Breaking

Sunday, June 9, 2019

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے تاریخ ساز کارنامے

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
 کے تاریخ ساز کارنامے

از: پروفیسر اکبر الدین صدیقی ،  عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد

آپ ۴؍ربیع الثانی ۱۲۶۴؁ھ میں بمقام ناندیڑ پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم مولانا کے والد بزرگوار مولانا ابو محمد شجاع الدین قندہاریؒ نے دی مولانا سید شاہ بدیع الدین رفاعی قندہاریؒ کے یہاں قرآن شریف شروع کیا۔ سات سا ل کی عمر میں آپ کو حفظ قرآن مجید کے لئے حافظ امجد علی صاحب نابینا کے تفویض کیا گیا۔ آپ نے چار سال میں کلام مجید حفظ کیا۔ مولانا عبدالحلیم فرنگی محلیؒ، مولانا عبدالحیٔ فرنگی محلیؒ، مولوی فیاض الدین اورنگ آبادیؒ سے فقہ کی تکمیل کی۔ شیخ عبداللہ یمنیؒ جو اس زمانے میں آپ کو تفسیر وحدیث کے درس دیتے تھے۔ آپ کے ذوق علم کی تشنگی دیکھ کر آپ کے استاد بھی انگشت بدندان تھے۔ اور اپنے ذکی شاگرد کا اپنی تصنیفوں میں مختلف مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ آپ نے سلوک کی تعلیم اپنے والد سے پائی۔ اور تمام سلسلوں میں بیعت کی۔
ازدواج وملازمت وغیرہ:
۱۲۸۲؁ء میں حاجی امیر الدین محتسبؔ بنولہ کی صاحبزادی آپ سے منسوب ہوئیں ۱۲۸۵؁ء میں محکمہ مالگذاری میں خلاصہ نویسی کی خدمت پر مامور ہوئے لیکن اس ملازمت سے محض اس وجہ سے سبکدوشی حاصل کرلی کہ اس میں سودی لین دین کی مثل کا خلاصہ لکھنا پڑتا تھا۔  آپ کی تعلیم کی شہرت نے اتنی ترقی پائی کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ بلاد اسلامیہ سے شائقین علم اپنی تشنگی علم بجھانے آتے اور فیض یاب ہوتے۔
۱۲۹۴؁ء میں آپ نے حج کا ارادہ فرمایا مکہ معظمہ پہنچ کر شیخ الوقت فانی فی اللہ باقی باللہ حاجی امداداللہ احمدؒ سے تمام سلسلوں میں مکرر بیعت کی اور سلوک کے منازل کی تکمیل کی۔ آپ کے ذوق علم اور اعلی قابلیت کی بناء پر آپ کے پیر ومرشد نے بلا طلب خلعت مرحمت فرمایا۔
مولانا بحیثیت استاد مغفرت مکان:
۱۲۹۵؁ء میں محمد زماں خاں ؒ نے جو اعلحضرت غفران مکان کے استاد تھے درجہ شہادت پایا اور ان کے بجائے ان کے بھائی مولوی مسیح الزماں خاں تعلیم کے لئے مقرر ہوئے لیکن آپ کو دیگر امور سلطنت بھی انجام دینے پڑتے تھے۔ اس لئے مولانا انوار اللہ کا اس خدمت پر انتخاب کیا۔ اور نواب سرسالار جنگ سے رائے لیکر دربار سے منظوری بھی حاصل کی لیکن اس کی اطلاع مولانا کو اس وقت تک نہ ہوئی جب تک فرمان شرف صدور نہ لایا۔ فرمان دیکھ کر مولانا نے کہا:
’’قومی خدمت بادشاہوں کی خدمت سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ پس اس کو قبول نہیں کرسکتا‘‘۔
