Breaking

Monday, June 10, 2019

جامعہ نظامیہ کے اردو شعراء کرام

جامعہ نظامیہ کے 
اردو شعراء کرام

ترتیب : شاہ محمد فصیح الدین نظامی ، مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد ،دکن

اردو نہ تو شاہجہاں کے عہد کی پیداوار ہے اور نہ ہی عہد اکبری کی، اس دور سے بہت پہلے دکن میں اردو کی داغ بیل پڑچکی تھی اور عہد بہمنیہ میں اردو عالم وجود میں آچکی تھی۔ حضرت خواجۂ دکن سیدنا بندہ نواز گیسودرازؒ نے گیسوئے اردو کو سنوارنے میں اتنا ہی حصہ لیا جتنا کہ مذہب کی اشاعت اور اعلائے کلمۂ حق میں لیا تھا۔ حضرت گیسودرازؒ کے کئی ایک رسائل نثر میں اور ایک ضخیم فرس نامہ جو کئی ہزار ابیات پر مشتمل ہے۔ شاہان بہمنیہ نے اس کی سرپرستی کی اور اپنا دور ختم کر کے عادل شاہیہ اور قطب شاہیہ کو سونپا، بانی شہر حیدرآباد محمد قلی قطب شاہ نے اسکو پروان چڑھایا۔ بارہویں صدی ہجری کے وسط میں حضرت آصف جاہ نظام الملک اعظم نواب میر قمر الدین علی خان نے جب اپنے قدوم میمنت لزوم سے ارضِ دکن کو مفتخر فرمایا تو اس اردو زبان نے حضرتؔ کا من موہ لیا ولیؔ اورنگ آبادی ، داؤدؔ دکنی، سراجؔ اورنگ آ بادی، قلیؔ خاں، سالارجنگ، نواز ش علی خاں شیداؔ، تجلیؔ علی شاہ رنگین، ایماؔ، صارمؔ، شفیقؔ، فتوتؔ، غلام علی آزادؔ کے زمزموں سے چمنستانِ دکن گونج اٹھا۔ نواب نظام علی خاں، نواب سکندر خاں، نواب ناصر الدولہ بہادر، نواب افضل الدولہ بہادر، نواب میر محبوب علی خاں کے دور میں شعراء کرام نے اپنی شیوا بیانی وآتش نوائی سے ایک ہلچل پیدا کردی۔ اعلٰی حضرت آصف سابع نواب میر عثمان علی خان جب تخت سلطنت پر جلوہ آراء ہوئے یہ نشہ دو آتشہ ہوگیا۔ اردو یونیورسٹی قائم ہوگئی اور حیدرآباد حقیقی معنی میں رشک بغداد بن گیا۔ 
قائم دائم رہے الٰہی یہ شہر
رشکِ فردوس حیدرآباد دکن
اسی سرزمین پر مرکز علم وادب جامعہ نظامیہ کے سپوتوں نے اپنی شیریں مقالی اور نواسنجی سے دنیائے علم وفن میں اس بات کا ایقان پیدا کردیا کہ یہاںکے سخنوروں اور دانشوروں نے ایک خاص رنگ کے ساتھ شعر وادب کو نکھارا اور بزمِ شاعری کو فرش زمین سے اٹھاکر عرش معلی پر پہنچادیا۔
فہرست اُردو شعراء جامعہ نظامیہ‘ حیدرآباد
1۔ شیخ الاسلام حضرت محمد انوار اللہ فاروقی انورؔ
2۔ مولانا مفتی سید شاہ احمد علی صوفی صفیؔ
3۔ مولانا مفتی سید شاہ مخدوم حسینیؒ
4۔ حضرت محمدمظفر الدین معلیؔ
5۔ حضرت مفتی میر اشرف علی اشرفؔؒ
6۔ حضرت بہبود علی صفیؔ
7۔ حضرت سید احمد حسین امجدؔ حیدرآبادی
8۔ حضرت شیخ عبدالقادر قیصرؔ
9۔حضرت سید محمد بادشاہ حسینی لئیقؔ
10۔ حضرت صوفی سید انور علی عمر کوٹی انورؔ
11۔ حضرت شاہ سیف شرفی سیفؔ
12۔ حضرت سید اعظم علی صوفیؔ
13۔ حضرت صوفی سجاد علی اصفیؔ
14۔ حضرت سید مظہر علی مظہرؔ
15۔ حضرت الطاف حسین جعفری الطافؔ
16۔ حضرت غلام علی حاویؔ
17۔ حضرت سید عثمان علی حسینی ذکیؔ
18۔ حضرت محمد فخر الدین رازیؔ
19۔ حضرت محمد اسماعیل شریف ازلؔ
20۔ حضرت سید علیم احمد مدنی علیمؔ
21۔ حضرت قاضی حامد علی تنویرؔ
22۔ ڈاکٹر اسد انصاری اسدؔ
23۔ جناب امین احمد تابؔ
24۔ جناب عبدالحمید خاں خیالیؔ
25۔ جناب محمد حسین خلیقؔ
26۔ جناب تراب علی جمیلؔ
27۔ حضرت سید محی الدین قادری روحیؔ
28۔ حضرت حکیم غلام قادر صدیقی سالکؔ
29۔ حضرت حکیم محمد وحیدالدین عالیؔ
30۔ حضرت سید یحییٰ حسینی قدرؔعریضی 
31۔ جناب محمد یعقوب عارفی قادرؔ
32۔ جناب مرزا سردار بیگ شمیمؔ
33۔ جناب ابو محمد علی سریرؔ
34۔ جناب محمد عبدالرزاق فاروقی رضاؔ
35۔ جناب صابر زیر کی صابرؔ
36۔ جناب غفار احمد ماجدؔ
37۔ حضرت حافظ الطاف حسین الطافؔ
38۔ جناب غلام احمد عیشؔ
39۔ جناب سید عبدالحفیظ محفوظؔ
40۔ جناب حسین بن محمد ندیمؔ
41۔ حضرت قاری عبدالکریم تسکینؔ
42۔ حضرت قاری عبدالحفیظ جنیدی فداؔ
43۔ حضرت سید خورشید علی تکریمؔ
44۔ حضرت عبدالخالق نظامی حیرتؔ
45۔ حضرت سید عطاء اللہ حسینی قدسیؔ
46۔ ڈاکٹر قاری محمد غوث حافظؔ
47۔ جناب رحمت اللہ خاں رحمتؔ
48۔ احمد حسین امجدؔ
49۔محمد سعید الرحمن صاحب
50۔پروفیسر سید محمدؔ
51۔خواجہ عبدالقادر شفاؔ
52۔احمد منیرالدین منیرؔ (تلمیذ حضرت شیخ الاسلام)
53۔سید علی منظورؔ(۱)
54۔مولوی حافظ حفیظ اللہ خانصاحب فانی، مولوی فاضل
55 ۔مولوی غلام نبی صاحب نظمیؔ منشی فاضل
56۔مولوی شیخ عبدالقادر قیصرؔ، منشی فاضل
57۔مولوی سید خیرات علی امجدؔ صاحب منشی فاضل
58۔مولوی فتح الدین صاحب ازبرؔ پنجابی، منشی فاضل،(۲) 
(مصنف تفسیر قرآن مجید، مرسلہ عطایا، انوار الفرائض)
59۔ مولانا قاری انصار علی جاویدؔ
60۔  مولانا سید صادق محی الدین فہیمؔ
61۔ جناب رحمت بخاریؒ
62۔ حضرت شمس زماںؔ
63۔ ڈاکٹر شیخ محی الدین نجیؔ
64۔ مولانا حافظ نوید افروز نویدؔ 
ذیل میں جامعہ نظامیہ کے چند مشہور شعراء کرام کے حالات اور نمونہ کلام کو درج کیا جارہا ہے:
حضرت محمد مظفر الدین معلّٰی  ؔ
حضرت محمد مظفر الدین معلیؒؔ جامعہ نظامیہ کے فیض یافتہ ایک ممتاز ادیب و شاعرتھے۔ آپ کا سن ولادت 9؍ذیقعدہ 1255 ھ ہے۔ وطن تعلقہ احمد پور ضلع بیدر(کرناٹک) ہے۔ نسبًا صدیقی ہیں۔ ابتدائی تعلیم مقامی علماء سے حاصل کی اور دکن کے بسا بزرگ حضرت زماں خاں صاحب شہیدؒ سے درسیات کی تکمیل فرمائی۔ سرکار عالی کے سر رشتہ ٹپہ میں مددگار ناظم مقرر ہوئے اورسر کاری خدمت کو نہایت عمدگی سے انجام دیتے رہے۔ تاہم دین و مذہب اور قوم و ملت کی خدمت کا حق پورے طورپر ادا کرتے رہے۔ مدرسہ محبوبیہ، دائرۃ المعارف اور جامعہ نظامیہ کے معتمد رہے اور ان قومی اداروں کو نہایت عمدگی سے چلاتے رہے۔
سلوک اور تصوف سے بھی طبعی رغبت تھی۔ شیخ الوقت امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ سے بیعت کی۔ تین مرتبہ اپنے شیخ کی معیت میں حج بیت اللہ اور چار دفعہ مدینہ منورہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ نہایت باخدا، خلیق مزاج، ذی مروت، علم دوست اور صوم و صلوۃ کے پابند، شب بیدار تھے۔ شعر و سخن سے بھی خاصی دلچسپ تھی، عربی، فارسی اور اردو میں آپ کو کامل ادراک اور ذوق تھا۔ ’’ریاض معلیؔ‘‘ کے نام سے آپ کے کلام کا مجموعہ شائع ہوا۔ حینِ حیات اپنی وفات پر اس طرح فرمایا  ؎
اے معلیٰؔ گرچہ ہوں عصیاں میں غرق
رحمتِ خالق پہ تکیہ ہے میرا
رحمتی سبقت علی غضبی سے عیاں
بہرِ بخشائش وثیقہ ہے میرا
کہ اسی رحمت کی سبقت کے سبب
شافعِ محشر[ا] وسیلہ ہے میرا 
رب کریم اور ہیں حبیب اس کے کریم[ا]
دو کریموں پر بھروسہ ہے میرا
جان نکل کرجسم سے کہتی ہے سن
بخشنے والا اب اللہ ہے میرا
پوری زندگی علم وادب کی خدمت تقویٰ و طہارت میں بسر ہوئی 26؍ شوال 1335ہجری  9؍مہر 1326ف میں انتقال ہوا۔ رود موسیٰ کے کنارے اسٹیٹ سنٹرل لائبریری (کتب خانہ آصفیہ)  کے عقبی حصہ میںدفن ہوئے۔حضرت معلیؔ نے اپنے استاد حضرت فضیلت جنگ کی مشہور تصنیف ’’مقاصد الاسلام‘‘حصہ اول کی طباعت پر مادہ تاریخ کا استخراج کیاہے۔ 
خدا کا شکر ہے طبع ہوا حصہ اول 
کتاب عمدہ کا جو ہے مفید خاص عوام
لکھا یہ کلکِ معلیؔ نے مصرعِ تاریخ
چھپی کتاب افادت مقاصد الاسلام
۷ ۲ ۳ ۱ ھ
آپ کے چند اشعار اس طرح ہیں۔
عشق ہے دل میں ہمارے احمد بے میم کا
داغ اپنا پھول ہے گلزارِ ابراہیم کا
خاکساروںکو ہے راحت، سربلندوں کو ہے رنج
ہے زمیں آرام سے اور آسماں گردش میں ہے
ہیں آئینہ میں اپنے لقا کو دیکھ کر
بت بنے بیٹھے ہیں وہ صنم خداکو دیکھ کر
نہ غم ہے نالہ و فریاد کرنا 
ہے لازم خاطر صیاد کرنا
نہیں پوچھا کبھی بھولے بھی ہمکو
بت کافر تجھے کیا یاد کرنا(۳)
مولانا محمد اسماعیل شریف ازلؔ
