Breaking

Monday, June 10, 2019

جامعہ نظامیہ کے اطباء و حکماء اور ان کی خدمات

جامعہ نظامیہ کے
 اطباء و حکماء اور ان کی خدمات

از :  شاہ محمد فصیح الدین نظامی ، مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد ،دکن

شہرہ آفاق مرکز علم و ادب نے جہاں مفسر، محدث، معلم، صحافی، قائد، شاعر و فاضل پیدا کئے وہیں پر بہترین اطباء بھی ملک و ملت کو دیئے یہاں چند نامور اطباء کے مختصر حالات زیب قرطاس کئے جاتے ہیں۔ جنہوں نے طبی دنیا میں شہرت عزت حاصل کی وہیں فن طب کوبہت کچھ دیا بھی ہے۔
حکیم الحاج ابوالفداء محمود احمد صاحبؒ:  19 ذی الحجہ 1309ھ حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حکیم حاجی شاہ محمد صاحب صدیقی ایک ماہر فن طبیب تھے۔ حکیم ابوالفداء صاحب کی تعلیم از ابتداء تا انتہاء جامعہ نظامیہ میں ہوئی۔ علامۃ العصر فضیلت جنگ نے جامعہ نظامیہ کی اہم خدمات کے لیے آپ کومنتخب فرمایا جو 1343ھ تک جاری رہیں۔ حکیم ابوالقاسم نور محمد، علامہ حکیم محمود صمدانی سے عملی تجربہ حاصل کیا۔ 1353ھ میں حج و زیارت سے مشرف ہوئے حکومت سعودیہ کے مہمان رہے۔ مجلس احیاء المعارف النعمانیہ اور انجمن اطباء یونانی کے معتمد اور سر رشتہ طبابت یونانی سرکاری عالی نظام ایورویدک ویونانی طبی کانفرنس کے رکن انتظامی تھے۔ طب کی اہم کتب ’’لوامع شبریہ‘‘ اور ’’یادگار رضائی‘‘ کی اشاعت آپ کی مرہون منت ہے۔ انتہائی با اخلاق، مخلص فیض رساں تھے امراض اطفال میں خاص مہارت تھی ایک کتاب ’’علاج الاطفال‘‘ تالیف فرمائی 9 ذی الحجہ 1357ھ کو آپ کا وصال ہوا۔
حکیم مولوی ابوالخیر محمد پیر صاحبؒ: ابتدائی تعلیم مختلف مدارس میں ہوئی لیکن عربی و فارسی کی تعلیم جامعہ نظامیہ میں ہوئی اور مدرسہ طبیہ یونانی سرکار عالی سے فراغت کے بعد مولانا حکیم سید احمد سعید افسر الاطباء سے عملی تجربہ حاصل کیا۔ مولانا حکیم محمود صمدانی، مولانا حکیم سید قطب الدین محمود، مولانا حکیم سید احمد آپ کے ہم درس رہے۔ سر رشتہ طبابت سرکار عالی میں خدمات انجام دیں۔ گلبرگہ میں آپ کو شہرت حاصل ہوئی۔ وہاں سے شفاخانہ یونانی کاچی گوڑہ کے مہتمم بنائے گئے۔ 1326فصلی میں طبیب اسٹاف شاہی منتخب ہوئے۔ انجمن اطباء دکن کے رکن تھے۔ 1952ء کے آس پاس آپ کا انتقال ہوا۔
علامہ حکیم محمود صمدانی صاحبؒ: 15 ذوالقعدہ 1287ھ میں تولد ہوئے۔ جامعہ نظامیہ میں ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم فضیلت تک حاصل کی۔ حکیم احمد سعید امروہی صاحب، حکیم مقصود علی خاں صاحب سے طبی علم حاصل کیا۔ آپ کے اجداد عہد بہمنی میں قضأت کے عہدہ پر مامور تھے۔ صدر شفاخانہ یونانی میں افسر الاطباء کی خدمت پر فائز رہے۔ نواب لطف الدولہ بہادر کے استاذ تھے۔ جامعہ نظامیہ کے ناظم تعلیمات، انجمن اطباء یونانی و مجلس اشاعت العلوم کے معتمد کی حیثیت سے یادگار خدمات انجام دیں۔ ’’رموز الاطباء‘‘ میں حکیم فیروز الدین صاحب نے لکھا ہے کہ آپ بہت سی کتابوں کے مؤلف اور مصنف ہیں۔ ’’جملہ ۶۵ تصانیف میں ۳۵ کا تعلق طب یونانی سے ہے۔ یہاں چندکتب کے نام لکھے جاتے ہیں۔ تذکرہ طاعون، قرابادین بیری، قارورہ، الابصار، البسائط، اصلاح ادویہ، چشم، اغلاطِ بصر، ضعفِ بصر، کحل البصر، آلات غذا، قرابادین عثمانی، اخلاطِ جگر، ماء الجبین، شکنجبین، آشوبِ چشم، معیار الاطباء، حکایات الاطباء، جامع مفرداتِ، عثمانیہ، ایجاد طبی، معیار الحدیث، اصولِ فقہ، شرح مسلم الکیمیاء، زینت الانسان، 7 ربیع الثانی 1348فصلی  رحلت کر گئے۔ درگاہ حضرت شجاع الدینؒ کے احاطہ میں آپ کا مزار ہے۔
حکیم مولوی احمد خیرالدین صاحب صدیقیؒ: حکیم صاحب نے مدرسہ نظامیہ کے علاوہ مدرسہ قادریہ بدایوں میں تعلیم پائی اور سند حاصل کی۔ طبیب حاذق کی سند لاہور سے حاصل کی۔ آپ کے مورث اعلی حکیم الحاج مولانا عبدالقادر صدیقی قادر یارخان محی الدولہ اول ماوراء النہر بخارا سے شہر سورت میں تشریف فرما ہوئے۔ آپ کے جد امجد حکیم الحاج مولانا احمد خیر الدین صاحب قدس سرہ اپنے زمانہ کے مشہور طبیب تھے۔ انہی کے قدم بہ قدم حکیم صاحب نبی خانہ میں وعظ فرماتے تھے۔
حکیم خواجہ اعظم اللہ صدیقی اطہرؔ صاحبؒ:  5 شوال 1322ھ حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ آپ نسباً صدیقی ہیں آپ کے جد مولوی غلام محمد تقی صاحب انعامدار تھے۔ حکیم صاحب کی بسم اللہ حضرت فضیلت جنگ موسس جامعہ نظامیہ نے پڑھائی۔ جامعہ نظامیہ سے جماعت عالم میں کامیابی حاصل کرکے مدرسہ طبیہ سرکار عالی میں طب کی تکمیل کی۔ 1354ھ میں حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ گھانسی بازار میں دارالعلاج محمودیہ قائم کیا۔ آپ شاعر بھی تھے فارسی اردو کلام قابل دید ہے۔
حکیم مولوی انیس احمد صاحبؒ: حکیم صاحب کا سلسلہ نسب حضرت شیخ بہاء الدین ذکریا ملتانی سے ملتا ہے۔ حکیم صاحب کی تعلیم جامعہ نظامیہ کے علاوہ دارالعلوم، نارمل میڈل اسکول میں ہوئی۔ منبع الطب لکھنو سے تکمیل کی۔ آپ کی مختلف دوائیں بطور پیٹنٹ رائج تھیں۔ حسبِ فرمان شاہی بحیثیت مددگار مہتمم خدمت انجام دی۔ حیدرآباد کے مشہور محلہ سلطان پورہ میں آپ کا مطب تھا۔ آپ کے مجربات میں شربت سعال، دوا سیاہ بچناک والی قیروطی محلل معطر، نمک وارثی مشہور ہیں۔
حکیم مولوی محمد بہبود علی صفی: آپ نسبا صدیقی ہیں آپ کے اجداد اورنگ زیب عالمگیرکے ساتھ اورنگ آباد آئے۔ والد ماجد حکیم منیرالدین قادری ماہر نباض تھے۔ حکیم صاحب نے مرکز علم و ادب جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے اردو، عربی، فارسی کی تکمیل کی شعر گوئی کا ذوق مادر علمی کے در و دیوار کی دین ہے۔ آپ امام المحاورات اور دکن کے ممتاز شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ مغلپورہ میں آپ کا جائے قیام تھا۔ اطباء میں طبیب ہیں اور شعراء میں حبیب ۔ جامعہ نظامیہ کے سند یافتہ ممتاز شاعر جناب محبوب علی خاں اخگر قادری نے حضرت صفی کی شخصیت و شاعری پر کئی قابل قدر کتابیں لکھی ہیں۔
