف کا دارومدار ان اصول پر مبنی ہے۔
(۱) وجود بالذّات حق تعالی میں منحصر ہے ، ماسوااللہ کا وجود بالعرض ہے۔
ممکن کا بالعرض وجود
ہستی حق ہی حقیقت ہے
(حسرتؔ)
(۲)وجود بمعنی مابہ الموجودیۃ عینِ ذات حق ہے، حق تعالیٰ کے سوا جتنے ہیں سب انتزاعی ہیں ان کا وجود مستقل تو کجا وجود انضمامی بھی نہیں ہے۔
خارج میں ہے اصل وجود
علم میں ساری حقیقت ہے
(حسرتؔ)
(۳)اسمائے الٰہہ نیزممکنات لاعین ولاغیرہیں یعنی ان کا منشا ذات حق ہے اوربعد انتزاع ومفہوم ہونے کے غیر ہیں۔
ذات وصفت ہیں فہم میں
منشا میں عینیت ہے
(حسرتؔ)
(۴)علم ومعلومات حق یعنی اعیان ثابتہ کا مرتبہ قبل قدرت وارادہ ہے یعنی غیر مخلوق ہیں۔
کن سے پہلے جو کچھ ہے
وہ مافوق القدرت ہے
(حسرتؔ)
(۵)اعیان ثابتہ وحقایق أشیا ظہورات اسمائے الہی کے امکانات ہیں جن کو وجود خارجی کی بوتک نہیںپہنچی۔
اعیان، امکانات ہی ہے
ان میں کب موجودیت ہے
(حسرتؔ)
(۶)کُن سے پہلے مراتب داخلی والہی ہیں، اورکن کے بعد مراتب خارجی ومخلوقات ہیں۔
(۷)اعیانِ ثابتہ مخلوقات وحقایق کونیہ ، وطباع ممکنات پر اسماء صفات الہی کی تجلی ہوتی ہے یا یوں کہو کہ علم کے ساتھ قدرت الہی ملتی ہے ، توان دونوں کے ملنے سے جو چیز نمایاں ہوتی ہے وہ مخلوقات وممکنات ہیں۔
عین سے جب کن ملتاہے
حادث ساری خلقت ہے
(حسرتؔ)
(۸)اعیانِ ثابتہ وحقایق ممکنات پر ویسی ہی تجلی ہوتی ہے جیسا ان کا اقتضا ہے ،
دیتا ہے ہر اک کو حکیم
جس کی جیسی لیاقت ہے
وہی نمایاں ہوتا ہے
جس کی جیسی فطرت ہے
(حسرتؔ)
(۹)حقیقت کلی پرتجلی کلی ، اور حقیقت جزئی پر تجلی جزئی ہوتی ہے۔
قدرِ وسعِ آئینہ
ظاہر ہوتی صورت ہے
(حسرتؔ)
(۱۰)اَعیان وحقایق کے متعلق سوال نہیں کیا جاسکتاکہ وہ ایسے کیوںہیں۔
کیونکہ سوال کی حد بھی ہے
خارج اس سے حقیقت ہے
(حسرتؔ)
(۱۱)تقدیر کیا ہے۔ عالم میں جو کچھ نمایاں ہونے والا ہے ، اس کا نظام العمل یا پر وگرام ہے ۔
ترتیب اعیاں میں ظہور
عینِ قدر و قسمت ہے
(حسرتؔ)
(۱۲)اسے ب پید ا ہوا، ب کا نیتجہ ج ہے ج کو د لازم ہے تویہ استلزام ہے نہ کہ جبر ، جبر کیا ہے کسی کو اس کے اَفعالِ طبیعی سے کسی خارجی قوّت کا روکنا۔
استلزام نہیں ہے جبر
جبر تو غیرکی قوت ہے
(حسرتؔ)
(۱۳)وجودِمطلق،غیرِمطلق ہے اور عدمِ محض شرِمحض وجود اضافی کے ساتھ عدمِ اضافی لگارہتاہے لہذا اس سے کچھ شر ظاہر ہوتاہے۔
شرّیت سب عدم سے ہے
ہست میں سب خیریت ہے
فہم میں جو شرآتاہے
مرجع اس کا اضافت ہے
(حسرتؔ)
(۱۴)مرکبات کو جو اعتباری مگر واقعی ہونے میں مخلوقیت مجھولیت یعنی پیدا ہونا عارض ہوتا ہے نہ کہ بسایط کو۔
(۱۵)مرکب گو اعتباری ہوتاہے مگر اس کی بھی ایک طبیعت وحقیقت ہوتی ہے اور اس کے لوازم وآثارہو تے ہیں جو اجزاء کے آثار کے سوا ہیں۔
خلق بسیط نہیں ہوتا
غیرمیں مخلوقیت ہے
اجزاکے احکام ہیں اور
کل کی اور علامت ہے
(حسرتؔ)
(۱۶)علم معلوم کا تابع ہوتا ہے یعنی جیسی چیزہوتی ہے ویساہی خدائے تعالیٰ جانتاہے یہ کہ کچھ او رہے اور جانتاکچھ اور طرح ہے۔
(۱۷)انقلاب حقایق جائزنہیں پس عدم ، وجود نہیں ہوسکتا نہ وجودعدم ۔
نیست بھلا کیا ہوگا ہست
باطل قلبِ حقیقت ہے
(حسرتؔ)
(۱۸)وجود علمی کو ثبوت ، اوروجود خارجی کو وجودکہتے ہیںبعض دفعہ ثبوت وجودعلمی کو عدم بھی کہہ دیتے ہیں لہذا اعیانِ ثابتہ ، جو معلوماتِ حق ہیں غیر موجو دفی الخارج اور معدوم ہیں
(۱۹)عین ثابتہ کی استعداد کلی کے مطابق عین خارجی کے استعدادات پیدا ہوتے ہیں۔
(۲۰)حق تعالیٰ سے ہردم وہر لحظہ امداد وجود ہے اورممکن ومخلوق ہر لحظہ اس کی طرف محتاج ہے حق تعالیٰ قیوم السماوات والارض ہے ۔
(۲۱)ظہورات وتعلقات کے حدوث سے اصل شئے کا حدوث لازم نہیں آتا۔
(۲۲)شئے کے دو تعین ہوتے ہیں ایک تعینِ ذاتی، ذات کے لحاظ سے جو کبھی نہیں بدلتا، دوم تعینِ وصفی جو اوصاف کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے اس تعین کے بدلنے سے ذات کی جزئیت وتشخص پر کوئی اثرنہیںپڑتا ۔
(ماخوذ از: فصوص الحکم (ترجمہ )اعتقاد پبلشنگ ہاؤس دہلی، جون۱۹۸۷ء)
خخخ
٭٭سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، محتاج تعارف نہیں خلیفہ دوم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، کے بعد امت مرحومہ کے افضل ترین فرد ہیں آپ کی شان میں متعدد آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی وارد ہیں۔ عدل و انصاف و علم و فضل کے اعتبار سے غیر مسلم مورخین نے بھی آپ کی عظمت کو سلام کیاہے۔
ز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابی تھے۔ زہد و تقویٰ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔
ز خواجہ ناصر بن عبداللہ تابعین میں سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ ابراہیم بن ناصر بھی تابعین سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز اسحاق بن ابراہیم تبع تابعین اور عظیم مجتہد تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز ابوالفتح بن اسحاق بھی تبع تابعین سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ عبداللہ واعظ الاکبر جید عالم دین اور واعظ و محدث تھے آپ ابوالفتح کے بڑے فرزند تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ عبداللہ واعظ الاصغر بن عبداللہ واعظ الاکبر ظاہری و باطنی علوم کے مخزن تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ مسعود بن عبداللہ وقت کی نامور شخصیت ہوئے ہیں خلفائے آل عباس نے بڑی منت سماجت سے آپ کو مکہ سے بلاکر بغداد رکھا وہ آپ کے از حد معتقد تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
زسلیمان بن مسعود علم و عمل کا حسین پیکر تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز محمود بن سلیمان علم و فضل کے علاوہ عسکری امور میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے خلیفہ وقت نے آپ کو ترکستان کے محاذ پر سپہ سالار بناکر بھیجا آپ کامیاب ہوئے پھر آپ نے غزنی کا قلعہ فتح کیا خلیفہ نے آپ کو غزنی کا حکمران بنا دیا۔ (رضی اللہ عنہ)
زنصیر الدین بن محمود، باپ کے بعد حکمران ہوئے کابل فتح کیا اور اسے اپنا پایہ تخت قرار دیا آپ کی وجہ سے ہی حضرت مجدد کابلی بھی کہلواتے ہیں۔ (رضی اللہ عنہ)
ز شہاب الدین معروف بہ فرخ شاہ کابلی، والد بزرگوار کے بعد حکمران ہوئے آپ نے ہندوستان، ایران، توران بدخشاں اور خراسان پر کامیاب حملے کئے آپ اوصاف حمیدہ کے مالک اور عدل گستر فرما روا تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز یوسف بن فرخ شاہ کامیاب حکمران ہوئے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز احمد بن یوسف نہایت متقی اور صاحب حال بادشاہ تھے باطنی استفادہ شیخ شہاب الدین سہروردی سے کیا۔ (رضی اللہ عنہ)
ز شعیب بن احمد باپ کے بعد خانقاہ میں ان کے خلیفہ مقرر ہوئے نہایت صاحب کشف و کرامت تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز عبداللہ بن شعیب نے شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی رضی اللہ عنہ سے استفادہ کیا ان کے خلیفہ بھی تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز اسحاق بن عبداللہ صاحب حال بزرگ تھے اپنے والد کے مرید تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز یوسف بن اسحاق علوم ظاہر و باطن کے جامع تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز سلیمان بن یوسف نہایت متقی اور پارسا شخصیت کے مالک تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز نصیر الدین بن سلیمان نے مشائخ چشتیہ سے فیض لیا کامل بزرگ تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
حضرت فرید الدین گنج شکرفاروقیؒ
حضرت فرید الدین گنج شکرؒ: مسعود بن سلیمان کا شمار برصغیر پاکستان و ہند کے مشہور و معروف جن کا شمار صوفیہ اسلام کے سلسلہ چشتیہ مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔ پاکستان و ہند کے لاکھوں مسلمان ہر دور میں ان کی عقیدت مندی پر آئے ہیں۔
ارباب سیر میں سے اکثر نے لکھا ہے کہ شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے ۹۵ برس کی عمر پائی۔ (اقتباس الانوار، ص ۱۷۵، کرمانی: سیر اولیاء، ص ۹۱) عمر کے بارے میں اس روایت کو صحیح سمجھا جائے تو ان کا سن ولادت ۵۷۵ھ؍۱۱۷۴۔ ۱۱۷۵ء نکلتا ہے۔ اس تاریخ کی تصدیق ایک دوسری روایت سے ہوجاتی ہے کہ شیخ مسعود نے پندرہ سال کی عمر میں خواجہ بختیارؒ اوشی کے ہاتھ بیعت کی اور بیعت کے بعد اسی سال زندہ رہے۔ (کرمانی: سیر اولیاء، ص ۹۱، محمد اکرم براسوی: اقتباس الانوار، ص ۱۷۵)
شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے والد کمال الدین یا جمال الدین سلیمان اور دادا شعیب ملتان کے قریب ایک مقام کھوتی وال (سیر اولیاء: کھتوال، تاریخ فرشتہ: کھوتوال، مرقع ملتان، ص ۵۱۰، آج کل تلفظ کوٹھی وال )کے قاضی تھے جو سلطان شہاب الدین غوری معز الدین سام کی مہمات سندھ و ملتان (۵۶۷ھ؍۱۱۷۵ء کے بعد) کے دوران میں کابل سے قصور میں آئے تھے (تاریخ فرشتہ، طبع برگس، بمبئی، ۲:۷۲۵، طبع نولکشور لکھنو، ۲: ۳۸۳، میرزا آفتاب بیگ: تحفہ الابرار، ص ۳۴)، اور قصور کے قاضی نے شیخ مسعود کے دادا شعیب کو کھوتی وال (بستی کا یہ نام غالباً جاٹوں کے ایک قبیلہ ’’کھوتی‘‘ سے منسوب ہے، دیکھئے A Glossary Of : A.H.Rose the Tribes and Castes of the Panjab etc، ۳: ۴۲۴، بذیل مادۂ سندھو، ۴۲۷ بذیل مادۂ سوھی) کا قاضی مامور کروا دیا۔ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے جد اعلیٰ یعنی قاضی شعیب کے والد نے جو وہیں کابل میں قیام پذیر تھے۔ چنگیز خان مغول کے ہاتھوں شہادت کا رتبہ حاصل کیا تھا (کابل پر چنگیز خاں کی یلغار، ۶۲۶ھ؍۱۲۲۰ء)۔ یہ خاندان فرخ شاہ کابلی (ایک بزرگ جنہیں سیرت نگار کابل کا بادشاہ بیان کرتے ہیں) کی اولاد سے تھے۔
فرید الدین گنج شکرؒ قصبہ کھوتی وال میں پیدا ہوئے، انہوں نے ملتان کی ایک مسجد میں مولانا منہاج الدین ترمذی سے تحصیل علم کی، یہیں انہوں نے عمر کے پندرہویں یا اٹھارویں سال میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ (رک باں) کے ہاتھ پر بیعت کرکے صوفیہ کے سلسلۂ چشتیہ میں شمولیت حاصل کی۔
مزید تحصیل علم کی غرض سے وہ کچھ عرصے تک قندھار میں مقیم رہے، وہاں سے بغداد، بلاد ایران اور بخارا کی سیاحت اختیار کی اور مشائخ وقت سے فیض پایا۔ ان میں سے حسب ذیل قابل ذکر ہیں: شہاب الدین سہروردی (م ۶۳۲ھ؍۱۲۳۴ء) (رک باں)، سعد الدین حموی (م حسب بیان تاریخ گزیدہ، ۶۵۸ھ؍۱۲۶۰ء و حسب بیان جامی:نفحات الانس بحوالہ یافعی، ۶۵۰ھ؍۱۲۵۲ء)(رک باں)، اوحد الدین کرمانی (م ۶۳۵ھ؍۱۲۳۷ء)، فرید الدین عطار نیشاپوری (م ۶۲۷ھ؍۱۲۲۹ء)(رک باں)، شیخ سیف الدین باخرزی (م ۶۵۸ھ؍ ۱۲۵۹ء) (رک باں)، بہاء الدین زکریا ملتانی (م ۶۶۴ھ؍۱۲۶۶ء) (رک باں)۔