مولانا اسماعیل شریف ازلؔ (تلمیذ حضرت شیخ الاسلامؒ) کی ولادت ۱۳۰۵؁ھ میں ہوئی۔ منشی فاضل، مولوی فاضل اور مولوی کامل آخر کی تکمیل کی۔ آپ کی تعلیم محبوبیہ اور جامعہ نظامیہ میں ہوئی۔ علمی شوق نے حیدرآباد کے مشہور اساتذہ اور علماء سے استفادہ کا پورا پورا موقع دیا۔ تکمیل کے بعد اردو و فارسی میں شعر کہنا شروع کیا۔ اردو میں ڈاکٹر مائل سے رہبری حاصل فرماتے اور فارسی میں حضرت ترکیؔ طوسی سے رہبری حاصل فرماتے رہے آپ کا کلام نہ صرف پاکیزہ بلکہ اعلیٰ قدروں کا حامل اور آپ کہنہ مشق شاعرہیں، گلبرگہ میں ہی انتقال فرمایا اور حضرت خواجہ دکن کے پائین میں آسودہ ہیں۔ آپ کے کلام کے چند نمونے پیش ہیں۔
بھرتے ہیں دم ہمیشہ سب خاص و عام تیرا
کیا شیخ کیا برہمن جپتے ہیں نام تیرا
ہر ذرہ سے عیاں ہے قدرت تیری الٰہی
ہر قطرہ میں نہاں ہے یارب پیام تیرا
جلے گا حشر میں دلدادہ کیا گیسوئے احمد کا
سیہ بختی میں ہے عالم یہاں جب سنگ اسود کا
قندیلِ سر طور ہے گر روئے محمد
زنجیرِ درِ عرش ہے گیسوئے محمد
منظور وصف روئے بتِ لالہ فام ہے
بس ایک غزل میں گلستان تمام ہے
مرگِ عدو خوشی کا بھلا کیا مقام ہے
اس کا اگر ہے کوچ تو کس کا مقام ہے
ترا وہ ظلم بیگانہ یگانہ
میرا یہ حال دشمن مہرباں ہے
تم آؤ یا پیامِ موت آئے
مجھے اب زندگی بارِ گراں ہے
مانا کہ زندگی میں نہیں قدر و منزلت
افسانے یاد آئیں گے میری وفا کے بعد
یہ مل گیا جسے اسے سب کچھ ہی مل گیا
کیا چاہیے بھلا دلِ درد آشنا کے بعد
(بشکریہ: داستانِ ادب گلبرگہ ص ۴۲؍ڈاکٹر طیب انصاری، مطبوعہ اعجاز پریس حیدرآباد۔ بار اول 1993ء)
امام المحاورات حضرت صفی ؔ اورنگ آبادی
حضرت صفیؔ نے جس زمانے میں شاعری کا آغاز کیا تھا اس وقت سرزمین دکن میں شمالی ہند کے دو ممتاز اساتذہ سخن امیر مینائیؔ اور فصیح الملک داغؔ کی نواسبخیاں ابھی فضائے ادب میں گونج رہی تھیں۔ حیدرآباد میں شعراء کی تعداد بیسیوں نہیں سینکڑوں میں تھی ردیف و قافیہ اور بحر کی تبدیلیوں کے ساتھ الفاظ کے الٹ پھیر سے پٹے ہوئے مضامین کی ملمع کاری عام ہوچکی تھی۔ شعراء عام طور پر فکرِ نو کی تہی دامنی کا شکار ہو رہے تھے۔ فکر و ادب کی اس کساد بازاری میں آصفی دربار اور امرائے دربار کے سرپرستوں نے حیدرآباد کے شاعروں اور بیرونِ ریاست سے آنے والے شاعروں کو نئی راہیں سمجھائیں مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ کے دربار میں جہاں نظم ؔ طباطبائی، فانیؔ بدایونی، نظام شاہ لبیبؔ، مسعود علی محویؔ اور حبیبؔ کنتوری جیسے ائمہ فن اپنے کلام کی داد وصول کررہے تھے وہیں صفیؔ اورنگ آبادی کابھی قلندرانہ، صاف ستھرا اور پاکیزہ لب ولہجہ عوام و خواص کے دلوں پر اپنا سکّہ جمارہاتھا صفیؔ ایک آشفتہ سر اور قلندر مزاج شاعر تھے ذہانت اور ذکاوت قدرت سے ملی تھی مگر گردشّ روزگار نے سلیقہ سے زندگی بسر کرنے کا موقع نہیں دیا۔ کم عمری میں تلاشِ معاش کے لئے جگہ جگہ کی خاک چھانی۔ کہتے ہیں  ؎
ہم گردشوں میں ایک بگولہ بنے رہے
بگڑی ہوا تو خاک اڑائی کہاں کہاں
امیر پائیگاہ نواب معین الدولہ اور مہاراجہ کے دربار سے چاہتے تو وابستہ ہوجاتے۔ درباروں کے جوڑ توڑ اور ملازمتوں کے قیود اور بندشوں سے تنگ آکر گھر بیٹھ گئے اور شاعری سے ناطہ جوڑلیا۔ جو شاعر اپنے من میں ڈوب کر تلاشِ سخن کرتا ہے اس کے کلام کو اس کی زندگی کے نشیب وفراز سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔ صفیؔ کا شمار بھی ایسے ہی شاعروں میں ہونا چاہئے جن کا کلام ان کی زندگی اور طرز زندگی کا آئینہ دار ہے۔
صفیؔ غزل کے مسلم البثوت استاد اور اپنی طرز کے بے مثل شاعر تھے۔ ان کی غزل میں رعنائی ہے اور رنگینی بھی، سحر انگیزی ہے اور سحر آفرینی بھی۔ ان کی غزلوں میں ارتکازِ خیال اور شدید داخلیت ہے اور ساتھ ہی خارجیت اور جامعیت بھی۔ صفیؔ کے کلام میں ایک ایسا درد ہے جو اپنا درماں آپ ہی ہے، ایک ایسا سوز ہے جس پر زندگی کی حرارت کا گماں ہوتا ہے۔ صفیؔ کی اس آواز کو سمجھنے کے لئے ان کے لب ولہجہ سے واقفیت بہت ضروری ہے۔
صفیؔ کے لہجے سے زورِ حیات آشکار ہے۔ زندگی ان کی شاعری میں بولتی، ہنستی، تڑپتی، ترستی، ڈرتی،جھجکتی، سنبھلتی نظرآتی ہے چند اشعار سے اس حقیقت کا پتہ چل سکتاہے  ؎
یہی آنکھیں، یہی دل ہے تو بس اللہ حافظ ہے
نہیں معلوم کیا ترکیب ہے دنیا میں جینے کی
پھر تازہ رنج پہنچا، پھر تازہ آفت آئی
جاتی نہیں الہی! تقدیر کی ہرآئی
اب اس کے در سے اُٹھ کے کہاں جائیں ہم نشیں
تھوڑی سی رہ گئی ہے، بہت سی گزر گئی
خاموش ساتھ ساتھ کہاں تک چلا چلوں
انسان ہوں کچھ آپ کا سایہ نہیں ہوں میں
صفیؔ کے یہاں اپنے دور کے دیگر شاعروں کی طرح کوئی نظام یا فلسفہ نہیں۔ بعید از حقائق دانشوری، خارج سے گریز، ماورائیت، غزل کی مترنم فضا کو بوجھل نہیں بناتی۔ وہ ایک مرنجان شاعر تھے۔ خوش گفتار، دوسروں کے غموں کی آگ میں جلنے والے، اپنے دُکھ انہیں کیاکم تھے کہ وہ اوروں کے دکھوں کا بوجھ بھی اٹھالیتے تھے اور جب برداشت نہیں کرسکتے تو ایک گونہ بیخودی اور سرشاری میں ڈوب جاتے جیسے یہ اسباب بے خودی لاکھوں نعمتوں کی ایک نعمت ہوں صفیؔ جس زمانے کے شاعر تھے وہ زمانہ وضع داری کا تھا۔ وضع داری کو دکن کے باسی تمدن کی جان سمجھتے تھے۔ خود داری کو شیوئہ شرافت جانتے تھے اصولوں اور روایات کو سینے سے لگائے جیتے تھے اور مرتے تھے، صفیؔ نے بھی ان ہی اقدار کو ہر حال میں بنائے رکھا، ٹھوکریں کھائیں پر اپنی وضع نہیں بدلی   ؎
جو دوست کی خوشی ہے وہ اپنی خوشی رہے
ہے تو یہی ہے ایک طریقہ نباہ کا
تیرے گدا کو دونوں جہاں سے غرض نہیں
صورت فقیر کی ہے تو دل بادشاہ کا
مولوی اعظم علی شایقؔ، مولوی سید بادشاہ حسینی لئیقؔ، مفتی اشرف علی، علامہ سیداشرف شمسی ؔ،جمال الدین نوریؔ، مولوی عبدالواسع، حکیم عبدالباقی شطاریؒ اور پروفیسر ابو نصر خالدی کی ہم نشینی اور علمی صحبتوں نے صفیؔ کے جوہر قابل کو خوب جلادی۔ ان ہی صحبتوں کااثر ہے کہ صفیؔ کے کلام میں تغزل کی چھاپ کے ساتھ تصوف کی آب وتاب بھی نظر آتی ہے ان کی صوفیانہ فکر میں گہرائی وگیرائی یاکسی خاص نظام تصوف سے وابستگی نہیں ملتی۔ صفیؔ کے ہاں ایک مرد قلندر کی آئینہ قلبی اور روشن ضمیری اور صدق وصفا کا انعکاس وانعطاف ملتا ہے۔
دل خانہء خدا ہے تو پھر اس میں اے صفیؔ
حسرت نہ ہو امید نہ ہو، مدعا نہ ہو
دل ہے کیا چیز اگر اتنا سمجھ لے انساں
نظر آنے لگے اللہ کی قدرت دل 
ہر ذرہ کائنات کا سر مست عشق ہے
قربان جاؤں آپ کہاں ہیں کہاں نہیں
چمک جاتی ہے ایسی کون سی بجلی خدا جانے
کبھی پاتا ہوں سورج سے زیادہ روشنی دل میں
حاملِ بار امانت ہوئے ہم آپ صفیؔ
اس نے کچھ بار تو ہم پر نہیں ڈالا اپنا
صفیؔ کی غزلوں میں نعت کے بھی چند خوبصورت اشعار ملتے ہیں۔ چند نمونتا پیش ہیں۔
خدا کو ہم نے پہچانا خدا ہے
محمدؐ یہ تصدق آپؐ کا ہے
سرِ محشر یہ کیسا ماجرا ہے
جسے دیکھو تم ہی کو دیکھتا ہے
نہیں کوئی کسی کا یا محمدؐ
غریبوں کو تمہارا آسرا ہے
سناؤں کس کو جو مسرت ہے میری
کہوں کس سے جو میرا مدعا ہے
تمہارا اُمّتی بندہ خدا کا
مِرا دونوں طرف سے بھی بھلا ہے
نہ کر ذکرِ عدوئے دین اے دل
بُروں کا نام لینا بھی بُرا ہے
صفیؔ کی آبرو ہے آپؐ کے ہاتھ
بُرا ہے یا بھلا ہے آپؐ کا ہے
نعت شریف
لاکھوں مضمون ہیں مداحِ محمدؐ کے لئے
خرچ کے واسطے اندازہ نہ آمد کے لئے
اشرف الخلق، شہنشاہِ رسل، شافعِ محشر
بخدا ساری خدائی ہے محمدؐ کے لئے
چاند دو تکڑے کیا ماہ عرب نے کیسا
کوئی ہتیار بہ ظاہر تو نہ تھا زد کے لئے
کیا کہوں منہ سے کہ قرآن کا منہ ہے ورنہ
حمد کا لفظ تو ہونا تھا محمدؐ کے لئے
واہ شاہنشہِ کونین تری حق بینی
غیر بھی تو کبھی آئے نہ خوشامد کے لئے
آپ ہیں فخر عرب فخر امم فخرِ رسل
انبیا فخر ہوئے اپنے اب وجد کے لئے
آیا قرآں پس تَوریت وزبور وانجیل
حامد واحمد و محمود و محمدؐ کے لئے
خلقتِ ارض وسماوات کا برزخ تو ہے
ابر اِس واسطے سایہ تھا ترے قد کے لئے
 
