جامعہ نظامیہ کا
۱۲۵ سالہ یادگار جشن تاسیس
رپورٹ: شاہ محمد فصیح الدین نظامی، مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ
جامعہ نظامیہ سابق ریاست حیدرآباد کا گزشتہ صدی کے اواخر میں قائم شدہ علم وعقیدہ اہل سنت کا گہوارہ ہے جس پر مسلمانان ہند بالخصوص آندھراپرد یش کو بجاطور پر فخر ہے ، قرونِ اولٰی میں بغداد کا ’’مدرسہ نظامیہ ‘‘ اس قدر شہرہ آفاق تھا کہ بجا طور پر اس کو عالم اسلام کا دل کہا جاسکتا ہے فکر وفلسفہ اسلامی کی دھڑکنیں بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں سنی جاسکتی تھیں نام کی تاثیر بتارہی ہے جس طرح مدرسہ نظامیہ بغداد سے نامور علماء، مفکر، صاحب دل روشن ضمیر افراد پیدا ہوئے اور دنیا کوعلم وفضل سے منور ومجلّی کردیا اسی طرح ’’جامعہ نظامیہ‘‘ حیدرآباد سے بھی ایسے علماء صوفیا، قائدین، مصنفین ومحققین پیدا ہوئے جن کی تحقیقات تصنیفات و مجاہدات سے دنیا فیضیاب ہورہی ہے ، تاقیام قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا انشاء اللہ ، جامعہ نظامیہ کو جو شہر ت ، مقبولیت وعظمت ملی ہے اس میں اس کے بانی مبانی شیخ الاسلام ابوالبرکات امام شاہ محمدانواراللہ فاروقی رحمہ اللہ کے خلوص نیت اور توکل علی اللہ کا اثر ہے۔ آپ صاحبِ بصیرت عالم، باخبر مصلح، مخلص اور وسیع النظرمصنف تھے ایک طرف جامعہ نظامیہ ان کی اشاعت علوم نبوت کا ’’علمی نشان‘‘ ہے تو دوسری طرف کتب خانہ آصفیہ (اسٹیٹ سنٹرل لائبریری )کے قیام میں کلیدی وبنیادی رول اورتیسری طرف عظیم عربی ریسرچ اکاڈمی’’دائرۃ المعارف العثمانیہ‘‘ کی تاسیس کتابی ذوق کی پہچان اور تحقیقی کردار کو اجاگر کرتاہے چوتھی طرف مروجہ بے جارسومات وخرافات کا انسداد واصلاح معاشرہ او ردینی تعلیم کو عام کرنے مصلحانہ جدوجہد اور داعیانہ کوشش وسعی نے انہیں مصلحینِ امت کی صف میں شامل کرکے صاحبِ کار نہیں بلکہ صاحبِ کارنامہ بنادیا ۱۲۹۲ھ میں جامعہ نظامیہ نے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا تھا وہ اب بھی جاری ہے انسانی آفاقی آسمانی تعلیمات کا یہ مرکز انسانیت کی فلاح ، ملت کی خدمت ،قوم کی نئی تعمیر میں اپنا حصہ بہتر طورپر اداکررہاہے ، شاہان حیدرآباد نواب میر محبوب علی خان ، نواب میر عثمان علی خان(سلاطین آصفیہ) نے بانی جامعہ نظامیہ نے جن کو ’’خان بہادر‘‘، ’’فضیلت جنگ‘‘ کا خطاب دیا تھا اکتساب علمی کیا اور جامعہ کو مالی استحکام بھی بخشا۔ گزشتہ 136برس کے دوران جامعہ نظامیہ سے علماء وفضلاء فارغ التحصیل ہوکر ہند وبیرون ہند مصروف عمل ہیں اور اب 136سال کی تکمیل پر بانی جامعہ حضرت فضیلت جنگؒ کے مشن کو حالات حاضرہ کے تقاضوںکے مطابق ڈھالا جارہا ہے اور کمپیوٹر وعصری تعلیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے تعلیمی بیداری سال کی حیثیت سے جشن ایک سو پچیس سالہ کو بامقصد وبامعنی بنایا گیادنیا بھر کے علماء مشائخ اسکالرس قانون داں، خطیب ، مصنفین ، سیاسی قائدین، مختلف اداروں کے چانسلر زوصدور اور بے باک صحافیوں کے اس اجتماع نے عجیب وغریب کیفیت اور سماں باندھ دیا تھا اس وقت کے وزیر اعظم عزت مآب جناب دیوے گوڑا نے اپنا خلوص ومحبت اور جامعہ کی خدمات کی سراہنا کا پیغام روانہ کیا۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش عالی جناب این چندرا بابو نائیڈوبھی مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعوتھے ۔
