Breaking

Sunday, June 9, 2019

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی ایک جامع الکمالات شخصیت

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
ایک جامع الکمالات شخصیت

رشحات قلم :ڈاکٹر عقیل ہاشمی، سابق صدر شعبہ اُردو، جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد۔ اے پی



اللہ تعالی سے سچی محبت رکھنے والے خوش نصیبوں کے بارے میں آخرت میں انعامات رکھے گئے ہیں جن کا تصور کرنا بھی ہمارے لئے محال ہے، لیکن دنیا میں وہ لوگ جن عطیات اور نعمتوں سے سرفراز کئے جاتے ہیں وہ خود بھی غیر معمولی ہوتے ہیں، ان میں کا ایک صلہ دیندار لوگوں کے درمیان ان کی مقبولیت ہے ہزاروں لاکھوں دین دار و صالح اشخاص ان سے محبت کرتے ہیں، ان سے عقیدت رکھتے ہیں، اور ان کا احترام کرتے ہیں، خواہ وہ زندہ رہیں یا دنیا سے پردہ پوشی کرلیں۔ اس صلے کا بیان قرآن مجید بھی کرتا ہے اور احادیث نبوی ا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے سورہ مریم کے آخری رکوع میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے (یقینا جو لو گ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں عنقریب وہ رحمن ان کے لئے دلوں میں محبت پیدا کردے گا)۔
یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھی اور اس کے اولین مصداق صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے لیکن ایمان و عمل صالح کایہ امر، ان کے ساتھ مخصوص ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ قیامت تک جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے اعلی درجات پر پہنچے اور پہنچیں گے انہیں اچھے لوگوں کے درمیان حسن قبول حاصل ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ قرآن حکیم کے بعد حدیث کی دو کتابوں بخاری اور مسلم کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالی اپنے بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو پکار کر کہتا ہے کہ اللہ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو بھی اس سے محبت رکھ پھر جبرئیل اس سے محبت کرتے ہیں اور آسمان والوں میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم لوگ بھی اس سے محبت رکھو تو اہل آسمان اس سے محبت کرتے ہیں پھر اس شخص کے لئے زمین میں حسن قبول پیدا کردیا جاتا ہے۔
(ریاض الصالحین بحوالہ بخاری و مسلم باب علامات حب اللہ العبد)
قرآن اور حدیث کی روشنی میں اللہ تعالی کے نیک و مقبول بندوں کے بارے میں سوچیں تو اللہ کے ایسے لا تعداد بندے ہماری نظروں میں آجاتے ہیں کہ جن کے اعمال و افعال نہ صرف انسانیت کی رہبری کرتے ہیں بلکہ ایمانیات کو غیر معمولی جلا بخشتے ہیں، ان حضرات کی مقبولیت ان کے جیتے جی او ران کے مرنے کے بعد بھی اتنی ہی اہم اور قابل قدر ہوجاتی ہے جتنی کہ ان کی زندگی میں تھی، اسی کے ناطے ہمارے دل ان کی محبت اور عقیدت میں ڈوب جاتے ہیں اور ان کی یاد منانے جمع ہوئے ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام خان بہادر محمد انوار اللہ فاروقی نواب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کا اسم گرامی دکن کی قدیم عظیم الشان دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ کے قیام اور اس کے استحکام سے اس قدر مربوط و وابستہ ہے جیسے کوئی پھول اور اس کی خوشبو۔ حضرت شیخ الاسلام ۴/ربیع الثانی ۱۲۶۴ھ کو بمقام ناندیڑھ پیدا ہوئے آپ کا خاندانی تعلق قندہار کے قاضی گھرانے سے تھا کہتے ہیں کہ آپ کے اجداد کو شاہان تیموریہ کے دربار میں عہدئہ قضاء ت حاصل تھا۔ نسبی سلسلہ انچالیسویں (۳۹) پشت میں خلیفہ دوم امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے، آپ مشہور زمانہ بزرگ حضرت شاہ رفیع الدین قندھاری کے نواسے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ تعلیم طریقت یا سلوک کی تکمیل اپنے والد ماجد کے ہاں ہی پائی، بعد ازاں شیخ وقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر تجدید بیعت کی، ابتدائی ملازمت ۱۲۸۵ھ میں رشتہ مالگزاری میں اختیار کی لیکن جلد ہی محض سودی لین دین کی کاروائیوں سے متنفر ہو کر مستعفی ہوگئے۔ ۱۲۸۴ھ میں حاجی محمد امیر الدین محتسب بنولہ کی صاحبزادی سے شادی ہوئی اور اسی دوران والد ماجد کا انتقال ہوگیا۔ طبیعت کا اقتضا دین دار ی اور آپ کے چند مخلص دوستوں جن میں خاص طور پر مولوی غلام قادر مہاجر مدنی قابل ذکر ہیں ان کے مشوروں سے ایک خالص دینی مدرسہ کے قیام کاخیال پیدا ہوا یوں ۱۹ ذی الحجہ ۱۲۹۲ھ کو اس مکتب کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر ایک مہتمم بالشان جامعہ میں بدل گیا جسے جامعہ نظامیہ کہا جاتاہے۔ ۱۲۶۵ھ میں شاہ محمد زماں خاں شہیدؒ(جو استاد شاہ تھے) کی شہادت کے بعد حضرت نظام الملک آصفجاہ سادس نے آ پ کو اپنا استاد مقرر کیا۔ اور ۱۳۰۱ھ میں جشن تخت نشینی کے موقع پر ’’خان بہادر‘‘ کاخطاب اورایک ہزاری منصب عطاء کیا حضرت شیخ الاسلام کی علمی ادبی مذہبی شخصیت اور اس کی وجاہت کے تعلق سے ڈاکٹر زورؔ نے عہد آصفجاہ سادس نواب میر محبوب علی کے صاحبان کمال اور اساتذہ میں آپ کا شمار کیاہے اور اپنی کتاب داستانِ ادب حیدرآباد‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’یہ قندھار کے قاضی تھے اور علوم اسلامی کے ماہر، محبوب علی خاں غفراں مکاں اور عثمان علی خاں سلطان العلوم دونوں کے استاد اور حیدرآباد کے علماء میں ممتاز تھے۔ وزیر امور مذہبی کی خدمت پر بھی فائز ہوئے تھے اور اس شہر میں مذہبی اصلاح اور علوم دینی کی ترویج میں بڑا حصہ لیا تھا۔ پچاس سے زیادہ کتابیں مختلف موضوعات پر لکھیں اور چھپوائیں اردو اور فارسی کے شاعر بھی تھے۔ انورؔ تخلص کرتے تھے اور حیدر حسین خاں حیدرؔ فرزند شیخ حفیظ کے شاگرد ان کے کلام کا ایک مجموعہ ’’شمیم الانوار‘‘ چھپ چکا ہے اور دوسرے مجموعہ کا قلمی نسخہ ادارۂ ادبیات اردو میں محفوظ ہے ان کی تصنیفات میں انوار احمدیؐ، مقاصد الاسلام (کئی جلدیں) مفاتیح الاعلام وغیرہ بہت مشہور ہیں‘‘۔
اس اقتباس میں حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت کا مختصرسا تعارف ملتا ہے حالانکہ آپ کی عظمت و بزرگی کے لئے ایک مبسوط تحریر چاہئے، آپ نہ صرف آصفجاہ سادس اور آصفجاہ سابع کے استاد تھے بلکہ دونوں شاہزادوں نواب اعظم جاہ اور نواب معظم جاہ کے بھی استاد رہے اور حیدرآبادکے قابل احترام قدر و منزلت مصلح و مذہبی رہنما تھے۔ آپ نے جامعہ نظامیہ کے قیام اور اس کی ترقی کے لئے گویا خود کو وقف کردیاتھا۔ درس و تدر یس کے علاوہ آپ نے یہاں کے اساتذہ و طلباء کو معاشرہ اسلامی کا نمونہ بنانے کی جد وجہد میں مثالی کارنامے انجام دیئے ہیں یہی نہیں بلکہ تمام ریاست کو اسلامی طرز فکر و دانش سے وابستہ کرنے کی شعوری کوشش کی۔ اس سلسلہ میں آپ کی اصلاحیں بڑی دوررس نتائج کی حامل رہیں ان اصلاحات کی ایک تفصیل ہے یہاں اجمالا چند ایک باتوں کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اسلام اپنے مخصوص انداز میں انسان کو اعلی سے اعلی مدارج حیات پر متمکن دیکھنا چاہتا ہے اس کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ انسان کے جسم و روح، قلب و قالب ظاہر و باطن، دین و دنیا سب کی ترقی کا سامان رہے قرآن مجید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن تین امور کا ذکر کیا ہے وہ بجز ’’ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ‘‘  یعنی تزکیہ نفس، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت ہے یہاں کتاب سے مراد ایات قرآنی کے ظاہری معنی یا ظاہر سے متعلق مسائل اور حکمت سے نفسی اور روحانی حقائق اور معارف حیات کے ہیں۔ بالفاظ دیگر انسان ان امور کی وساطت سے معراج مومن کا حامل ہوجائے اور یہ معراج اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان اپنی حقیقت کی جہت سے مقرب بارگاہ خداوندی ہوجائے نیز ایک فرد کی حیثیت سے معاشرہ ملک اور ملت کو اسلامی نصب العین کے مطابق کا میاب و کامران بنانے کی جد جہد میں مصروف رہے تاکہ ’’کنتم خیرامۃ‘‘کا اعزاز حاصل ہو۔ چنانچہ اس ضمن میں حضرت شیخ الاسلام نے مدرسہ نظامیہ  کے قیام کو ذہن میں رکھتے ہوئے شہر اور بیرون شہر اضلاع اور ملک کے دوسرے حصوں میں متعدد مدرسوں کی جانب توجہ کی اور ان درسگاہوں کو مالی نوعیت سے استحکام بخشا، خصوصیت سے دور دراز علاقوں میں جیسے بیدر شریف، اورنگ آباد کے علاوہ فتح پور،اودئے پور، میواڑ، اجمیر شریف اور دیگرمدارس کے لئے رقمی تعاون کا بندو بست کرایا۔ اور شہر میں مکہ مسجد میں مدرسے قائم کئے جہاں دینی تعلیم کی اساسی ضرورتوں اور عقائد صحیحہ کا اہتمام کیاگیاتھا۔ مزید آپ نے خدمات شرعیہ، اصلاح المسلمین کی انجمنیں بھی قائم کیں۔سلطنت آصفیہ میں اس اہم دینی ترقی وترویج کے لئے افہام و تفہیم پر فوری توجہ کرتے ہوئے واعظین کو مقرر کیا تاکہ عوام الناس اسلامی تعلیمات سے خاطر خواہ واقف ہوں۔ اسی طرح اولیاء اللہ بزرگوں کی مزارات پر اعراس کے موقعوں پر طوائفیںمجرا کیا کرتی تھیں آپ نے اس لعنت کو دور کیا اور معاملات نکاح کے لئے سیاہہ جات تیار کروائے، مشائخین عظام کے صاحبزادوں کو اہل خدمات شرعیہ کے امتحانات کی پابندی پر توجہ دلائی ریاست کے سرکاری مدارس میں دینیات کو لازمی قرار دیا، غرض اس مرد حق آگاہ نے حیدرآباد کے علمی ادبی ماحول کے ساتھ ساتھ دینی ماحول کو ایک خاموش انقلاب سے آشنا کیا جس کا ایک عرصہ دراز تک اثر قائم و باقی رہا۔ یہ حضرت شیخ الاسلام ہی کی ذات بابرکات تھی جس نے ریاست میں آصفیہ کتب خانہ جو آج کل اسٹیٹ لائبریری کہلاتی ہے اور دائرۃ المعارف عثمانیہ کے قیام پر زور دیا یہ صحیح ہے کہ دائرۃ المعارف عثمانیہ کی بنیاد میں عمادالملک اور ملا عبدالقیوم کی دلچسپی و تائید کو بڑا دخل تھا دائرۃ المعارف العثمانیہ کے قیام کی اصل وجہ یہ تھی کہ عربی علوم فنون کی بے بہا کتابیں طباعت سے آراستہ ہو کر عام استفادہ کے لئے اہل ذوق تک پہنچ جائیں، کہتے ہیں کہ حضرت شیخ الاسلام نے اس ادارہ سے سب سے پہلے حدیث کی جامع اور ضخیم کتاب ’’کنزالعمال ‘‘ طبع کروائی تھی۔ آج بھی یہ ادارہ عالم گیر سطح پر قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جہاں سے سینکڑوں نادر و قیمتی کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں اور کئی ایک نامی گرامی حضرات اس ادارہ سے وابستہ رہے ہیں۔