حضرت حکیم محمد حسین صاحب المحدثؒ:  1312ھ فصلی وقار آباد میں تولد ہوئے۔ جامعہ نظامیہ سے فاضل اور کامل کی سند حاصل کی۔ مدرسہ طبیہ یونانی سے بھی تعلیمی استفادہ کیا۔ تفسیر، حدیث، منطق فلسفہ میں خاص ملکہ تھا۔ کئی امراض بالخصوص، دق، جذام، آتشک وغیرہ امراض کا کامیاب علاج کرتے تھے۔ خلیق متواضع ملنسار اور بہترین مضمون نگار و مقرر تھے۔ آپ کے فاضلانہ مضامین مجلہ ’’حکیم دکن‘‘ میں شائع ہوا کرتے۔ جامعہ نظامیہ میںبرسوں خدمات انجام دیں۔ شاہ علی بنڈہ میں آپ کا مطب تھا جہاں ملک کے گوشہ گوشہ سے مریض رجوع ہوا کرتے تھے۔ راقم الحروف (شاہ محمد فصیح الدین نظامی) کا جامعہ نظامیہ میں داخلہ حضرت حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی اجازت و حکم پر عمل میں آیا تھا۔ آپ کے دست مبارک سے راقم (شاہ محمد فصیح الدین نظامی) کو جامعہ نظامیہ کے سالانہ جلسہ میں مولوی عالم کی سند حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے۔
حکیم مولوی ریاض الدین صاحب: آپ کی ولادت 17 شعبان 1314ھ کو ہوئی۔ جامعہ نظامیہ کے نامور علماء، مولانا محمد یعقوب محدث، مولانا محمد حسین شاہ نوری، مولانا عبدالکریم صدر المدرسین و دیگر اساتدہ سے تلمذ حاصل کرکے تفسیر، حدیث علم کلام میں مولوی فاضل کی سند حاصل کی اور مولانا حکیم ابوالفداء محمود احمد صاحب برادر بزرگ سے طبی تعلیم حاصل کی۔ مادر علمی میں درس و تدریس کی خدمات انجام دی۔ اچھے قاری ہونے کے علاوہ بہترین طبیب بھی تھے۔ حیدرآباد کے قدیم تاریخی محلہ جلال کوچہ جہاں علامہ ابوالوفاء الافغانی، علامہ مفتی مخدوم بیگ ہاشمی، مولانا راز داز بیگ رہا کرتے تھے آپ کا شفاخانہ محمودیہ قائم تھا جہاں دور دراز سے لوگ بغرض علاج آیا کرتے تھے۔
حکیم مولوی سید محمد رضوی صاحب: حکیم صاحب کا تعلق ساداتِ رضوی سے ہے۔ ناصر الدولہ کے عہد میں آپ کا خاندان حیدرآباد آگیا تھا۔ تعلیم، حیدرآباد کے شہرہ آفاق دانش کدہ جامعہ نظامیہ میں ہوئی۔ 1342ھ میں آپ کے سر پر دستار فضیلت رکھی گئی۔ 1340فصلی میں طب کا امتحان کامیاب کیا۔ مدرسہ اسلامیہ سکندرآباد کے صدر مدرس بھی تھے۔ مادر علمی میں آپ نے ایک سال تک افتاء کا کام بھی انجام دیا۔ مرض چیچک پر آپ نے ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے ۔ مجربات میں حب اکسیر اور جلاب شامل ہے۔ 
حکیم مولوی سید شفیع حسین صاحبؒ:  آپ کی ولادت حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں ہوئی۔ مرکز علم و عرفان جامعہ نظامیہ کے علاوہ دارالعلوم سے بھی استفادہ کیا۔ مضامین طبیہ کی تکمیل مدرسہ طبیہ یونانی سرکاری عالی میں کی۔ والد گرامی حکیم امتیاز حسین ابوالعلائی طبیب محلات مبارک سے عملی تجربہ اور مطب سیکھا۔ سکندرآباد میں طبی خدمات انجام دیں۔ آپ کو کافی شہرت حاصل تھی۔ پیٹنٹ دواؤں میں ’’مرہم نادر‘‘ کے لیے آپ نہایت مقبول عام تھے۔ نواب معین الدولہ بہادر امیر پائیگاہ سے آپ کو منصب ملتا تھا۔
