شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کا جذبۂ ایثار و قربانی
از: مولاناسید عزیزاللہ قادری ، شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ
اما م اہلسنت عارف باللہ عاشق رسول اللہ شیخ الاسلام حافظ محمد انواراللہ فاروقیؒ (بانی جامعہ نظامیہ ) کی ولادت باسعادت علاقہ ناندیڑ کے قصبہ قندہار شریف میں 4ربیع الاخر 1264ھ میں ہو ئی 5سال گذر نے کے بعد حضرت مولانا سید شاہ بدیع الدین رفاعی قندھاری رحمۃ اللہ علیہ سے قر آن شریف ناظرہ کی تکمیل فرمائی اور سات سال کی عمر شریف میں حضرت مولانا حافظ امجد علی صاحبؒ کے پاس قرآن مجید کاحفظ شروع فر مایا اور گیارہ سال کی عمر شریف میں حفظ قرآن مجید کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوئے آپ نسباً فاروقی ہیں سلسلہ نسب انچالیسویں پشت میں خلیفہ دوم امیر المومنین امام المجاہدین سیدنا عمرفاروق اعظم ؓ پر منتہی ہو تا ہے ۔آپ نے علوم و فنو ن کی تکمیل حضرت عبدالحلیم صاحب فر نگی محلیؒ اور حـضرت مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلیؒ اور مولانا فیا ض الدین اورنگ آ بادی علیہ الرحمہ سے کی اور تفسیر و حدیث کا در س حـضرت شیخ عبداللہ یمنی ؒ سے بھی حاصل فرمایا آپ کی خداداد ذہانت واستعداد سے اساتذہ بھی دنگ تھے علوم شریعت کی تحصیل و تکمیل کے بعد آپ نے سلوک کی تکمیل اپنے والد ما جد شیخ الاسلام حضرت مولانا ابومحمد شجاع الدین بن القاضی سراج الدین صاحب قبلہ ؒ سے کی اور جملہ سلسلوں (قادریہ ،چشتیہ ، نقشبندیہ ،وغیرہ ) میں بیعت کی اور مدینہ منورہ میں شیخ وقت مر شدالعلماء حضرت حاجی امداداللہ صاحب قبلہ ؒسے مکر ر بیعت اور منازل سلوک کی تکمیل فر مائی۔ حضرت حاجی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے بلا طلب خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا ۔
شیح الاسلام عارف باللہ حضرت مولاناحافظ محمدانواراللہ قبلہ فاروقی علیہ الرحمۃ الرضوان کی ذات بابرکات میں حبیب پاک سید المرسلین سید نا محمد رسول اللہﷺ کے اعلیٰ کر دار، بلندی اخلاق ، حسن سلوک کے جلوے چمکتے تھے ۔ انسان میں بڑی چیزاس کی سیرت و کردار ہے تعلیم کا سب سے بڑ ا نصب العین پاکیزہ سیر ت اور نیک کر دارانسان بناناہے ورنہ کھانا پینا اور افزائش نسل یہ تو جانوربھی کر تے ہیں انسانی طرۂ امتیازجوتعلیم سے حاصل ہوتاہے ان کے اعلی کر دارپاکیزہ افعال واعمال اور بلندخیالات ہو تے ہیں ۔ اخلاقیات میں ہمدردی کا مقام بلند ہے ۔
بانی جامعہ نظامیہ الرحمۃ والرضوان میں نہایت ہمددری ورحمدلی پا ئی جا تی تھی جسکا مختصر اً ذکر کیا جا تاہے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شب میں ساری ضروریات سے فارغ ہو جا تے تو خفیہ طورپر مدرسہ نظامیہ تنقیح کی غرض سے نکل جاتے تھے ، ایک مرتبہ سر ما کے موسم میں آپ لبادہ اوڑھے چلے شب کے بارہ بچ چکے تھے مدرسہ کی پھا ٹک جو نوبجے مامور ہو جاتی تھی کھٹکھٹائے مولانا سید محمودعلیہ الرحمۃ طالب علمی کے علاوہ نگرانی کی خدمت بھی انجام دیتے تھے فوری پھاٹک کھول کر آپ علیہ الرحمۃ الرضوان کو اندر لے گئے حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ اولرضوان ہر ایک کمر ہ کا معائنہ کرتے جاتے تھے چند طلباء مطالعہ میں منہمک اوربعض اونگتے اور اکثر طالب علم فر ش مدرسہ کی شطرنجی یا ٹاٹ اوڑ ھے سردی کے مارے کر وٹیں بدلتے سورہے تھے ۔ آپ نے پوچھا محمود یہ کیا ہے ؟حضرت محمود صاحبؒ نے کہا حضرت اوڑھنے کے لئے کچھ نہیں ہے مدرسہ کا فر ش اوڑھے سورہے ہیں۔اس سے متاثر ہی نہیں آبدیدہ ہوکر مو لانا مفتی سید محمودصاحب ؒ کو لئے آپ علیہ الرحمۃ والرضوان ،نواب معززیارجنگ بہادر کی دیوڑھی گئے۔ ماں باپ کو چھوڑ۔ گھر سے علحدہ وطن سے دور طالبان علم دین کی حالت بیان کرنے پر نواب صاحب موصوف بھی بہت متاثر ہو ئے دوسرے ہی روزلحاف و چادر مدرسہ نظامیہ روانہ کئے۔
اعلحضرت آصفجاہ سابع اپنے شفیق استاد (بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ الرضوان ) کیلئے نعمت کے خوان بھجواتے آپ رسیدپر وصولی کی دستخط فرماکر جامعہ نظامیہ روانہ کردیتے تھے خود کو نہیں آئندہ ملک اور قوم وملت کے نونہال خدمت گذاروں کو اس کا مستحق قرار دیتے تھے ۔ یہ سب کچھ کر کے نام نمود نہیں بلکہ رضاء الہی ڈھونڈ تے رہتے تھے ۔
مدینہ طیبہ کے زمانہ قیام 1305ھ یا 1307ھ میں کسی نے آپ سے آکر کہا فلاں صاحب بو جہ فاقہ مٹی گھو ل کر پیا کر تے ہیں۔ یہ سنتے ہی آپ بے قر ار ہوئے فر ما ئے ’’سبحا ن اللہ کیا لو گ ہیں فاقہ کی تکلیف دفع کرنے مٹی گھو ل کر پیتے ہیں مگر سوال نہیں کرتے ۔ اسی وقت امداد مساکین مدینہ الرسول ﷺ کیلئے انجمن بنائی کثیر رقم چندہ دیا اور احباب سے دلوائے جب تک رہے اسکے بعد بھی انکوبھو لے نہیں (۱)۔
اپنے تلمیذ خاص اعلٰحضرت آصفجاہ سابع سے فرما کر شیخ حمزہ خادم روضتہ النبی ﷺ کو تیس 30روپئے اور ایسے کئی مستحقین کو ماہانہ وظائف جا ری کر وائے ۔ آپ کی ہمدردی ور حم دلی اپنے ملک اور اہل ملک تک محدود نہیں عالم اسلام کو احاطہ کئے ہو ئے تھی۔
فیاضی وفراخدلی :
آپ کی زندگی مبارک رضاء الہی وخوشنودی خداوندی میں فراخدلی کے ساتھ فیاضی جیسے پاکیزہ صفات سے آراستہ تھی۔ سلسلہ قادریہ میں منسلک بیعت و حلافت سے سر فر ازہو نے والے کیلئے بقول حضرت سیدناغوث اعظم دستگیر یہ ضروری تھاکہ مستحق غیر مستحق سب کو دے کہ اللہ تعالیٰ بغیراستحقاق کے تجھے بھی اپنے فضل سے زیادہ دے۔
مذکورہ واقعات کی روشنی میں دیکھا جا ئے تو فیاضی اور صلہ رحمی کا مادہ حضر ت قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوا ن میں انتہائی وسعت کے ساتھ ودیعت کیا گیا تھا ۔ یہی وجہ تھی آپ ملنے جلنے والے کی حاجت روائی کر تے، بیواؤں یتیموں کی امداد کر تے ۔ گھر،مساجد،درگاہوں، کے فقیروں کا سوال رد نہ کرتے، متبر ک ایام میں زیادہ خیر و خیرات کرتے طلباء کی خاص طور پر اعانت فر ماتے یہاں تک ایک ہاتھ سے دیتے تودوسرے ہاتھ کو خبر ہو نے نہیں دیتے۔ آپ کا دسترخوان وسیع، دل کا دروازہ کشادہ تھا ۔ سوپچاس عزیزاقارب غرباء ہمیشہ لگے رہتے ۔ سادہ مہانوں کیلئے پر تکلف پکوان کرواتے ۔ انکی خاطرتواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ جاتے وقت ضرورت پر انکی مدد بھی دل کھول کر فرماتے۔ ہر ماہ رمضان المبارک میں کئی سو افراد کیلئے افطار و سحر کا انتظام کرواتے اتنا خر چ کرتے کہ مقرو ض ہو جاتے تھے اس پر اگر کو ئی توا ضعاً کہدیتا آپ بہت ثواب کماتے ہیں تو ناراض ہو جا تے ۔ آپ کی عادت تھی آمد و خرچ کاحساب ملاحظہ نہیں فر ماتے ساری تنخواہ اپنے باطمینا ن منشی مولوی عبدالرشید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی تحویل میں کر دیتے ختم ماہ پر ـــضروران سے پوچھ لیتے تمام روپیہ خرچ ہوجانے کی صورت میں خدا کا شکر ادا کرتے ورنہ ماباقی رقم کا رخیر میں صرف کر و ادیتے ۔