مجلس استقبالیہ کی تشکیل
چنانچہ ۱۱؍اکٹوبر۱۹۹۶ء تا اکٹوبر۱۹۹۷ء سال تمام تقاریب کا اہتمام کیا گیا، اس سلسلہ میں ایک مجلس استقبالیہ تشکیل دی گئی جو حسب ذیل اصحاب پرمشتمل تھی حضرت مولاناسید شاہ محمدمحمدالحسینی صاحب سجادہ نشین روضہ بزرگ گلبرگہ صدراستقبالیہ،جناب میرزاہد علی خان صاحب ایڈیٹرروزنامہ سیاست، سید عبدالولی قادری صاحب، احمد الدین اویسی انجینئر، نائب صدر استقبالیہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر سلطان محی الدین صاحب، ناظم جشن ،معتمداستقبالیہ ، حضرت مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین صاحب چشتی صابری امیر جامعہ، حضرت مولانا مفتی خلیل احمدصاحب شیخ الجامعہ رکن استقبالیہ ،مولوی سید احمدعلی صاحب معتمدجامعہ رکن استقبالیہ ، حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالمجید صاحب معزز رکن انتظامیہ وصدر انجمن طلبائے قدیم جامعہ نظامیہ ،حضرت مولانا سید محمد صدیق حسینی صاحب، حضرت مولانا سید شاہ خسرو حسینی صاحب ، حضرت مولاناڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی صاحب ، مولو ی شمس الدین محمدقادری صاحب ، مولوی سید عظمت اللہ صاحب رکن استقبالیہ مولوی ڈاکٹر سی ایم حبیب اللہ صاحب معزز رکن مجلس انتظامی و ڈائرکٹردکن کالج آف میڈ یکل سائنس، حضرت مولانا ابوبکر محمد الہاشمی صاحب، حضرت محمد انوار اللہ خان صاحب معزز رکن مجلس انتظامی ورکن استقبالیہ، حضرت مولانا حافظ محمد عبداللہ قریشی ازہری صاحب نائب شیخ الجامعہ ،حضرت مولانامفتی ابراہیم خلیل الہا شمی صاحب شیخ الفقہ و مفتی جامعہ ، حضرت علامہ سید شاہ طاہر رضوی صاحبؒ صدر الشیوخ ، حضرت مولانامحمدخواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث رکن استقبالیہ، حضرت مولانا سید حبیب عمر حسینی صاحب قادری، حضرت مولانا غلام سرور بیابانی سجادہ نشین درگاہ حضرت افضل بیابانیؒ قاضی پیٹ ، پروفیسر احمد اللہ خان صاحب ڈائرکٹر دائرۃ المعارف ، حضرت ڈاکٹر سید عبدالمنان صاحب، خیرالدین احمدصدیق صاحب آرکیٹکٹ رکن استقبالیہ، حضرت پروفیسر سلیمان صدیقی صاحب صدر شعبہ اسلامک اسٹیڈیز جامعہ عثمانیہ، جناب ڈاکٹر حیدر خان صاحب ماہر امراض قلب ، جناب ڈاکٹر رحیم اکدین کمال صاحب رکن استقبالیہ ، جناب سید وقارالدین صاحب قادری ایڈیٹر روزنامہ رہنمائے دکن، جناب مسعود انصاری صاحب ایڈیٹر روزنامہ منصف، کے ایم عارف الدین صاحب ایڈیٹر روزنامہ عوام رکن استقبالیہ، جناب میر جمال الدین علی خان صاحب چیف بیورو آف پی ٹی آئی ، جناب ابو