بالآخر وہ ملتان واپس آئے اور اپنے مرشد اور شیخ خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کاکیؒ (م۶۳۴ھ؍۱۳۳۶ء) کی خدمت میں دہلی حاضر ہوئے اور خرقۂ خلافت پاکر وہیں دروازہ غزنویہ کے نزدیک ایک برج میں مجاہدے میں منہمک ہوگئے۔ دہلی میں انہوں نے اپنے دادا پیر خواجہ معین الدین اجمیریؒ عرف خواجہ غریب نواز (م ۶۲۷ھ؍۱۲۳۰ء) (رک باں) کی خدمت میں حاضر ہوکر بھی روحانی فیوض حاصل کیے اور کچھ عرصہ بعد ان کے شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے حکم پر چند سال ہانسی میں اقامت گزین رہے۔ شیخ کی وفات کی اطلاع پاکر وفات کے چوتھے روز دہلی پہنچ گئے اور شیخ کی وصیت کے مطابق قاضی حمید الدین ناگوری کے ہاتھ سے شیخ کا خرقہ، عصا اور نعلین حاصل کیں اور اس طرح اپنے پیر کے جانشین بنے۔ کچھ دن وہاں قیام کرنے کے بعد ہانسی میں ایک مجذوب سرہنگا نامی کے اصرار پر پھر واپس چلے گئے۔ آخر اژدہام خلائق سے تنگ آکر اپنے آبائی گھر کھوتی وال پہنچے۔
لاہور سے وہ اجودھن چلے گئے۔ اور وہاں خانقاہ کی بنا ڈال کر صوفیۂ اسلام کے طریق پر دین اسلام کی تبلیغ ، اشاعت اور مریدوں اور عقیدت مندوں کی اخلاقی روحانی تربیت کرنے میں مصروف ہوگئے۔
شیخ فرید الدین مسعودؒ نے گنج شکر کے لقب سے شہرت پائی۔ اس بارے میں متعدد روایات کتب سیر میں مذکور ہیں جو شکر کے ساتھ ان کی رغبت اور اس سلسلے میں ان کی بعض کرامتوں کو بیان کرتی ہیں، (مثلاً تاریخ فرشتہ، بمبئی ۲: ۷۳۴، طبع لکھنو، ۲:۳۸۸)
شیخ فرید الدین گنج شکرؒکے اوقات تمام تر عبادت، مجاہدہ نفس و استغراق اور مریدوں کی روحانی تربیت میں گزرتے تھے۔ اس لیے جید عالم ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے پیر خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اوشی کے ملفوظات و ارشادات کو مرتب کرنے کے علاوہ اور کوئی کتاب تالیف نہیں کی۔ خود ان کے ارشادات و اقوال کا مجموعہ ان کے خلیفہ اور جانشین خواجہ نظام الدین اولیاءؒنے مرتب کیا جو راحۃ القلوب کے نام سے طبع ہوچکا ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد تبلیغ دین اور اصلاح اخلاق عوام کے لیے اپنے پیچھے چھوڑی۔ ان میں سے چند مشائخ کبار کی صف میں شمار ہوئے، مثلاً خواجہ نظام الدین اولیاء، شیخ علی احمد صابری، جمال الدین ہانسوی، وغیرہ (تفصیل کے لیے دیکھئے اقتباس الانوار، ص ۱۸۱)۔
تلخیص اردو دائرہ معارف اسلامیہ( ) لاہور پاکستان۔
حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی
حضرت شیخ احمد سرہندی ابن شیخ عبدالاحد فاروقی، کا نسب اٹھائیس واسطوں سے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ وہ سرہند کے بزرگوں میں سے تھے، بلکہ برصغیر ہند، پاکستان کے لیے باعث فخر تھے، عالم ربانی مجدد الف ثانی علوم ظاہر و باطن میں فاضل تھے اور انسانی شرافت کے لیے روشن دلیل تھے۔ ۹۷۱ھ ۶۴۔۱۵۶۳ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں حفظ قرآن سے فراغت حاصل کرلی اور اس کے بعد علوم مروجہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اول اپنے والد ماجد سے بعض علوم حاصل کئے۔ پھر سیال کوٹ گئے اور مولانا کمال الدین کشمیری نزیل سیال کوٹ سے نہایت محققانہ انداز میں علم معقول کی کتابیں پڑھیں اور علم حدیث مولانا محمد یعقوب کشمیری سے حاصل کیا۔ پھر مولانا عبدالرحمن کی خدمت میں حدیث مسلسل بواسطہ واحد اور دیگر مفردات کی اجازت حاصل کی۔ مولانا عبدالرحمن ہندوستان کے نامور محدث تھے۔ (شیخ احمد سرہندی) سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت حاصل کرکے تدریس و تصنیف میں مشغول ہوگئے۔ سلسلہ چشتیہ میں اپنے والد ماجد سے خلافت پائی تھی اور سلسلۂ قادریہ وغیرہ کی اجازت شیخ سکندر کیتھلی سے ملی، حجاز جانے کے ارادہ سے دہلی پہونچے، وہاں حضرت خواجہ محمد باقی باللہ امکنکی سے ملاقات ہوئی، ان سے سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت کی، دو ماہ اور کچھ دن میں سلسلۂ نقشبندیہ میں ان کو نسبت حضوری حاصل ہوگئی۔ چنانچہ اسی زمانہ میں حضرت خواجہ باقی باللہ نے اپنے ایک مخلص سے فرمایا کہ ’’سرہند کے ایک شخص شیخ احمد نامی نے جو کثیر العلم اور قوی العمل ہے فقیر کے ساتھ کچھ دنوں نشست و برخاست رکھی ہے۔ اس کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا آفتاب ہوگا کہ دنیا اس سے روشن ہوجائے گی‘‘ اور اسی زمانہ میں ان کی شہرت ہوگئی۔ ان کا آستانہ اہل کمال اور صاحب حال حضرات کا مرکز بن گیا۔ دور و نزدیک کے علماء اور ترک و تاجیک کے امراء حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر بہرہ ور ہوتے اور مشائخ سلسلہ ارادت میں منسلک ہوجاتے ان کا سلسلہ ہند۔پاکستان سے ماوراء النہر، روم، شام اور مغرب تک پہنچا۔ ان کی ذات بابرکات خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی، ہزار سال سے علماء اور صوفیاء کے درمیان جو نزاع تھا وہ انہوں نے ختم کردیا اور صلہ کا جو حدیث میں مژدہ ہے اس کا مصداق ہوئے اس لیے کہ علمائے ظاہر اور صوفیاء کے درمیان اتحاد کا باعث ہوئے اور دونوں فریق میں مسئلہ وحدت وجود کے متعلق جو اختلاف تھا اس کو صرف لفظی قرار دیا، صبر و رضا، تسلیم و شفقت اور ارباب حقوق کے ساتھ صلۂ رحمی و رعایت، سلام میں سبقت اور گفتگو میں مخلوق کے ساتھ نرمی ان کی عادت کریمہ تھی اور ان سب باتوں کے باوجود ہزار فضائل سے مقدم کتاب و سنت کی پابندی تھی۔
علمائے ظاہر ین نے سلطان جہانگیر ابن اکبر شاہ سے شکایت کی کہ شیخ احمد دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا مقام صدیق اکبرؓ کے مقام سے بلند ہے۔ سلطان نے شیخ کو بلایا اور حقیقت حال پوچھی۔ شیخ نے جواب دیا کہ آپ کسی خدمت کے لیے اپنے کسی ادنیٰ خادم کو طلب فرمائیں اور از راہِ مہربانی اس سے کوئی پوشیدہ بات کہیں تو ضروری ہے کہ وہ ادنیٰ خادم امرائے عالی قدر کے مقام کو طے کرکے آپ تک پہنچے گا اور پھر وہ خادم واپس لوٹ کر اپنے مقام پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پس اس آمد و رفت سے یہ الزام نہیں آتا ہے کہ ادنیٰ خادم کا مرتبہ امرائے نامدار سے بلند ہوگیا، بادشاہ خاموش ہوگیا اور غصہ سے منہ پھیر لیا اسی وقت دربار شاہی کے حاضرین میں سے ایک شخص نے بادشاہ سے عرض کیا کہ شیخ کے گھمنڈ کو دیکھئے کہ آپ کو سجدہ نہیں کیا، حالانکہ آپ ظل اللہ اور اس کے خلیفہ ہیں بادشاہ کو جلال آگیا شیخ احمد سرہندی کو قلعہ گوالیار میں محبوس کردیا۔ جہانگیر کے بیٹے شاہجہاں نے جو شیخ سے خلوص رکھتا تھا ان کے دربار میں آنے سے پہلے افضل خاں اور خواجہ عبدالرحمن مفتی کو فقہ کی بعض کتابیں لے کر شیخ کے پاس بھیجا تھا اور پیغام دیا تھا کہ علماء نے بادشاہوں کے لیے سجدہ، تحیت جائز رکھا ہے ان (شیخ سرہندی) کو چاہیے کہ وہ ملاقات کے وقت بادشاہ کو سجدہ کریں میں ضامن ہوں کہ بادشاہ سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ شیخ نے اس کے جواب میں کہا کہ سجدہ کی اجازت بصورت مجبوری ہے اور عزیمت یہ ہے کہ سوائے خدائے بزرگ و برتر کے کسی کو سجدہ نہ کیا جائے۔ القصہ شیخ تین سال تک قید رہے اس کے بعد جہانگیر نے ان کو اس شرط کے ساتھ قید سے رہا کیا کہ وہ لشکر سلطانی کے ساتھ رہ کر گشت کریں۔ چنانچہ شیخ کچھ دنوں لشکر سلطانی کے ساتھ رہے اس کے بعد بادشاہ سے وطن کی اجازت لے کر سرہند میں رونق افروز ہوئے۔ ۲۸ صفر بروز سہ شنبہ ۱۰۳۴ھ ۱۶۲۴ء میں وصال ہوا اور سرہند میں دفن ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات ’’رفیع المراتب‘‘ سے نکلتی ہے۔ نوراللہ مضجعہ۔
آپ کی تصنیفات حسب ذیل ہیں
رسالہ تہلیلیہ، رسالۂ اثبات نبوت، رسالہ مبداء و معاد، رسالہ مکاشفاتِ غیبہ، رسالہ آداب المریدین، رسالہ معارف لدنیہ، رسالہ رد الشیعہ، تعلیقات العوارف، شرح رباعیات، خواجہ باقی باللہ، مکتوبات (امام ربانی) سہ جلد۔
ؒمجدد الف ثانی ؒ
حدیث شریف ’’ان اللہ یبعت لہٰذہ الامۃ علی راس کل مائۃ من یجددلھا امردینھا‘‘اللہ تعالیٰ اس اُمت میں ہر صدی کے شروع میں ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کردیتا ہے۔ سنن ابن داؤد وغیرہ۔ کتب معتبرہ میں مروی ہے اور اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ ’’راس ماتہ‘‘ سے مراد آخر صدی ہے اور مجدد کی علامات و شرائط یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہر و باطن کا عالم ہووے اور اس کے درس و تالیف و وعظ سے مخلوق کو فائدہ ہو اور سنت کے احیاء اور بدعت کے رد میں سرگرم رہے اور ایک صدی کے آخر میں اور دوسری صدی کے شروع میں علوم کا اشتہار اور فوائد دینیہ کی اشاعت ہووے پس مولانا شیخ احمد کے فضائل و اوصاف بلند آواز سے پکارتے ہیں کہ مجدد ہیں اور ایک صدی کے مجدد نہیں بلکہ ہزار سال کے۔ سو اور ہزار میں فرق ظاہر ہے۔ سرہند، دہلی اور لاہور کے درمیان شارع عام پر ایک شہر ہے جس کا ذکر حسان الہند (غلام علی آزاد بلگرامی) نے سبحۃ المرجان میں کیا ہے۔
( تذکرہ علمائے ہند ص ۸۸ تا ۹۰؍ مولوی رحمن علی، پاکستان ہٹساریکل سوسائٹی کراچی ۱۹۶۱ء )
٭٭٭
حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے جد اعلیٰ شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی کابل کے بڑے امراء میں سے تھے۔ ہندوستان آکر آباد ہوئے۔ خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ اور حضرت امام ربانی شیخ احمد سرہندیؒ ان ہی کی اولاد میں ہیں۔
اورنگ زیب عالمگیر کا فرمان
مولانا کی چھٹی پشت میں قاضی تاج الدین اس پایہ کے عالم گذرے ہیں کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر خلد مکاں نے ذریعہ فرمان مصدرہ ۱۴؍محرم ۴۸ ھ جلوس قندھار (دکن) کے عہدہ قضاء پر ممتاز فرمایا۔ قاضی صاحب موصوف نے اسی تعلق سے قندھار کو اپنا وطن بنالیا تھا۔
حضرت قاضی محمد برہان الدین فاروقیؒ
آپ کے بعد آپ کے پوتے مولوی قاضی محمد برہان الدین ذریعہ فرمان نواب میر نظام علیخاں غفران مآب مزینہ ۲۷؍شعبان ۱۱۸۶ھ قندھار کے عہدہ قضاء پر مامور ہوئے۔
حضرت قاضی محمد سراج الدین فاروقیؒ
بعد ازاں مولوی قاضی برہان الدین کے پوتے مولوی قاضی محمد سراج الدین بموجب سند نواب صاحب ممدوح محررہ ۱۵؍محرم ۱۲۰۹ھ اس عہدہ پر سرفراز کئے گئے۔ پچھلے زمانہ میں قاضی زمانہ حال کے ناظم عدالت کا ہم پایہ تھا اور تمام مقدمات وہی فیصل کرتا۔ اس لیے عہدہ قضاء پر ایسے ہی لوگ معمور کئے جاتے تھے جو علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں مشہور انام ہوتے تھے۔ اب توقاضی صرف قاری النکاح یا سیاہہ نویس سمجھا جاتا ہے۔
حضرت قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقیؒ
حضرت شیخ الاسلام امام محمدانوار اللہ فاروقیؒکے والد ماجد قاضی ابو محمد شجاع الدینؒ صاحب بڑے پایہ کے عالم گذرے ہیں۔ ۱۲۲۵ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن قندھار کے مشہور عالم غلام جیلانی صاحب سے پائی۔ اس کے بعد حیدرآباد تشریف لائے قرآن حفظ کیا، تجوید سے فارغ ہوکر مولوی کرامت علی صاحب (شاگرد مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ) سے دینیات کی تکمیل کی علوم ظاہری کے علاوہ آپ علوم باطن سے بھی فیضیاب تھے۔ ابتداء سلسلہ قادریہ و نقشبندیہ میں اپنے نانا مولانا شاہ محمد رفیع الدین قندھاریؒ (خلیفہ شاہ رحمت اللہ نائب رسول اللہ) جو بارھویں صدی ہجری میں بڑی جلالت و شان کے عالم گذرے ہیں اور اپنی متعدد تصانیف کے باعث گروہ صوفیا میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں بیعت کی اور خلافت سے سرفراز فرمائے گئے اور پھر حضرت حافظ محمد علی صاحب خیرآبادی نزیل حیدرآباد سے طریقہ چشتیہ میں بیعت کی ۔ حضرت حافظ صاحب کی آپ پر خاص نظر تھی۔ اس لیے حلقہ درس میں آپ ہی مثنوی شریف سنایا کرتے تھے۔ حضرت شاہ سعداللہ صاحب خلیفہ مولانا شاہ غلام علی صاحب دہلویؒ آپ کے پیر صحبت تھے۔ غرض جب آپ نے علوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل کرکے شہرت پائی تو نواب سراج الملک بہادر مداء المہام وقت نے آپ کی بڑی قدر و منزلت کی اور ۱۲۶۳ھ میں مضفی دھارور پر تقرر فرمایا۔ آپ نے ۱۴ سال تک دھارور، راجورہ اور بیڑ (ریاست مہاراشٹرا)پر مفوضہ خدمت نہایت قابلیت اور نیک نامی سے انجام دی۔ ۱۲۷۷ھ میں نواب سر سالارجنگ اول نے آپ کو نرمل کو صدر منصف کے عہدہ جلیلہ پر ممتاز فرمایا جو اس زمانہ میں ایک اعلیٰ عہدہ سمجھا جاتا ہے۔ ۱۲۸۱ھ میں جب آپ کا تبادلہ اورنگ آباد پر ہوا تو آپ نے بوجہ کبرسنی و خرابی صحت خدمت سے سبکدوشی چاہی اس طرح آپ ۱۲۸۱ھ میں وظیفہ حسن خدمت حاصل کرکے حیدرآباد تشریف لائے اور ۱۲۸۸ھ میں بعارضہ ضیق النفس رحلت فرمائی۔ آپ مولانا شاہ شجاع الدین صاحب برہان پوری کے مقبرہ میں مدفون ہیں۔ عبداللہ حسین صاحب افسر نے تاریخ وفات کہی ہے
گفت تاریخ رحلتش افسرؔ
رحمت رب بہ روح اطہر باد
۸ ۸ ۲ ۱ ھ
آپ (مولانا قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقیؒ) کی دو بیویاں تھیں۔ پہلی بیوی حضرت سانگڑے سلطان مشکل آسان قندھاریؒ کے سجادہ نشین صاحب کی صاحبزادی۔ دوسری محمد سعداللہ صاحب قاضی کلمنوری کی صاحبزادی جن کے بطن سے دو صاحبزادے تھے ایک مولانا انوار اللہ فاروقی خاں بہادر اور دوسرے قاضی محمد امیر اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
(اخذ و استفادہ مطلع الانوار ص ۱۰ تا ۱۲؍ علامہ مفتی محمد رکن الدین صاحبؒ ،مطبوعہ۱۴۰۵ھ)
امام محمد انوار اللہ فاروقی رحمہ اللہ کے اکابرین نے پچھلی صدیوں میں اعلیٰ مذہبی و دینی خدمات کے تسلسل کو اپنے خاندانی روایات کے امتیاز کے ساتھ باقی و قائم رکھا۔ مورخین نے ان تمام شخصیات کی خدمات و خطابات کی تواریخ میں اس طرح درج کیا ہے۔ جس سے ان کے اعلیٰ علمی مراتب کا پتہ چلتا ہے۔
قاضی الملک حضرت الشیخ قاضی محمد عبدالملک فاروقی اولیٰ ؒ’’شمس الاسلام‘‘
حضرت قاضی محمد سلیمان فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ’’برہان الاسلام‘‘
حضرت قاضی عبدالملک فاروقی ثانی رحمۃ اللہ علیہ ’’حسام الاسلام‘‘
حضرت قاضی محمد عبدالصمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ’’مدارالاسلام‘‘
حضرت قاضی محمد مسیح الدین فاروقی اولیٰ رحمۃ اللہ علیہ ’’عماد الاسلام‘‘
برہان الشریعہ حضرت قاضی محمد بدیع الدین فاروقی اولؒ ’’فخر الاسلام‘‘
حضرت قاضی محمد مسیح الدین فاروقی ثانی رحمہ اللہ ’’تاج الشریعہ‘‘
حضرت قاضی محمد بدیع الدین فاروقی ثانی رحمہ اللہ ’’فخر الاسلام‘‘
حضرت قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقی رحمہ اللہ ’’میرِعدل‘‘
حضرت ابوالبرکات محمد انوار اللہ فاروقی رحمہ اللہ ’’شیخ الاسلام‘‘
(از: شجرہ نسبی قدیم مخزونہ جناب محمد صفی الدین فاروقی (پ 1940ء) ابن حضرت قاضی محمد نور الدین فاروقیؒ، ساکن اکبر باغ، حیدرآباد، اے پی)
٭٭٭
حضرت عبدالحلیم فرنگی محلی
حضرت عبدالحلیم فرنگی محلی بن ملا امین اللہ بن ملا اکبر بن ملا ابی الرحم بن ملا یعقوب بن ملا عبدالعزیز بن ملا سعید آپ ۲۱۔ شعبان المعظم ۱۲۳۹ہجری میں پیدا ہوئے اور کتب درسیہ اپنے والد اور مفتی محمد ظہور اللہ اور مفتی محمد اصغر اور مفتی محمد یوسف اور مولانا نعمت اللہ سے تحصیل کیں اور حدیث مرزا حسن علی محدث اور مولوی حسین احمد محدث اور دیگر شیوخ مکہ و مدینہ سے حاصل کی۔ ایک مدت تک درس و تدریس میں مشغول رہے کچھ دنوں باندے وجونپور میں مدرس رہے پھر ریاست حیدرآباد و دکن میں جاکر عدالت قضامین حاکم ہوئے آپ کثیر التصانیف ہوئے جو حسب ذیل ہیں۔
(۱) رسالہ فی الاشارۃ فی التشہید
(۲) حل المعاقد فی شرح العقائد
(۳) نظم الدرر فی سلک شق القمر
(۴) التحلیہ شرح التسویہ
(۵) ونور الایمان فی آثار حبیب الرحمن
(۶) برکات الحرمین
(۷) والا ملا فی تحقیق الدعا وانعقاد
(۸) المصابیح فی صلوٰۃ التروایح
(۹) غایۃ الکلام فی مسائل الحلال والحرم
(۱۰) خیرالکلام فی مسائل الصیام
(۱۱) القول الحسن فیما یتعلق بالنوافل والسنن
(۱۲) عمدۃ التحریر فی مسائل اللون واللباس والحریر
(۱۳) السقایۃ لعطشان الہدایۃ
(۱۴) قمرالاقمار حاشیہ نور الانوار
(۱۵) التعلیق الفاضل حاشیۃ الطہر المتخلل
(۱۶) رسالہ فی احوال سفر الحرمین
(۱۷) التحقیقات المرضیہ لحل حاشیۃ الزاہد علی الرسالۃ القطبیہ
(۱۸)القول الاسلم لحل شرح السلم
(۱۹)الاقوال الاربعہ
(۲۰) کشف المکتوم فی حاشیۃ بحرالعلوم
(۲۱) القول المحیط فیما یتعلق بالجعل المؤلف والبسیط
(۲۲) معین الغائصین فی ردالمغالطین
(۲۳) والایضاحات لمبحث المختلطات
(۲۴) کشف الاشتباہ فی حل شرح السلم لمولوی حمد اللہ
(۲۵) البیان العجیب شرح ضابطۃ التہذیب
(۲۶) کاشف الظلمۃ فی بیان اقسام الحکمۃ
(۲۷) العرفان حاشیۃ بدیع المیزان
(۲۸) حواشی الحاشیۃ القدیمہ
(۲۹) حل النفیسی
مفصل احوال آپ کے ’’حسرۃ العالم وفاۃ مرجع العالم‘‘ میں حضرت مولانا عبدالحی قدس اللہ سرہ العزیز نے تحریر فرمائے ہیں آپ کا عقد دختر مولوی ظہور علی بن ملاحیدر سے ہوا ایک صاحبزادے مولانا عبدالحی صاحب کو چھوڑ کر ۱۲۸۵ہجری میں وفات فرمائی اور پائین مزار حضرت شاہ یوسف قادری قدس اللہ سرہ العزیز ریاست حیدرآباد دکن میں مدفون ہوئے۔
(احوال علماء فرنگی محلی ص ۶۲۔۶۳؍مولوی شیخ الطاف الرحمن، مطبع مجتبائی لکھنو ۱۳۲۴ھ)
حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلیؒ
آپ ۱۲۶۵ہجری میں پیدا ہوئے۔ افراد عالم اور اجلہ مشاہیر علماء میں ہوئے جن کا ذکر مشارق و مغارب میں پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار اور مولانا نعمت اللہ سے کتب درسیہ تمام کیے اور مشائخ حرمین شریفین سے سند احادیث حاصل کی۔ آپ صاحب تصانیف کثیرہ مفیدہ اور حواشی عدیدہ ہوئے عرب اور عجم نے آپ کی ذات سے فیض پایا اور خلق کثیر آپ کے تلمذ سے شرف اندوزی ہوئی۔ تصانیف آپ کے حسب ذیل ہیں۔
علم صرف (۵)
چارگل‘ امتحان الطلبہ‘ تبیان شرح میزان‘ تکملہ میزان‘ شرح میزان
نحو (۲)
ازالہ الحمید، خیر الکلام
مناظرہ (۱)
الہدیۃ المختاریہ
منطق و حکمۃ (۱۷)
ہدایۃ الوری حاشیہ قدیمہ علی حاشیۃ المحقق غلام یحییٰ البہاری ، مصباح الدجی حاشیہ جدیدہ علی حاشیہ المحقق غلام یحییٰ البہاری، نور الہدیٰ حاشیہ اجد علی حاشیہ المحقق غلام یحییٰ البہاری، علم الہدی حاشیہ اجد علی حاشیۃ المحقق غلام یحییٰ البہاری، تعلیق العجیب لحل حاشیۃ الجلال لمنطق التہذیب، حل المغلق فی بحث مجہول المطلق، میسر العسیر، الافادۃ الخطیرۃ، مفید الخائفین، التعلیق النفیس، تکملہ حل النفیسی، المعارف بما فی حواشی شرح المواقف، تعلیق الحمائل علی تعلیق، سید الزاہد المتعلق بشرح الہیاکل، دفع الکلال، حاشیہ بدیع المیزان، الکلام الوہبی، الکلام المتین۔
تاریخ (۱۵)
حسرۃ الکلام، الفوائد البہیہ، الیتعلقات السنیہ، ابراز الغی، تذکرۃ الراشد، النافع الکبیر، مقدمۃ التعلیق الممجد، مقدمہ عمدۃ الرعایہ، مقدمۃ السعایہ مقدمۃ الہدایہ، مذیلہ الدرایہ، طرب الاماثل، فرحۃ المدرسین، خیر العمل، النصیب الاوفرفی تراجم علماء الائمۃ الثالثۃ عشر، رسالہ فی ذکر تراجم السابقین من علماء الہند۔
فقہ۔ حدیث ۔سیر (۵۵)
حسن الولایہ۔ عمدۃ الرعایہ۔ السعایۃ۔ الفلک المشحون۔ القول الجازم۔ الفلک الدوار۔ الافصاح تحفۃ النبلاء۔ الکلام الجلیل۔ ترویح الجنان۔ زجر ارباب الریان۔ روع الاخوان۔ دافع الوسواس۔ زجر الناس۔ الآیات البینات۔ الانصاف فی حکم الاعتکاف۔ نفع المفتی والسائل۔ تحفۃ الطلبہ۔ اقامۃ الحجہ۔ افادۃ الخیر۔ التحقیق العجیب۔ رفع الستر۔ سباحۃ الفکر۔ خیر الخبر۔ امام الکلام۔ غیث الغمام۔ آثار المرفوعہ۔ نزہۃ الفکر۔ زجر الشیبان والشیبہ۔ عمدۃ النصائح اللطائف المستحسنۃ الہسہسہ۔ القول المنثور۔ القول المنشور۔ آکام النفائس۔ الرفع والتکمیل۔ ظفر الامانی۔ الکلام المبرم۔ الکلام المبرور۔ السعی المشکور۔ قوت المغتدین۔ القول الاشرف۔ تحفۃ الاخیار۔ نخبۃ الانظار۔ التعلیق الممجد۔ تبصرۃ البصائر۔ تحفۃ الثقات۔ جمع الغرر۔ احکام الفطرہ۔ غایۃ المقال۔ ظفر الانفال۔ تدویر الفلک۔ درک المآرب فی شان ابی طالب، تحفۃ الامجادبذکر خیر الاعداد۔ آپ کے مفصل احوال ’’حسرۃ الفحول لوفاۃ نائب الرسول ‘‘میں جناب مولانا عبدالباقی صاحب مدظلہ نے تحریر فرمائے ہیں آپ کا عقد دختر مولوی مہدی بن ملامفتی محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہماسے ہوا۔ ایک دختر زوجہ مفتی محمد یوسف بن مولوی محمد قاسم صاحب کو چھوڑ کر ۲۹ ربیع الاول یوم دوشنبہ ۱۳۰۴ہجری میں بعمر ۳۹ سال وفات فرمائی اور باغ میں حضرت مولانا احمد انوار الحق قدس اللہ سرہ العزیز کے مدفون ہوئے۔
(ماخوذ احوال علماء فرنگی محل ص ۶۳ تا ۶۴؍مولوی شیخ الطاف الرحمن صاحب ؍ مطبع مجتبائی لکھنو 1324ھ)
حضرت بدیع الدین رفاعی رحمۃ اللہ علیہ
پیدایش ۱۲۲۹ھ قندھار شریف،وفات ۱۳۰۹ھ م۱۸۹۱ء بلدہ حیدرآباد
یہ بزرگ قندہا ر ضلع ناندیڑ(ریاست مہاراشٹرا) کے مشہور صاحب علم صوفی اور حضرت سید علی سانگڑ ے سلطان مشکل آسان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۸۴۶ھ) کی اولاد سے تھے ، سلسلہ نسب اس طرح ہے، سیدشاہ بدیع الدین رفاعی قندہاری بن سید شاہ محمد بن سید شاہ جلال الدین رفاعی خاں بن سید شاہ نجم الدین رفاعی بن سید شاہ سالار ثانی بن سید شاہ احمدثانی بن سید شاہ سالار بن سید شاہ میرانجی بن سید معین الدین بن سید احمد منجھلے چلہ داربن سیدعلی سانگڑے سلطان مشکل آسان قندہاری رحمۃ اللہ علیہ ۔
خاندانی سلسلہ میں اپنے ہم جد سید شاہ برہان اللہ حسینی سروری (متوفی۱۲۷۰ھ) سجادہ درگاہ سانگڑے سلطانؒ کے مرید او رخلیفہ تھے ، مولانا انواراللہ خاں(بہادر) فضیلت جنگ مرحوم استاد رئیس دکن نواب میرعثمان علی خاں آصفجاہ سابع ان ہی کے شاگرد تھے شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے فرزند حضرت سید شاہ عنایت اللہ حسینی شہید ؒ (۱۲۷۳ھ تا ۱۳۲۶ھ) تھے جو علامہ محی الدین قادری زورؔ کے حقیقی دادا ہوتے تھے۔