لیکن مولانا مسیح الزماں نے آپ کو سمجھا دیا میں نے پہلے پہل تمام مراحل طے کر کے منظوری حاصل کی ہے۔ اگر آپ انکار کرینگے تو مجھے خفیف ہونا پڑیگا۔ مولانا نے بعد میں اس کو منظور کر لیا۔ اس سلسلے میں آپ کو چار سو روپیہ ماہانہ خزانہ صرف خاص سے تاحیات ملتے رہے۔ ۱۳۰۱؁ء میں دربار جشن تخت نشینی میں آپ کو خطاب ’’خان بہادر‘‘ اور ایک ہزاری منصب عطا ہوا۔
۱۳۰۱؁ء میں حجاز کا دوسرا سفر کیا۔ ۲۶؍رمضان المبارک۱۳۰۴؁ء میں مولانا کی اہلیہ نے حیدرآباد میں انتقال کیا۔ ۱۳۰۵؁ء میں حجاز کاتیسرا سفرکیا۔ اور اس سفر میں مصر ہوتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے۔ اور یہاں تین سال تک اقامت اختیار کی۔ یہاںآپ کا تقریبا تمام وقت حرم محترم اور کتب خانہ میں گذرتا۔ آپ کی تصنیف ’’انوار احمدی‘‘ اسی زمانہ میں لکھی گئی ہے۔ اس تین سال کے عرصہ میں مولانا نے کتب خانہ شیخ الاسلام اور کتب خانہ محمودیہ سے نادر نسخوں کے نقل کرانے میں ہزاروں روپیہ صرف کیا جن میں سے حسب ذیل مشہور ہیں:
۱۔ کنز العمال۔ (حدیث کی کتاب ۸ جلدوں میں)
۲۔ جامع مسانید امام اعظمؒ۔
۳۔ جواہر نقی علی سنن بیہقی۔
۴۔ احادیث قدسیہ۔
۱۳۰۷؁ھ میں آپ کی ہمشیرہ اور فرزند نے وہیں انتقال کیاہمراہیوں نے بلدہ چلنے پر مجبور کیا۔ اس لئے آپ ۱۳۰۸؁ھ میں مراجعت فرمائے بلدہ ہوئے۔ آپ کی واپسی پر اعلحضرت غفران مکان نے آپ کو اعلی حضرت نواب میر عثمان علیخاں آصفجاہ سابع خلد اللہ ملکہ، کی تعلیم کے لئے مقرر فرمایا۔ اور یہ سلسلہ تخت نشینی ۱۳۲۹؁ھ تک جاری رہا۔ ۱۳۱۴؁ھ میں آپ پھر مقامات مقدسہ کی زیارت سے مشرف اندوز ہونے کے لئے معہ احباب کھڑے ہوئے۔ بغداد شریف نجف اشرف وغیرہ ہوتے ہوئے ہندوستان کے بھی بزرگان دین کی زیارت حاصل کی۔ ۱۳۲۱؁ء میں بحسب فرمان عطوفت نشان آپ ناظم امور مذہبی وصدر الصدور صوبہ جات دکن مقرر ہوئے۔ اور جب نواب مظفر جنگ بہادر معین المہام امور مذہبی نے ۱۳۲۳؁ف رحلت کی توجہاں پناہ نے اس عہدئہ جلیلہ پر آپ ہی کو ترقی دی۔ ۱۳۳۲؁ھ میں پرنس والا شان نواب اعظم جاہ بہادر پرنس آف برار اور والا شان نواب معظم جاہ بہادر کی تعلیم کے لئے مقرر ہوئے۔ اور ۱۳۳۵؁ھ تک اس خدمت کو انجام دیا۔ اور علالت کے سبب اس خدمت سے دستبرداری حاصل کی۔ اسی سال آپ کو ’’نواب فضیلت جنگ بہادر‘‘ کا خطاب سرفراز ہوا۔ ۱۳۳۵؁ھ کے طاعون میں آپ اعلحضرت قدر قدرت کے ہمراہ ورنگل تشریف لے گئے تھے۔ اور ۱۲؍ربیع الاول ۱۳۳۵؁ ھ کے جلسہ میلا دالنبی منعقدہ مکہ مسجد میں شرکت کے لئے اجازت حاصل کر کے حیدرآباد تشریف لائے اور جشن میلاد النبی کے بعد پھر ورنگل واپس تشریف لے جارہے تھے کہ آپ کی کمر میں درد شروع ہوگیا۔ ورنگل پہنچنے کے بعد جب فرمان ایک مسجد کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے۔ حرکت سے درد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس لئے اجازت لے کر حیدرآباد آگئے اور تین ماہ مختلف امراض میں علیل رہے۔ اوائل ۱۳۳۶؁ھ میں مرض سرطان میں مبتلا ہوگئے۔ اور آخر پنجشنبہ کے دن جمادی الثانی ۱۳۳۶؁ھ کا ہلال افق مشرق پر نمودار ہوا اور یہ آفتاب علم وعمل غروب ہوگیا۔
بعد نماز جمعہ مکہ مسجد میں نماز جنازہ ادا کی گئی مولانا نے اپنی زندگی میں اپنا تن من دھن مدرسہ نظامیہ کے لئے وقف کردیاتھا اور وہیں دفن بھی کرنے کی وصیت کی تھی۔ لہذا حسب ارشاد تعمیل کی گئی۔
مولانا نے مدرسہ نظامیہ کو بے حد ترقی دی۔ پہلے معلم پھر صدر بنکر اس کو جس معیار پر لاکھڑا کیا اس کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا دیا جاسکتا ہے کہ بلاد اسلامیہ کے طلبہ کا ہندوستان بھر میں صرف یہی ایک ملجاو ماویٰ تھا۔ مولانا کا دوسرا عظیم الشان کارنامہ ’’دائرۃ المعارف النظامیہ‘‘ ہے۔ ۱۳۰۸؁ھ میں جب مولانا مدینہ طیبہ سے واپس ہوئے اور اپنے ساتھ علم کے وہ گنجینے ہزاروں روپیہ کے صرفہ سے نقل کروایا تھا لے آئے تو انہیں زمانہ کی دست برد سے بچانے کا خیال پیدا ہوا۔ لیکن اخراجات کی مجبوری نے عرصہ تک مولانا کو پریشان رکھا لیکن مولاناکے ارشاد پر ملا محمد عبدالقیوم سابق کمشنر اول تعلقدار نے دائرۃ المعارف قائم کردیا تا کہ مولانا کے ارادہ کی تکمیل باحسن الوجوہ انجام پاسکے۔ اسکے قیام کے کچھ دنوں بعد سرکار سے پانچ سو روپیہ ماہوار کی منظوری ہوئی اور کنز العمال دائرۃ المعارف کی سب سے پہلی شائع کردہ کتاب ہے جس کو مولانا نے مکہ معظمہ میں نقل کروایاتھا ۱۳۰۸؁ھ حیدرآباد کی تاریخ میں یاد رہے گا کہ مولانا کی تحریک اور ملا محمد عبد القیوم اور عماد الملک کی مساعی جمیلہ سے ہندوستان کے مشہور ’’کتب خانہ آصفیہ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔
مولانا نے اپنی صدارت امور مذہبی کے زمانہ میں اور اس سے پہلے جو اسلامی خدمات انجام دیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مولانا نے اشاعت تعلیم دینی کی غرض سے کئی مدارس مختلف مقامات پر قائم کروائے۔ اور انہیں سرکاری امداد دلوائی۔ ریاست ابدمدت سے باہر جن مدارس کو امداد ملی حسب ذیل ہیں:
(۱)مدرسہء معینہ عثمانیہ اجمیر شریف ایک ہزار روپیہ سالانہ۔ (۲)مدرسہ دیوبند چھ سو روپیہ ماہانہ۔ (۳)مدرسہ کولھاپور دوسو روپیہ ماہانہ۔ (۴)مدرسہ بدایون ایک سو پچیس روپیہ ماہانہ۔ (۵)مدرسہ سبحانیہ الہ آباد سو روپے ماہانہ۔ (۶) مدرسہ فتح پور دہلی پچاس روپیہ ماہانہ۔ (۷)مدرسہ میواڑ اودے پور ایک سو پچیس روپیہ ماہانہ۔