چاند سورج ہیں حسیں اور ہیں بے سایہ بھی
آپؐ نے سایہ تو ان پر نہیں ڈالا اپنا
جان جب نکلے تو انکانام لب پر ہو صفیؔ
جسم میں جن کے لطافت تھی ہماری جاں کی
شمالی ہند سے آنے والے شاعروں اور ادیبوں کا جب سلسلہ دراز ہوا اور انہوں نے دکن والوں پر جب اپنی فضیلت وبرتری جتانی شروع کی تو اہل دکن کی انکساری اور رواداری بھی ردّ عمل کے طور پر اپنی انفرادیت اور اہمیت جتانے پر مائل ہوئی چنانچہ دکن کے استاد کل میر شمس الدین فیضؔؒ کے تلامذہ، احمد حسین مائلؔ، ان کے تلامذہ اور کیفیؔ کے شاگرد صفیؔ نے دکن کی زبان و لب ولہجہ اور یہاں کے تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو اپنی شاعری میں پیش کر کے دکن کی انفرادیت اور شناخت کو منوانے کی کوشش شروع کی۔ حیدرآباد کا سرمایہ شعر وادب اپنے آغاز ہی سے مجاز و حقیقت کا خوبصورت امتزاج اور اپنی تہذیبی قدروں کا آئینہ دار ہے، دکن کی تہذیب اور شاعری اپنے تقدم وتسلسل کے باعث دلیؔ اور لکھنوؔ کے مقابل تہذیبی اور علمی سطح پر امتیازی اوصاف رکھتی ہے جس کو صفیؔ اور ان کے ہمعصر شعراء نے احساس وشعور کی پوری شدت کے ساتھ اپنے کلام میں پیش کیا ہے چنانچہ صفیؔ نے دکن کی مشترک اور مخلوط تہذیب کو، حیدرآباد کے محاورے، روزمرہ، زبان اور بیان کو اپنے شعری اظہار کے سانچے میں اس بے ساختگی اور بے تکلفی سے سمودیاکہ ان پر تصنع اور تکلف کا گمان تک نہیں گزرتا صفیؔ کہتے ہیں  ؎
نہ جانے ہند والے کون ہیں اور بولتے کیا ہیں
صفیؔ ہم دکنیوں کی صاف اردو اسکو کہتے ہیں
صفیؔنے دکن کے روز مرہ اور محاورہ کو اس خوبصورتی سے برتا ہیکہ شعر کالطف دوبالا ہوجاتاہے  ؎
شاعری کھیل ہوگئی ہے صفیؔ
اکّے دکّے رہے ہیں فن کے لوگ
کھڑے ہوں تو ہٹو، بیٹھو تو سر کو
سلام اس انجمن آراء کے گھر کو
صفیؔ اپنی وضع قطع سے ایک زاہد خشک معلوم ہوتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی طبیعت میں بلا کی شوخی اور شگفتگی بھی تھی اس شوخی نے ایک ایسا رنگ اختیار کرلیا تھا جس کو ان کی غزل کی جان کہا جاسکتا ہے ملاحظہ ہو۔
سب کچھ دُرست، شوخ ہیں ہم ، بے وفا ہیں ہم 
اچھا یہ کہئے آپ ہیں معشوق یا ہیں ہم 
اب اپنے آپ پر ہی سے اندازہ کیجئے
پڑتی ہے ایسے ویسو ں پہ میری نظر کہاں
آپ روٹھے ہیں تو ہم بھی ہیں خفا
قول میں وہ تھا، نہ یہ اقرار میں
صفیؔ حیدرآبادی روز مرہ اور محاورہ کے بادشاہ تھے جس سے ان کے کلام میں روانی آگئی ہے۔ محاورہ بندی اور روز مرہ کی پابندی صفیؔ کو استاد کیفیؔ سے ورثہ میں ملی تھی۔ سادہ اسلوب میں ایسے شعر کہنا جس میں زبان کا چٹخارہ اور روز مرہ کی چاشنی موجود ہو صفیؔ کا کمال ہے۔ صفیؔ نے اردو کو مقبول عام اور کثیر الاستعمال محاورات دیئے ہیں جن سے صفیؔ کے اشعار کی معنویت میں اضافہ ہوا اور ان کا شعری حسن بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صفیؔ کی زندگی ہی میں ان کا کلام حیدرآباد میں زبان زد عام ہوگیا تھا فقیر گلیوں میں ، عورتیں ڈھولگ پر گایا کرتی تھیں اور اس طرح ڈوب کر جیسے یہ ان کے اپنے دل کی بات ہو اور انہی کی زبان میںکہی گئی ہو۔ صفیؔ نے تکرار الفاظ اور مکالماتی انداز سے بھی خوب استفادہ کیا ہے جیسے۔
تیرا یہ حکم ’’مانگ ہر اک چیز مجھ سے مانگ‘‘
میری دعا کہ ’’دے مرے پروردگار دے‘‘
میں بار بار مانگوں جو درکار ہو مجھے
 اور اپنے فضل سے تو مجھے باربار دے
سب جان بوجھ کر بھی میں انجان آج تک
او آشنا فریب! فریب آشنا ہیں ہم
زبان تہذیب کی صحت مند نشانی ہوتی ہے، اپنی آگہی اور عرفان ذات کی جانب رہبری کرتی ہے، صفیؔ کا کلام دیگر شاعرانہ خوبیوں کے ساتھ خصوصیت سے اپنی زبان،محاورہ اور روز مرہ کے باعث دکن والوں کے لئے ہمیشہ سرمایہ افتخار رہے گا۔(۴)
شہنشاہ رباعیات حضرت امجدؔ حیدرآبادی
صوفی ابوالاعظم حضرت سید احمد حسین امجدؔ جو اردو شعروادب کی دنیا میں ’’رباعیات کے شہنشاہ ‘‘تسلیم کئے جاتے ہیں جامعہ نظامیہ کے فیض یافتہ، زبردست باکمال صاحب فن شاعرتھے۔ جامعہ کے اولین دور کے شعراء اور ادباء میں آپ بلند مقام کے حامل ہیں۔ 1303ھ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کے والد صوفی رحیم علی تھے۔ جن کا انتقال آپ کی کم سنی کے زمانہ میں ہی ہوگیا۔ والدہ محترمہ نے آپ کی پرورش فرمائی۔ 
حضرت امجدؔ نے جامعہ نظامیہ کے علاوہ دارالعلوم میں بھی تعلیم حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی کے امتحان منشی فاضل میں کامیابی حاصل کی اور اسکے بعد استادِ فلسفہ مولانا سید نادر الدین سے جو علامہ عبدالحق خیرآبادی کے شاگرد رشید تھے تعلیم کی مزید تکمیل کی۔ 
طغیانی رود موسیٰ 1326ھ 1908 ء میں آپ کا سارا گھرانہ جو والدہ، اہلیہ اور دختر پر مشتمل تھا بر باد ہوگیا۔ صرف ایک ذات امجدؔ اس طوفان بلا سے بچ گئی۔ مدرسہ دارالعلوم میں مدرسی کی خدمت میں آپ کا پہلا تقرر ہوا۔ اس کے بعد دفتر صدر محاسبی میں منتقل ہوئے اور بعد تکمیل 55 سال وظیفہ حاصل ہوا۔ 12شوال 1380ھ کو انتقال ہوا۔ درگاہ شاہ خاموش نامپلی حیدرآباد میں مدفون ہیں۔ چودہ سال کی عمر سے حضرت امجدؔ کی شعر گوئی کا آغاز ہوا: حضرت امجد حیدرآبادی نے پہلا شعر اپنی مادر علمی جامعہ نظامیہ میں طالب علمی کے دوران کہا، وہ شعر یہ ہے : 
نہیں غم گرچہ دشمن ہوگیا ہے آسماں اپنا 
مگر یارب نہ ہو نا مہرباں وہ مہرباں اپنا(۵)
ابتداء حبیب کنتوریؔ اور ترکیؔ کو اپنا کچھ کلام بتایامگر اس کے بعد کسی سے اصلاح نہیں لی، چوں کہ آپ فطری اور قدرتی شاعر ہیں اس لئے بھی کسی استاد کی ضرورت نہ تھی۔ نظم و نثر کی کئی کتابیں اب تک شائع ہوچکی ہیں جو حسب ذیل ہیں۔ 
ریاض امجدؔ حصہ اول و دوم، رباعیات امجدؔ۔ حصہ اول، دوم، سوم، خرقۂ، امجد۔ نذر امجدؔ۔ اگرچہ رباعیات کے باعث آپ عام طور سے شہرت رکھتے ہیںمگر درحقیقت دیگر اصناف سخن میں بھی آپ کے بہترین خیالات اور اعلیٰ جذبات کے نمونے ملتے ہیں۔ آپ کے کلام کی حکمت اور معرفت کے مدِ نظر حکیم الشعراء اور شہنشاہِ رباعیات کا لقب دیا گیا(۶)۔ 
حضرت امجد ؔکی شاعری حسن و عشق، گل و بلبل کے جھوٹے تذکروں اور بے سروپا خیالی کرشموں سے خالی ہے۔ جیسا کہ خود کہتے ہیں۔
نہ ذکر بلبل و گل ہے نہ داستانِ بہار
نہ وصفِ سنبل وریحاں نہ مدح بادشمال
نہ کوئی لطفِ زباں ہے نہ خوبی مضموں
نہ حسن و عشق کا قصہ نہ شاعرانہ خیال
مگر تیسرا مصرع صرف مصنف کا خیال اور انکا مشرقی انکسار ہے ورنہ مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ حضرت امجدؔ کا کلام نہ صرف لطف زبان کی حیثیت سے واجب التعظیم ہے بلکہ خوبی مضمون کے اعتبار سے بھی قابلِ تحسین ہے۔
جناب نصیر الدین ہاشمی کا خیال ہے کہ حضرت امجدؔ کی شاعری تین امور کے لحاظ سے قابلِ قدر ہے۔ سادگی ،نازک خیالی، تاثر، بہترین کلام کے یہی تین جوہر ہیں جو حضرت امجدؔ کی شاعری میں خصوصیت سے نظر آتے ہیں۔ 
’’دنیا اور انسان‘‘ حضرت امجدؔ کی ایک طویل نظم ہے جس میں آپ نے دنیا اور اہلِ دنیا کی طمع حرص و ہوا بغض و حسد کا نقشہ پاکیزہ روز مرہ میں نہایت خوبی اور عمدگی سے کھینچا ہے۔ اس نظم کے بعض بند حسب ذیل ہیں۔ 
اب سنو غور سے اے مال پہ مرنے والو
جھوٹ سچ بول کے اس پیٹ کے بھر نے والو
 بلبلا پانی کا بن بن کے ابھرنے والو
ناک چوٹی میں گرفتار سنور نے والو
آپ بیتی ہے یہ  سب غیر کا افسانہ نہیں
قصہ حمزہ نہیں، حالت بیگانہ نہیں
حضرت امجدؔ کی غزل بھی تصوف وفلسفہ کا  معدن، حقیقت اور اصلیت کا خزانہ ہوتی ہے۔ ہر شعر میں بجلی کی چمک اور تڑپ پائی جاتی ہے۔ وہ سوز وگداز کی بولتی تصویر ہوتی ہے ان سے وہ راز پنہانی جلوہ نما ہوتے ہیں جن تک رسائی اور پردہ دری ہر ایک کا کام نہیں ہوتا۔ بلکہ وہی اس راز کو افشاں کرتے ہیں جو دیدہ بصیرت رکھتے ہیں۔ آپ کے کلام میں جہاں اصلیت ہے وہیں ان میں سادگی عام فہمی بھی ہے وہ ایسے نہیں ہے جن کے سمجھنے کے لئے کلام غالبؔ کی طرح شرح کی ضرورت ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ عام فہم اور صاف ہیںاور پھر فلسفہ اور تصوف کے مشکل ترین مسائل کے حامل بھی وہ تخیل کے لحاظ سے  بلند سے بلند درجہ رکھتے ہیں اور اس کے باوجود اصلیت سے دور نہیں۔ رنگینی اور لطف زبان سے خالی نہیں۔ آپ نے اس امر کو بہ خوبی ثابت کردیا ہے کہ معمولی بول چال کی زبان کس طرح غزل کا بارِ امانت اٹھاسکتی ہے۔ چند نمونے  ملاحظہ ہوں۔ 
یوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا
کوئی تم سا نظر نہیں آتا
ڈھونڈتی ہے جسے میری آنکھیں
وہ تماشہ نظر نہیں آتا
جیتے جی اپنے اس کو دیکھوں گا
مجھے ایسا نظر نہیں آتا
ہوچلی انتظار میں یہ عمر
کوئی آتا نظر نہیں آتا
جو نظر آتے ہیں نہیں اپنے 
ہے جو اپنا نظر نہیں آتا
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں
دینے والا نظر نہیں آتا
زیر سایہ ہوں اس کے اے امجدؔ
جس کا سایہ نظر نہیں آتا
٭٭٭
نالہ جان خستہ جاں عرش بریں پہ جائے کیوں
میرے لئے زمین پر صاحبِ عرش آئے کیوں
زخم کو گھاؤ کیوں بناؤ درد کو اور کیوں بڑھاؤ
نسبت ہو تو توڑ کر کیجئے ہائے ہائے کیوں
جس نے چڑھائیں تیوریاں نام سے میرے عمر بھر
اب وہ مرے مزار پہ پھول چڑھانے آئے کیوں
امجدؔ خستہ حال کی پوری ہو کیوں کر آرزو
دل ہی نہیں جب اس کے پاس مقصد دل بر آئے کیوں
٭٭٭
دل کی شکستگی نے آج جوڑدیا کسی کے ساتھ
دیکھ لیا رخ حسین اس درِ نیم باز سے
حیلہ ہاتھ آتا ہے خوب ہم کو پائے بوسی کا
رکھ دیا قدم پہ سر جب انہیں خفا پایا
بندگی میں یہ کبریائی ہے
خیر گذری کہ میں خدا نہ ہوا
٭٭٭ 
کس طرح نظر آئے وہ پردہ نشیں امجدؔ
ہر پردہ کے بعد ایک اور پردہ نظر آتا ہے
وہ کرتے ہیں سب چھپ کر تدبیر اسے کہتے ہیں
ہم دھرلئے جاتے ہیں تقدیر اسے کہتے ہیں