آخری زمانے میں شاہ صاحبؒ اپنے فرزندصاحب عالم سیدشاہ عنایت اللہ حسینی شہیدؒ کے یہاں حیدرآبادچلے آئے تھے او راپنی تمام عمر کے آخری پندرہ سال یہیں گزارے اسی (80)سال کی عمرمیں بعارضہ بخار وپیچش بتاریخ ۸؍محرم الحرام ۱۳۰۹ھ م ۱۸۹۱ء آپ کا وصال ہوا او رمحی الدین صاحب کے تکیہ میں واقع محلہ چمپا دروازہ جہاںاب سٹی کالج کی عمارت ہے دفن ہوئے چونکہ طغیانی رود موسیٰ کے باعث حضرت ؒ کے مزار کا نشان باقی نہ رہا تھا ، اس لئے درگاہ حضرت مشکل آسان ثانی ؒ میں حضرت شاہ صاحب سے متعلق ایک کتبہ قطعہ تاریخ بطور یادگار سنگ مزار نصب کیا گیا ہے۔ (دیکھئے : مشاہیر قندھار دکن؍ پروفیسر اکبر الدین صدیقی ص ۳۹، مشکل آسان ثانی ص ۳۳تا ۴۹)
کتبہ : یہ کتبہ حضرت مشکل آسان ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے گنبد کے اندر مزار شریف کے سرہانے کی دیوار میں درمیانی کمان کے بائیں جانب نصب ہے کتبہ نہایت ہی خوش وضع طریقے پر مستطیل و مصفا سنگ سیلو میں کندہ ہے اور نہایت خوش خط اورشاندار ہے ۔
الحمد للہ علی کل حال
اسی گنبد شریف یا اس کے قرب و جوارمیں حضرت سید شاہ غلام محمد ابوالبرکات قدس سرہٗ کے حقیقی داد ا حضرت سید شاہ بدیع الدین رفاعی القندہاری دفن ہیں جو حضرت فضیلت جنگ مولانا انوار اللہ قادری الچشتی القندہاریؒ کے استاد تھے اور جن کاوصال اپنے فرزند حضرت صاحب عالم سیدشاہ عنایت اللہ حسینی شہیدؒ کے مکان میںواقع محلہ چمپا دروازہ جہاں اب سٹی کالج کی عمارت ہے ۸؍محرم الحرام ۱۳۰۹ھ کو ہوا تھا او رجسکا مادہ تاریخ محمدقطب الدین مرحوم خطیب قندہارنے داغ شد۱۳۰۹ھ نکالاتھاجس کو حضرت ابوالبرکات زعمؔ قدس سرہٗ نے ایک قطعہ میں منظوم کرکے اپنے سوانح حیات میں درج فرمایا۔ چونکہ طغیانی رو دِ موسیٰ کے باعث حضرت کے مزار کا نشان باقی نہ رہا تھا اس لئے یہ قطعہ تاریخ بطور یاد گارسنگِ مزار یہاں نصب کیاگیا ۔
حضرت بدیع دیں کہ جدّ حقیقی ام
زیں رہگذر چوں راہی فردوس باغ شد
ازبہرِ فاتحہ بہ مزارش چو رفتہ ایم
آوازایں زغیب برآمدکہ داغ شد
(۱۳۰۹ھ)
(تلخیص تذکرہ اولیائے حیدرآباد، حصہ چہارم ص ۵ تا ۷ تالیف مراد علی طالعؔ؍ ناشر مینار بک ڈپو حیدرآباد (اے ۔پی) ۱۹۷۵ء)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھُوَ نُوْرُ الْاَنْوَارِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ انْفَلَقَتْ مِنْہُ الْاَنْوَار وَعَلٰٓی اٰلِہِ الْاَطْھَارِ وَاَصْحَابِہِ الْاَخْیَارِ اِلٰی یَوْمِ الْقَرَارِض
ظہورِ نور
اس خاکدانِ عالم میں جب کسی بندئہ خاص کو وجود بخشا جاتا ہے تو اس کے موجود ہونے سے پہلے غیبی اشارہ ہوتا ہے۔ جسمیں اسکے خصوصی نوعیت کار کی بشارت ہوتی ہے‘ چنانچہ بانی مدرسہ نظامیہ مولانا محمد انواراللہ نوّراللہ مرقدہ کی ولادت سے قبل انکی والدئہ ماجدہ نے ایک رات خواب میں حضور سراپانور صلوٰت اللہ علیہ وسلامہ الی یوم النشور کو قرآن مجید کی تلاوت فرماتے دیکھا۔ ایک بزرگ(۱) نے خواب سن کر فرمایا۔ ایک لڑکا تولد ہوگا جو حافظ قرآن اور محافظ علومِ فرقان ہوگا۔ وصلی اللہ علی نور کزو شد نور ہا پیدا‘ حالات ذیل اسی کے آئینہ دار ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کے جداعلی شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی‘ کابل کے بڑے امراء میں سے تھے ہندوستان آکر آباد ہوئے۔ خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ اور حضرت امام ربّانی شیخ احمد سرہندیؒ ان ہی کی اولاد میں ہیں۔ مولاناکی چھٹی پشت میں قاضی تاج الدین اس پایہ کے عالم گزرے ہیں کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر خلد مکان نے ذریعہ فرمان مصدرہ ۱۴؍محرم ۴۸ ھ جلوس قندہار (دکن) کے عہدہ قضاء پر فائزکیا۔ قاضی صاحب موصوف نے اسی تعلق سے قندھار کو اپنا وطن بنالیا تھا۔ آپ کے بعد آپ کے پوتے قاضی محمد برہان الدین ذریعہ فرمان نواب میر نظام علیخاں غفران مآب مزیّنہ۔ ۲۷؍شعبان ۱۱۸۶ھ قندہار کے عہدہ قضاء پر مامور ہوئے بعد از ان قاضی برہان الدین کے پوتے قاضی محمد سراج الدین بموجب سند نواب صاحب ممدوح محررہ ۱۵؍ محرم ۱۲۰۹ھ اس عہدہ پر سرفراز کئے گئے پچھلے زمانہ میں قاضی زمانہ حال کے ناظم عدالت کا ہم پایہ تھا۔ اور تمام مقدمات وہی فیصل کرتا۔ اس لئے عہدئہ قضاء پر ایسے ہی لوگ مامور کئے جاتے تھے جو علم وفضل اور زہد وتقوی میں مشہور انام ہوتے تھے۔ اب تو قاضی صرف قاری النکاح یا سیاہہ نویس سمجھاجاتا ہے۔(۲)
ابتدائی حالات:
مولاناحافظ محمد انواراللہ ۴؍ربیع الآخر ۱۲۶۴ھ کو بمقام ناندیڑ پیدا ہوئے ۵؍سال گزرنے کے بعد مولانا سید شاہ بدیع الدین صاحب رفاعی قندھاری سے قرآن شریف ناظرہ کی تکمیل فرمائی‘ اور سات سال کی عمر میں حافظ امجد علی صاحب کے پاس قرآن مجید کاحفظ شروع فرمایا‘ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن مجید کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوئے۔ آپ نسباً فاروقی ہیں سلسلہ نسب انچالیسویں پشت میں خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظم ؓ پر منتہی ہوتا ہے۔
سلسلہ نسب:
محمد انوار اللہ بن ابو محمدشجاع الدین بن القاضی سراج الدین بن بدرالدین بن برہان الدین بن سراج الدین بن تاج الدین بن القاضی عبد الملک بن تاج الدین بن القاضی محمد کبیر الدین بن القاضی محمود بن القاضی کبیر بن القاضی محمود بن القاضی احمد بن القاضی محمد بن یوسف بن زین العابدین بن بدر الدین بن شمس الدین بن شریف جہاں بن صدر جہاں بن اسحاق بن مسعود بن بدرالدین بن سلیمان بن شعیب بن احمد بن محمد بن یوسف بن شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی بن شیخ اسحاق بن شیخ مسعود بن عبداللہ الاصغر بن عبداللہ الاکبر بن ابو الفتح بن اسحاق بن ابراہیم بن سیدنا ناصر بن سیدنا عبداللہ بن سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
تعلیم وتربیت:
حفظ قرآن مجید سے فراغت کے بعد ابتدائی تعلیم والدماجد مولانا ابومحمد شجاع الدین صاحب قندہاری سے پائی۔ دیگر اعلیٰ علوم وفنون کی تکمیل مولانا عبدالحلیم صاحب فرنگی محلی اور مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی رحمہما اللہ اور مولوی فیاض الدین صاحب اورنگ آبادی سے کی۔ تفسیر وحدیث کا درس شیخ عبداللہ یمنی سے بھی حاصل کیا۔ آپ کی خداداد ذہانت واستعداد سے اساتذہ بھی دنگ تھے۔ مولانا عبدالحی صاحب نے اپنی بعض تالیفات (۳)میں اس کا تذکرہ فرمایاہے۔ تکمیلِ علوم کے بعد غیر درسی مختلف متعدد کتابوں کا مطالعہ اور ان پر مفید حواشی بھی تحریر فرمائے۔آپ اپنے دور میں منقول اور معقول کے بہت بڑے عالم تھے۔ آ پ کے علم وفضل کے خود معاصر علماء معترف ومداح ہیں۔ درس و تدریس‘ تصنیف وتالیف کا آخری وقت تک سلسلہ جاری تھا۔
جملہ سلاسل میں بیعت:
علوم شریعت کی تحصیل وتکمیل کے بعد آپ نے سلوک کی تکمیل اپنے والد ماجد سے پائی اور جملہ سلسلوں (قادریہ‘ چشتیہ‘ نقشبندیہ وغیرہ) میں بیعت کی اور مدینہ منوّرہ میں شیخ وقت مرشد العلماء حضرت حاجی امداداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے مکر ر بیعت کی اور منازل سلوک کی تکمیل فرمائی۔ حضرت حاجی صاحب نے بلا طلب خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔
حضرت شیخ الاسلام کا طریقہ تربیت:
حضرت مولانا مرحوم ہر شخص کی صلاحیت استعداد‘ مصروفیات ومشاغل کے پیش نظر تربیت کا انتظام فرماتے تھے۔ چنانچہ مولانا مرحوم کی خدمت میں جو شخص طالب علم ہوکر آتا ‘ آپ اس کے میلان طبع کے لحاظ سے اس سلسلہ میں داخل فرماتے‘ جس سے اُس کا لگاؤ ہوتا‘ پھر اس کے مشاغل دنیوی کے اعتبار سے اذکار کاتعین فرماتے‘ آپ کے نزدیک طریق تربیت میں عوام اور اہل علم کے درمیان فرق تھا یعنی عوام کے لئے ذکر وفکر کا تعین کیا جاتا اور اہل علم کو ارشاد ہوتا کہ علمِ دین کی تعلیم واشاعت ہی آپ کے لئے سلوک راہ خدا ہے اسی میں آپ کے مراتب و مدارج کی ترقی وتکمیل ہے اور ذکر کی مختصر مقدار بتلائی جاتی اس طریق سے ہر دو کا سلوک اور اس کے روحانی منازل طے ہوتے تھے۔ خود حضرت ممدوح کا معمول بھی یہی تھا کہ آپ علم شریعت کی تعلیم اور کتب دین ومذہب کی تالیف وتصنیف بھی فرماتے اور ذکر وشغل میں بھی وقت لگاتے‘ اس کی قدرے وضاحت ’’اصلاحی کارنامے‘‘ اور علمی خدمات کے تحت ملاحظہ ہو۔ مطلع الانوار میں مولانا رکن الدین صاحب رقمطراز ہیں۔
اقوال:
عموماً ذی علم اشخاص کو ہدایت فرماتے کہ اوراد‘ اذکار کے بجائے ہمیشہ علوم دینیہ کی تعلیم وتعلم اور ان کی اشاعت میںکوشاں رہیں۔ کیونکہ اس کے برابر کوئی عبادت باعثِ تقرب الہی نہیں ہے۔
راقم (مولانا رکن الدین صاحب) نے بار ہا آپ سے تلقین اذکار کی خواہش کی مگر جب کبھی آپ کوئی ذکر تلقین فرماتے تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمادیتے۔دین کی خدمت کرو اس میں چنداں مصروف ہونے کی ضرورت نہیں‘ آپ فرمایاکرتے تھے کہ میں بھی ابتدائً ذکر اذکار کیا کرتا تھا۔ مگر اب اس کے بدلے اس وقت کو علم دین کی خدمت میں صرف کرتا ہوں کیونکہ ذکر سے انجلا ء باطن ہوتا ہے اور انسان کو اپنے مدارج معلوم ہوتے ہیں جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں رعونت نہ آجائے‘ عبادت سے محض تقربِ الہی مقصودہے۔ اور بعد ادائی فرض کے افضل عبادات تحصیل علم دین اور اس کی اشاعت ہے اگر کوئی شخص اس میں مصروف ہو تو اس کے مدارج روز افزوں ترقی کرتے ہیں‘ گو اس کو اس کا علم نہو اور خدا اور رسولؐ کی خوشنودی اورقربت حاصل ہوجاتی ہے۔
ازدواج‘ ملازمت‘ استعفاء :
آپ کا عقد ۱۲۸۲ءھ میں حاجی محمد امیرالدین صاحب محتسب بنولہ کی صاحبزادی سے ہوا‘ اور ۱۲۸۵ھ میں محکمہ مالگزاری میں ’’خلاصہ نویسی‘‘ کی خدمت میں مامور ہوئے ۔ اس خدمت کو تقریباً دیڑھ سال انجام دینے کے بعد ۱۲۸۷ھ میں مستعفی ہوگئے۔
استعفاء کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ ملازمت سرکاری کو جو آج عزّت و مسرت کا واحد ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ مولانا نے محض اس بات پر چھوڑ دیا کہ ایک سودی لین دین کی مثل کا خلاصہ لکھنا پڑتاتھا۔ گو آپ کی دیانت داری و کارگزاری کی وجہ سے افسر بالانے استعفاء قبول کرنے میں تأمل کیا۔ اور وعدہ کیا کہ آئندہ سے ایسا کام آپ کے تفویض نہیں کیا جائے گا مگر آپ یہ کہہ کر کہ ’’ جب تک آپ ہیں یہ رعایت‘ دوسروں سے اتنی توقع نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جب ملازمت ہی ٹھیری تو حاکم جو کہے ماننا پڑے گا۔ خدمت سے کنارہ کش ہوگئے۔ اس وقت آپ متأہل اور صاحب اولاد تھے۔ جب تک والد صاحب زندہ رہے ترک ملازمت کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ تقریباایک سال کے بعد سایہ پدری سر سے اُٹھ گیا اور اس کی جگہ مصائب اور آلام نے لی اور سب ملنے جلنے والے آپ کو ترک ملازمت پر ملامت کرنے لگے۔ مگر آپ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقُہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ (۴)پر نظم رکھے ہوئے اپنے شغل درس وتدریس میں منہمک ہوگئے۔ یہ زمانہ تھا ابتلاء کا جس میں آپ کا قدم پایہ صبر و استقلال سے ہٹنے نہ پایا اور بمصداق’’اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ‘‘(۵)کے وہ مرتبہ عظیم حاصل ہوا جس سے اچھی طرح تلافی آفات ہوگئی۔
