Breaking

Monday, June 10, 2019

جامعہ نظامیہ کے عربی شعراء کرام

جامعہ نظامیہ کے 
عربی شعراء کرام 

از:مولانا حافظ محمد قاسم صدیقی تسخیروفاؔ،
استاذ جامعہ نظامیہ‘ حیدرآباد۔دکن



جامعہ نظامیہ علم وادب ، وجدان وعرفان ، علوم احادیث وقرآن کا ایک عظیم گہوارہ اور برصغیر ہندوپاک کا وہ عظیم علمی و روحانی مرکزہے جو حضرت سید الاولین والاخرین عالم ماکان ومایکون صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارۂ مبارکہ پر قائم ہے جہاں ان گنت مفسرین ومحدثین فقہاء وادباء مبلغین وواعظین ، علوم افتاء کے ماہرین بے نظیر مہارت وکمال حاصل کرکے سارے عالم میں پھیلے اور ہرجگہ علم و عرفان کے چراغ روشن کئے ہوئے مصروف عمل ہیں ، ان میں سے اکثرعلماء مذکورہ علوم فنون میں مہارت کے ساتھ ذوق شاعری بھی رکھتے ہیں۔ عربی نثر پر قدرت کے ساتھ شعر وشاعری سے بھی ان کو شغف رہا ہے ۔ ان میں حضرت یحییٰ بن محمد یافعی، حضرت علامہ سیدابراہیم ادیبؔ، حضرت مولانا مفتی عبدالحمید‘حضرت مولانامفتی سیدمحمود، حضرت مولاناحاجی منیرالدین رحمھم اللہ قابل ذکر ہیں۔ 
جامعہ نظامیہ کے عربی شعراء کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے زمرے میں درج ذیل شعراء جو اس دارالفناء میں موجود نہیں ہیں ۔
(۱)علامہ شیخ صالح باحطابؒ 
(۲)علامہ مفتی سید مخدوم حسینی ؒ
(۳)علامہ سید ابراہیم ادیب رضوی ؒ
(۴) علامہ شیخ غلام مرتضی ؒ
(۵)علامہ مفتی سید محمود کان اللہ لہ 
(۶)علامہ شیخ حبیب عبداللہ المدیجح الحضرمی ؒ
(۷) علامہ مفتی عبدالحمید ؒ
(۸)علامہ حاجی محمد منیرالدین ؒ
(۹)علامہ محمد الطاف حسین فاروقیؒ
دور حاضر کے شعراء میں قابل ذکر دو اساتذہ ہیں 
(۱) صدر الشیوخ علامہ سید شاہ طاہر رضویؒ 
(۲)شیخ الحدیث علامہ محمد خواجہ شریف قادری مدظلہ
 علامہ صالح بن سالم باحطاب الحضرمی الشافعی کے والد علامہ سالم بن صالح باحطابؒ اپنے وطن حضرموت سے حیدرآباد منتقل ہوئے اور جامعہ نظامیہ میں معقولات کے مدرس بنے، آپ کے والدکی دوعربی تصنیفات مشہور ہیں 
(۱) کتاب الوصیۃ
(۲) الدرالثمین فی اصول الشریعۃ وفروع الدین۔
علامہ صالح بن سالمؒ بھی شیخ المعقولات بنے اور عرصہ دراز تک ہزاروں طلباء کواپنے علم سے مستفیض کرتے رہے ، ۱۳۷۴؁ھ میں آپ کی رحلت ہوئی ان کا کلام بطور نمونہ پیش ہے۔
 حضرت علامہ مفتی سید مخدوم حسینیؒ 
 حضرت سید قادر محی الدین حسینیؒ کے فرزنددلبند تھے ۔ آپ نے اکابر علماء سے تعلیم پائی اور مفتی جامعہ نظامیہ کے عہد ہ پر فائزہوئے ، اردو زبان میں دس کتابیں آپ نے تصنیف کیں جن میں برہان الدین ، ضرورۃ المسلمین ، مخدوم الانساب ، مجموعۃ الفتاوی اور کرامات غوثیہ مشہور ہیں ۔ آپ کا وصال ۱۳۶۷؁ھ میں ہوا آپ نے مصحح الحسنات ، سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں حسب ذیل سلام لکھا۔
کافلا فی الشفاعۃ الکبری
یا ملاذ الوری سلام علیک
فالرحمن ضعف حالہ لطفا
راحم المبتلٰی سلام علیک
جعلنی اللہ محمدا کاسمي
بمزید العطاء سلام علیک
ان لي ذمۃ بتسمیتي
باسمک المجتبی سلام علیک
غیرک لیس مامن الامۃ
ما من المعتلٰی سلام علیک
لیس مقصود قلبنا غیرک
مقصدي المنتھی سلام علیک
نحن وارواحنا نفدی لک
روح ارواحنا سلام علیک
سیدی مرشدی ومولائی
انت مخدومنا سلام علیک
من جمیع  البلاء سلام علیک
ھادی العلی حامی الامۃ
احقر المخادمین مخدوم
منک یرجوا العطاء سلام علیک(۱)
حضرت علامہ سید ابراہیم ادیب رضویؒ 
 آپ کے والد کانام سید عباس تھا جن کا سلسلہ نسب حضرت امام سید موسیٰ رضاؒسے جاملتا ہے ، آپ حیدرآباد کے محلہ سید علی گوڑہ میں پیدا ہوئے ، آپ کو بانی جامعہ نظامیہ حضرت امام حافظ محمدانوار اللہ فاروقیؒ سے شرف تلمذحاصل تھا آپ کی آٹھ عربی تصانیف میں تفسیر سورالتین والقریش ، الملخص من شرح الشواہد ، قصیدۃ لامیۃ الدکن مشہورہیں ، گیارہ اردو تصانیف میں رسائل ابراہیمیہ  ، میزان الاشعار ، شجرۃ النور ، حقیقت روح اور علم الغیب قابل ذکر ہیں ، آپ اعلیٰ درجے کے عربی شاعر تھے ، آپ کا مشہور قصیدہ ’’لامیۃ الدکن ‘‘ ہے جو جامعہ نظامیہ کے نصاب (جماعت فاضل اول) میں شامل ہے اس طویل قصید ہ میں جملہ دوسو تیرہ اشعار ہیں ، قدیم شعراء کے روایتی اندازمیں آپ نے اس قصیدے کی ابتداء تشبیب سے کی ہے پھر نعت نبی ﷺ، مدحت صحابہ وخلفائے راشدینؓ وحسنینؓ بھی ہے آپ کا وصال ۱۳۷۷؁ھ میں ہوا بطور نمونہ یہ اشعار پیش ہیں ۔
توسّل بہ والجأ الیہ وانّما
ینال المرام من بہ یتوسّل
وما ھو الاّ المصطفی سیّد الوری
محمّد الھادي النّبيّ المبجّل
تقدّم قیل الکائنات وجودہ
المسبّح للہ العليّ المحمدل
وکان نبیّا حین اٰدمُ لم یکن
لہ في عروق الطین والمأھیکل
تعیّنت الارواح من نور وجھہ
وابدانھا من ظلّہ الغمر تجعل
الیہ وامنہ منتھی کل کائن
ومبدأہ ان لیس عنہ تحوّل
بنقطۃ بآء الابتدا منہ قد بدا
تنفّس اصباح الوجود یبسمل
شھیدٌ ومشھودٌ بانسان عینہ
تجلّی لہ في السرّ من ھو مرسل
لقد رضي الرحمن عنھم وقد رضوا
بما جآء ھم منہ وبالحق بجسلوا
رأو ابیعۃ الرضوان بیعۃ ربّھم
وفوق ایادیھم ید اللہ تقبل
ھم السّابقون الاوّلون ومن ھم
الخیار العظام فضلھم لیس یخمل(۲)