حکیم ابوالنصر سید شرف الدین صاحبؒ:حکیم صاحب 1345 فصلی بمقام حیدرآباد تولد ہوئے۔ والد ماجد مولوی سید صاحب حسین صاحب انعامدار تھے۔ جامعہ نظامیہ میں شریک ہوکر مولوی عالم تک تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ طبیہ یونانی سرکار عالی سے استفادہ کے بعد طبیہ کالج دہلی سے ’’فاضل طب والجراحت‘‘ کی سند حاصل کی۔
1336 فصلی میں مدرسہ طبیہ کے لکچرار اور 1344فصلی میں مددگار ناظر الاطباء مقرر ہوئے۔ نظامیہ صدر شفاخانہ میں خدمت انجام دی۔ خانگی مطب گھانسی بازار میں تھا۔
حکیم مولوی قاضی محمد عبدالقادر فاروقی صاحبؒ: حکیم صاحب 15 خورداد 1298 فصلی میں تولد ہوئے۔ آپ کا خاندان علم و فضل میں ممتاز رہا ہے۔ آپ کے آباء و اجداد سلاطین مغلیہ کے زمانہ سے شرعی خدمات پر فائز تھے۔ چنانچہ قندہار ضلع ناندیڑ میں آپ کے جاگیر و زمینات معاش بحال ہیں۔ آپ کے دادا حضرت قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقی ہیں۔ مشہور و جلیل القدر عالم حضرت مولانا مولوی انوار اللہ خاں بہادر المخاطب نواب فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ و صدر الصدور ممالک محرسہ سرکاری عالی و استاذ اعلی حضرت بندگان عالی متعالی کے برادر زادے ہیں اور آپ ہی سے طریقہ قادریہ عالیہ میں بیعت حاصل ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے ماموں حکیم قاضی محمود صمدانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی اور جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے 1320فصلی میں اعلیٰ تعلیمی سند حاصل کی۔ یہ سند کتب خانہ جامعہ نظامیہ میں موجود ہے۔ خدمت قضاء ت تعلقہ قندہار شریف ضلع ناندیڑ اور جاگیرات وغیرہ آپ کے والد بزرگوار مولانا مولوی قاضی محمدامیر اللہ صاحب فاروقی رحمۃ اللہ علیہ جو بڑے عالم و فاضل اور ’’صولتِ عثمانیہ‘‘ و مناقبِ شجاعیہ‘‘ کے مصنف تھے وراثتہً حاصل ہوئی۔ آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت قاضی ابو محمد سراج الدین فاروقی صاحب نے تاحیات بڑی جانفشانی سے یہ خدمات انجام دیں۔24 اکتوبر 1998ء کو آپ کے انتقال کے بعد آپ کے قابل و لائق فرزند مولانا قاضی عبدالحق محمد رفیع الدین فاروقی (بی کام عثمانیہ یونیورسٹی) بہتر انداز میں یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گورنمنٹ آف مہاراشٹرا کا محکمہ اوقاف بھی آپ کی حسن کارکردگی کا معترف ہے۔ راقم الحروف کے آپ سے دیرینہ پر خلوص تعلقات ہیں آپ کے فرزند عبدالقادر محمد شجیع الدین فاروقی یس یس سی کامیاب کرنے کے بعد حفظ قرآن و حصول علم میں مصروف ہیں۔ حکیم صاحب صدر شفاخانہ نظامیہ کے مددگار صدر مہتمم رہے۔ استسقاء، برص، فالج، لقوہ، ذیابطیس کے علاج میںخاص شہرت کے مالک تھے۔ آپ کے مجربات میں حب طلائی، حب ذیابطیس، حب اکسیر حمیات، عرق مصفی و مفرح، روغن جمال افزاء مقبول عام تھے۔