سفر ہائے حجاز :
۱۲۹۴ھ میں آپ نے حج کا ارادہ فرمایا کہ مکّہ معظمہ پہنچ کر حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے مکرر بیعت فرمائی‘ مدینہ منورہ کی حاضری اور روضہء اقدس کی زیارت کے بعد حیدرآباد واپس آئے۔
دوسرا سفر ۱۳۰۱ھ میں فرمایا اور ۱۳۰۵ھ میں تیسرا سفر کیا‘ حج سے فارغ ہو کر مدینہ منوّرہ پہونچے اور یہاں تین سال تک مقیم رہے ۔ اسی تین سال کے عرصہ میں مولانا مرحوم نے کتب خانہ شیخ الاسلام اور کتب خانہ محمودیہ میں زیادہ تر وقت مطالعہ کتب کے لئے وقف فرمادیا تھا ‘اور بصرف کثیر نادر کتابیں نقل کروائیں ازاں جملہ:
۱۔کنز العمال(۸ جلد) (حدیث) (۶)
۲۔ الجوہر النقی علی سنن البیہقی (حدیث)
۳۔ الاحادیث القدسیہ (حدیث)
۴۔ جامع المسانید للامام الاعظم (حدیث)
رمضان المبارک گزار کر مکہ معظمہ آئے اور حضرت پیر ومرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایاکیا ارشاد ہوا‘ عرض کیا: کہ سرکارؐ نے دکن جانے کا حکم دیا ہے۔ ہجرت کے ارادہ سے آیاتھا۔ تردّد میں پڑگیا ہوں۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا حکم کی تعمیل کی جائے۔ اس اثناء میں ہمشیرہ اور فرزند نے داعی اجل کو لبیک کہا‘ مکرر حضرت حاجی صاحب نے فرمایا تعمیل حکم میں دارین کی سعادت ہے۔ تردد کچھ نہ کرو۔ واپسی کے سوا چارہ نہ تھا۔ بادیدہ پر نم زبانِ حال سے یہ شعر پڑھتے ہوئے۔
شادی میتواں مردن بکوئے یار اے انورؔ
نباشی لائق ایں بارگاہ گرچشم نم کردی
۱۳۰۸ھ میں مراجعت فرمائے بلدہ ہوئے۔
انوراؔ قصدِ تقرب باسگِ کویش کنی
ہیچمیدانی کہ آں سگ پاسبان کوئے کیست
مصداق حال تھا۔
شاہانِ آصفیہ کی تعلیم :
مولوی مسیح الزماں خان صاحب برادر محمد زمان خاں صاحب شہید‘ اعلیٰ حضرت غفران مکان کی تعلیم کے لئے مقررکئے گئے مگر ان کے ذمہ دیگر امور سلطنت بھی تھے۔ اس لئے انہوں نے اس خدمت کے لئے مولانا علیہ الرحمہ کا انتخاب کیا۔ سالار جنگ بہادر سے مشورہ کرنے کے بعد دربار سے منظوری حاصل کرلی۔ مولانا کو اس کا علم نہ تھا۔ فرمان دیکھ کر مولانا نے فرمایا ’’قومی خدمت بادشاہوں کی خدمت سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اس کو قبول نہیں کرسکتا‘‘ مولوی مسیح الزماں صاحب نے حیرت زدہ ہوکر کہا کہ میں نے بہ امید قبولیت آپ سے استمزاج کئے بغیر تمام مراحل طے کرلئے ہیں‘ آپ قبول نہ فرمائیں تو مجھے خفیف ہونا پڑے گا اور اس پر اصرار فرمایا تو مولانا نے آمادگی ظاہر فرمائی۔ ۱۲۹۵ھ سے ۱۳۰۱ھ تک سلسلہ تعلیم جاری رہا۔ اعلیٰ حضرت غفران مکان مولانا کی بڑی قدر ومنزلت فرماتے اور بے حد ادب کیا کرتے تھے اور یہ فرمایا کہ ’’مجھے جو کچھ حاصل ہوا‘ مولانا ہی سے حاصل ہوا‘‘۔ ۱۳۰۸ھ میں آصف سابع اعلیٰ حضرت میر عثمان علیخاں کی تعلیم آپ سے متعلق کی گئی اور یہ سلسلہ تعلیم تخت نشینی تک جاری رہا ۱۳۳۲ھ میں نواب اعظم جاہ بہادر اور نواب معظم جاہ بہادر کی تعلیم بھی آپ کے ذمہ کی گئی ۱۳۳۵ھ میں مولانا علیل ہونے کی وجہ سے دستبرداری فرمائی۔ آصفِ سابع بھی آپ کے نہایت قدرداں تھے‘ اور اپنی شاگردی پر فخر کیا کرتے تھے۔ مختلف فرامین میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ۱۹۶۱ء میں جامعہ نظامیہ کی جانب توجہ فرمائی اور تحریر فرمایا:
’’مرحوم سرکار کا لگاؤ مولوی صاحب مرحوم سے خاص قسم کا تھا بوجہ مشفقانہ برتاؤ استاد کے ۔ چنانچہ میری تعلیم کے زمانے میں بھی اسی قسم کا انتظام مرحوم سرکار نے کیا تھا اور ہم ہر دو شاگرد استاد کے گرویدہ تھے۔جامعہ نظامیہ کی امداد کے سلسلے میں ہر دوشہزادوں کو حسب ذیل متوجہ فرمایا: میرا خیال ہے کہ برادرانِ والا شان بھی اپنی حد تک اپنے اپنے ٹرسٹ سے سالانہ یکمشت امداد دے کر سعادت دارین حاصل کریں گے۔ کیونکہ یہ بھی کم عمر شاگرد مولوی صاحب مرحوم کے تھے‘‘۔
خلاصہ یہ کہ اسی منبع کُل کے یہ جُز ہیں۔ جو کسی طرح سے جدا نہیں ہوسکتے بلکہ ہمیشہ پیوست رہیں گے۔ (نظام گزٹ ۹؍سپٹمبر ۱۹۶۱ ء) ۔ برادرانِ والا شان نے مجھے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے بھی اپنے اپنے ٹرسٹ سے سالانہ یکمشت دو ہزار روپیہ منظور کیا ہے۔ ماہ سپٹمبر ۱۹۶۱ء سے اور اس کی تحریری اجازت فینانشل اڈوائزر خان بہادر تارا پور ولاکودی ہے۔ کس لئے کہ مولوی صاحب مرحوم‘ خاندن نظام کے مسلّمہ استاد تھے۔
بانیٔ مکتب کی عثماںؔ یاد بھی آتی رہے
نغمے بھی اُس ذات کے صبح ومسا گاتی رہے
اخلاق وعادات:
اللہ جل شانہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کے بلند ترین مقام پر ہونے کی شہادت دی اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۷) آپ نے دینی تعلیم وتربیت سے ہر مستفیض کو اسکی استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے فیض حاصل کرنے کا موقع فراہم فرمایا۔ ارشاد ہے کہ بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأخْلَاقِ(۸)۔ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل و تتمیم کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔حضرت مولانا ممدوح کے مندرجہ ذیل اخلاق وعادات سے واضح ہے کہ فیض نبوی ؐ کے اکتساب کی آپ میں کتنی بہتر صلاحیت وعمدہ استعداد تھی۔
غذا :
آپ کی غذا بالکل سادہ تھی جو کچھ بھی سامنے آتا تناول فرماتے کسی چیز کی فرمایش نہ کرتے‘ اعلیٰ حضرت ظل سبحانی کے پاس سے اکثر میوہ اور مٹھائیاں وغیرہ آتیں اس میں سے کبھی کبھی کچھ کھالیا کرتے ورنہ سب تقسیم کردیتے۔ دو وقت کھانے کی عادت تھی اور وہ بھی بہت مختصر ایک یادو پھلکے تناول فرماتے۔
لبــاس:
آپ کا لباس بھی بالکل سادہ تھا۔ آپ لباس کے مقصد اصلی یعنی تن پوشی پر اکتفا کرتے محض زینت کے لئے اسراف اچھا نہ سمجھتے۔ نماز کے وقت آپ ہمیشہ پورا لباس یعنی جبّہ عمامہ وغیرہ پہن لیا کرتے تھے۔ اور کبھی عمامہ پر سے چادر بھی اوڑھ لیتے اور سخت گرمی میں بھی اس کی پابندی فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے اس کے متعلق استفسار کیا۔ جواب میں فرمایاکہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔(۹)
’’نماز کے وقت پوری زینت نہ کرنا حکمِ خداوندی کے خلاف ہے قطع نظر اس کے جب ہم دنیا کے لوگوں سے ملنے جاتے ہیں تو پورا لباس پہن لیتے ہیں تو پھر اللہ کے سامنے معمولی لباس سے کس طرح جائیں‘‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکابردین کی سنت پر عمل کرنا اچھا سمجھتے تھے ابتداً آپ میانہ میں سوار ہوتے تھے جب اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خاں بہادر خلد اللہ ملکہ‘ کی تعلیم کے لئے مقرر ہوئے تو بعد مسافت کے خیال سے گھوڑا گاڑی خریدلی۔ وزارت کے زمانے میں آپ کے پاس موٹر اور جوڑی گاڑی اور کئی سواریاں تھیں۔
مشاغل روز و شب:
رِجَالٌ لَّاتُلہِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ (۱۰) چند ایسے مردان خدا ہیں جن کو تجارت اور بیع‘ ذکر الہی سے غافل نہیں کرتی۔ مولانا علیہ الرحمہ بھی انہی مردانِ خدا سے ایک مردِعظیم تھے۔ آپ کے مشاغل روز وشب ذکرِالہی کے تحت تھے۔ ۱۳۲۰ھ میں حضور نظام آصفجاہ سابع نے نظامتِ امورِ مذہبی وصدر الصدور صوبہ جاتِ دکن کی خدمت پر مامور فرمایا۔ احکام ملنے پر آپ نے معذرت خواہی کی تو حضور نظام نے فرمایا اس ملک میں ان خدمات کے لئے آپ سے زیادہ کوئی موزوں نہیں۔ اور ۱۳۲۳ھ میں معین المہام امور مذہبی کی خدمت پر فائز کئے گئے۔
ان خدمات کے ساتھ روزانہ مدرسہ کے حالات آپ کے ملاحظہ میں پیش کئے جاتے اور آپ ضروری ہدایات دیتے۔ مدرسہ کی نگرانی بذات خود فرماتے تھے۔ طلبہ کے امتحانات لیتے‘ ان گراں بار خدمات کے ساتھ مختلف علوم وفنون پر تصنیف وتالیف بھی فرماتے۔ شب کے دس بجے سے علومِ ظاہری و باطنی کا درس دیا کرتے ۔ اس سے فارغ ہو کر سلسلہ قادریہ کا ذکر شروع کیا جاتا۔یہ نمازِ تہجد تک چلتا۔ نماز تہجد کے بعد نماز فجر و اشراق سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر آرام کرتے‘ پھر روز مرہ کے مشاغل کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ شدید علالت تک یہ سارے مشاغل بہ پابندی جاری رہے۔
پابندی احکام شرع:
آپ کی زندگی ملّت بیضاء کے بالکل مطابق تھی کھانے‘ پینے‘ سونے ‘ بیٹھنے‘چلنے پھرنے غرض ہر بات میں اسکا خیال رکھتے کہ کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہونے پائے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خلاف شرع ظاہر نہ ہوتیں۔
نماز:
پابندیٔ نماز کا یہ عالم تھا کبھی کوئی نماز قضا ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ مرض الموت میں جب آپ کو اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوگیا تھا۔ تیمّم کرکے لیٹے لیٹے ہی نماز ادا فرماتے۔ حتی کہ دورہ غش میں جو نمازیں قضا ہوجاتیں وہ بھی ادا فرماتے۔ سرطان پیٹھ میں تھا جس کی تکلیف سے چت لیٹنا نہایت دشوار تھا مگر آپ نماز کی خاطر یہ تکلیف بھی برداشت فرمائے۔ وصال سے دو تین گھنٹے پہلے جبکہ آپ کو اس قدر تنفس تھا کہ دور تک آواز سنائی دیتی تھی اور اس کی شدت سے زبان کو حرکت دینا متعذرتھا تو راقم(۱۱) نے دیکھا کہ صرف آنکھوں کے اشارہ سے نماز ادا فرمارہے ہیں۔اس وقت محسوس ہوا کہ یہ آخری نماز ہے۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ آپ دیر سے اسی میں مشغول ہیں۔
آپ ہمیشہ فرض نماز باجماعت (جیسا کہ لباس کے بیان میں گزرا) پورا لباس پہن کر اس قدر خشوع وخضوع سے ادا فرماتے تھے کہ دیکھنے والا متاثر ہوجاتا۔ علاوہ فرائض کے صرف تہجد اور صلوۃ اوابین کے پابند تھے کیونکہ آپ کا زیادہ وقت تالیف و تصنیف میں گزرتاتھا۔
روزہ :
چونکہ نماز دوسرے مشاغل سے روکتی ہے اور روزہ میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ مشاغل علمی میں حارج ہو۔ اس لئے آپ روزے کثرت سے رکھتے تھے۔ علاوہ مفروضہ و مسنونہ روزوں کے نفل کو بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ ایّام متبرکہ و ایام بیض (ہر مہینہ کی تیرھویں‘ چودھویں و پندرھویں) کے علاوہ ہر دوشنبہ وپنجشنبہ کو بھی روزہ رکھتے تھے۔ آخر میں جب یہ کافی معلوم نہ ہوا تو صوم داؤدی ؑ شروع فرمادیا۔(صوم داؤدی ایک دن روزہ رکھنا اور دوسرے دن نہ رکھنے کو کہتے ہیں)۔ احادیث میں صومِ دادؤدی کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس واسطے کہ روزانہ روزہ رکھنے سے نفس عادی ہوجاتا ہے اور اس پر کچھ گراں نہیں گزرتا۔ ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا طبیعت پر بے حد شاق گزرتا ہے۔
