Breaking

Sunday, June 9, 2019

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی ایک آفاقی شخصیت

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
ایک آفاقی شخصیت

از ۔مولانا پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدا لمجیدنظامی‘
سابق صدر شعبہ عربی عثمانیہ یونیور سٹی ، حیدرآباد


الحمد للہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین، الداعی الی اللہ باذنہ، والسراج المنیر۔ سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ۔ والمہتدین بہدیہ والداعین بدعوتہ الی یوم الدین۔ وبعد!
اللہ کا آخری پیغام اسلام،کامل طور پر دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ ارشاد الہی ہے ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘ (المائدۃ) آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور دین کی حیثیت سے اسلام کو تمہارے لئے پسند کر چکا ۔
اللہ کا دین مکمل ہے تودوسری طرف زندگی متحرک ہے ۔ اس کا ساتھ دینے کے لئے اللہ نے آخری طور پر جس دین کو بھیجا ہے وہ ابدی حقائق سے بھراہوا زندگی سے پر ہے ۔ ا س میں یہ صلاحیت رکھی کہ  ہر حال میں دنیا کی رہنمائی کرسکے وہ کسی دور کے ساتھ خاص نہیں ۔بلکہ وہ ایک زندہ دین ہے ۔ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (الانعام) امت محمدیہ (علی صاحبھا افضل الصلوۃوالسلام والتحیۃ) آخری اور عالمگیر امت ہے ۔اسلئے مختلف زمانوں اورادوار سے اس کا واسطہ رہا اور رہیگا ۔اس کو ایسی کشمکش کا سامنا پڑاجوکسی امت کو پیش نہیں آئی ۔ اس کا زمانہ تغیرات اورانقلابات سے بھرا ہواہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مکان وزمان کی تبدیلیوں اور ماحول کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اس امت کے لئے دو غیبی انتظامات کئے ۔ ایک تو یہ کہ ہر کشمکش اور تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکمل شریعت عطافرمائی ۔ دوسرا یہ کہ اس امت کو ہر دور میں ایسے زندہ اشخاص دئیے جو عملی زندگی کے ذریعہ ان تعلیمات کا نمونہ بن گئے ۔ اور ہر دور میں اس دین کو زندہ کرتے رہے اور کرتے رہیں گے ، اس امت کو جو افراد ملے اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔ جس دور میں جس صلاحیت اور قوت کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے وہ عطا کی ۔ شروع ہی سے اسلام پر ایسے شدید حملے ہوتے رہے کہ دنیا کا کوئی مذہب ان کی تاب نہیں لا سکتا تھا ۔ لیکن اسلام نے ان حملوں کا مقابلہ کیا اور مخالفین کو شکست دی ۔ اور اپنی اصلی شکل باقی رکھی ۔ صلیبیوں اورتاتاریوں کا حملہ مسلمانوں کو میدان زندگی سے بے دخل کرنے کے لئے کافی تھا ۔ایک وقت باطنی تحریک اسلام کے نظام عقائد  کے لئے سخت خطرہ بن گئی ۔ کوئی دوسرا مذہب ہوتا تو ان حملوں کے مقابلہ میں دم توڑدیتا ۔ اور ایک تا ریخی داستان بن جاتا ۔ لیکن اسلام نے داخلی اور خارجی حملوں کا مقابلہ کیا اور اپنی ہستی کو باقی رکھا ۔ تحریفات تاویلات، مادیت ، نفس پرستی ، تعیشات اور عقلیت پرستی کے مقابلہ میں صلح کرنے سے اس نے انکار کردیا ۔ ہر دور میں ایسی قدسی صفات ہستیاں پیدا ہوتی رہیں جنہوں نے دین پر آئے ہوئے غبار کو صاف کیا ۔ مادیت ، تعیش ، عقل پرستی کے مقابلہ علانیہ جہاد کیا ۔اپنے زمانہ کے مترفین کی مذمت کی اور جابر سلاطین کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ۔ اسلام میں نئی جان ڈال دی ۔ اور مسلمانوں میں نیا ایمان اور نئی زندگی پیدا کردی ۔بجھی ہوئی انگیٹھیوں کو سلگایا ۔ یہ ہستیاں اخلاقی اور روحانی حیثیت سے ممتازتھے انہوں نے تاریکی کا پردہ چاک کیا اور حق کو روشن کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس دین کی بقاء منظور تھی اور رہنمائی کا کام اسی دین سے لینا تھا اب وہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائبین اور علماء اور صلحاء سے لینا تھا ۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے ۔اَلْعُلَمَائُ وَرَثَۃُالْاَنْبِیَائِ ۔