ایثارو قربانی: فیاضی جب حد سے بڑ ھ جا تی ہے تو ایثار و قربانی کہلاتی ہے ۔ حضر ت قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوا ن کی فیاضی حد تما م پر پہونچکر ایثارو قربانی کا مقام حاصل کر چکی تھی ۔ حضرت کے والد بزرگوار اپنے حین حیات آپ کے نام منصب جا ری کر وانا چاہتے تھے ۔ آپ اس وقت باوجود اہل وعیال رکھتے اور ان کے لئے مستقل ذاتی معاش نہ ہو نے کے سبب یہ منصب برادر خورد مولانا قاضی محمد امیر اللہ فاروقی قبلہ علیہ الرحمہ کے نا م کروادی یہی نہیں اس سے زاید یہ ایثار فر مایا بلکہ آبائی قضائت قندہار شریف حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوا ن نے ان ہی کو بحش دیا ۔ آپ اپنی کمائی کا زیادہ تر حصہ جامعہ نظامیہ اور اس میں علم دین حاصل کر نے والے طلبا ء پر صرف کر دیتے ۔
اعلحضرت نظام الملک آصفجاہ سابع ہر سا ل عید ین میں بحیثیت مشفق استاذ جو اشرفیاں نذر دیتے تھے وہ بھی ایثار فرمادیتے۔ یہا ں یہ خیال ہو تا ہے کہ آپ مسر ف تھے لیکن اسراف میں کو ئی بھلائی نہیں ہو تی ۔ بھلائی ہوتی ہے تو وہ اسراف نہیں کہلاتا لاخیر فی الاسراف ولا اسراف فی الخیر ۔ آپ کی حیا ت بابر کا ت کا سرمایہ تو جامعہ نظامیہ تھا ۔ اس سے بڑھ کر ایثار و قر بانی یہ تھی اپنے متروکہ میں ایک ثلث حصہ طالبان علم دین کیلئے آپ نے وصیت کے ذریعہ مختص فر ما دیا ۔ جس کومابعد آپ کے ورثا ء جامعہ نظامیہ میں داخل کر دیتے ۔ علاوہ انکے ہزاورں روپئے کا غیر منقولہ کتب خانہ بھی آپ ہی کے وصیت نامہ کے مطابق جامعہ نظامیہ میں ’’انوار المعارف‘‘ کے نام سے محفوظ کر وادیا اور ساری صلاحیتوں کے ساتھ اپنی زندگی ملک و قوم کیلئے وقف کر دی ۔ اس سے بڑھ کر ایثار و قربانی کیا ہو سکتی تھی اپنے بعد مترو کہ میں بر ابر شریک ۔ سر مایہ حیات، جامعہ نظامیہ کے نونہالان ملک وقوم کے استفادہ کی خاطر آپ نے وقف فرمادیاتھا ۔ ایسی عظمت والے عالم جلیل ولی کامل، اللہ پاک کے چہیتے و پیارے بندہ، اس کے شان ورفعت والے حبیب سید نا محمد ﷺ کے لاڈ لے اپنے حبیب ﷺ کے اشارہ پر دکن تشریف لائے روزپنجشنبہ جمادی الاخر1336ھ میں وصال شریف فر مایا ۔ اناللہ واناالیہ راجعون ،آپ کا بابرکت گنبد شریف جامعہ نظامیہ کی زینت بن کر چمکتا رہتاہے اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کے صدقہ و طفیل حضر ت قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے فیضان کو طلبائے کرام ، اہل دکن و جمیع اقطاع عالم پر ہمیشہ جاری رکھے آپ کی جامع و عظیم تصانیف سے ملت اسلامیہ اپنے دلوں کو روشن کرتے رہے وآخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمدو الہ واصحابہ اجمعین
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) مولانا مفتی محمد رکن الدین ؒ؍ مطلع الانوار، صفحہ ۴۱۔ مطبوعہ ۱۴۰۵ھ زیر اہتمام جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد۔
ضضض
No comments:
Post a Comment