الحسن صاحب بلڈر، جناب مولانا سید عبدالباسط قادری صاحب پرنسپل لطیفیہ عربی کالج، مولانا ڈاکٹر محمد عبدالشکور صاحب سابق پرنسپل عربیہ کالج کرنول، جناب مولانا سید نوراللہ چشتی نوری صاحب صدر جامعہ الہیات نوریہ ، رکن استقبالیہ، جناب غیاث الدین بابوخان صاحب، جناب مکرم خان صاحب F.D.Khan، جناب محمد اعظم صاحب اسٹیٹ فینانس کارپوریشن، رکن استقبالیہ ، حضرت مولانا قاضی سید لطیف علی صاحب قادری،مولانا محمد نصیرالدین صاحب جدہ، مولانا نوید افروز صاحب، جدہ، رکن استقبالیہ ،جناب احمد بھائی صاحب تاجر پٹیل مارکٹ، جناب ستار سیٹھ صاحب، جناب افضل حسین بابو صاحب رکن استقبالیہ، جناب عبدالنعیم صاحب ذکی ممتاز کمپنی معظم جاہی مارکٹ، جناب نجم الدین صاحب ، مشیرآباد، جناب حاجی شیخ احمد صاحب رکن استقبالیہ، جناب میاں بھائی صاحب پتھر گٹی،جناب ابانور شریف محمد صاحب بیگم بازار، جناب سید مسعود علی صاحب ایڈوکیٹ، جناب وسیم احمد صاحب ایڈوکیٹ‘ جناب مولانا سید محمد حسینی صاحب صدر انجمن قادریہ، جناب مولانا محمد سمیع اللہ خان صاحب مصحح دائرۃ المعارف ،جناب اسحاق صاحب جویلر پتھر گٹی رکن استقبالیہ، جناب ڈاکٹر نظام علی خان صاحب لودھی، جناب غلام غوث خان صاحب دبئی، جناب محمد ایوب خان صاحب مالک روزبیکری چادر گھاٹ ، جناب بیر سٹراسدالدین اویسی صاحب MLA رکن استقبالیہ، جناب محمدعبدالمنعم حاجی صاحب ممتاز کمپنی معظم مارکٹ، جناب محبوب حسین صاحب جگرؔ جوائنٹ ایڈیٹرروزنامہ سیاست رکن استقبالیہ، جناب اعجاز قریشی صاحب بھارت نیوز، جناب محمدصدیق صاحب، لا آفیسر کلکٹرآفس حیدرآباد، جناب یوسف الدین صاحب اسپیشل اکزیکٹیو مجسٹریٹ ،جناب اسلم فرشوری صاحب آل انڈیا ریڈیو رکن استقبالیہ، جناب ابراہیم علی صدیقی صاحب اسپشیل جج فار ACB and SP.C، جناب مولانا مفتی عظیم الدین صاحب صدر مصحح دائرۃ المعارف ، جناب مولانا عبداللہ قرموشی صاحب پرنسپل نوریہ عربی کالج رکن استقبالیہ، جناب علی افسر صاحب، جناب میر کمال الدین علی خان صاحب رکن استقبالیہ، جناب سید شاہ ابرہیم صاحب قادری سجادہ نشین ہلکٹہ شریف ، جناب عطا حسین صاحب انجم آرکیٹکٹ رکن استقبالیہ، ۲۵؍اگسٹ ۱۹۹۶ء بروز یکشنبہ بوقت ۳بجے حضرت سید محمد محمد الحسینی صاحبؒ سجادہ نشین روضہ بزرگ گلبرگہ شریف کے زیر صدارت مجلس استقبالیہ کا اجلاس منعقد ہوا۔
ممتاز وکلاء کا صحافتی بیان
جامعہ نظامیہ کے جشن ۱۲۵ سالہ کے ضمن میں شہر حیدرآباد کے ۵۰ سے زائد وکلاء نے اپنے بیان میں دکن کی قدیم دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ اسلامیہ کو اسلام کا ایک مـضبوط قلعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں پاسبان اسلام کی دینی تعلیم وتربیت گذشتہ سواصدی سے جاری ہے ، خداکرے کہ دین اسلام کی اس شمع کی روشنی چار دانگ عالم میں پوری آب وتاب کے ساتھ پھیلے ، اللہ ان بزرگوں کو گوشہ جنت نصیب کرے جنہوںنے اس عظیم درسگاہ کی تاسیس کے سلسلے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا ، یہ امر باعث صد افتخار ہیکہ وابستگان جامعہ نظامیہ عنقریب اس عظیم قدیم دینی درسگاہ کے سواسوسالہ جشن کی تقاریب کا اہتمام کررہے ہیں ، مسلم وکلائے حیدرآباد وسکندرآباد عامتہ المسلمین سے التماس کرتے ہیں کہ وہ جامعہ نظامیہ کی تاسیس کے سواسو سالہ جشن کے کامیاب انصرام واہتمام کے سلسلے میں دامے درمے وسخنے بڑھ کر حصہ لیں اور اپنی علم دوستی کا ثبوت دیں۔ بیان جاری کرنے والوں میں شمس الدین اعظمی، سید مسعود علی، محمد رحمت اللہ رشید قریشی، نثار احمد، وسیم احمد، محمودحسین، شفیق اورنگ زیب، محمد سلطان قریشی، محمد نثار احمدالدین، قاضی محمدبلیغ الدین، ڈاکٹر ایم اے رشید ارشد، عبیدالدین علی ایڈوکیٹ صاحبان کے علاوہ دیگر ممتاز وکلاء شامل تھے۔
افتتاحی اجلاس
افتتاحی اجلاس۱۱؍اکتوبر ۱۹۹۶ء کو جامعہ نظامیہ کے وسیع وعریض میدان میں منعقد ہوا ہزارہا افراد کے اس منظم اجتماع کا آغاز حافظ محمد عبدالرحمن کی تلاوت اور قاضی غیاث الدین کی نعت شریف سے ہو ا ، صدر نشین استقبالیہ حضرت مولانا سید محمدمحمد الحسینی صاحب سجادہ نشین گلبرگہ شریف نے خطبہ استقبالیہ پڑھا ، شیخ الجامعہ مولانا مفتی خلیل احمد صاحب نے خیر مقدم کرتے ہوئے جامعہ نظامیہ کو قوم کی امانت قرار دیا، ناظم جشن تاسیس پروفیسر محمد سلطان محی الدین صاحب نے ایک سالہ طویل جشن کے اغراض ومقاصد بیان کئے او رکہا کہ
جشن کے اغراض و مقاصد
(۱)کلیۃ البنات کا قیام۔
(۲)عربی ،اردو،انگریزی ودیگر زبانوں میں اسلامی
کتب کی اشاعت کے لئے پرنٹنگ پریس کا قیام ۔
(۳)مختلف عصری فقہی مسائل وموضوعات پر قومی وعالمی
سمینار کا انعقاد۔
(۴)اسلامک ریسرچ سنٹر۔
(۵)آندھراپردیش کے اضلاع ودیگر ریاستوں میں
مدارس کا قیام ۔
(۶)کمپیوٹر ودیگر صنعت وحرفت کی تعلیم کا نظم۔
(۷)دار التفسیر اور دار الحدیث کی تعمیر۔
(۸) اصلاح معاشرہ کے لئے دارالمبلغین کا قیام
(۹)فضیلت جنگ ہال کی تعمیر ۔
(۱۰)جامعہ کی جائیدادوں پر ہمہ منزلہ کامپلکس کی تعمیر
ضروری ہے۔
ان مقاصد کے لئے پانچ کروڑروپئے کااندازہ قائم کیا گیا۔امیر جامعہ نظامیہ مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری کی نگرانی میں منعقدہ اس تقریب کو عالم عرب سے آئے ہوئے مہمان خصوصی نے ۳۵منٹ تک عربی میں خطاب کیا (جس کا اردو قالب ڈاکٹر محمدعبدالمجید نظامی نے پیش کیا) قرآن وحدیث، صحابہ کرام اور اسلاف کے اقوال پر مبنی خصوصی خطاب میں کہا کہ بصیرت وادراک کی روشنی علم سے ہی ممکن ہے علم اور اسلام لازم وملزم ہیںعلم وعمل کے بغیراسلام وانسانیت کا تصور محال ہے، قلب وروح کی صفائی کا ضامن علم ہی کو قرار دیا گیا ہے جیسا کہ صوفیاء واولیاء کرام نے اعمال تخلیہ، تصفیہ، تجلیہ کے ذریعہ انسانیت کو منور ومجلیٰ کیا ،انہوں نے کہا کہ شہر حیدرآباد ،جامعہ نظامیہ، عثمانیہ یونیورسٹی، دائرۃ المعارف کا علمی وتاریخی شہر ہے ۱۲۵ سالہ تاسیسی تقاریب کو غیر معمولی واقعہ قرار دیتے ہو ئے انہوںنے بانی جامعہ نظامیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ نظامیہ کے نام سے ۱۲۵سال پہلے جو شمع روشن کی گئی تھی وہ آج دنیا کے مختلف گوشوں کو منور کررہی ہے۔