حضرت امجد ؔ اپنی اردو فارسی رباعیات کے باعث عام طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان رباعیات کے متعلق خود امجدؔ فرماتے ہیں۔
’’تنقیدی نظر سے میں ان رباعیات کے اچھے برے، اخلاقی غیر اخلاقی، مفید غیر مفید ہونے نسبت کوئی صحیح اور کلیہ رائے قائم نہیں کرسکتا  ،ہر شخص کا مذاق جدا ہوتا ہے اور ذوق الگ‘‘(۷)۔
حضرت سید محمد بادشاہ حسینی لئیق ؔؒ
حضرت سید محمد بادشاہ حسینی لئیق ؒ، سید الشیوخ حضرت علامہ حافظ سید محمد عمر الحسینی قادریؒ کے فرزند اکبر ہیں۔ جنھوں نے اپنے بے مثال کارناموں سے دنیا میں حسن سلوک، خیر و صداقت کو نمایاں کیا اور آئندہ نسلوں کے لئے علوم و معارف نبوت کے وہ حسین و جمیل نقوش چھوڑے جو انسانوں کے لئے ہمیشہ شمع ہدایت کا کام دیتے رہیں گے اور ایسا اسوہ و نمونہ پیش کیا کہ اس کے نقوش ہر وقت گم کردہ راہوں کے لئے روشن و نمایاں رہیں گے۔آپ کی ذات تحریر و تقریر، گفتار و کردار میں اللہ کی برہان تھی۔ اسی وجہ سے حضرت بادشاہ حسینیؒ کی شخصیت بھی ہندوپاک کے لئے محتاج تعارف نہیں۔
سر زمین دکن پرا ٓصف سابع کے دور میں بادشاہ سے لے کر فقیر تک ہر شخص کسی نہ کسی عنوان سے آپ کو جانتا پہچانتا اور واسطہ رکھتا تھا۔ بقول میر تقی میرؔ
جانے نہ جانے گل ہی جانے باغ تو سارا جانے ہے
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
حضرت بادشاہ حسینیؒ جامعہ نظامیہ کے فاضلِ اجل، مکہ مسجد کے واعظ بے بدل، مجلس علماء دکن کے روحِ رواں، شریعت کے ہادی، طریقت کے رہبر، دینی علمی و ملی مسائل میں مسلمانوں کے پیشوا، علم وفضل میں جہاں آپ اپنی نظیر تھے وہیں ذوق شعر و سخن میں بھی بے نظیر تھے۔ 
ممکن نہیں ہے دوسرا تجھ سا ہزار میں
ہوتا ہے اک بہشت کا دانہ انار میں
(آتشؔ)   
لئیقؔ تخلص فرماتے تھے، آپ کا کلام عشق رسول، اہلِ بیت اطہار، صحابہ اخیار اور سلطان الاولیاء حضرت ابو محمد شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی محبت سے لبریز ہے چنانچہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں   ؎ 
مشکوٰۃ نبوت کی ضیاء دیکھ رہا ہوں
صدیق ؓمیں فاروقؓ میں عثماںؓ میں علی ؓمیں
دیوانے ہیں جو کل سے جدا کرتے ہیں جز کو
جو بات نبی میں ہے وہی آل نبی میں
آپ سادات حسینی سے ہیں۔ سلسلہ نسب 42 واسطوں سے سید الشہداء سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔ آپ کے جد اعلیٰ حضرت سید محی الدین الحسینی ؒ نے اورنگ زیب عالمگیر کے آخری عہد میں بغداد شریف سے دیار ہند کا رخ فرمایا اور ہندوستا ن تشریف لائے اور دارالسرور برہان پور میں مقیم ہوئے۔ وہاں سے یہ خاندان سادات فرخندہ بنیاد حیدرآباد منتقل ہوا اور دکن کو اپنا وطن بنالیا۔ 
ابتدائی تعلیم والد بزگروار حضرت سید الشیوخ سے حاصل فرمائی جن کا سینہ انوار علم و حکمت سے معمور اور قلب مبارک فیضان سماوی کا خزانہ جو شمع عرفان، سلسبیل ولایت، تنویر سعادت انسانی کامرکز تھا اور جن کے علو مرتبت کا اعتراف معاصر علماء و صوفیاء نے کیا تھا۔ 
تیرہ سال کی عمر میں علوم اسلامیہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ نظامیہ میں شریک ہوکر فاضل و جید علماء، ادباء و فضلاء سے درس نظامی کی تحصیل کی اور جامعہ سے مولوی فاضل کا امتحان امتیازی درجہ سے کامیاب کیا۔ اس سلسلہ میںہمیں مولانا موصوف کی تحریر ملتی ہے جس میں وہ اس طرح رقم طراز ہیں  ؎ 
’’1332 ہجری سے جامعہ نظامیہ حیدر آباد دکن میں باقاعدہ سلسلہ درس زیر سر پرستی حضرت العلامہ مولانا حافظ محمد انوار اللہ خاں بہادر فضیلت جنگ نور اللہ مرقدہ شروع ہوا اور 1340 ہجری میں دستار فضیلت سے مشرف ہوا‘‘(۸)۔
آپ نے جن اساتذہ کرام سے مختلف علوم و فنون میں کمال حاصل کیا ان میں نمایاں نام یہ ہیں۔ فضیلت جنگ علامہ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ ‘ مولانا عبدالکریم افغانی صدرالمدرسین ، مولانا محمدیعقوب صاحب شیخ الحدیث ‘ مولانا مفتی محمودکان اللہ لہ شیخ الجامعہ و خطیب مکہ مسجد، حضرت سید شاہ ابراہیم ادیب صاحبؒ پروفیسر عربی عثمانیہ یونیورسٹی ‘ مولانا مفتی رحیم الدین صاحبؒ ، مولانا سید محمد شطاری صاحبؒ۔
ان کے علاوہ اپنے برادر مکرم بحر العلوم حضرت مولانامحمد عبدالقدیر صدیقی قادری حسرتؔ ؒ سے (جو اس وقت عثمانیہ یونیور سٹی میں دینیات کے صدر تھے۔) تقریبا بیس سال استفادہ فرمایا۔ رمضان المبارک 1340ہجری بروز جمعۃ الوداع، صدر الصدور میر مجلس جامعہ نظامیہ، مولانا حبیب الرحمن خان شیر وانی و دیگرعلماء و مشائخ کی موجودگی میں بمقام مکہ مسجدبحر العلوم حضرت عبدالقدیر حسرتؔ صدیقیؒ نے آپ کے سر پر دستار فضیلت باندھا۔
آپ کی علمی و ادبی خدمات جامعہ نظامیہ کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش ہے۔آپ نے اپنے والدِ محترم علامہ عمر حسینی قادریؒ کی مشہور تفسیر کشف القلوب کا اسی اسلوب و رنگ میں تکملہ کیا۔ مجلس علمائے دکن حیدرآباد کے معتمد کی حیثیت سے بھی آپ نے یادگار خدمات انجام دیں(۹)۔ 
حضرت شیخین احمد شطاری ؒکاملؔ
نقیبُ الاسلام حضرت علّامہ سید شاہ شیخین احمد حسینی قادری شطاری کاملؔ علیہ الرحمہ حیدرآباد دکن کے مشاہیر علماء مشایخ خاندان اور سادات حسینی سے ہیں۔ آپ کے چار بزرگوار عرب سے ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہوتے ہوئے احمد آباد گجرات تشریف لائے۔ اور وہاں سے ۱۰۷۰؁ھ میں آپ کے ساتویں پشت کے جد محبوبِ یزداں، حضرت سید شاہ احمد گجراتی الحسینی قادری الشطاری المعروف گجراتی شاہ قبلہ قدس سرہ العزیز نے جو اپنے زمانے کے اکابر اولیاء سے تھے، اورنگ آباد کو اپنا مسکن بنالیا اور 1109؁ھ میں واصل بحق ہوئے، بیرون ظفر دروازہ آپ کی مزار شریف آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ آپ کے پیر ومرشد زبدۃ العارفین حضرت شاہ برہان الدین رازؔ الہ قدس سرہ برہان پور میں آرام فرماہیں۔ جن سے آپ کو خلافت بھی حاصل تھی۔ حضرت گجراتی شاہ قبلہ قدس سرّہ کے صاحبزادہ منہاج العارفین حضرت سید شاہ شہاب الدین محمود حسینی قادری الشطّاری المعروف گونگے شاہ قدس سرّہ بڑے صاحب حال اور مجذوب سالک بزرگ تھے، آپ کا مزار شریف بھی اپنے والد کے بازو واقع ہے۔
حضرت علاّمہ سید شاہ غلام غوث حسینی قادری الشطاریؒ کے علمی گھرانے کے چشم وچراغ مولاناکاملؔ شطاری 23صفر1323ھ آستانہ شطاریہ محلہ دبیر پورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے گھر پر ہی حاصل کی، اسطرح علم کی دولت ورثہ میں ملی تھی، آپ نے مولوی فاضل اور منشی فاضل کا کورس مکمل کیا۔ حضرت دیدار احمد صاحبؒ کی شاگردی میں منطق کا علم حاصل کیا۔ حضرت علامہ عبد القدیر صدیقی ؒ، علامہ عبدالواسع سابق پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی، افضل العلماء مولانا سید عبدالباقی شطاریؒ مولانا کاملؔ کے خاص اساتذہ رہے۔ نقیب الاسلام حضرت سید شیخین احمد شطاری کاملؔ  ؒ مملکتی مجلس اتحاد المسلمین (بہ زمانہ سر اکبر حیدری صدر اعظم) مجلس علماء دکن، پیشوایانِ مذاہب جمعیۃ المشائخ، انجمن پارچہ بافی حرمین وشریفین، انجمن اہل خدمات مذہبی، مسلم پرسنل لا بورڈ، انجمن علم وعمل (قائم کردہ سرنظامت جنگ مرحوم) کے بنیادی ممبروں میں سے تھے۔ آپ تا دم زیست برسوں معتمد صدر مجلس علمائے دکن کی حیثیت سے ملت کے دینی مسائل میں بحسن خوبی رہبری فرماتے رہے۔ ہمیشہ سے خاموش خدمات کے زیادہ حامی رہے۔ اصلاح مسلمانان کے سلسلہ میں اپنے ذاتی مصارف سے اکثر اضلاع کے دورے کئے ہیں حضرت کاملؔ کے مواعظ ، تقاریر، نہایت مدلّل اور دلنشین ہوتے تھے۔ ممتاز علماء ومشائخین میں آپ کا شمار ہوتا تھا عامۃ الناس سے بلا امتیاز مذہب و ملّت رواداری اور بادشاہ کے ساتھ وفاداری خاص شعار تھا۔ 
حضرت کاملؒ بیک وقت عالمِ دین بھی تھے اور پیر طریقت بھی، عصری تقاضوں پر نظر رکھنے والے بھی اور مفکر و مدبّر بھی، ملت اسلامیہ کے بے لوث رہنما بھی اور محض انسانیت کی اساس پر حساس اور دھڑکتے دل کے مالک بھی۔ آستانہء شطاریہ کا روشن مینار نقیب الاسلام حضرت کاملؔ شطاریؒ واعظ، مفسر، محدث، فقیہ، ادیب اور شاعر غرضکہ وہ بے شمار ہمہ جہتی خوبیوں کے ساتھ ایک پُر اثر و باوقارشخصیت کے مالک، گفتار وکردار ہر دو میدانوں کے غازی تھے۔ آپ میں استقامت بدرجۂ اتم تھی زندگی کے ہر معرکہ میں انہیں مجاہد پایا۔ وہ مصلے پر امام تھے تو ممبر پر واعظ وخطیب، خانقاہ میں طبیب روحانی تھے تو خدمتِ خلق بھی ان کا محبوب ترین مشغلہ رہا۔
اس بات کے تو سبھی قائل ہیں کہ فضلِ خدا ہمیشہ آپ کے شاملِ حال رہا۔ لیکن شاید اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اس فضل کی محرک سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور غوث الثقلینؓ کی آپ پر خاص نظر عنایت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے دینی ودنیوی دونوں دولتوں سے آپ کو نوازا۔ دنیا کی ساری آلائشوں سے آپ کا دامن پاک رہا۔ سخت سے سخت صبر آزما مواقع پر بھی بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم وغوثیت مآب کی سرپرستی ان میں قلبی سکون پیدا کردیتی تھی۔
آپ فطرتاً نفاست پسند تھے اور ہمیشہ نفیس لباس زیب تن فرماتے۔ آپ کچھ عرصہ امیر جامعہ نظامیہ  بھی رہے۔ اسطرح اپنے دینی و علمی شغف کی وجہ متعدد انجمنوں میں مسلمانوں کی صحیح خطوط پر رہبری فرماتے رہے۔
حضرت کاملؔ رحمۃ اللہ علیہ 6ذی الحجہ 1396؁ھ م 28 نومبر 1976؁ ء روز یکشنبہ 6بجے صبح واصل بحق ہوئے۔ اس عالم کی زندگی نے چولا بدل کر اُس عالم کی زندگی اختیار کی جہاں موت آتی ہے اور حیات کو حیاتِ ابدی وسرمدی ملتی ہے۔