حکیم مولوی عزت حسین صاحبؒ:  ایک شریف اور اہل علم خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ کے والد ماجد عربی، فارسی اور طب میں کافی دستگاہ رکھتے تھے۔ حکیم صاحب نے جامعہ نظامیہ سے مختلف علوم و فنون میں فراغت حاصل کی۔ 1325فصلی میں امتحان طبابت بدرجہ اعلیٰ کامیاب کیا۔ ہنگولی ،بسمت نگر، یلاریڈی کے علاوہ مختلف اضلاع میں طبی خدمات انجام دیں۔
حکیم سید عبدالوہاب مغربی صاحبؒ : آپ کا سلسلہ نسب حضرت سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تک پہنچتاہے۔ جد اعلی حکیم سید اسماعیل مغربی صاحب رشد و ہدایت تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم جامعہ نظامیہ میں ہوئی۔ 1329فصلی میں طبابت کا امتحان کامیاب کیا۔ حقیقی بہنوائی علامہ حکیم محمود صمدانی طبیب شاہی سے عرصہ دراز تک عملی تجربہ حاصل کیا۔ تشخیص اور نسخہ لکھنے میں آپ کو مہارت تھی۔ خاندان مغربیہ کے نامور اطباء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ کبوتر خانہ قدیم حسینی علم میں آپ کا مطب تھا۔
حکیم مولوی خواجہ عنایت احمد صاحبؒ : آپ 14 شوال 1303ھ حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد حکیم سید خواجہ بہاء الدین کے زیر نگرانی ہوئی۔ بعد ازاں جامعہ نظامیہ سے مولوی کامیاب کیا۔ سٹی کالج میں انگریزی تعلیم حاصل کی۔ دواخانہ کریم نگر سے سبکدوش ہونے کے بعد مطب شفاخانہ عثمانیہ قائم کیا۔طبی کانفرنس اور انجمن اطباء کے رکن تھے۔ 1346ھ میں قافلہ مدینہ منورہ کے طبیب رہے۔ آپ کے مجربات میں اکسیر خاص قاتل سوزاک، سفوف عثمانی، حب مسیحی یاقوتی (برائے حفظ ماتقدم طاعون) ہیں۔ آپ کا شفاخانہ سعیدآباد قریب درگاہ حضرت اجالے شاہ صاحبؒ تھا۔ 
حکیم مولوی سید محمد قاسم صاحبؒ: حکیم صاحب ریاست شہنور (ممبئی) کے ایک مشہور خاندان کے چشم و چراغ تھے۔جامعہ نظامیہ میں آپ نے اعلی تعلیم کی تکمیل کی اور اپنے دامن کو علمی جواہر پاروں سے مالا مال کیا۔ فن طب میں حکیم منصور علی خاں، حکیم محمد عبدالرحمن سہارنپوری و حکیم قاضی محمود صمدانی رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کیا۔ ڈاکٹری معلومات ڈاکٹر کاشی ناتھ صاحب سے حاصل کیں۔ آپ کے پاس بیس ہزار نادر کتب جس میں پتوں پر لکھی ہوئی قدیم کتب بھی شامل تھیں۔ رسالہ طاعون و رسالہ ہیضہ کے مصنف ہیں۔ مخزن عثمانیہ، جامع الفنون مرتب کئے تھے جن میں دواؤں کی خصوصیات اور ایک ہر دوا کے چالیس زبانوں میں نام درج ہیں۔