کرۂ ارضی کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے علماء ومشائخ کی کہکشاں سے سجی اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (ملتان )پاکستان کے مہمان حضرت مولانا پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی قادری ملتانی نے جو جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل ہیں کہاکہ ’’جامعہ نظامیہ کا قیام مولانا محمد انوار اللہ فاروقی خان بہادر فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کاوہ نیک وپاکیزہ عمل ہے کہ اس کا فیضان واثر تادور شمس وقمر باقی رہے گا ، بانی جامعہ نظامیہ نے سرکاری ملازمت جس کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے ترک کرکے درس وتدریس کا آغاز کیا اور توکل پر اس بڑے ادارے کی داغ بیل ڈالی۔
دیار غیر امریکہ میں پرچم اسلامی کے علمبردارجامعہ نظامیہ کے قابل فخر فرزند حضرت مولانا سید شاہ جعفرمحی الدین قادری نے فرمایاکہ ایک نسل کو دوسری نسل کا بہترین تحفہ سینہ بہ سینہ علم کی منتقلی ہے جو کام اللہ پاک کی خوشنودی ورضا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کیا جائے وہ دیر پا او رالی یوم القیامہ دائم رہے گا جامعہ نظامیہ اس کی زندہ مثال ہے جامعہ کی تاریخ اس کا بہترین وروشن ثبوت ہے ، اپنے منفرد خطاب میں آپ نے طلباء کو خصوصی نصیحت بھی فرمائی۔
معزز رکن پارلیمنٹ سالار ملت جناب الحاج سلطان صلاح الدین اویسی صدر مجلس اتحاد المسلمین نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی اور جامعہ وبانی جامعہ کی خدمات کوبھر پور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ نظامیہ نے ایسے سپوت پیدا کئے جن کی مثال نہیں، یہاں کے علماء نے شہر ت سے دور گوشہ نشینی میں وہ کارنامے انجام دیئے جن کو ذی شعور فراموش نہ کرسکیں گے مزید کہا کہ جامعہ نظامیہ تنازعات سے پاک انفرادیت کا حامل اور راہ استقامت پر گامزن علمی ادارہ ہے اس کا ہر پہلو سے استحکام قوم وملت کا اولین فریضہ ہے ۔
آندھرا پر دیش کے ہر دلعزیزچیف منسٹرعزت مآب این چندرا بابونائیڈو وبطور خاص مدعوتھے ناگزیر وجوہات کی بناء شریک نہ ہوسکے ان کی نیابت کے لئے آندھراپردیش کے وزیر داخلہ عالی جناب اے مادھوریڈی کو روانہ کیاگیا۔ جامعہ نظامیہ کے لئے ممکنہ مدد وتعاون کا پیش کش کرتے ہوئے اور ۱۲۵ سال کی تکمیل پر مبارکباد کے ساتھ اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ جامعہ نظامیہ نے مسلمانوں کی تعلیمی ناخواندگی کو ختم کرنے میں ایک اہم کردار کیا ہے تعلیم ایک سرمایہ ہے اور جامعہ نظامیہ اس سرمایہ کی حفاظت کررہا ہے ، انہوںنے اقلیتوں کے لئے حکومت کی طرف سے کی جانے ولی مختلف اسکیموں کا تفصیلی تذکرہ کیا اور کہا کہ حج ہاؤزکی تعمیر ، اضلاع میںاردو بھون ٹریبونلس کے قیام کی تجویز اور اردو کو آٹھ اضلاع میں سرکاری زبان اور اقلیتوں کے لئے دس فیصد ی کوٹہ مراعات حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں ۔