حضرت کاملؔ شطاری کو دربار رسالت اور بارگاہ غوثیت سے جو بے پناہ عقیدت و محبت ہے اسی نے دراصل شعر کا روپ اختیار کیا یوں تو ان کی کہی ہوئی نعتیں اور منقبتیں بھی بہت سی ہیں جن میں آداب نعت و منقبت کا پورا پورا لحاظ اور پاس ہے مگر محبت میں ایک دل کے لئے غزل کے میدان میں جو کیف و لطف ہے وہ ان آداب سے گزر کر کچھ اور وسعت اختیار کر لیتا ہے اسی لئے غزل کے میدان میں ان کی والہانہ شیفتگی بڑا رنگ پیدا کردیتی ہے۔
حضرت کاملؔ کی غزلوں میں رضا و تسلیم کا مضمون نئے نئے انداز سے اور محبت کی سرافگندگی کا مفہوم بیسیوں طریقوں سے پیش ہوا ہے۔ ہر شعر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزل کا بہترین شعر ہے صوفیہ کے پاس یکے بعد دیگرے چار ترک، چار اہم منازل سمجھے جاتے ہیں چنانچہ جناب کاملؔ فرماتے ہیں  ؎
ترکِ دنیا،ترکِ عقبیٰ، ترکِ مولیٰ،ترکِ ترک
یعنی یوں بے آرزو جینے کی عادت کر کے دیکھ
حضرت کاملؔ کے کلام میں جو چیز کثرت سے ملتی ہے وہ نسبت کی اہمیت کی تلقین ہے فرماتے ہیں  ؎
بے فکر جی رہا ہوں ہر اک اعتبار سے
نسبت بھی کیسی چیز ہے دامان یار سے
کیا چیز ہے نسبت کوئی پوچھے میرے جی سے
مرتا ہوں اسی کے لئے جیتا ہوں اسی سے
حضرت کاملؔ کے ہاں ایسے بیسیوں شعر ملینگے جن کے مضامین ایسے ہونگے جو ہر شخص کے دل میں آتے رہتے ہیں بسا اوقات پیرایہء بیان زمین شعر کو آسمان بنا دیتا ہے جیسے  ؎
بے ہنر سہی لیکن بے وفا نہیں کاملؔ
وہ تمہارا بندہ ہے اور فقط تمہارا ہے
حضرت کاملؔ کی شاعری کا اک اور وصف تصوف کے مسائل کا سلجھا ہوا انداز بیان ہے جس میں وہ جادہء شریعت اور صراط مستقیم سے نہیں ہٹتے۔
کسی مقولے یا ضرب المثل کا نظم میں ادا کر نا کس قدر مشکل ہوتا ہے مگر کس خوبصورتی سے ادا کیا ہے   ؎
ائے شعلہء جوالہ جب سے لو تجھ سے لگائے بیٹھے ہیں
اک آگ لگی ہے سینہ میں اور سب سے چھپائے بیٹھے ہیں
حضرت کاملؔ کے اشعار میں جذبات کی صداقتِ، تعبیرات کی نزاکت، زبان کی حلاوت اور بیان کی لطافت بھی ملجاتی ہے۔ حضرت کا دیوان ’’وارداتِ کاملؔ‘‘ ان کے دلپذیر انداز بیان کا ایک مختصر سا نمونہ ہے۔ حضرت کاملؔ کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ مضمون کتنا ہی بلند ہو زبان سلیس اور سادہ ہوتی ہے۔ (۱۰)
حضرت سید شاہ سیف الدین شرفی سیفؔؒ
حضرت شاہ شرفی کے پوتے اور حضرت غوث شرفی  ؒ کے فرزند اکبر حضرت سید شاہ سیف الدین حسینی رضوی قادری شرفی  ؒ 4؍صفر المظفر 1319 ھ م 1901 بمقام حیدرآباد تولد ہوئے، والد بزرگوار کے زیر نگرانی ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد مدرسہ نظامیہ میں داخل کروائے گئے۔ جہاں سے درجہ بدرجہ کامیاب ہوتے ہوئے فاضل کی تکمیل کی، حضرت محمد عبدالحمید، حضرت علامہ حکیم محمد حسین اور حضرت حاجی محمد منیر الدین خطیب مکہ مسجد آپ کے ہم درس تھے، جامعہ نظامیہ سے دستارِ فضیلت کے حصول کے بعد آپ نے 4سالہ نصاب کی تکمیل کے بعد طبیب کامل کی سند حاصل فرمائی، علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد علوم باطنی کی طرف توجہ فرمائی عارفین و کاملین کی صحبتوں نے اس میدان میں باکمال کیا۔ والد سے بیعت و خلافت پائی، والد بزرگوار کے وصال کے بعد سجادہ نشین شرفی چمن کی حیثیت سے آبائی مسلک کو اختیار فرمایا۔ رشد وہدایت اور خدمت خلق کے ذریعہ اپنے اسلاف کی روایات کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ فضل رب قدیر اور عطائے حبیب کبریا سے محبوب خلائق بن گئے۔ ساری زندگی نہایت صبر و شکر کے ساتھ گذاری۔
اپنے علم و فضل اور فن طب میں مہارت کے علاوہ تقویٰ و پرہیز گاری عبادت و ریاضت، خدا ترسی و دینداری، حسن اخلاق اور خدمت خلق کی وجہ سے مقام خاص حاصل کیا۔ حیدرآباد میں سلسلہ عالیہ قادریہ کے فیضان کے ضمن میں حضرت سیفؔ شرفی کا اسم مبارک ایک گونا اہمیت رکھتا ہے۔ 
آپ نے تعلیمات حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی ترویج و اشاعت کے سلسلہ میں اپنے آپ کو وقف رکھا۔ آپ کے مریدین کا حلقہ وسیع ہے۔ حیدرآباد کے علاوہ بیرون میں ہزاروں خاندان آپ سے ارادت رکھتے ہیں۔ حضرت سیفؔ شرفی درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ مخلوق کے نفوس کا تزکیہ کرتے رہے۔ مزار شریف احاطہ درگاہ شریف شرفی چمن میں واقع ہے۔ بلا لحاظ مذہب و ملت لاکھوں لوگوں نے حضرت سیفؔ شرفی سے فیض پایا۔ تین مرتبہ حج و زیارت کا شرف حاصل کیا۔ 
حضرت کے دو برادران تھے۔ حضرت سید شاہ شمس الدین حسینی رضوی قادری شرفی اور حضرت سیدشاہ تاج الدین حسینی رضوی قادری شرفی یہ دونوںبزرگ بھی اپنے اسلاف کے نقش قدم پر قائم رہتے ہوئے اپنے برادرکلاں کی طرح مخلوق کی رحمت رسانی کے مبارک مشغلہ سے وابستہ رہے۔ 
حضرت سیفؔ شرفی کئی زبانوں کے ماہر اور بہترین شاعر تھے۔ آپ کے دو مجموعہ کلام شائع ہوچکے ہیں۔ اپنی نعتیہ شاعری کے باعث حضرت سیفؔ شرفی ممتاز مقام کے حامل تھے۔ حضرت سیفؔ شرفی کے فرزندان میں مولانا سید شاہ محمد علیم الدین حسینی قادری شرفیؒ ، مولانا سید شاہ محمد جمیل الدین قادری شرفی، ڈاکٹر سید محمد حمید الدین قادری شرفی، جناب سید محمد رفیع الدین قادری شرفی اور جناب سید شاہ محمد حکیم محی الدین قادری شرفی ہیں۔ مولانا سید شاہ محمد علیم الدین حسینی شرفی درگاہ شریف شرفی چمن کے سجادہ نشین اور اپنے بزرگوں کی روایات کے علم بردار تھے جن کا وصال ہوگیا۔ 
مولانا سید شاہ جمیل الدین قادری شرفی زاویہ قادریہ ٹرسٹ (مامڑ پلی) کے بانی اور پیر طریقت ہیں۔ حضرت سیفؔ شرفی کے برادر زادگان میں مولانا حکیم سید غوث الدین قادری شرفی جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ اور کئی برسوں سے تفسیر قرآن بیان کررہے ہیں اور نظامیہ طبی کالج کے پروفیسر رہ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ مولانا سید شاہ محمد محی الدین قادری شرفی سجادہ نشین آستانہ شرفی چمن محبوب نگر اور مولانا سید شاہ عبدالحفیظ قادری شرفی مدنی پاشاہ صاحب ہیں۔ حضرت سیفؔ شرفی کے چھوٹے بھائی کے فرزندان میں مولانا سید شاہ عامر محی الدین قادری شرفی اور مولانا سید شاہ جعفرمحی الدین قادری شرفی ہیں۔ حضرت سیفؔ شرفی کے مجموعہ کلام ’’ساغر سیف‘‘( 1411ھ تاریخی نام) سے منتخب کلام پیش ہے۔
کون ومکاں کے والی وہ لامکاں ہے تیرا
وہم و گماں سے باہر نام و نشاں ہے تیرا
ساری زمین تیری سارا زماں ہے تیرا
یہ عندلیب تیرے یہ گلستاں ہے تیرا
باغِ جناں کے مالک باغِ جہاں ہے تیرا 
عالم کا ذرہ ذرہ تسبیح خواں ہے تیرا
کر شکرِ حق تعالیٰ، اے سیفؔ ہر گھڑی تو
روزِ ازل سے حامی اور مہر باں ہے تیرا
خدا ئے پاک ہی ٹھیرا ہے مبدا روشنائی کا
محمد[ا]نورِ حق ہیں نور ہیں سارا 
ہے وحدت اور کثرت میں معمہ کبریائی کا
ہویدا ہوگیا ہم پر ہے احساں مصطفائی کا
مسلماں اشرفِ انساں ، مسلماں صاحبِ عرفاں
کرم ہے فیض ہے صدقہ ہے ذاتِ مصطفائی کا
اس کے نور کی کرنوں سے چمک ہے دو عالم میں
وہی ہے غوثِ اعظم رہنما ساری خدائی کا
پڑھا کر لا الہ سیف ؔ ہر لحظہ ہر اک ساعت
یہ ذریعہ قربِ حق کا ہے محمد[ا] تک رسائی کا
بندہ کا فرض خالقِ اکبر سے ارتباط
خالق کی شان بندۂ کمتر سے ارتباط
ہو تا ہے جس کو شافعِ محشر سے ارتباط
ہو تا ہے اس کو خالقِ اکبر سے ارتباط
یہ عاصیوں کے واسطے ہے  راہِ مستقیم
غوث الوریٰ سے ربط، پیمبر سے ارتباط
کیوں تشنہ کام رہتے بھلا حضرتِ بلالؓ
حاصل ہے ان کو ساقیٔ کوثر [ا] سے ارتباط
کٹ کر بھی آتی ہے سر منصور سے سدا 
پیدا کیا ہے ہم نے نئے سر سے ارتباط؎ (۱۱)
حضرت سیدعلی افسرؒ (شاعر محمد نامہ)
حضرت سید میر حسین علی افسرؔ حیدرآباد کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں۔ صداقت پسندی اور حب الوطنی ان کی قومی نظموں کا موضوع ہے۔ ان کا کلام قدیم و جدید رجحانات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی غزلوں میں تغزل کے ساتھ ساتھ مسائلی اشعار بھی ملتے ہیں۔ ۱۹۲۸ء؁ میں حیدرآباد کے ایک مشہور مشائخ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر فضل علی فضلؔ جامعہ نظامیہ میں فارسی ، عربی کے استاد ہونے کے علاوہ مشہور شاعر اور ادیب بھی تھے جن کی تصنیفات میں خزینہ، فارسی، جذبات فضل، بھولی صورت، ایک قلب قابل ذکر ہیں۔ حضرت علی افسر نے جامعہ نظامیہ سے مولوی تک تعلیم پائی اور فارسی کا اعلیٰ امتحان منشی فاضل کامیاب کرنے کے بعد درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ ۱۹۴۶؁ء میں کلثوم پورہ ہائی اسکول میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر ہوا۔ مدرسہ فوقانیہ آصف نگر میں کارگذار رہے۔ حضرت علی افسرؔنے (۱۸) سال کی عمر سے شعر گوئی کا آغاز کیا۔ تقریباً تمام اصناف سخن میں شعر کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ابتدائی کلام پر حضرت مفتی اشرف علی اشرف سے صلاح لی۔ کئی سال سے آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے ان کا کلام نشر ہوا ۔ بمبئی، پونا ریڈیو سے بھی ان کا کلام نشر ہوچکا ہے۔ 