حکیم میر ابراہیم علی صاحبؒ :  آپ لائق و فاضل طبیب حکیم میر حسن علی صاحب کے فرزند گرامی ہیں۔ حکیم میر ابراہیم علی صاحب کی تعلیم جامعہ نظامیہ میں ہوئی۔ طبیہ کالج یونانی سے 1334 فصلی میں سند حاصل کی۔ طبیب حاذق علامہ حکیم محمود صمدانی رحمۃ اللہ علیہ فارغ التحصیل جامعہ نظامیہ سے عملی تجربہ حاصل کیا۔ اضلاع کے مختلف دواخانوں پر مریضوں کا علاج فرمایا۔ ادویہ شناسی میں آپ کو مہارت حاصل تھی۔ آپ کے مطب پر مریضوں کا کافی ہجوم رہتا تھا۔ جو آپ کی مقبولیت و شفایابی کا ثبوت ہے۔ آپ کے مشہور و مفید ادویات میں رومی، سوزاک طفلک، درمان، مالینا، جگرین، ضابطہ شامل ہیں۔ دارالعلاج حسینی کے نام سے آپ کا مطب جامعہ نظامیہ شبلی گنج حیدرآباد میں تھا۔ آپ کے صاحبزادہ حکیم میر حسین علی افسر نے فن طب کو آخری سانس تک زندہ رکھا۔
حکیم مولوی لئیق احمد صاحب نعمانیؒ : آپ دکن کے ایک معزز اور تعلیمیافتہ خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے والد مولوی رفیق احمد صاحب و دادا مولانا حمیدالدین قابل ترین و بلند پایہ وکلاء میں شمار کئے جاتے تھے۔ آپ کے نانا حضرت سید شاہ محمد سجاد حسینی صاحب بندہ نوازی قدس سرہ روضہ خورد گلبرگہ شریف کے صاحب سجادہ تھے۔ جامعہ نظامیہ سے ابتدائی تعلیم کے علاوہ مولوی عالم، مولوی فاضل کا امتحان کامیاب کیا۔ علامہ ابوالوفاء افغانی، مولانا عبدالرحمن سے شاگردی کا شرف رہا۔ انجمن اطباء یونانی کے شریک معتمد رہے۔ قائد ملت بہادر یار جنگ نے آپ کی خدمات کو سراہا۔ آپ کی کنیت ’’ابوالقلم‘‘ کا اظہار مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے پایہ مضامین سے ہوتاہے۔ پندرہ روزہ رسالہ ’’صحت عامہ‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ آخر میں گلبرگہ منتقل ہوگئے۔
حکیم بالے محمد عبدالحفیظ صاحبؒ: طب کی دنیا میں آپ حکیم میسوری سے مشہور و معروف خاندانی حکیم ہیں جد اعلیٰ مہاراجہ میسور کے شاہی طبیب تھے۔ ننیہالی سلسلہ حضرت سید جلال الدین سے ملتاہے۔ جن کا مزار میسور میں ہے۔ آپ کے والد حکیم محمد عبدالغنی صاحب اپنے برادر محاسب جنگ (سابق امیر جامعہ نظامیہ) کے پاس حیدرآباد آئے اور مطب شروع کیا۔ طاعون، برص، سل، دق، جذام کے علاج میں یدطولیٰ حاصل تھا۔ جامعہ نظامیہ سے مولوی عالم، مولوی فاضل کا امتحان دے کر کامیابی حاصل کی۔
حکیم اجمل خاں مسیح الملک دہلی کے دواخانہ میں طبی اور علامہ حسن الزماں فاطمی رحمۃ اللہ علیہ روضہ الحدیث میں دس سال علمی خدمات انجام دیں۔ مجربات میں روغن بیدا نجیر، حبوب، مرہم برائے خبیثہ قضیب، مرہم بواسیر و نواسیر عرق ریح البواسیر شامل ہیں۔
حکیم ہبتہ اللہ صاحبؒ : حکیم صاحب کی پیدائش 14 آذر 1310فصلی بمقام حیدرآباد ہوئی۔ والد ماجد عالم و فاضل و ماہر عملیات تھے۔ جامعہ نظامیہ میں مولوی عالم تک تعلیم حاصل کی۔ سورت شہر میں بھی علمی استفادہ کیا۔ اورینٹل کالج لاہور اور طبیہ کالج دہلی سے سند و تمغہ حاصل کیا۔ دہلی طبیہ کالج میں بحیثیت مددگار طبیب کام کیا۔ حمیات قانون شیخ، امراض سر، امراض متعدیہ، مرتب و ترجمہ فرمایا، سٹی پولیس میں لکچرار رہے۔ نظامیہ طبی کالج میں بحیثیت پروفیسر خدمت انجام دی، اکسیر سوزاک، حب اصہب، حب برقی، حب طاعون، زعفرانی، ضماد طاعون، لال مرہم، مرہم سفید آپ کے مجربات ہیں۔