اس کے علاوہ عبداللطیف خاں صاحب بھوپالی نے مختلف صنعتوں سے قرآن مجید کی کتابت کروائی تھی اور طبع کرانا چاہتے تھے۔ مولانا نے ان خوبیوں کو دیکھ کر پچاس روپیہ ماہوار تا حیات وظیفہ اور تین ہزار کلدار طباعت کے لئے اخراجات دلائے۔حکیم یعقوب خاں صاحب نے کلام مجید مرہٹی میں ترجمہ کیا۔ اس کے صلہ میں پچاس روپیہ تا حیات اور پندرہ ہزار روپیہ طباعت کے لئے دلادئیے۔
تفسیر روح الایمان کی طباعت کے لئے مولوی فتح الدین پنجابی کو دو ہزار روپے کلدار دلائے۔ مسجد آسٹریلیا کی تعمیر کے لئے چالیس ہزار اور بصرہ کی مسجد کے لئے بھی گرانقدر رقم دلوادی۔ یہ سب کچھ اسلام کے لئے تھا لیکن مولانا نے اپنے عزیز واقارب کے لئے کچھ نہ کیا۔ حیدرآباد کے لئے انہوں نے بہت کچھ کیا۔ محکمہ صدارت عالیہ کی مستقل ومنظم شکل آپ ہی کی مرہون منت ہے۔ دیہات میں پھرنے اور جاہل مسلمانوں کو ان کے فرائض یاد دلانے کے لئے واعظین مقرر کئے گئے۔ قاضیوں کو دورہ کر کے مسلمانوں کو ’’مسلمان‘‘ بنانے کے لئے احکام نافذ کئے جس سے خود قاضیوں کی اصلاح ہوئی۔ اور دیہات کی حالت درست ہونے لگی۔ یہ طریقہ اب تک بھی جاری ہے۔ اہل خدمات شرعیہ اب تک وراثتاً چلے آتے تھے اور ان میں اپنی خدمتوں کو ادا کرنے کی قابلیت نہ ہوتی تھی۔ مولانا نے اس طریقہ کو مسدود کر کے ان کے لئے امتحانات مقرر کروائے اور صرف انہیں کو اس خدمت کا اہل سمجھا گیا جو امتحان اہل خدمات شرعیہ کا میاب ہوں ۔ مدرسہ نظامیہ میں غریب اہل خدمات شرعیہ کے لڑکوں کی تعلیم کا انتظام کیا گیا جہاں انہیں اب تک بھی کھانے رہنے اور پڑھنے کے لئے غذا کمرے اور کتابیں دی جاتی ہیں نہ صرف یہ بلکہ لباس بھی۔
طوائفین سربازار رہ کر تہذیب وتمدن اخلاق وعادات پر بہت برا تاثر ڈالتی تھیں۔ آپ نے ان کو بازاروں سے برخواست کردیا۔ ناپ تول کے پیمانوں کی تصحیح عمل میں آئی۔عرس وغیرہ میں مینا بازار منعقد ہوتے تھے۔ انہیں بھی بند کروایا۔ غرض مولانا کی اصلاحات ان گنت ہیں۔ اور ان کا ذکر کرنے کے لئے ایک علحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔
مولانا بحیثیت ادیب:
مولانا کی زندگی کے واقعات کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کی عدیم الفرصتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس پر بھی مولانا اپنے وقت کے سب سے بڑے مصنف ہیں۔ آپ نے جتنی کتابیں اس زمانہ میں لکھیں ان سے حیدرآباد کی ادبیات میں ایک انقلاب پیدا ہوگیا۔ تمام کتابیں مذہبی ہیں لیکن ان کے موضوع مختلف ہیں۔ حدیث، فقہ اور سیرت پر متعدد کتابیں تصنیف کیں اور ایک رسالہ ’’مقاصد الاسلام‘‘ جاری کیا۔ جو بلاتعین وقت شائع ہوتاتھا۔