مولانا علی افسرؔکا کلام ہندوستان کے مختلف معیاری روزناموں اور ماہناموں میں شائع ہوتا رہا ہے۔  ان کی غزلیں اور نظمیں ہندوستان کے عوام کسی نہ کسی پرچہ میں پڑھ چکے ہیں۔ مشاعروں میں یا ریڈیو سے سن چکے ہیں۔ ۱۹۷۳ ء؁میں سرور کائنات   ﷺ کی سیرت طیبہ کو نظم کرکے انہوں نے عظیم کارنامہ انجام دیا جو ۱۹۷۴ء؁ میں ’’محمد نامہ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس مقدس کتاب کو ہندوستان میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ نہ صرف عوام کی جانب سے متعدد خیر مقدمی جلسے منعقد کئے گئے بلکہ ہندوستان کے معیاری اخبارات و رسائل نے اس کے اقتباسات نمایاں طور پر شائع کیا۔ عوام کو ریڈیو سے متعدد مرتبہ سننے کا موقع ملا اور کچھ بند گرامو فون ریکارڈ کے ذریعہ بھی سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ غرض مولانا علی افسرؔ کے اس عظیم کارنامے کو نہ صرف عوام بلکہ علمائے کرام مشائخین عظام اور ذی علم حضرات نے بے حد پسند کیا اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جن میں قابل ذکر مولانا عبدالوہاب بخاری ناظم دائرۃ المعارف، امیر ملت مولانا مفتی عبدالحمید شیخ الجامعہ نظامیہ، پروفیسر غلام دستگیر رشیدؔ، پروفیسر سید محمد، ڈاکٹر حسینی شاہد شامل ہیں۔ جن کے تاثرات نہ صرف مقامی اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں بلکہ ’’محمد نامہ‘‘ میں بھی شامل ہیں۔ ادارۂ ’’کامن نیوز ‘‘ہفتہ وار کی جانب سے مولانا علی افسر کے نعتیہ و منقبتی کلام کے علاوہ خلفائے راشدین کی سیرت سے متعلق چار ہزار اشعار پر مشتمل ’’خلافت نامہ‘‘ کے اقتباسات کے ساتھ نعتیہ و منقبتی کلام کا مجموعہ ’’تجلیات رسالت‘‘ کے نام سے شائع کرنے کی کوشش کی گئی۔جس کے اقتباسات ہندوستان کے معیاری رسائل دین دنیا، ہدیٰ، روزنامہ سیاست، روزنامہ رہنمائے دکن میں بارہا شائع ہوچکے ہیں اور ہز ماسٹر وائز گرامو فون کمپنی نے کچھ اقتباسات کا گرامو فون ریکارڈ بھی ریلیز کیا ہے۔ نعتیہ و منقبتی کلام میں ایسے نعت و منقبت بھی شامل ہیں جس کو بہت سے لوگوں نے سماع کی محفلوں میں یا گرامو فون ریکارڈ کے ذریعہ سن چکے ہیں۔ جن کو ہندوستان میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ مولانا علی افسرؔ کے والد حضرت سید میر فضل علی استاد جامعہ نظامیہ کا سلسلہ نسب اٹھارویں پشت میں حضرت سید عبدالعزیز ابن سید السادات حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے جا ملتا ہے اور نانا حضرت حبیب عبدالرحمن مکیؒ سادات حسینی سے ہیں۔ اس طرح مولانا علی افسر کو دینی و ملی خدمات وراثتاً ملی ہیں۔ نمونہ کلام حسب ذیل ہے۔
کہاں مہاجر و انصار کا رہا ایماں
کہ آئے جنگِ بدر کی مانند رحمت یزداں
ہوئیں کہیں نہ کہیں دشمنوں کی یلغاریں
رہے ہیں فکر معیشت میں ہم کبھی حیراں
کبھی فلک سے ہوئی ہیں مصیبتیں نازل
کہیں ہے قحط، کہیں زلزلہ کہیں طوفاں
کچھ اس طرح سے تسلط ہوا اندھیروں کا
کبھی خود اپنی تباہی کے کرلئے ساماں
قدم قدم پہ بچھے ہیں فریب کے پھندے
کہاں ہے خوف خدا اور کدھر غم انساں
لیا ہے قوم کی خدمت کا آسرا کوئی
وہی ہے اپنا تغافل وہی ہے خواب گراں
یہ سامراجی بنا ڈالے جوہری ہتیار
وہ کامراں ہوئے سمجھے ہیں پڑھ کے جو قرآں
ہر ایک بات ہے آئینہ دار مکر و فریب
تعیشات میں ہم رہ گئے جہاں کے وہاں
وہ بنگلہ دیش ہو کہ ہو افغان یا ایران
وہ مصر و شام ہوں کہ فلسطین کے ہوں اخواں
رسولؐ پاک کی سیرت ہو یا کہ ہو قرآں
رموز فتح و ظفر آیتوں میں ہیں پنہاں
(بشکریہ : روزنامہ سیاست،حیدرآباد، مورخہ : 9 مارچ 1970ء)
حضرت سید عطاء اللہ حسینی قدسیؔ
حضرت مولانا سید عطاء اللہ حسینی قدسیؔ نے علوم ظاہری وباطنی سے مالا مال گھرانہ میں آنکھ کھولی، شفقت و محبت کے سایہ میں پرورش پائی، ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد سلسلہ ملتانیہ کا یہ چشم و چراغ باضابطہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ازہر ہند جامعہ نظامیہ میں داخل کیا گیا۔ تعلیم میں دلچسپی اور نور حقیقت کو پانے کی تڑپ نے  جن اساتذہ کے دامن سے  وابستہ کردیا ان میں علامہ مفتی عبدالحمیدؒ، شیخ العقائد مولانا غلام احمدؒ، شیخ الحدیث مولانا حکیم محمد حسینؒ نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ ان نابغہ روزگار ہستیوں نے آپ کو اپنے فیضان علمی سے خوب خوب سیراب کیا۔ مولانا کی ذہنی و فکری تعمیر و تشکیل میں ان اساتذہ کرام کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ چنانچہ آپ اسم بامسمی عطاء اللہ (اللہ کی دین) بن کر تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، تصوف، فلسفہ، حکمت، درس و تدریس، تصنیف وتالیف، تحقیق و تدقیق، تنظیم وتحریک، شعر و ادب، خطابت و قیادت ہرمیدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر بکھیر رہے ہیں۔ 
جامعہ نظامیہ میں تعلیمی مراحل طے کئے اور سند فضیلت حاصل کی اس کے علاوہ کلکتہ سے (H.M.B) اور کراچی یونیورسٹی سے (یم ۔اے) کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں ایک طویل عرصہ سے محکمۂ  تعلیم سے وابستہ ہیں۔ گورنمنٹ کالج جامعہ ملیہ اسلامیہ ملیر کراچی کے شعبہ معار ف اسلامیہ کے صدر رہے۔ احیاء سنت اور انسداد بدعت کے حامل ’’ادارہ المجلس القادری‘‘ اور جامعہ نظامیہ اسلامیہ کراچی کے بانی مبانی ہیں۔ درس قران کریم و درس حدیث نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام زندگی کا جزو ہے۔ 
عالمانہ طرزِ استدلال، شگفتہ و سلیس اسلوب ، فکری و تحریری توازن، تاریخی مواد سے آراستہ آپ کی تصانیف مستند و معیاری تسلیم کی جاتی ہیں۔ ترجمہ، تحشیہ، تلخیص و تسہیل کے انوکھے انداز نے ادبی و تحقیقی حلقوں میں ممتاز مقام کا مالک بنادیا ہے۔ آپ کی ایک تصنیف  ’’اسلامی نظام‘‘ علمی و عوامی دونوں حلقوں میں کافی مقبول ہوئی۔ پاکستان کے مرحوم صدرجنرل محمد ضیاء الحق نے بھی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کا اظہار ایک تعریفی خط کے ذریعہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ انٹر میڈیٹ ، آرٹس، کامرس کے طلباء کے لئے انتہائی معلوماتی کتاب ’’اسلامؔ کی بنیادی تعلیمات‘‘ تصوف کی ایک قدیم نایاب کتاب ’’نور الحقیقتؔ ‘‘کی ترتیب و تسہیل تحشیہ ’’تنزلاتؔ ستہ‘‘ کی سیر حاصل تشریح اردو زبان میں پہلی بار ایک قدیم فارسی مخطوطہ’’شاہدؔ الوجود‘‘ کا ترجمہ تحشیہ، حضرت شاہ محمد کلیم اللہ قادریؒ کے کلام ’’گلدستہ کلیمؔ‘‘ کی ترتیب و انتخاب قرآن کریم پر اپنی نوعیت کا واحد تحقیقی کام ’’معجمؔ القرآن‘‘، ’’رسالہؔ قشیریہ‘‘ کی تلخیص و ترجمہ، سلوک و طریقت کا الہامی دستور ، ’’فتوحؔ الغیب‘‘ کی تشریح و ترجمہ، مفتی  دکن حضرت مولانا محمد رکن الدین علیہ الرحمہ کے 774  فتاویؔ کی ترتیب و تعلیق ، سلسلہ ملتانیہ کے تین بزرگوں کا عارفانہ کلام ، صحنؔ وحدت، کی ترتیب علمی ادبی کاوشوں میں شامل ہیں۔ آپ کی طویل علمی و ادبی خدمات پرحکومت پاکستان نے اکیڈمک ایوارڈ دیا۔ 
مولانا عطااللہ حسینی نے 1996ء جامعہ نظامیہ کے 125 سالہ جشن تاسیس میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت اور خطاب کیا۔ بین الاقوامی سمینار میںاپنا وقیع مقالہ بھی پیش کیا اس کے علاوہ انڈ و پاک مشاعرہ میں اپنا کلام بھی سنایا جسے کافی پسند کیا گیا۔
مولانا کا کلام اور تصانیف اردو ادب میں قابل قدر اضافہ کہی جاسکتی ہیں۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’موج خیال‘‘ ادبی شعری دنیا میں خراج تحسین حاصل کرچکا ہے(۱۲)۔
سالنامہ ’’الانصار‘‘ حیدرآباد 2005ء میں آپ کے مجموعہ کلام پر حسب ذیل تبصرہ شائع ہوا 
’’شاعری فنون لطیفہ اور تہذیب وثقافت کی روح قرار دی گئی ہے۔ ذوق شعری انسان کے جوہر انسانیت کا نکھار ہے اور یہ نکھار آپ کو پروفیسر سید عطاء اللہ قدسیؔ کے کلام موجِ خیال میں مکمل جمالیاتی رکھ رکھاؤ کے ساتھ ملے گا۔ پروفیسر عطااللہ حسینی نے ادبی روایات کی پاسداری کے ساتھ اپنے کلام میں صوفیانہ و عارفانہ افکار کو بھی خوب برتا ہے جس کی جھلکیاں کلام میں جابجا نظر آتی ہیں۔ زیر تبصرہ کلام کے تخلیق کار ۴۲ سالہ تدریسی وتعلیمی تجربہ کا حامل، صدر شعبہ اسلامیات جامعہ ملیہ کراچی، روز نامہ حیات وانجام کے کالم نگار، اعزازی خطیب، ایوارڈ یافتہ ادیب، مستند طبیب، ۶مطبوعہ۵ غیر مطبوعہ۔ ۱۱زیر طبع وترتیب کتب کے مصنف ہیں جنکی علمی ادابی فکر کا رشتہ۳۴سالہ قدیم وعظیم مرکز علم وادب جامعہ نظامیہ سے جڑا ہوا ہے۔ فکر سخن، طرز ادا اور صدائے درد دل سے مزین ومرصع موج خیال دو مسحور کن و جد آفریں نعتوں، امجدؔ، قیامؔ، حیدرؔ،فراقؔ کا کلاسیکی رنگ لئے ہوئے ۳۰رباعیات، لطیف احساسات، پاکیزہ جذبات اور شائستہ خیالات کی آئینہ دار ۴۸غزلیات اور شذرات کے تحت دو منظومات ومناجات پر مشتمل ہے۔ بقول پروفیسر قدسیؔ موج خیال کی تخلیق نصف صدی طویل عرصہ پر پھیلی ہوئی ہے اسی لئے اس میں پیرایۂ اظہار کی یکسانیت شاید آپ کو نہ ملے لیکن پروفیسر آفاقؔ صدیقی پیش لفظ میں فرماتے ہیں، قدسیؔ صاحب نے جو رباعیات کہیں ان میں سے بیشتر اس شعری مجموعہ میں شامل ہیں۔ میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ رباعی کہنا آسان کام نہیں چوتھے مصرع کا بھر پور اور بامقصد ہونا بڑی بات ہے اور ہمارے ممدوح نے اسی بڑی بات کو قابو میں رکھا ہے۔
رباعیات کے بعد غزلوں کی کہکشاں ہے غزلوں میں روایتی التزام سے تغزل کے رچاؤ کے ساتھ نئے دور کے تقاضوں اور حیاتی تنوع کا شعوری وجمالیاتی توازن برقرار رکھا ہے اس کے علاوہ تشبیہات واستعارات، نغمہ گوئی،قلبی واردات، باطنی بصیرت کے مطابق جدت طرازیوں کی مثالیں بھی پروفیسر قدسیؔ کے کلام کو وقیع بناتی ہیں۔ بچوں کیلئے ایک سبق آموز وہ حوصلہ افزا نظم، پر خلوص تاثر و پروقار مناجات نیز رفیقہ حیات کے سانحہ ارتحال پر کہی گئی ایک پر سوز غزل بھی قابل دید ہے  ؎
مجھے رکھے گا وہ اپنی عطا سے کب محروم
مرا تو نام ہی اس کی عطاؔ سے ملتا ہے(۱۳)
مولانا سید صادق محی الدین فہیمؔ
مولانا مفتی سید صادق محی الدین 1948ء میں تولد ہوئے۔ آپ حافظ، قاری، عالم، فاضل، مفتی اور ایک بہترین محقق ہونے کے ساتھ اردو زبان و ادب کا ستھرا اور پاکیزہ ذوق رکھتے ہیں۔ زبان و فن سے گہری دلچسپی اور شعر و سخن سے وابستگی، خدمت ادب کی کشش نے شاعر بنادیا۔ 
اعلیٰ تعلیمی مراحل کی تکمیل کے لیے 136 سالہ قدیم و عظیم دانش گاہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں شرکت رہی۔ مملکت ہند کی درسگاہوں میں یہی درسگاہ وہ سینائے مقدس ہے جو مولانا صادق فہیم ؔکے لیے تجلی گاہ ایمن بنی، جہاں دیگر علوم کے ساتھ ادب اور اصول کی تعلیم کا شرف اپنے وقت کے مایہ ناز فضلاء و ادباء سے حاصل کیا۔ 