سجاد نشین بارگاہِ محبوب الٰہی دہلی حضرت مولانا حسن ثانی نظامی قبلہ نے بھی اپنے گرانقدر تاثرات بیان فرمائے، طلباء جامعہ نے ترانہ نظامیہ پیش کیا ، ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے اجلاس کی کارروائی بحسن وخوبی چلائی، صدر الشیوخ علامہ سید طاہر رضوی صاحبؒ جامعہ نظامیہ کی پر اثر دعاء اور مولانا ڈاکٹر عبدالمجید کے شکریہ پر اس افتتاحی تقریب کا اختتام ہوا۔ اس موقع پر جامعہ کی تمام عمارات وبانی جامعہ کے گنبد کو بقعہ نور بنایا گیا تھا۔
بین الاقوامی علمی وفکری سمینار
دوسرے دن ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۶ء کو جامعہ کے لائبریری ہال میں بین الاقوامی سمینار مولانا خواجہ حسن ثانی نظامی مدظلہ العالی کے زیر صدارت منعقدہوا، ہندوستان کے مختلف شہرو ں سے آئے ہوئے علماء کرام ، مفکرین ودانشوروں نے اپنے گرانقدرو قیمتی مواد سے بھر پور علمی مقالے پیش کئے مذاکرہ کا آغاز قاری محمدعبدالرحمن نظامی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، مہمان خطیب قطر کے علاوہ مولانا سید جعفر محی الدین قادری (امریکہ) مولانا پروفیسرسیدعطاء اللہ حسینی (پاکستان )نے بھی خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت اور تذکیری وتاثیری خطابات سننے کا موقع دیا ہزاروں ہمہ تن گوش سامعین وطلباء نے پانچ گھنٹوں تک ان پر مغز مقالوں کوسماعت کیا۔
پرفیسرنثار احمد فاروقی (دہلی یونیوسٹی) پرفیسر سید محموداللہ بختیاری(مدراس یونیوسٹی) ڈاکٹر سید جہانگیر نظامی ،ڈاکٹر حبیب طیب العیدروس ، مولانا قاضی اعظم علی صوفی (حیدرآباد) مولانا محمد خواجہ شریف شیخ الحدیث (جامعہ نظامیہ )مولانا محمد بشیر فیضی الجیکوفی (کالی کٹ) نے پہلے اجلاس میں مقالے پیش کیے اجلاس دوم کی صدارت حضرت مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ نظامیہ نے فرمائی، دوسری نشست میں مولانا عبدالمنان، دارالھدی (کیرالا) پروفیسر ظہیر احمد باقوی راہیؔ (کڈپہ) مولانا محمدثناء اللہ عمری(مچھلی پٹنم) محترم عزیز برنی، ایسوسی ایٹ ایڈیٹرارد و ہفت روزہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ (نئی دہلی) ڈاکٹرسیدعبدالقادر حسینی (سٹی کالج) ڈاکٹرشاہدعلی عباسی، مولانا عبدالعلیم اصلاحی (جامعۃالبنات) مولانا سید خورشید علی (جامعہ نظامیہ) نے حصہ لیا مولانا ڈاکٹر محمد سیف اللہ اس سمینار کے کنوینر تھے ، مولانا مفتی ابراہیم خلیل الہاشمی ، مولانا ابوبکر الہاشمی، مولانا سید صدیق حسینی، مولاناسیدحسینی القادری، مولاناسید اسرارحسین رضوی، مولانا صابر علی ابوالعلائی نے شرکت کی ، مولانا سید ابراہیم شاہ قادری سجادہ نشین ہلکٹہ ، مولانا سید حبیب پاشاہ مخدومی سجادہ نشین نے مہمان علماء ومشائخ صحافی حضرات کو خصوصی استقبالیہ و پر تکلف عشائیہ پر مدعو اور یادگار تحفہ بھی پیش کیا، خطیب الاسلام حضرت مولانا عبدالحفیظ جنیدی جو بنگلور سے تشریف لائے تھے سرکاری مہمان تھے۔