بعض مذاہب کے علم برداروں نے اسلام اور حنفی فقہ پر اعتراضات کئے تھے۔ جن کے جوابات مولانانے ان ضخیم کتابوں کی صورت میں شائع کئے ہیں۔ چنانچہ ’’افادۃ الافہام‘‘ مرزا غلام احمد قادیانی کے جواب میں لکھی گئی۔ اور مرزا صاحب اس کا جواب نہ دے سکے۔
’’حقیقت الفقہ‘‘ یہ کتاب دو حصوں میںہے۔ فرقہ اہل حدیث کے عقائد کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ ابتداء میں مولانا نے فقہ کی تاریخ بتلائی اور اس کی تدوین میںفقہانے جو زحمتیں برداشت کی ہیں ان کو گنا یا ہے جس سے فقہ پر عاید ہونے والے الزامات کا ازالہ ہوجاتا ہے۔
’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘ اس میں جمع احادیث واہمیت راوی، وحقیقت محدثین وفقہاء و اسناد وغیرہ سے بحث فرمائی ہے۔
’’خدا کی قدرت‘‘ یہ ایک مختصر منظوم رسالہ ہے جس میں آپ نے ثابت کیا ہے کہ انبیائے کرام اور اولیاء عظام سے استمداد کی جاسکتی ہے۔
رسالہ ’’خلق افعال‘‘ اس میں حق تعالیٰ کا خالق افعال ہونا ثابت کیاگیا ہے اور فرقہ معتزلہ اور قدریہ کے اعتراضات کے جوابات فلسفیانہ طرز میں دئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ حسب ذیل کتابیں بھی لکھیں۔
(۱)رسالہ ’’انواراللہ الودودفی مسئلہ وحدۃالوجود‘‘۔(۲) رسالہ انوار اللہ (حج)۔ (۳)رسالہ چہل حدیث۔ (۴)رسالہ بشری الکرام (میلاد شریف کو محققانہ حیثیت سے ثابت کیا ہے)۔ (۵)کتاب التوحید (نفس توحید کے مسائل کو واضح کیاگیا ہے)۔ (۶)کتاب العقل (اس کتاب میں یہ بتلایا گیا کہ انسانی عقل خواہ اس کامعیار کتنا ہی بلند ہو غلطی کی ضرور مرتکب ہوتی ہے۔ (۷)انوار احمدی (یہ قیام مدینہ منورہ کے زمانہ میں لکھی گئی ہے۔ مولانا کے پیر ومرشد حاجی امداداللہ صاحبؒ نے اس پر ایک تقریظ بھی لکھی ہے)۔
مولانا بحیثیت شاعر:
مولانا کہنہ مشق شاعر نہ تھے لیکن جذبات کے اظہار کا (جو تصوف میں ڈوبا ہوا ہو) بہترین ذریعہ اشعار ہیں اور اسی بناء پر وہ مجبورا شعر کہتے تھے۔ آپ کا کلام ’’شمیم الانوار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ لیکن ان میں اشعار کی تعداد بہت کم ہے۔ زیادہ اشعار جن میں غزلیں وغیرہ شامل ہیں۔ فارسی میں مولانا نے عرفیؔ کے قصیدہ حمد کی طرز میں خود بھی ایک حمد اسی بحر و وزن میں لکھی ہے۔ جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں   ؎
اے ہو ایت طرح رنگِ کن فکاں انداختہ
طبع عشق اندر ہیولائے جہاں انداختہ
در سرشتِ مہوشاں سرمدی اندر ازل 
رنگ نیرنگِ تجدد از زماں انداختہ
اے کہ عشقت شد فروکش ہر کجا کاندر وجود
عقل رابیرونِ سرحد موکشاں انداختہ
بردرِ گنجینہء اسرار و خلوت گاہِ خویش
قفلِ وسواس از خیال ایں وآں انداختہ
٭٭٭


No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Recent In Internet

Popular Posts