فقہ میں ’’کامل‘‘ کی سند 1971ء میں حاصل کی۔ فن قرأت میں استاذ القراء قاری میر روشن علیؒ، شیخ التجوید جامعہ نظامیہ کے شاگرد رشید حضرت حسن شاہؒ سے تلمد حاصل ہے۔ 1975ء میں عصری علوم کی درسگاہ جامعہ عثمانیہ سے (M.O.L) کی ڈگری امتیازی نشانات سے حاصل کی۔
تدریسی خدمات کا سلسلہ سند فضیلت (1971ء) حاصل کرنے کے فوراً بعد جامعہ نظامیہ سے شروع ہوا۔ 1976ء میں لکچرار عربی کی حیثیت سے لطیفیہ عربک کالج ملحقہ جامعہ عثمانیہ تقرر عمل میں آیا۔ جامعہ نظامیہ میں اعزازی استاذ فقہ و نائب مفتی اول کی حیثیت سے خدمات کے علاوہ جون 1998ء سے جامعہ نظامیہ کے اسلامک ریسرچ سنٹر میں بھی کارگذار ہیں۔ 
ملک کے مختلف روزناموں اور رسالوں میں آپ کے مضامین اور حمدیہ و نعتیہ کلام شائع ہوتا رہتا ہے۔ ابھی تک کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا۔نمونہ کلام یہ ہے۔
دیدار ہو نصیب تو پھر دیدنی رہے
اس سے بڑی جہاں میں نہ کوئی خوشی رہے
عشقِ نبی کی دل میں اگر کچھ کمی رہے
ایماں کی کب نصیب بھلا چاشنی رہے
نعلینِ پاک شہ سے جو نسبت جڑی رہے
کشتِ حیات دونوں جہاں میں ہری رہے
سرکار دے دیں مجھ کو جو کوثر کا ایک جام
محشر میں پھر مجھے نہ کوئی تشنگی رہے
ہر صاحبِ فہم کا یہ ارمان ہے فہیمؔ
ان کے قدوم پاک سے وابستگی رہے
٭٭٭
منقبت بہ شان حضرت شیخ الاسلامؒ 
وہ اک شجر علم جو ایسا ہے سایہ دار
کتنوں نے زیر سایہ گزاری ہے دیکھئے
نور نبی کے فیض سے پر نور ہے فضاء
اک نور ذرہ ذرہ پہ طاری ہے دیکھئے
انوار کا ہے ذکر فضیلت کی بات ہے
ٹھنڈک سی چشم و قلب پہ طاری ہے دیکھئے
تھی آرزو مدینہ میں رہنے کی عمر بھر
وہ بھی نبی کے حکم پہ واری ہے دیکھئے
جو فیض علم ساتھ مدینے سے لائے وہ
وہ فیض علم آج بھی جاری ہے دیکھئے
عشق نبی میں ڈوب کے لکھتے رہے ہیں وہ
تحریر دل نشین ہے پیاری ہے دیکھئے
تصنیف، درس دین و تصوف ہے دن تمام
راتوں کو پھر یہ گریہ و زاری ہے دیکھئے
شاگرد و معتقد رہے شاہان وقت بھی
لیکن بشانِ فقر گزاری ہے دیکھئے
علم و عمل کا ایک حسیں امتزاج تھے
انعام حق کی بات یہ ساری ہے دیکھئے
ایک ایک خوشہ چیں چمنستانِ علم کا
مسند نشینِ فقہ و بخاری ہے دیکھئے
مرقد بھی ان کی مرکزِ انوار ہے فہیمؔ
جس پر نزول رحمتِ باری ہے دیکھئے
مولانا محمد شمس الدین زماں ؔ
مولانا محمد شمس الدین زماںؔ ولد محمد جمال الدین صاحب مرحوم ضلع بیدر شریف (کرناٹک) میں 1955ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بیدر میں ساتویں جماعت تک ہوئی۔ حفظ بیدر و جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں کیا۔ فن قرأت مولانا انصار علی قریشی استاذ و قرأت جامعہ نظامیہ سے حاصل کیا۔جامعہ نظامیہ سے مولوی کامل 1975 میں اور 1978 ء میں ایم او ایل عثمانیہ یونیورسٹی بدرجہ اول کامیاب کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا مفتی عبدالحمید صاحبؒ، مولانا سید شاہ طاہر رضوی صاحبؒ، مولانا غلام احمد صاحبؒ، مولانا شیخ محمد سعید صاحبؒ، مولانا محمد عثمان صاحبؒ، مولانا محمد عبدالرحمن صاحب، مولانا حافظ محمد ولی اللہ صاحبؒ، مولانا حافظ مفتی ابراہیم خلیل الہاشمی صاحب، مولانا مفتی خلیل احمد صاحب شامل ہیں۔ 1980 میں حج و زیارت نبوی ﷺ سے مشرف ہوئے۔ 1995 میں شیخ طریقت حضرت خواجہ معین الدین صابری صاحب قبلہ کاغذ نگر سے بیعت کی۔ ہندوستان کے مختلف مقامات پر منعقد ہونے والے تجویدو حسن قرأت کے مقابلوں میں جامعہ نظامیہ کی نمائندگی کی۔ رولنگ شیلڈ اور مختلف میرٹ ایوارڈ حاصل کئے۔ جمہوریہ ایران کی جانب سے 1984ء دہلی  میں منعقدہ مقابلہ حسن قرأت میں انعام اول حاصل کیا۔ جہودالعلماء الکرام فی سبیل نشر القران و قرأتہ کے موضوع پر 1984 میں مقالہ تحریر کیا اور وزارت تعلیم دہلی میں داخل کیا۔ طبعی میلان شاعری کی طرف ہے۔ حیدرآباد اضلاع اور ملک کے مختلف علاقوں میں مشاعرے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ شاعری کی مختلف اصناف ، حمد باری تعالیٰ، نعت شریف، مناقب و سلام کے علاوہ غزلیات میں بھی طبع آزمائی کا سلسلہ جاری ہے۔ 1979 بحیثیت استاذ شعبہ حفظ جامعہ نظامیہ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نمونہ کلام حسب ذیل ہے۔ 
جس پہ قدرت کی عطاؤں کا اثر آیا ہے
الفت شاہ میں اشک آنکھ میں بھر آیا ہے
جس کی قسمت میں مدینے کا سفر آیا ہے
اس کے دامن میں سعادت کا گہر آیا ہے
جلوہ آقا کا کسی دل میں اگر آیا ہے
سبھی کچھ اس کو دوعالم میں نظر آیا ہے
فکر کا زاویہ اس روز سے تبدیل ہوا
زورِ فاروق جہاں کھو کے اثر آیا ہے
جادۂ عشقِ رسولِ عربی کھیل نہیں
پوچھئے اس سے جو اس رہ سے گزر آیا ہے
ذکرِ محبوبِ خدا جس کا وظیفہ ہے زماںؔ
زیست میں اس کی خدائی کا اثر آیا ہے
(رحمۃ للعالمین ساونیر صفحہ (۷۷) مطبوعہ 1997ء ناشر مجلس بچاؤ تحریک)
سلام بحضور امام حسین رضی اللہ عنہ
روئے نبی سے ملتا ہے چہرہ حسین کا
گویا نبی کا جلوہ ہے جلوہ حسین کا
لا تحسبن سے یہی حق نے کیا عیاں
مرنا نہیںہے بلکہ ہے جینا حسین کا
باطل پرست اتنا ہمیشہ یہ جان لیں
اسلام کو ملا ہے سہارا حسین کا
میرے لبوں پہ اتنی دعا ہے سدا زماںؔ
مولیٰ مجھے بھی رستہ دکھانا حسین کا
منقبت حضرت شیخ الاسلامؒ بانی جامعہ نظامیہ
جن کے دل میں ہے سدا الفتِ شیخ الاسلام
بس وہی جانتے ہیں عظمتِ شیخ الاسلام
علم کا فیض سدا یونہی رہے گا جاری
جامعہ اصل میں ہے دولتِ شیخ الاسلام
اپنے حق میں وہ مقدس ہیں ہمیشہ لوگو
جن کو سمت سے ملی صحبتِ شیخ الاسلام
دائرہ، آصفیہ، جامعہ سے ہے ظاہر
دین کے واسطے تھی خدمتِ شیخ الاسلام
بے شمار آپ کے احساں ہیں مسلمانوں پر
اب بھی ہے فیض رساں تربتِ شیخ الاسلام
میرؔ عثمان علی خاں یہی کہتے تھے سدا
ہیں فضیلت کا نشاں حضرتِ شیخ الاسلام
اضطراب اور پریشانی کی حالت میں زماںؔ
گنگناتی ہے زباں مدحتِ شیخ الاسلام
محترم جلیل نظامی
محترم محمد جلیل احمد ابن محمد افضل ،( قلمی نام جلیلؔ نظامی) کا جامعہ نظامیہ کے نامور شعراء میں شمار ہوتاہے۔ آپ کی ولادت ۱۹۵۷؁ء تعلقہ جنگاؤں ضلع ورنگل میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ کھوکر واڑی (حیدرآباد)، مدرسہ مدینۃ العلوم (محبوب نگر) اور اعلیٰ تعلیم جامعہ نظامیہ (حیدرآباد) میں ہوئی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا محمدخواجہ شریف صاحب، مولانا انصار علی قریشی جاویدؔ، مولانا سید محبوب حسین، مولانا سید طاہر رضویؒ، مولانا فاروق علی، مولانا حافظ ولی اللہ قادری ؒ شامل ہیں۔ ۱۹۷۶؁ء میں مولوی عالم سے فراغت ہوئی۔ آپ کے معاصرین میں مولانا عبدالقدوسؒ، مولانا سید لطیف علی، مولانا ڈاکٹر سید جہانگیر، مولانا غلام محمد ہاشم، مولانا سید نعمت اللہ قادری، مولانا سید عزیز اللہ قادری وغیرہ ہیں۔ ۱۹۹۲؁ء میں عمرہ وزیارت بیت اللہ و زیارت نبوی ﷺ کی سعادت حاصل ہوئی۔ کویت، سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، مسقط(سلطنت عمان) کے علمی ومطالعاتی دورے کئے۔ اس وقت مملکت قطر میں نگران شعبہ اردو قسم الرقابہ میں برسر خدمت ہیں۔ شعر گوئی و مطالعہ کا شغف طالب علمی کے دور سے ہی ہے۔ حسن صوت اور خوش گلوئی قدرت نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔آپ کی فکری مقصدیت غالبؔ کے اس شعر میں نمایاں ہے۔ 
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دستِ امکاں کو ایک نقش پا پایا 
آپ کی پسندیدہ شخصیت آقائے دوجہاں سرکار دوعالم  ﷺ  ہیں۔ انجمن شعرائے اردو ہند قطرکے صدر نشین ہیں۔ کئی قومی اور بین الاقوامی مشاعروں میں اپنے حمدیہ ، نعتیہ و منقبتی و اصلاحی کلام سے لوگوں کے قلوب میں جگہ بنائی ہے۔ نمونہ کلام حسب ذیل ہے۔
اورنگِ سلیمانی، اعجازِ مسیحائی 
دونوں کی فراوانی، چوکھٹ نے تری پائی
یہ خاکِ مدینہ ہو پلکوں پر سجالیجئے
بے نور سی آنکھوں میں آجائے گی بینائی
واللیل تیرے گیسو، والشمس ترا چہرہ
وہ شہر ترا جس کی یزداں نے قسم کھائی
سب حسن کی تفسیریں، سب عشق کی تاویلیں
اس عارض تاباں کی ہے انجمن آرائی
حلقے میں صحابہ کے یہ چاند کا ہالہ بھی
پل بھر کو اگر آوے کھو بیٹھے شناسائی
ہم خاک نشینوں سے تعظیم ہو کیا ان کی
خود عرش مکیں جن کی کرتا ہو پذیرائی
خواہش ہے جلیلؔ اتنی خلاقِ دو عالم سے
ہر حال میں کہلاؤں سرکار کا سودائی
٭٭٭
ذکرِ سردارِ پیغمبراں کیجئے
روح کو اپنی جنت مکاں کیجئے
وصف شاہ مدینہ بیاں کیجئے
طائرِ قدس کو ہم زباں کیجئے
مان کر حکم رب، چل کے راہِ نبی
خاک کو رشکِ کرّ و بیاں کیجئے
جوش میں رحمتِ کبریا آئے گی
شافعِ حشر کو درمیاں کیجئے
حکم دیتے ہیں وہ حاضری کا جلیلؔ
پیش نذرانۂ قلب و جاں کیجئے
٭٭٭
بحرِ کرم منبع و مصدر تم ہی تو ہو
احساں ہے جس کا خلق خدا پر تم ہی تو ہو
خیرات بانٹتے ہیں جو شاہان وقت کو
وہ بوریا نشیں تو نگر تم ہی تو ہو
اکبر خاں اکبرؔ
پورانام محمد اکبر خاں، تخلص اکبر ولد محمد رمضان علی خاں مرحوم ۱۸؍جولائی ۱۹۶۲ء؁ حیدرآباد میں تولد ہوئے۔ حیدرآباد کی مشہور درس گاہ جامعہ نظامیہ میں مولوی اول تک تعلیم حاصل کی۔ والدہ محترمہ قدسیہ بیگم نجفیؔ حیدرآباد کی مشہور واعظہ ہیں۔ جس کی وجہ سے گھر کا ماحول مذہبی ہے۔ والدۂ محترمہ کے حکم پر اور رہنمائی میں صرف نعتیہ و منقبتی کلام کا ذوق پیدا ہوا۔ لیکن ان کی شاعری کو جلا سید الطاف صمدانی کی شاگردی میں آنے سے ملی۔ حیدرآباد کے نوجوان شعراء میں اچھا مقام رکھتے ہیں۔ طرحی و غیر طرحی مشاعروں میں اکثر شریک ہوتے رہتے ہیں۔ کلام میں سلاست، بلاغت کے ساتھ ساتھ تصوف کے مضامین بھی پائے جاتے ہیں۔ نمونۂ کلام درج ہے۔
جلوہ بشر کے روپ میں اس نورِ ذات کا
محور بنا ہوا ہے جو کل کائنات کا