در اصل کوئی مذہب اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتا جب کہ ہر زمانہ میں اسکے ماننے والوں میں ایسی ہستیاں پیدا نہ ہوں جو اپنے یقین ، روحانیت ، بے غرضی وایثار اور صلاحیتوں سے اسکے ماننے والوں میں اعتماد اور قوت عمل پیدا نہ کریں اسلام کی طویل تاریخ میں کوئی مدت ایسی نہیں گزری جسمیں حقیقت اسلام بالکل دب گئی ہو اور تمام عالم اسلام پر اندھیرا چھاگیا ہو جب کبھی کوئی فتنہ ظاہر ہوا ، مادیت اور مفاد پرستی کا کوئی حملہ ہوا ۔ کوئی طاقتور ہستی ضرور میدان میں آگئی جس نے اس فتنہ کا پوری طرح مقابلہ کیا ، قدریت ، جبریت ، اعتزال ، خلق قرآن ، دین الہی ، جیسی بڑی تحریکیں آج انکا وجود نہیں رہا۔ کیونکہ تعلیمات اسلامیہ کی حفاظت کی جد و جہد، دعوت واصلاح کا تسلسل شروع اسلام ہی سے قائم ہے۔
انہی قدسی صفات شخصیات میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حافظ محمد انوارا للہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ہے۔ ان کی سیرت اور کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر عظیم کردار اور مثالی شخصیت کے مالک تھے، اور اپنے دائرہ عمل میں رہکر کس قدر اسلامیت کو نافذ کرنے کی جد و جہد کی۔ چنانچہ باوجود معاشی شدت کے مالگزاری کی ملازمت اسی لئے چھوڑدی کہ سودی لین دین کی کتابت کرنی پڑتی تھی، (وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقُہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ) جو اللہ سے ڈرتا ہے تواللہ تعالی اس کے لئے مشکلات سے نجات کی شکل نکالتا ہے اور اسکو ایسی جگہ سے رزق دیتا یہ جہاں سے گمان بھی نہ ہو۔ (سورہ طلاق) صدارت العالیہ کو مستقل محکمہ کی صورت دی تاکہ عامتہ المسلمین کی صحیح مذہبی رہنمائی ہو۔اسی طرح مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ’’انجمن اصلاح مسلمانان‘‘  قائم فرمائی۔ اضلاع کے لوگو ں کی مذہبی بیداری کے لئے واعظین مقرر کئے۔ مکہ مسجد میں نماز دو بجے ہوا کرتی تھی اسکو احادیث کے مطابق اول وقت کردیا۔
شرعی خدمات انجام دینے والوں کے لئے اہل خدمات شرعیہ کا نصاب لاز م کردیا۔ ام الخبائث پر پابندی لگانے کیلئے جد وجہد کی ۔ طوائف پرپابندیاں لگائیں۔ آپ کی حیات اور کارناموں اور تصنیفات کا مطالعہ کرنے والا اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ آپ تعلیم کو دراصل بنیادکا پتھر سمجھتے تھے۔ جس پر ملک اور قوم کی عملی اور فکری زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر یہ پہلی اینٹ سیدھی ہے  تو پوری عمارت سیدھی ہوگی۔ اور اگر یہ بنیاد ٹیڑھی ہو تو ’’تاثریا میر ود دیوار کج‘‘ والی بات صادق آتی ہے، آپ کی عملی زندگی کا اکثر حصہ تعلیم وتدریس کے اداروں کو قائم کرنے اور ان کو چلانے اور آگے بڑھانے میں گزرا۔ جامعہ نظامیہ جیسی عظیم درسگاہ کا قیام،اشاعت العلوم، دائرۃ المعارف، اجمیر شریف میں مدرسہ معینیہ کا قیام، دارالعلوم  و دیگر دینی اداروں کو امداد کی اجرائی وغیرہ جیسے علمی کارہائے نمایاں آپ نے نہ صرف انجام دیئے بلکہ ہر دم اسی کی فکر میں رہتے اور فرمایاکرتے کہ: 
’’اذکار اورادعیہ کے بجائے ہمیشہ علوم دینیہ کی تعلیم وتعلم اور ان کی اشاعت میں کوشاں رہیں، کیونکہ اسکے برابر کوئی عبادت باعث تقرب الٰہی نہیں ہے‘‘۔ 