جلسہ دستار بندی وعطائے خلعت
تیسرے دن ۱۳؍اکتوبر۱۹۹۶ء ۶؍بجے شام جلسہ دستار بندی وعطاء خلعت تقسیم اسناد گولڈ میڈ لس وانعامات اور حضرت شیح الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ کے عرس سراپا قدس کا مشترکہ انعقاد عمل میں آیا مولانا سید شاہ اکبر نظام الدین صابری امیرجامعہ (وائس چانسلر) نے صدارت فرمائی ،مولانا سید شاہ عطاء اللہ حسینی (پاکستان) کے ہاتھوں دستار بندی وعطاء خلعت انجام پائی ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے ۲۴فاضلین نے خلعت فضیلت اور ۲۱حفاظ کرام نے سندحفظ وعبا حاصل کی جن طلباء نے سند فضیلت اور خلعت حاصل کی ان کے اسماء یہ ہیں حافظ سید ضیاء الدین (آندھرا) کے یل محمدتنویراحمد(کرناٹک) محمد منظور احمد (حیدرآباد) محمد محبوب عالم خان(بہار)محمدعبدالحسیب قادری(مہاراشٹرا)محمدعبدالحمید (کرناٹک) سید شاہ خلیل اللہ قادری (کرناٹکا) محمد غیاث الدین (کرناٹک ) محمد عبدالمقیت (نظام آباد)حافظ محمدعبدالستار (حیدرآباد) حافظ عبدالعظیم(محبوب نگر)قاضی محمدناصرالدین(بیڑ)حافظ عبدالہادی بادیان (بارکس )محمدفاروق حسین (حیدرآباد ) اسمعیل ہاشمی(حیدرآباد)شمس الدین (کیرالا) محمدعبدالصمد (کرناٹک) حافظ محمدعلی (حیدرآباد)حافظ محمدالیاس(آندھرا) سیدخواجہ ضیاء الدین (سکندرآباد)سیداعجاز اللہ قادری (آندھرا)حافظ سید ذاکر احمد (کرنول) حافظ سیدنصیرالدین (آندھرا)محمد محمود احمد (حیدرآباد) ایک کمسن طالب علم حافظ سید زبیر ہاشمی ابن مولانا حافظ سید رؤف علی قادری (صدر مدر س دارالعلوم کاورم پیٹھ محبوب نگر) نے بھی حفظ قرآن مجید کی تکمیل پر سندحاصل کی۔
حضرت مولانا سید جعفر محی الدین قادری مدظلہ (شکاگو امریکہ) کے دست مبارک سے اسنادات تقسیم کئے گئے ، اور بزم طلباء قدیم جدہ کی جانب سے جامعہ کے اکابرین سے منسوب گولڈ میڈ لس بھی عطاء کئے گئے ، بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام گولڈ میڈل سید جمیل احمد کامل الفقہ ، مولانا مفتی عبدالرحیم گولڈ مڈل حافظ ضیاء الدین ، مولانا مفتی عبدالحمید گولڈ مڈل محمد عبدالحسیب قادری اور محمد محسن پاشاہ نقشبندی کو خصوصی مڈل دیا گیا، اس مبارک موقع پر جامعہ نظامیہ بقعہ نور بناہوا تھاایسے معلوم ہورہاتھا جیسے کہکشاں زمین پر اترآئی ہے۔حضرت امیرجامعہ ، معتمد وشیخ الجامعہ نے طلباء کے ہمراہ مراسم عرس انجام دیئے ۔ مولانا حافظ محمد عبداللہ ازہری نائب شیخ الجامعہ نے تعلیمی رپورٹ پیش کی اور معتمد جامعہ نے مالیہ رپورٹ پیش کی۔ صدرالشیوخ علامہ سید شاہ طاہر رضوی القادریؒ نے علم نافع وبانی جامعہ کی حیات کا تذکرہ وفضیلت بیان کی اور تصنیفات بانی جامعہ کے بغور مطالعہ کی تلقین فرمائی۔