زکوۃ :
آپ کی خیرات کا ذکر جو دوسخا کے عنوان میں گزر چکا ہے سچ تو یہ ہیکہ آپ اس عبادت سے محروم تھے۔ کبھی آپ صاحب نصاب ہوتے ہی نہ تھے۔ آپ پر زکوۃ واجب کیسے ہوتی۔ اوائل عمر میں تو عسرت سے گزری اس میں گزر بسر ہی مشکل تھی بعد میں جو کچھ آتا اس پر ایک سال تو کیا ایک مہینہ بھی بمشکل گزرتاتھا۔
حج :
آپ نے کل تین(۳) حج کئے اور کئی سال تک مدینہ طیّبہ میں قیام فرمایا جس کی تفصیل پچھلے اوراق میں گزرچکی ہے۔(۱۲)
مجاہدہ نفس :
علم وعبادت ظاہری کا خاصہ ہے کہ کبر ونخوت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے اور جب تک نفس کو قابو میں نہ کیا جائے یہ بات دور نہیں ہوسکتی اس لئے صوفیائے کرام ‘ علماء ظاہر کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے کیونکہ ان کی نظر ہمیشہ ظاہر پر رہتی ہے باطن پر نہیں اور وہ صرف باطن کو دیکھتے ہیں۔ مولانا صرف عالم ظاہرہی نہ تھے بلکہ ان لوگوں میںتھے جن کو امام غزالیؒ نے علمائے آخرت یا علمائے باطن کے نام سے موسوم کیا ہے۔ تصوف میں سب سے اہم اور پہلی بات مجاہدہ نفس ہے۔ اسی سے انسان اخلاق حسنہ سے متصف اور اخلاق سیئہ سے پاک ہوتا ہے۔ اسی لئے صوفیاء اس کو جہاد اکبر کہتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔ ؎
بڑے موذی کو مارا نفسِ امّارہ کو گر مارا
نہنگ واژدہا وشیرِ نر مارا تو کیا مارا
کیونکہ آپ جامع الکمالات تھے ‘عالم بھی تھے اور صوفی بھی اسلئے ادھر شریعت ظاہری کی پابندی بھی کرتے اُدھر تصوف کی منزل بھی طے فرماتے سابقہ بیانات سے ظاہر ہے کہ آپ نے ہر طریقہ سے مجاہدہ نفس فرمایا‘ کھانے میں ‘ سونے میں‘ رہنے سہنے میں۔ بہر حال جس طرح ضرورت پڑتی یاجس طرح نفس قابو میں آتا ہو اس طرح عمل فرماتے۔ برسوں شب بیداری میں گزاردی۔ کبھی اس طرح بسر کرتے کہ رات و دن میں کچھ دیر سوتے اور پھر بیدار ہوجاتے کبھی روز ہ رہتے کبھی افطار کرتے۔ سخت بچھونے پر سوتے۔ سادہ غذا کھاتے‘ یہی وجہ ہے کہ آپ مجسم اخلاق تھے۔
تجرّد :
اس عنوان سے ناظرین کو ضرور تعجب ہوگا کہ آپ نے نکاح کیا اولاد ہوئی پھر تجرّد کیسا؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ اُدھر اتباع سنّت کے لئے نکاح ضروری تھا آپ نے نکاح کرلیا۔ ادھر تزکیہ نفس و دینی قومی خدمات کے لئے بموجب ارشاد باری تعالی: یٰااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوٌّ لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ (۱۳)کے تجرد کی ضرورت تھی چنانچہ جب آپ کی زوجہ محترمہ نے انتقال فرمایا تو اس وقت آپ کی عمر (۳۹) سال تھی۔ قویٰ نہایت اچھے تھے۔ آمدنی معقول تھی اور معقول اور مزید یہ اولاد ذکور میں سے کوئی بھی زندہ نہ تھا۔ بہر حال اگر آپ دوسرا عقد فرماسکتے تھے مگر آپ نے محض رضائے الہی اور مجاہدہ نفس کی خاطر سب کچھ برداشت فرمایا۔ دوسرا عقد نہیں کیا۔
رمضان المبارک کا احترام و اہتمام:
رمضان المبارک کے سایہ فگن ہونے سے دو تین ماہ قبل ہی سے پانچ چھ سو روزہ داروں کی دو وقتہ ضیافت کے لئے خریدی غلہ وغیرہ کا انتظام شروع کیا جاتا یکم؍ رمضان المبارک کو دو بجے سے تنور سلگا یا جاتا اور نہایت عمدہ نان پکوائی جاتی ۔ قورمہ اور کھیر کا انتظام کیاجاتا۔ اس کا سلسلہ رمضان کے ختم تک چلتا برادری کے لوگ‘ مریدین‘ طلبہ اور اکثر بخارا کے مسافر دسترخوان پر رہتے جنکے ساتھ مولانا بھی بلا تکلف تناول فرماتے۔ مریدین‘ جو شب و روز رہتے۔ انکے لئے افطار کا بھی انتظام کیا جاتا‘ اس طرح اس ارزانی کے زمانے میں تقریباً پانچ ہزار روپیے صرف کئے جاتے اور جملہ مصارف خود مولانا برداشت فرماتے۔ تراویح باجماعت ادا کئے جانے کا اہتمام بھی تھا۔ رمضان المبارک میں ہوٹلوں میں علانیہ خورد و نوش کے امتناعی احکام جاری کروائے تھے اوراسکی بھی ممانعت کرادی گئی تھی کہ افطار سے قبل تک کوئی تقریب عمل میں نہ لائی جائے۔
سماع :
حضرت مرشد العلماء حاجی امداد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے طریقہ چشتیہ میں بیعت تھی‘ اسلئے کبھی کبھی آپ سماع کا اہتمام بھی فرماتے تھے مگر اس میں بھی شریعت کا پورا پورا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا۔ محفل سماع میںکوئی ایسا شریک نہیں ہوسکتا تھا جو اس کا اہل نہ ہو‘ اور کبھی کبھی آپ تنہا ہی سماعت فرماتے اور کبھی ایسا ہوتا کہ آپ حجرہ میں ہوتے‘ دروازہ بند اور قوال دروازہ کے باہر دروازہ سے متصل غزل سرائی کرتا سماع کا متفق علیہ محتاط طریقہ حسب ذیل ہے:
قال اللہ تعالی: یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ عَلٰی مَایَشَائُ۔ اللہ تعالیٰ خلق میں جو خاصہ ہے بڑھاتا ہے مفسرین نے حسنِ صوت سے اسکی تفسیر کی ہے۔
غنا کے معنی‘ الحان خوش اور آواز خوب کے ہیں۔ ارشاد نبوی: مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ فَلَیْسَ مِنَّا۔اسی معنی میں ہے یعنی قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ نہ پڑھنے والا ہمارے طریقہ پر نہیں ہے اور حکم یہ ہے کہ زَیِّنُوْا الْقُرآنَ بِالصَّوْتِ الْحَسَن۔ حسن صوت سے قرآن کو زینت دو۔ اور غنا مزامیر کے ساتھ حرام ہے۔ چنانچہ ارشاد نبی کریم صَوْتَانِ مَلْعُوْنَانِ صَوْتُ وَیْل عِنْدَ مُصِیْبَتٍ وَصُوْت مِزْمَارٍ عِنْدَ نَغْمَۃٍ۔ دو آواز ملعون ہیں ایک آواز واویلا جو بوقت مصیبت کیا جاتا ہے دوسری آواز مزمار جو بوقت نغمہ ہوتا ہے۔ اور حرمت کی وجہ صدر شہید نے جامع صغیر میں لہو قراردی ہے۔ اَلْغِنَا حَرَامٌ بِالْمَزَامِیْرِ لِاَنَّھَا لَھْوٌ وَ اللَّھْوُ حَرَامٌ۔ مزامیر کے ساتھ غنا حرام ہے اس لئے کہ وہ لہو ہے اور ہر لہو حرام ہے۔ لہذا اگر غنا میں لہو نہ ہو تو وہ حرام بھی نہیں۔ چنانچہ حسامی میں ہے۔ وَاِذَاعَدْمُ الْعِلَّۃِ عَدَمُ الْحُکْمِ۔علت معدوم ہوتوحکم بھی معدوم ہوتا ہے۔ قول محقق یہ ہے کہ حسن صوت دل میں کچھ پیدا نہیں کرتا دل میں جو کچھ ہوتا ہے اس کو جنبش میں لاتا اور حرکت دیتا ہے۔
شیخ الاسلام نظام الحق والدینؒ نے رسالہ شمسیہ میں لکھا ہے کہ۔
’’سماع نہ مطلق حرام ہے نہ مطلق حلال ‘ عوام پرجو لہو و لغو کے طریقہ سے سنتے ہیں حرام ہے زاہدوں کے لئے حلال ہے اہلِ تصوف کے لئے مستحب ہے‘‘۔
حضرت شاہ نقشبند ؒ سے سماع کی بابت دریافت کیا گیاتو فرمایا: نہ من ایں کار میکنم ونہ انکارمیکنم۔یعنی میں نہ یہ کام کرتا ہوں اور نہ میں اسکا انکار کرتاہوں۔ چونکہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے اس لئے محتاط صورت ہے کہ اسکو نہ کیا جائے۔ اور اس کا ثبوت بھی ہے بعض بزرگ سماعت فرماتے تھے اسلئے اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا یہ بات بالکل ویسی ہی ہے۔ جیسے ضبّ (گھوڑ پھوڑ) کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا اَکُلُہُ وَلَا اُحْرِمُہُ۔ میں اس کو کھاتا بھی نہیں اور حرام بھی قرار نہیں دیتا۔
حضرت مولانا علیہ الرحمہ ان جملہ امور کے پیش نظر بلا مزامیر کے قوال سے اشعار سناکرتے تھے اور اس میں بھی ممکنہ احتیاط ملحوظ رکھا جاتا تھا۔
اصلاحی کارنامے:
ملک میں جہالت کا دور دورہ تھا عیش ونشاط گانے بجانے عام تھے‘ فسق وفجور کا بازار گرم تھا۔ حضرت مولانا علیہ الرحمہ نے نہایت خاموشی سے ان کی اصلاح کی جانب توجہ فرمائی اور بہ تدریج ان کی اصلاح کا کام شروع کیا گیا۔ چونکہ مولاناسے امور مذہبی وصدارت العالیہ متعلق تھے اسلئے اولاً اسی جانب توجہ کی گئی یہ دفاتر غیر منظم اور برائے نام تھے۔
۱} ان کی تنظیم کرائی گئی۔ اہل خدمات شرعیہ کے لئے انعامات
وغیرہ مقرر تھے مگر شرعی خدمات کی انجام دہی کا نام نہ تھا۔
۲} ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست فرمایا۔
۳} تعلیم یافتہ اہل خدمات سے اہل دیہات کے تعلیم و اخلاق کی
درستگی کا کام متعلق کیا گیا۔
۴} واعظین مقرر کئے گئے نکاح وازدواج کے سلسلہ میں جب کبھی
زوجین میں تفریق ہوجاتی تو مہر وغیرہ منضبط نہ ہونے کی وجہ
سے جھگڑے کھڑے ہوجاتے‘ عدالت تک نوبت آتی اس خرابی
کو دور کرنے کے لئے سیاہہ جات مرتب کروائے گئے جن میں
ایجاب و قبول‘ شہادت ‘مقدارمہر وغیرہ کا اندراج ہوتا۔
۵} عدالت العالیہ کو پابند کیا گیا کہ مقدمہ طلاق وغیرہ پیش ہوتو
صدارت العالیہ کو تاریخ طلاق سے آگاہ کیا جائے کہ انقضاء
عدت پر بموجب احکام شرع شریف نکاح ثانی عمل میں آئے۔
۶} مساجد میں باجماعت بہ پابندی ادائے نماز کے لئے تقرر امام
وموذن کی خاطر موازنہ حکومت میں سالانہ معتد بہ رقم شریک کرائی
گئی اور بتوسط امور مذہبی‘ ائمہ و موذنین کا تقرر عمل میں لایاگیا۔
۷} مسالخ میں ذبیحہ جانور ان کے لئے مسائل ذبح سے واقف
ملاؤں کا تقرر لازمی قرار دیا گیا۔
۸} شراب وسیندھی مسکرات کی دوکانیں اندرون بلدہ تھیں انکو
حدود بلدہ سے برخواست کرادیاگیا۔
۹} رمضان المبارک کے احترام کے مد نظر ہوٹلوں پر پردہ ڈالنے
کے احکام جاری کروائے گئے اور علانیہ کھانے پینے سے
ممانعتی احکام کا اجرا کرایاگیا۔
۱۰} بزم عرس میں مینا بازار قائم کئے جاتے تھے اور مزارات اولیاء و
صلحاء پر طوائف بازی مجرا ادا کیا کرتے تھے ان تمام کو بند کروا دیا گیا۔
۱۱} پست اقوام کی غیر مسلم عورتوں میں مرلی بننے کی رسم تھی جس کے
بعد وہ جس سے چاہے ناجائز تعلق پیدا کرنے میں آزاد تھیں۔
اسی طرح مرد مخنث بنتے تھے اور زنانی لباس پہنا کرتے تھے۔
اس کو جرم قرار دیا گیا اور آئندہ سے اس رسم کو مسدود کرادیا گیا۔
اور حضرت مولانا کی تحریک پر مذہبی کمیٹی مقرر کی گئی جس کے
صدر حضرت ممدوح ہی مقرر ہوئے۔ اس کمیٹی نے بہت سے
اصلاحی کام انجام دئے۔
امور مندرجہ بالا نہایت اختصار کے ساتھ ضبط تحریر کئے گئے جن کے دیکھنے سے واضح ہے کہ مولانا ملک میں ایک مجاہد اعظم اورمصلح کبیر تھے‘ اخلاص اور رضا ئے الہی کا نتیجہ ہے کہ اس کی کوئی شہرت اور ان عظیم امور کی مولانا کی جانب نسبت عام نہیں ورنہ عام طور سے کام تھوڑا اور شہرت عالمگیر کی جاتی ہے۔
دینی علمی خدمات:
شارع اسلام علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر مرد و زن مسلمان پر علم دین کا حاصل کرنا لازم قرار دیا ہے مگر عام طور سے مسلمان اس سے غافل وبے خبر تھے۔ حضرت مولانا علیہ الرحمہ نے ان کو اس جانب متوجہ ہونے کے لئے اولاً واعظین مقرر فرمائے اور اہل خدمات شرعیہ کے تعلیم یافتہ افراد کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں ان کے اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے مقرر فرمایا اور اس کے ساتھ متعدد مدارس کہلوائے۔ ہندوستان میں اس قسم کے جو مدارس قائم تھے انکی فہرست طلب فرماکر ان کی نوعیت کار کے لحاظ سے حکومت کی جانب سے رقمی امداد جاری کروائی جسکی تفصیل درج ذیل ہے۔