اور فرماتے تھے کہ ’’میں بھی ابتداء ذکر کرتا تھا، مگر اب اسکے بدلے اس وقت کو علم دین کی خدمت میں صرف کررہاہوں کیونکہ ذکر سے انجلاء باطنی ہوتا ہے اور انسان کو اپنے درجات معلوم ہوتے ہیں جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں رعونت نہ آجائے، عبادت سے تقرب الہی مقصود ہے، اور بعد ادائی فرض افضل عبادت تحصیل علم دین اور اسکی اشاعت ہے، اگرکوئی شخص اس میں مصروف ہو تو اسکے مدارج روز افزوں ترقی کرتے ہیں۔ گو اسکا علم نہ ہو، اور خدا اور رسول کی خوشنودی اور قربت حاصل ہوجا تی ہے‘‘۔ 
طلبہ جامعہ نظامیہ کا وقتا فوقتا امتحان لیتے۔ تقریریں اور مناظرے کرواتے، بیت بازی کے مقابلہ ہوتے۔ تفریح کو لے جاتے۔ آپ کے اصلاح وتجدید کے کارنامے بڑے وسیع اور متنوع تھے، اس میں علمی اور فکری رنگ غالب تھا تدریس واشاعت کتاب وسنت، عقل ونقل میں تطبیق، اسرار و مقاصد شریعت کی توضیح، علوم اسلامیہ میں مجتہدانہ فکر ونظر، سب شامل تھے۔
فضیلت جنگؒ کے تذکرہ اور انکے تجدیدی کارنامہ پر روشنی ڈالنے کے سلسلہ میں اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھنے اور اس اصول پر عمل کرنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے کہ ان کی ذہنی علمی تربیت میں حجاز مقدس کابنیادی حصہ تھا جہاں آپ نے تین سال سے زیادہ قیام فرمایا، اور تقریبا ہر پانچ سال پر سفرِ حجاز اختیار فرماتے تاکہ اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ علیہ الرحمہ سے استفادہ بھی ہوسکے۔ آپ نے مصر اور بغداد کے بھی سفر اختیار کئے، اس طرح علماء حرمین و مصر و شام سے تعلقات علمیہ قائم تھے۔ ان کے ساتھ طویل صحبتیں رہیں۔ جہاں دنیا کے گوشہ گوشہ سے لوگ اکٹھا ہوتے تھے۔ وہاں بیٹھکر پورے عالم اسلام کی روحانی، علمی، اخلاقی، سیاسی حالت کاجائزہ بآسانی لیا جاسکتا تھا۔
فضیلت جنگ ؒنے ان سب سے فائدہ اٹھایا ہوگا اور اثر لیا ہوگا۔ آپ نے اپنے تمام تجربوں اور صلاحیتوں سے مسلمانوں کی ہمہ جہتی اصلاح کیلئے جو قدم اٹھا یا ان کامکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے، آپ کارہن سہن سادہ، اصول پسندی اور سادگی، ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں تساہل سے کام نہ لینے۔ ایثار و قربانی، سخاوت، توکل، ہمدردی، دینی حمیت کے واقعات ایسے تھے کہ سلف صالحین، اور صحابہ کرام کی زندگیاں یاد آجاتی ہیں۔ وَذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت ساری شخصیات ایسی بھی ہیں جن کی مکمل سیرت اور کارنامے عرصہ دراز تک لکھے نہیں گئے۔ یہ بات ان کے ماننے والوں پر ایک فرض کی حیثیت رکھتی ہے، ضرورت اس بات کی تھی کہ انکی سیرت اس انداز سے پیش کیجائے کہ دنیا انکے صحیح حال سے واقف ہوتی اور ان کی سیرت ایک نمونہ اور مثالی کردار کے طور پر سامنے آتی۔
انہی ہستیوں میں سے جنکی مکمل سیرتیں دنیا کے سامنے نہیں آتیں۔ حضرت مولانا شیخ الاسلام محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ہے۔ ان کے کمالات و خصوصیات سے دنیا بے خبر رہی ہے ان کی سیرت کو اس طرح پیش کیا جانا چاہئے جس سے ان کے صحیح مقام سے دنیا آگاہ ہو۔ ان کی سیرت کم از کم ان کے ماننے والوں کے لئے ایک مثالی کردار کے طور پر سامنے آئے۔ ان کی سیرت اس بات کا ثبوت بنے کہ اسلام ایسے مرد انِ کار اور نوادر روزگار پیدا کرنے کی لافانی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا اصول تھے جن کے وہ سختی سے پابند رہے وہ کیا اقدار تھے جن کو وہ زندگی بھر حرز جان بنائے رہے۔ مشکلات کا سامنا کس اصول پسندی اور دینی و اخلاقی معیار بلندسے کیا، انتظامی وتعلیمی امور میں ان کی بنیادی فکر کیا تھی۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Recent In Internet

Popular Posts