اس موقع پر ایک سالہ تعلیمی بیداری پروگرام کے وضع کردہ دس نکاتی منصوبہ کی تکمیل کے لئے ہندوستان کے مشہورصنعت کار محترم ہوشدار خاں صاحب (مقیم کویت)نے دولاکھ روپیہ کا کمپیوٹر عطیہ دیا اور پرنٹنگ پر یس کے لئے سات لاکھ روپیوں کے گرانقدر عطیہ کا اعلان کیا، بزم طلباء قدیم ریاض کی جانب سے فیکس وزیراکس مشین کا عطیہ، مولانا محمد اظہر علی اور مولانا محمد عارف علی نے سعودی عرب سے خصوصی شرکت کرکے ارباب جامعہ کے حوالہ کیا،بزم طلباء قدیم جدہ کی جانب سے شعبہ تجلید و پرنٹنگ پریس کے قیام میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے تعاون کی ایک تاریخ بنائی گئی۔ سالنامہ مجلہ ’’انوارنظامیہ‘‘کی رسم اجراء مولانا قاضی ابو محمد سراج الدین فاروقی (قاضی قندہار) اور علامہ ابراہیم ادیب رضوی کی تصنیف ’’امانت الہیہ‘‘ کی رسم رونمائی سجادہ نشین گلبرگہ کے ہاتھوں ہوئی ، مولانا حافظ محمد عبیداللہ فہیم نے معتمد جشن کے فرائض بحسن وخوبی انجام دیئے بیرونی مندوبین کے قیام وطعام کے انتظامات مولانا عرفان اللہ شاہ نوری اور مولانا حافظ عبدالقدیرشادنگری کے زیر نگرانی بحسن و خوبی انجام پائے۔
انڈ وپاک طرحی نعتیہ مشاعرہ
قارئین کرام! چوتھے دن یعنی ۱۴؍اکتوبر طلباء جامعہ کے زیر اہتمام ایک طرحی نعتیہ مشاعرہ بہ طرح
’’ ان کو خالق نے سب کچھ عطا کردیا ‘‘۔
منعقدہوا،۸۱(اکیاسی)شعراء کرام نے روح پرور، کیف آورنعتیہ کلام سنایا حضرت خواجہ شوقؔ،حضرت قاضی اعظمؔ علی صوفی ، ممتاز مجاہد آزادی وفرزند نظامیہ قاضی حامد تنویرؔ کو کافی پسند و سنا گیا۔ صدر الشیوخ ؒکی دعا پر شب تین بجے مشاعرہ ختم ہوا۔ محترم نصیر الدین بسملؔ ناظم مشاعرہ اور مولانا شمس زماںؔ شریک ناظم تھے۔جناب ہوشدار خاں ،جناب سید سعید بھائی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور تعاون کیا۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اجر جزیل عطاء فرمائے۔
ان تقاریب میں شیوخ اساتذہ طلباء کار کنان جامعہ ، جناب سید عبدالولی قادری ، نواب میر زاہدعلی خان ایڈیٹر سیاست ، جناب سید وقار الدین قادری مدیر رہنمائے دکن ، جناب عزیز برنی ایڈیٹر راشٹریہ سہارا ، جناب مسعود انصاری ایڈ یٹر منصف ، مولانا محمد فاروق علی ، مولانا حبیب محمدالحسین ، مشائخین قائدین اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے اپنی پر خلوص شرکت کے ذریعہ جامعہ وبانی جامعہ سے اپنی حقیقی وابستگی کا اظہار کیا سیاسی جماعتوں مجلس اتحاد المسلمین، تلگودیشم، کانگریس، مجلس بچاؤ تحریک کے قائدین وکارکن بھی موجود تھے اس طرح جامعہ نظامیہ کے ذمہ داروں نے جامعہ کی ہمہ جہتی ترقیات کے بارے میں جو عزائم وحوصلے رکھے ہیں وہ ان کی آگہی بصیرت اور زمانہ شناسی کی علامت ہے ۔
عشق نبویﷺ سے اپنے سینہ کی انگیٹھی کو گرم رکھنا اور بادۂ عرفانِ مصطفیٰ کو ہر خاص وعام تک پہنچانا یہ جامعہ نظامیہ کا حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔ نیک ارادوں سے نیک ساعت پر جس کام کا آغازہو وہ بفضلِ خدا اپنی منزل حاصل کرے گا انشاء اللہ ۔
خخخ
No comments:
Post a Comment