آئے سمجھ میں کس کے مقامات مصطفیؐ
جلوے پہ پردہ پردہ میں جلوہ تھے ذات کا

عشق رسولؐ پاک میں کٹ جائے زندگی
اکبرؔ یہی تو اپنا ہے مقصد حیات کا
٭٭٭
کتنا سکون دیتی ہے یاد نبیؐ مجھے
ٰٰٰٰعشق نبیؐ خدایا ملے سرمدی مجھے

مجھ پہ کرم یہ اُن کا نہیں ہے تو اور کیا
ہر سانس مل رہی ہے نئی زندگی مجھے

اکبرؔ کرم حضورؐ کا ہر حال میں رہا
ہوتی نہیں ہے اس لیے افسردگی مجھے

(بشکریہ: حیدرآباد کے نعت گو شعراء آزادی کے بعد، ص ۱۵۸،ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری، پی ایچ ڈی عثمانیہ یونیورسٹی ۔۱۹۹۸ء)
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) بحوالہ کتاب سخنوران دکن، ص 87،ص 107،ص 161 ،ص 244، ص 346، ص 347 ؍تسکین عابدی
(۲) بحوالہ پنجسالہ روداد مدرسہ نظامیہ 1319 فصلی لغانیہ 1323 فصلی
(۳)  تزک محبوبیہ جلد دوم ، دفتر 71، ص157،158،بحوالہ دکن میں اردو ص 574) 
(۴)بحوالہ تلامذہ صفی ؔ؍ محبوب علی خان اخگرؔ، دائرہ پریس چھتہ بازار حیدرآباد 1991ء)
(۵) جمال امجدؔ ص۲۹۶؍ خود نوشت سوانح حضرت امجدؔ حیدرآباد
(۶) دکن میں اردو ، جناب نصیر الدین ھاشمی
(۷)بحوالہ اردو شعر وادب کے فروغ میں فرزندان جامعہ نظامیہ کا حصہ؍ محمد فصیح الدین نظامی، ناشر مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآباد، ایوارڈ یافتہ اردو اکیڈمی آندھراپردیش
(۸)تفسیر قادری صفحہ نمبر 5031، مطبوعہ 1964ء حیدرآباد
(۹)اردو شعر و ادب کے فروغ میں فرزندان جامعہ نظامیہ کا حصہ/محمد فصیح الدین نظامی، ناشر مجلس اشاعۃ العلوم، جامعہ نظامیہ حیدرآباد، آندھراپردیش 
(۱۰) بحوالہ واردات کاملؔ دوسراایڈیشن 1988ء، زیر اہتمام، حضرت سید قبول بادشاہ شطاری جانشینِ حضرت کاملؔ
(۱۱) ساغر سیفؔ، حضرت سیفؔ شرفیؒ؍الیاس ٹریڈرس اینڈ بک سیلر، شاہ علی بنڈہ روڈ، حیدرآباد1990ء
(۱۲)سالنامہ الانصار ،مدیر جناب اسد ثنائی، حیدرآباد ۔2005ء
(۱۳)بحوالہ اردو شعر و ادب کے فروغ میں فرزندانِ جامعہ نظامیہ کا حصہ159/158)،ناشر : مجلس اشاعۃ العلوم، شبلی گنج حیدرآباد 2001ء ادبی ایوارڈ یافتہ اردو اکیڈمی آندھراپردیش 
٭٭٭

 مولانا شیخ عبدالقادر قیصرؔ ؒ
 مولانا شیخ عبدالقادر قیصرؔ جامعہ نظامیہ فارغ التحصیل تھے۔ ، صدر مدرسہ وسطانیہ مغل گدہ پر آپ نے برسوں تعلیمی خدمات انجام دیں۔ شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ آپ نے مختلف اسناف سخن میں طبع آزمائی فرمائی۔ مختلف مجلات و رسائل میں آپ کا فصیح و بلیغ کلام شائع ہوا کرتا تھا ۔ آپ تلمیذ شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد رکن الدین صاحب کے ، خواہرزادہ اور سابق استاد حضرت شاہزادگان والاشان تھے۔
جشن عثمانی کے موقع پر بطور نذر عقیدت آپ کا تحریر کیا گیا کلام بطور نمونہ پیش ہے۔ 
شاہ عثمان علی خاں کی ہے سلور جوبلی

ہے زمیں پر جوبلی بام فلک پر جوبلی
چشم انجم خیرہ ہے بزم چراغاں دیکھ کر

ہے ضیاء باری میں کیا خورشید وخاور جوبلی
غرہ ذوالحجہ ہے پیغام جشن دل فروز

آئی ہے بزمِ جہاں میں عید بن کر جوبلی
اٹھتی ہے چاروں طرف سے آج موجیں کیف کی

بن گئی ہے صہبائے عشرت کا سمندر جوبلی
طرۂ دستار زریں تاب کا ہے یہ اثر

ہے تو سمیں رکھتی ہے خاصیت زر جوبلی
روز روزِ عید ہے ہرشب دکن کی شب برات

دیکھ کر حیراں نہ کیوں ہو چشمِ اختر جوبلی
ابرِنیسانِ کرم سے شاہ کے ہے فیضیاب

کرتی ہے مخلوق پر جو بارش زر جوبلی
پارسی عیسائی اور ہندومسلماں شاد ہیں

سب مناتے ہیں بصد اخلاص مل کر جوبلی
شاہِ والا کے نہ کیوں تابع ہوئے دارائے زماں

ساتھ اپنے لائی ہے بختِ سکندر جوبلی
آصف سابع کے تابع ہوں یہ ساتوں آسماں

ہفت اقلیم جہاں میں ہو معزز جوبلی
عرض کر قیصرؔ زروئے بخت یہ فصلی میں سال
ہو مبارک آصف ہفتم کو سلور جوبلی
۶ ۴ ف ۳ ۱
(ز: مجلہ نظامیہ، ذی الحجہ ۱۳۵۵ھ۔ صفحہ ۵ مدیر: شاہ ابوالخیر ؔکنج نشینؒ)
٭٭٭

جلالۃ العلم علامہ رشید پاشاہ قادریؒ علمی و تحقیقی خدمات
جلالۃ العلم حضرت علامہ سید محمد حبیب اللہ قادری علیہ الرحمہ کا شمار عالمی سطح کی ایسی شخصیتوں اور علماء ربانی میں ہوتا ہے کہ تاریخ کے کئی نازک مرحلوں پر مسلمانوں کی بقاء جن کی کاوشوں کی رہین منت ہے۔ حضرت ممدوح بیک وقت عالم با عمل‘ مربی ومعلم‘ مفکر ومدبر‘ محقق ومصنف‘ ادیب وخطیب‘ داعی ومصلح‘ واعظ وناصح‘ عابد وزاہد، صوفی ومجاہد، عاشق الہی، محب رسول اور سیادت وقیادت کا پیکر جمیل تھے، علامہ نے نصف صدی سے زائد علم وعرفان کے افق کو روشن رکھا اور بین الاقوامی ادارۂ تحقیق ’’دائرۃ المعارف العثمانیہ‘‘ 136 سالہ قدیم ازہر ہند’’جامعہ نظامیہ‘‘ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، معتمد‘ صدر مجلس علماء دکن، رویت ہلال کمیٹی کے ذریعہ مسلمانان ہند میں دینی فکری اخلاقی اور تعلیمی بیداری کی بانگ درادی اور اپنی ناقابل فراموش خدمات کے نقوش ثبت کرکے جلالۃ العلم کا لقب پایا۔حضرت جلالۃ العلم کا یہ تذکرہ در حقیقت ان بلند وبالا ستونوں میں سے ایک ہے جن پر عظیم الشان بر صغیر کی تاریخی وعلمی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ تذکرہ نگاری ایک مشکل فن ہے اس سے عہدہ بر آ ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس گراں بہا ذمہ داری کو خوش اسلوبی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔شاہ محمدفصیح الدین نظامی، مہتمم کتبِ خانہ جامعہ نظامیہ کی مرتبہ۔
 ۱۹۹۹؁ ء پہلی سالانہ یاد وصال کے موقع پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے محبانِ ’’حضرت جلالۃ العلم‘‘ کے سامنے اس کتاب کی پیشکش ایک سعادت سے کم نہیں۔ مواد کی صحت وثقاہت زبان وبیان کی سلاست وفصاحت میں ہزار احتیاط کے باوجود حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Recent In Internet

Popular Posts