عبارت مختصر! حضرت شیخ الاسلام نواب فضیلت جنگ رحمۃ اللہ علیہ کی ملی و دینی خدمات بے مثال اور لازوال ہیں آپ کی شخصیت کا وہ پہلو جس میں آپ میدان تصنیف و تالیف کے شہسوار نظرآتے ہیں اس کی تفصیلی تشریح کے لئے یقینا اہل دل اور اہل نظر کاہونا ضروری ہے احقر کے اس مختصر و بے ربط مضمون میں اس کی گنجائش نہیں اور نہ ہی میں خود کو اس کا اہل سمجھتا ہوں کہ جناب کی جامع الکمالات شخصیت کی مختلف النوع خدمات دینیہ، قومی تعلیم و تربیت اصلاح قلوب و اعمال تہذیب و اخلاق کا احاطہ کر سکوں۔ حضرت کی شریعت و طریقت کی خدمات اور مسائل پر تفصیل سے گفتگو کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ اسلامی تعلیمات کی عظمت مترشح ہو جس کے شیخ الاسلام علمبردار تھے۔
سچ ہے جس عبادت کی محرک محبت ہو اس کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے، میں نے اپنے مضمون کی ابتداء میں اللہ تعالی سے محبت کرنے والوں کی بابت قرآن و حدیث کی جن باتوں کی جانب تو جہ دلائی تھی اسی محبت الہی کے اس پیکر عظیم حضرت شیخ الاسلام کی بزرگی و عظمت کی وضاحت میں اتنا ضرور کہوں گا، اللہ تعالی نے ’’وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ‘‘(اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی) سورہ روم رکوع۲، کے مصداق اللہ تعالی سے بندے کی محبت یہ ہے کہ وہ اس کی والہانہ اطاعت میں سرگرم عمل ہو اس کی رضا وقرب کا طالب اور اس کی نگاہ لطف و کرم کا آرزومند ہو تب ہی تو اللہ کی محبت اس کے حق میں یہ رہے گی کہ دنیا میں وہ اس کا حامی ناصر اور کارساز ہوگا اور آخرت میں وہ اپنی نعمتوں سے سرفراز کرے گا اپنے دیدار جاں نواز سے مشرف فرمائے گا اور اس کا یہ دیدار جنت اور اس کی بیش بہا نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہوگی ۔ اس محبت کی کسوٹی پر وہی پورے پورے اترتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں خود کو مشغول و منہمک کردیتے ہیں۔ اللہ نے ان لوگوں کی کچھ نشانیاں بھی بتلائیں ہیں یعنی وہ لوگ توبہ کرنے والے پاکیزگی اختیار کرنے والے متوکل و انصاف پسند متقی اور صابر ہونے کے ساتھ ساتھ محسن بھی ہوتے ہیں۔ گویا احسان تو یہ پاکیزگی تو کل عدل و انصاف تقوی وطہارت صبر قتال فی الارض یعنی اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے دشمنان حق سے جنگ کرنا یہ وہ صفات ہیں جو خدائے بر تر و بزرگ رؤف و رحیم کو پسند ہیں اور جو لوگ ان صفات ہے متصف رحیم کو پسند ہوں وہ ان سے محبت کرتا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کی ساری زندگی اسی محبت کی آئینہ دار رہی آپ نے اپنی زندگی کا نصب العین اطیعواللہ واطیعوالرسول سے جدا نہ رکھا۔ اور عامۃ المسلمین و اہل علم کو اپنی ان تھک محنت بے لوث محبت دین کی خدمت سے مالا مال کردیا، آخر میں میں اس حقیقت آشنا صاحب دل، زاہد شب زندہ دار عاشق رسول کردگار کے حضور ہدیہ عقیدت پیش کرتا ہوں بقول علامہ اقبالؔ۔
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

lll

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Recent In Internet

Popular Posts