حکیم حضرت محمد عبدالقدیر فاروقی وجودی صاحبؒ : آپ کا شمار جامعہ نظامیہ کے قابل فخر علماء اور اطباء میں ہوتاہے۔ دینی مذہبی تعلیم کے علاوہ آپ کو علم طب سے والہانہ دلچسپی تھی قدرت نے کئی نعمتوں سے نوازا تھا۔ تشخیص میں مہارت تھی۔ خاص نگرانی میں دوائیں تیار فرمایا کرتے۔ کریم نگر، مٹ پلی میں مطب تھا۔ تاریخی مکہ مسجد حیدرآباد کے خطیب علامہ حاجی منیرالدین صاحبؒ (شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ) آپ کے ہمدرس ہیں۔ راقم الحروف کو حکیم صاحب قبلہ سے بسلسلہ علاج نیاز و گفتگو کا شرف حاصل ہے۔ اس وقت حکیم صاحب کے نبیرہ جناب حافظ حکیم محمد نصیرالدین فاروقی سنتوش نگر، حیدرآباد میں طب کے ذریعہ خدمت خلق کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حکیم شریف الدین صاحبؒ: مولوی فاضل جامعہ نظامیہ ہمدرس حضرت حکیم محمد حسین صاحب المحدث ہیں۔ صدر شفاخانہ میں طبیب تھے۔ مسجد کمیلہ یاقوت پورہ میں آپ کا مطب تھا۔ جامعہ نظامیہ کے منتظم شعبہ تدریس مولانا سید خواجہ صاحب رحمہ اللہ کے بموجب علم دینیہ کے ساتھ فن طب میں لگاؤ تھا اپنے وقت کے جید حکماء سے فنی و عملی تجربہ حاصل کیا۔
حکیم حافظ احمد عبدالعلی صاحب:  جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل تھے۔ علوم دینیہ کے علاوہ طب سے بھی آپ کو کافی شغف تھا۔ ایک عرصہ تک مادر علمی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ناظم تعلیمات (پرنسپل) کے عہدہ پر خدمت انجام دیتے ہوئے مکمل قرآن مجید حفظ کرلیا۔ 12 رجب 1339ھ وفات پائی۔
حکیم اسعد الدین صاحب و حکیم امام بخش صاحب : نے بھی طبی دنیا میں بیش بہا اور ناقابل فراموش انجام دیں۔ اطباء جامعہ نظامیہ میں آپ کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔افسوس کہ ان حضرات کے حالات دستیاب نہیں ہوئے۔
حکیم حافظ محمد عبدالرشید صاحب:  6 جون 1956ء بمقام کوڑنگل پیدا ہوئے ابتداء سے مولوی عالم تک جامعہ نظامیہ میں تعلیم حاصل کی علامہ مفتی عبدالحمید صاحبؒ، مولانا غلام احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد عثمان صاحبؒ، مولانا حافظ ولی اللہ صاحبؒ، مولانا مفتی خلیل احمد صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ امراض کی تشخیص اور ادویہ کی تجویز میں فنی تجربہ کے حامل ہیں۔ خدمت خلق کے جذبہ کے تحت طب کے میدان کو منتخب کیا۔ بیس سال سے زائد عرصہ سے بحیثیت طبیب صدر شفاخانہ نظامیہ (چارمینار) میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ 
(شاہ محمد فصیح الدین نظامی؍ جامعہ نظامیہ کے یونانی اطباء، مجلہ انوار نظامیہ ص ۹۵ (۲۰۰۱ء)
٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Recent In Internet

Popular Posts