(۱) مدرسہ دیوبند ۶۰۰روپیہ ماہانہ (۲)مدرسہ کولھاپور ۳۰۰روپیہ ماہانہ (۳)مدرسہ بدایون ۱۲۵ روپیہ ماہانہ (۴)مدرسہ میواڑ اودھے پور ۱۲۵ روپیہ ماہانہ (۵) مدرسہ سبحانیہ الہ آباد ۱۰۰روپیہ ماہانہ (۶)مدرسہ فتح پور ۵۰ روپیہ ماہانہ (۷)مدرسہ اجمیر شریف ۱۰۰۰روپیہ سالانہ۔
مسجد آسٹریلیا کی تعمیر کے لئے چالیس ہزار اور بصرہ کی مسجد کے لئے خطیر رقم منظور کرواکر بھجوائی گئی۔
کتب خانہ آصفیہ :
حیدرآباد میں عوام کے مطالعہ کے لئے کتب خانہ قائم کئے جانے کی تحریک فرمائی ملّا محمد عبدالقیوم اور عماد الملک کی تائید سے ۱۳۰۸ھ میں کتب خانہ آصفیہ قائم کیاگیا۔ جو تا حال قائم ہے اور جس سے عوام علمی استفادہ کیا کرتے ہیں۔
دائرۃ المعارف العثمانیہ:
عربی علوم وفنون کی قابل طباعت کتابوں کے لئے قیام دائرۃ المعارف کی تحریک فرمائی جو مذکورہ ہر دو بزرگوں کی تائید سے منظور ہوئی۔ اور سب سے پہلے اس میں حدیث کی جامع ضخیم کتاب کنز العمال کی اشاعت عمل میں آئی جس کو مولانا علیہ الرحمہ نے بزمانہ قیام مدینہ منورہ بصرف زر کثیر نقل کروایاتھا اور وہ کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ کی گئی جنکو مولانا مرحوم نے نقل کروایا تھا اور سلسلہ طباعت جاری رہا اور جاری ہے اور اب تک گئی سونادر و نایاب کتابیں شایع ہوچکی اور اس علمی دائرہ کی وجہ سے بیرون ہند‘ حیدرآباد دکن کی نہایت ہی قدر و منزلت ہے۔
مجلس اشاعت العلوم:
احاطہ مدرسہ نظامیہ میں اشاعت العلوم کے نام سے ایک ادارہ قائم فرمایا کہ جس میں دینی ضروری معلومات پر مشتمل محققانہ کتابیں شائع ہوں چنانچہ اس وقت تک اس ادارہ سے تقریبا (۱۰۰) کتابیں شائع کی گئیں(۱۴) اور ہر کتاب اس لائق ہے کہ اس سے عام مسلمان وافق ہوں خود مولانا مرحوم نے اپنی تالیفات وتصنیفات بھی اسی ادارہ سے شائع کروائیں جن میں سے حسب ذیل کتابیں کئی مرتبہ طبع کرائی گئیں۔
۱۔ انوار احمدی:
اس کتاب میں رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل حضور پر درود بھیجنے کے فوائد صحابہ کرام ؓ اولیاء عظامؒکے آداب اور دیگر ضروری مسائل کی تحقیقات ہیں۔ کتاب ہر مسلمان کے مطالعہ کے لائق ہے۔
۲۔ مقاصد الاسلام حصہ اول :
اس حصّہ میں تمدن‘ اخلاق‘ فقہ‘ کلام پر تحقیقی مباحث ہیں۔
حصہ دوم :
اس میں معجزات ‘ کرامات اور مرزا صاحب قادیانی کا معقول رد ہے۔
حصہ سوم:
تخلیق آدم ؑ ‘معرفت الہی ‘ روح ‘ نفس ناطقہ‘ تصوف وغیرہ مفید امور پر محققانہ بحث کی گئی ہے۔
حصہ چہارم:
علم ‘ اہل علم کی فضیلت‘ اسلام پر معترضین کے اعتراضات کے معقول جوابات دئے گئے ہیں۔
حصہ پنجم:
ضرورت عبادت‘ جزا وسزا ‘ جنت و دوزخ‘ اہلبیت کرام‘ خلافت‘ خلفاء اربعہ پرمباحث قابل دید ہیں۔
حصہ ششم:
اسلام میں فتنہ وبغاوت کی تاریخ‘ حصول ولایت‘ تقوی‘ مسئلہ جبر و قدر پر عالمانہ مباحث ہیں۔
حصہ ہفتم:
عجائب جسمانی‘ تجدد امثال ‘ اقسام وحی‘ ارادت مریدی‘ عذاب قبر‘ مختلف مضامین کی تحقیق ہے۔
حصہ ہشتم:
اصلاح تمدن‘ سلطنت اسماء حسنیٰ‘ ایمان واسلام وسوسہ شیطانی۔ سماع موتی پر مدلل مباحث ہیں۔
حصہ نہم:
معجزات آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی تفصیل‘ فطرت شناخت محبت ومخالفت‘ ضرورت محبت‘ دنیا وبت پرستی وغیرہ عام معلومات پر عالمانہ بحث بحوالہ کتب معتبرہ‘‘۔
حصہ دہم:
کمال ایمان حضرت صدیق اکبرؓ، عدل فاروقی‘ صبر و استقلال حضرت خالدؓ۔ مسئلہ بیعت‘ ندائے یا محمد ﷺ و دیگر مہمات مسائل پر مشتمل ہے‘‘۔
حصہ یازدہم:
وہابیہ کے خیالات‘ اللہ نور السمٰوٰت والارض کی تفسیر‘ ضرورت اتباع صحابہ‘ مختلف علوم کی تحقیق۔
حقیقۃ الفقہ حصہ اول و دوم :
حدیث‘ فقہ‘ اجتہادکی ضرورت پر شرح وبسط کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔
کتاب العقل :
عقل کی اہمیت و فضیلت ‘ امور دینیہ میں عقل کاکس حد تک دخل ہے۔ حکمت قدیمہ وفلسفہ جدیدہ کے مخالف مذہب کے اعتراضات کا شافی جواب کتب مندرجہ بالا سے حضرت شیخ الاسلام کے تبحر علمی ومعلومات علمی کا پتہ چلتا ہے۔
افادۃ الافہام حصہ اول و دوم :
مرزا صاحب کے ازالۃ الاوہام کا معقول جواب کتاب مذہب قادیانی کا آئینہ ہے جس میں اس کے خدوخال نمایاں ہوجاتے ہیں اکثر حضرات نے مذہب قادیانی کی تردید میں اس کتاب کو پیش نظر رکھا ہے۔
انوار الحق :
اس کتاب میں مرزا صاحب کی تردید ۔ وہابیت کا ابطال‘ ابہام اور اس کے اقسام پر نہایت شرح وبسط سے بحث کی گئی ہے۔
ان کتب کے علاوہ حضرت مولانا علیہ الرحمہ کے دیگر مفید کتب بھی ہیں یہ کتب اور دیگر علماء کی ایسی کتابیں جن کے مطالعہ کی دورِ حاضر میں شدید ضرورت ہے دفتر اشاعت العلوم واقع احاطہ جامعہ نظامیہ سے مل سکتی ہیں۔
مدرسہ نظامیہ کا قیام:
۱۲۹۲ھ میں مدرسہ نظامیہ کا قیام اس مقصد سے کیا گیاکہ ہمیشہ اہل علم کی ایک جماعت پیدا ہوتی رہی اور علم دین و عربی کی حفاظت و اشاعت کا فریضہ انجام پاتے رہے اسکے ساتھ دارالاقامہ بھی قایم کیا گیا جس میں طلباء کے قیام‘ طعام‘ لباس‘ کتب درسیہ اور دیگر ضروریات کامنجانب مدرسہ انتظام بھی رکھا گیا۔ یہ دینی علمی ادارہ ابتداء بہ شکل مکتب تھا۔ مولانا علیہ الرحمہ نے ہندو بیرون وہند کے جید علماء کو مقرر فرماکر درس نظامیہ کو جاری فرمایا جسکے فیوض وبرکات سے صد ہانامی گرامی علماء نکلے جو شہرہ افاق ہیں۔اس کی وجہ سے مدرسہ کی بھی شہرت دور دور تک پہنچ گئی اور اقطاء عالم افغانستان‘ بلوچستان‘ بخارا‘ پنجاب‘ بنگال وغیرہ سے طالبان علوم اس مدرسہ میں شریک ہوئے اور فارغ ہو کر اپنے اپنے وطن کو واپس ہوئے اور علم دین کی خدمت میں مصروف رہے۔ دارالاقامہ میں رہنے والے طلبہ کی اس وقت تعداد پانچسو سے متجاوز تھی مگر اس وقت دیڑھ سو کے اندر ہے کیونکہ انقلاب حکومت کے بعد حکومتی امداد مسدود ہوگئی اور مدرسہ مالی پریشانیوں سے دو چارہے۔ مقام عبرت ہے کہ جس مدرسہ کے بانی نے دیگر مدارس کو امداد جاری کروائی تھی آج ان ہی کا یہ مدرسہ محتاج امداد ہوگیا ہے اب تمام تر ذمہ داری مسلم قوم کے ذمہ ہے خصوص وہ جو تاجر‘ فن کا ر اور سرمایہ دار ہیں امید ہے کہ وہ اس کی جانب پوری توجہ مبذول فرمائیں گے اور اللہ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ موجودہ پریشانی باقی نہیں رہے گی اور مدرسہ علم دین کی بیش ازبیش خدمات انجام دے گا۔
مدرسہ نظامیہ کی مقبولیت:
حضرت بانی مدرسہ شیخ الاسلامؒ نے کتاب ’’مقاصد الاسلام‘‘ (۱۵) میں ایک بزرگ کا خواب نقل فرمایا ہے جس سے جامعہ ہذا کی اہمیت اور باگاہ رسالتؐ میں اس کی مقبولیت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہیںاور کل اسناد اس غرض سے طلب فرمارہے ہیں کہ خود بھی ان کو دستخط سے مزین فرمائیں۔ والحمد للہ علی ذلک
اسباب سے زیادہ مسبب پر نظر:
ارشاد الہی ہے وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہُ (۱۶) جس کا اللہ پر بھروسہ ہو تو اللہ اس کے لئے کافی ہے اور یَرْزُقُہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ (۱۷)ایسی جگہ سے روزی پہونچاتاہے۔ جہاں اس کا خیال وگمان بھی نہ تھا۔ یعنی اسباب جو اللہ تعالی کے پیدا کردہ ہیں اُنکو صحیح طریقہ سے ضرور استعمال کیا جائے انکو ترک کرنا مناسب نہیں مگر بھروسہ ذاتِ اِلہ پر رکھا جائے کہ وہی ہر چیز کا خالق ہے اور ہر بات کا کارساز ہے مولانا ممدوح بھی اسی پر کاربند تھے۔
چنانچہ آپ جس طرح اپنے معاملات میں اللہ عزوجل کی ذات پر بھروسہ فرماتے تھے‘ اسی طرح مدرسہ نظامیہ کے معاملہ میں بھی توکل پیش نظر تھا آپ نے فرمایا کہ خرچ کو ہمیشہ آمد سے زاید رکھنا چاہتے تاکہ احتیاج الی اللہ باقی رہے ‘ہم تویہ سمجھے ہیں کہ یہ ان لوگو ںکے لئے مناسب ہے جن کے پیش نظر ہمیشہ خدا ئے تعالی اور اس کا قادر مطلق اور رزاق ہونا ہو۔ ورنہ ہم جیسوں کے لیے تو وَلَاتَبْسُطُھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۱۸)ہی بہترہے۔ وفات سے کچھ روز پہلے جب آپ نے مدرسہ کی مجلس انتظامی بدلی تھی تو بعض اراکین نے چاہا کہ مدرسہ کا ایک موازنہ مرتب کریں اور اخراجات کو اس سے بڑھنے نہ دین اس پر آپ نے فرمایا کہ میں ایک بات کہتا ہوں غالباً آپ حضرات اس کو پسند نہیں فرمائیں گے وہ یہ کہ جس طرح میں نے مدرسہ کو توکل پر چلایا ہے اسی طرح آپ بھی طلبہ کی تعداد مقرر کی نہ ان کے اخراجات کا کوئی اندازہ کیا یہی وجہ ہے کہ اب تک برابر طلبہ کی تعداد بڑھتی ہی رہی اور اضافہ طلبہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے آمدنی بھی بڑھادی۔(۱۹)
وفــات :
۱۳۳۶ھ کے اوائل میں مرض سرطان کا حملہ ہوا اور یہ اندر کا اندر بڑھتا ہی گیا اس کی اطلاع حضور نظام آصف سابع کو جو اس وقت بمبیٔ میں تشریف فرماتھے‘ ذریعہ ٹیلی گرام اطلاع دی گئی وہاں سے ہدایت آئی: ڈاکٹر ارسطو یا رجنگ اور چند قابل سرجن اور ڈاکٹروں سے معائنہ کراکے ان کی رائے لیں۔بعد معائنہ اس پر اتفاق ہوا کہ اپریشن کرنا ضروری ہے چنانچہ ڈاکٹر ارسطو یارجنگ نے آپریشن کیا۔ آپریشن کے بعد مولانا پر بے ہوشی طاری رہی آپریشن کے تین گھنٹہ بعد روز پنجشنبہ جمادی الآخر ۱۳۳۶ھ کا ہلال افق مشرق پر نمودار ہوا اور یہ آفتاب علم و عمل غروب ہوگیا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ مکہ مسجدمیں نمازجنازہ پڑھی گئی اور بموجب فرمان خسروی۔
جس مدرسہ سے مولوی صاحب کو لگاؤ ‘ محبت شغف تھا اور جس مقام سے مولانا کو از جوانی تاپیرانہ سالی تعلق تھا وہیں رکھنا مناسب ہے۔(یعنی جامعہ نظامیہ کے صحن میں)
جامعہ نظامیہ میں تدفین عمل میں آئی ۔ حضرت مولانا علیہ الرحمہ کے انتقال پر آج (۶۹) سال ہوئے (۲۰)مگر مدرسہ سے مولانا کو جو تعلق تھا وہ برقرار ہے۔ کیونکہ حضرت علیہ الرحمہ کو مدرسہ سے روحانی تعلق تھا۔ روح جسم سے علحدہ ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہے وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ(۲۱)(راہ خدا میںجو قتل کئے جاتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو) روح پر موت کا اثر مرتب نہیں ہوتا۔ روح بدن سے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہے وہ بدن کی طرح عرض نہیں بلکہ بذاتہ قائم ہے وہ خود کو اور اپنے خالق کو پہچانتی ہے۔ معقولات کا ادراک کرتی ہے۔ مومنین کے ارواح اجسام نورانی ہیں اور اپنے حُسن عمل سے لذت اندوز ہوتی ہیں اور نعیم جنت کے ادراک سے خوش حال رہتی ہیں۔ اسی لئے اہل سنت وجماعت کے نزدیک وفات اولیاء کے بعد بھی ان کی کرامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس مضمون میں مولانا کے کرامات کا عنوان نہیں رکھا گیا جس قدر حالات بیان ہوئے وہ تمام از قسم کرامات ہی ہیں۔
اقسام کرامات:
کرامات کی دوقسمیں ہیں: حسّی‘ معنوی عام لوگ حسی کرامات اور صاحب کرامات کو ولی سمجھتے ہیں حالانکہ معنوی کرامت خاص اہل اللہ میں موجود رہتی ہے جن میں سب سے زیادہ بزرگ کرامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ سے آداب شریعت کی حفاظت کرائے اور اخلاق کریمہ پر عمل کرنے اور بُری باتوں سے بچنے کی توفیق دے واجبات اور سنن کی بر وقت ادائی کا اس کو خوف رہے۔ خیرات وصدقات کی طرف سبقت کرے‘ حقد وحسد اور ہر بُری صفت سے قلب کو پاک کرے اعمال صالحہ سے آراستہ ہو۔ محققین کے نزدیک یہ ایسی کرامت ہے جس میں مکر و استدراج کو دخل نہیں مولانا علیہ الرحمہ کی زندگی میں یہ جملہ مذکورہ امور بدرجہ اتم موجود تھے۔ اس کرامت معنوی کے ساتھ مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے زندگی کے بعد بھی کرامت حسّی کا ظہور ہوا مگر ان کے بیان سے عوام کو کوئی معتدبہ فائدہ نہیں۔ کرامت حسّی کاظہور صاحب کرامت کے عندا للہ اکرام واعزاز کی دلیل ہے۔ مولانا علیہ الرحمہ کے بعد مدرسہ پر جس قدر آفات ومصائب آئے جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی مدافعت میں مولانا علیہ الرحمہ کی روح پر فتوح ہی کارگر رہی ہے۔ اور ان شاء اللہ آئندہ بھی مولانا کی روح مقدس مدرسہ کی جانب متوجہ رہی گی حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب پانی پتی ؒ تفسیر مظہری میں رقمطراز ہیں۔
’’ بہت سے اولیاء کرام سے بتواتر ثابت ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کرتے اور دشمنوں کو برباد کرتے رہے ہیں اور جنکو اللہ چاہتا ہے انکو اللہ کا راستہ بھی دکھاتے رہے ہیں۔(۲۲)
نجیبہ بیگم صاحبہ آپ کی ایک مریدہ ہیں جن کو مولانا سے رشتہ داری بھی تھی۔ کثرت ذکر سے ان کا قلب اتنا صاف ہوگیا تھا کہ ان کے انکشافات صحیح ہوتے تھے جس کا ذکر خود مولانا نے بھی بارہا فرمایاتھا۔ اس لئے وصال کے بعد راقم نے ان سے خواہش کی کہ آپ مولانا کے کچھ مراتب باطنی بیان فرمائیں تاکہ درج سوانح کروں چنانچہ بی بی صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے جب کبھی مراقبہ میں مولانا کا تصورکیا ہے تو آپ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ حضرت سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پاک میں ہیں اور آپ کے دونوں آبرو سے نور زبردست شعا ئیں نکل کر آسمان تک جاری ہیں اور آپ بے خود ہیں معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو یہ مرتبہ محض اعلاء کلمہ حق اور اشاعت دین مصطفوی کی وجہ سے حاصل ہوا۔ بی بی صاحبہ ہمیشہ فتوحات مکیہ کے حلقہ درس سے استفادہ کے لئے قریب کے ایک کمرے میں بیٹھتیں اور سنتی تھیں ان کا بیان ہے کہ میں نے بارہا حضرت غوث پاک ص کو حلقہ درس میں تشریف لاتے دیکھا ہے۔ کبھی کبھی کھڑے کھڑے ہی سماعت فرماتے‘ کبھی بیٹھ بھی جاتے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مولانا کا طرز تعلیم دیکھنا مقصود ہوتا ہے۔ ایک دفعہ بر وقت درس حضرت سردار دو عالم علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا کہ ایک دوسرے کمرے میں تشریف فرماہیں اور مولانا درس دے رہے ہیں اسی طرح آنحضرت ا بھی درس میں مصروف ہیں ایک اور دفعہ مولانا کسی اہم مسئلہ کو اچھی طرح سمجھانہیں سکے بار بار رک جاتے تھے میں نے دیکھا کہ یہاں سے حرم پاک تک ایک صاف راستہ ہے حضرت سرور دو عالم ﷺحطیم کعبہ میں تشریف فرما تدریس میں مشغول ہیں۔ آپ کے رک جانے سے آنحضرت ﷺنے حاضرین سے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ ذرا توقف کریں کہ اس وقت میرا بچہ حل مضمون سے قاصر ہوگیا ہے اور مولانا کی جانب توجہ فرمائی۔ جب تو جہ پاک سے مضمون حل ہوگیا تو رسول انور ﷺ نہایت مسرور ہوئے اور اپنے حلقۂ درس کی جانب توجہ منعطف فرمائی(۲۳)۔
اعلحضرت کی مزار شریف پر حاضری :
اعلحٰضرت نواب آصفجاہ سابع وصال کے تقریباً ہفتہ دیڑھ ہفتہ بعد بمبیٔ سے تشریف لائے۔ اور رونق افروز حیدرآباد ہوتے ہی مولاناکی مزار شریف پر تشریف فرماہو کر فاتحہ خوانی کے بعد دیر تک فیض حاصل فرماتے رہے اور تعمیر مزار مبارک اور عود و گل اظہار افسوس وعقیدت کے لئے جو فرمان شرف صدور لایا ہے وہ اس قابل ہے کہ یہاں درج کیا جائے ناظرین یہ معلوم کرلیں کہ شاہ والاجاہ کے دل میں مولانا کی کیا وقعت تھی۔
فرمان مبارک:
’’مولوی محمد انوار اللہ خان فضیلت جنگ بہادر اس ملک کے مشائخ عظام میں سے ایک عالم باعمل اور فاضل اجل تھے اور اپنے تقدس وتورع و ایثار نفس وغیرہ خوبیوں کی وجہ سے عامتہ المسلمین کی نظروں میں بڑی وقعت رکھتے تھے۔ وہ والد مرحوم کے اور میرے دونوں بچوں کے استاد بھی تھے اور ترویح علوم دینیہ کے لئے مدرسہ نظامیہ قائم کیا تھا جہاں اکثر ممالک بعیدہ سے طالبان علوم دینیہ آکر فیوض معارف و عوارف سے متمتع ہوتے ہیں مولوی صاحب کو میں نے اپنی تخت نشینی کے بعد ناظم امور مذہبی اور صدر الصدور مقرر کیاتھا۔ اور مظفر جنگ کا انتقال ہونے پر معین المہارمی امور مذہبی کے عہدہ جلیلہ پر مامور کیا۔ مولوی صاحب نے سررشتہ امور مذہبی میں جو اصلاحات شروع کیں وہ قابل قدر ہیں اور اگر وہ تکمیل کو پہونچائی جائیں تو یہ سررشتہ خاطر خواہ ترقی کرسکے گا بلحاظ ان فیوضات کے مولوی صاحب کی وفات سے ملک اور قوم کو نقصان عظیم پہونچا اور مجھکو نہ صرف ان وجوہ سے بلکہ تلمذ کے خاص تعلق کے باعث مولوی صاحب مرحوم کی جدائی کا سخت افسوس ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ انکی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے مدسہ نظامیہ میں دو تعلیمی وظیفہ کے نام سے ہمیشہ کے واسطے قائم کئے جائیں یہ وظیفہ کس درجہ کے طالب علموں کو کس مدت کیلئے اور کن شرائط سے دیئے جائینگے اس کے متعلق علٰحدہ تجاویز پیش کرکے میری منظوری حاصل کی جائے۔میرا یہ حکم جریدہ غیر معمولی میں شائع کیاجائے‘‘۔
بندگان عالی متعالی مدظلہ العالی ۱۲؍رجب المرجب ۱۳۳۶ ھ شرح دستخط مبارک اعلحضرت آصف سابع (۲۴)۔
حلیہ :
مولانا کا رنگ ہلکا سرخ و سفید‘ چہرہ کتابی۔ آنکھیں بڑی بڑی اور ڈاڑھی گھنی تھی وصال کے وقت اکثربال سفید ہوگئے تھے۔ قد بالا سینہ کشادہ‘ اور جسم دوہرہ ورزشی اور مضبوط تھا۔
شعر وشاعری:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے بوجہ منصب نبوت ورسالت شعر گوئی مناسب نہ تھی مگر احادیث شریفہ سے ثابت ہے کہ آپ اشعار کو پسند فرماتے تھے اور شعراء سے اشعار سنانے کی فرمائش کرتے اور اشعار سنکر لطف اندوز ہوتے اور دادِ سخن دیتے چنانچہ حضرت لبیدؔ کے شعر سے متعلق فرمایا کہ حق ترین بات لبید کا قول ’’اَلاَ کُلُّ شَیٌٔ مَاخَلَا اللّٰہ بَاطِلٌ ‘‘ہے یعنی اللہ کے سوا ہر چیز مٹ جانی والی ہے۔ اسی کے پیش نظر مولانا علیہ الرحمہ نے بھی اس وقت کی مروجہ زبان فارسی اور عام بول چال اُردو میں اشعار کہے جن کا مجموعہ شمیمؔ الانوار کے نام سے دفتر اشاعت العلوم نے شائع کیا ہے۔ اس میں سے ایک اُردو نظم درج ذیل ہے ہر شعر حقائق کا خزینہ معارف کا گنجینہ اور اسرار کا دفینہ ہے۔
نظم
جہاں میں ہیں جلوے عیاں کیسے کیسے
ہیں اسرار دل میں نہاں کیسے کیسے
الہی یہ دل ہے کہ مہمان سرا ہے
چلے آتے ہیں کارواں کیسے کیسے
شیاطین وجن وملک جملہ عالم
ترے درپہ ہیں پاسباں کیسے کیسے
ژژژ
حواشی و حوالہ جات
(۱) حضرت یتیم شاہ مجذوب قدس سرہٗ حضرت سانگڑے سلطانؒ کے روضہ کے راستہ میں مسجدسے متصل (ایک مجذوب یتیم شاہ نامی) رہتے تھے۔ ہمیشہ دلی جوش او رمستانہ حالت میں ہر طرف بلندآوازسے بڑلگاتے پھرتے تھے۔ اگر کوئی آپ سے دلی مراد کا طالب ہوتا تو وہ ان سے پوری ہوتی ۔ ہر ہفتہ بازارکا چکر لگاتے او رجو غلہ وغیرہاتھ لگتا سب کا مجموعہ ایک دیگ میں پکاتے پہلے اپنے اطراف کی بلیوں کوکھلاتے پھر دوسروں کو دیتے اور اگر جی چاہتاتو خود بھی کچھ کھالیتے ۔ اکثر لوگ اس ’’دیوانی ہانڈی ‘‘ کے شیدائی تھے کہتے تھے کہ اس جیسا ذائقہ کسی کھانے میں نہیں ملتا۔ راقم (مولف) نے بھی بچپن میں ان کی زیارت کی ہے اگر کوئی لذیزکھانے پیش کرتاتو لکڑی سے مار بھگاتے اور ناشائستہ الفاظ کہتے ۔ مدارخان نامی ایک سپاہی آپ کا سچا معتقد تھا ۔ مارکھا تا او رگالیاں سنتا لیکن آپ کے ساتھ رہتا۔ ایک دفعہ آپ کی مسجد کے صحن میں سورہا تھا آدھی رات کو کسی ضرورت سے بیدار ہواتو کیا دیکھتا ہے۔ کہ مجذوب صاحب کی جگہ ایک قوی شیر بیٹھا ہواہے، کانپنے لگا کہ شاید شیر نے مجذوب صاحب کو لقمہ بنالیا ہے او ران کی جگہ بیٹھ گیاہے۔ پھر کچھ ہی دیر بعد دیکھتا ہے کہ مجذوب صاحب اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔صبح اٹھاتواپنی مرادپاچکاتھا یعنی وہ مجذوب صاحب کے رنگ میں رنگ چکا تھا ۔ مجذوب صاحب کی وفات کے بعد یہ ان کا قائم مقام ہوا ان دونوں پیرو مرید کی قبریں اسی مسجد کے صحن میں واقع ہیں۔ راقم اکثر فاتحہ گذارنتاہے۔
(ماہنامہ محبوب حیدرآباد،ص۲۵،جون ۲۰۰۶ء ، بحوالہ ’’انوار القندہار ، حضرت شاہ محمد رفیع الدین فاروقیؒ، فارسی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد عارف الدین شاہ قادری ملتانی)
(۲)مطلع الانوار صفحہ ؍مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ؍ناشر جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ ۱۴۰۵ھ
(۳) رسالہ ’’حل المغلق فی بحث المجہول المطلق ‘‘
(۴) القرآن الحکیم، سورۃ الطلاق، آیت ۴
(۵)القرآن الحکیم، سورۃ الانشراح آیت ۶
(۶) ۲۲ جلدوں میں ایڈیٹنگ کے بعد دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد الہند سے شائع ہوچکی ہے۔
(۷) القرآن الحکیم، سورۃ القلم، آیت ۴
(۸) حضرت علی متقیؒ کنزالعمال جلد ۳، حدیث نمبر ۵۲۱۷، مطبوعہ مؤسۃ الرسالہ، بیروت لبنان۔ 1979ء
(۹) القرآن الحکیم، سورۃ الاعراف، آیت ۳۱
(۱۰)القرآن الحکیم، سورۃ النور، آیت ۳۷
(۱۱)حضرت مولانا محمد رکن الدین صاحبؒ تلمیذ شیخ الاسلام مفتی اول جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(۱۲)حقیقت یہ ہے کہ حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے جملہ ۴ حج ادا فرمائے جیسا کہ خود حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف مقاصد الاسلام حصہ چہارم ص ۴۱ میں تحریر فرمایا ہے۔
(۱۳) القرآن الحکیم، سورۃ التغابن، آیت ۱۴
(۱۴)۱۵۰ سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔
(۱۵)حضرت شیخ الاسلام؍ماہنامہ الندوہ شعبان ۱۳۲۲ھ
(۱۶)القرآن الحکیم، سورۃ الطلاق، آیت ۳
(۱۷)القرآن الحکیم، سورۃ الطلاق، آیت ۳
(۱۸)القرآن الحکیم، سورۃ بنی اسرائیل، آیت ۲۹
(۱۹)مولانا مفتی محمد رکن الدین ؒ مطلع انوار صفحہ نمبر۷۹ ۔۸۰
(۲۰)یہ اس وقت کی بات ہے جب معارف انوار لکھی گئی تھی۔ اب حضرت شیخ الاسلام کے وصال کو ۹۲ سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔
(۲۱)القرآن الحکیم، سورۃ البقرۃ، آیت ۱۵۴
(۲۲)جلد اول صفحہ ۱۵۲ مطبوعہ مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن
(۲۳)مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ مطلع انوار صفحہ نمبر ۔ ۸۲
(۳۱)مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ مطلع انوار صفحہ نمبر ۔ ۲۹۔۳۰
٭٭٭
No comments:
Post a Comment