حضرت مولانا شیخ غلام مرتضیؒ 
آپ کے والد قاضی غلام محی الدین ضلع مید ک کے متوطن تھے،جامعہ نظامیہ میںتعلیم پائی اور یہیں مدرس بنے آپ کی اردو تصنیف ، معلومات حج ، مشہور ہے۔ آپ عربی کے شاعر بھی تھے آپ کا انتقال ۱۳۸۳؁ھ میں ہوا ، آپ کے یہ اشعارپیش ہیں۔؎
الحمدلواسع العطایا
والشکر لواھب المطایا
من جلّ فضلہ الوسیع
توسیع مکارم العطایا
الخلق زیادۃ النعیم
بالشکر لخالق البرایا
یا رب شکرا علی ما
انعمت بفاصل القضایا
عبدالعزیز عز قومٍ
امجد بہ زَیْن بالسجایا
من وجھہ انجلٰی ضیائٌ
من کفہ کفتِ الرزایا
قصیدہ بشان مولانا حبیب الرحمن خان شروانی صدر یارجنگ 
فقیہ نبیہ شیخ اسلام ملکنا
احن وداعاً من حبیبی المبجل
وصدر الصدور البارع المتفضل
فقیہ نبیہ شیخ اسلام ملکنا
حبیب لرحمان ادیب مکمل
لقد فاق الافاق بحسن فعالہ
وقد سادا لاقران بشان مفضل
لاصلاح ملک فی امور المذاہب
باخلاص قلب کان یسعیٰ و یعمل
رئیساً لبھیکم نورزین صدارۃ
معارف اسلام بہ تتجمل
اشاعۃعلم الدین شاعت بوجھہ
باثنیٰ و عشرین کتاب مکمل
مقاصد الاسلام و انوار حقنا
و انوار تمجید بغایۃ اجمل
شروط الائمۃ وخلاصۃ ملتقی
شمائل اصحاب التقیٰ بہ تعتلی
بقدرۃ حق معجم لمصنف
و انوار میراث الفرائض تنجلی
وشاع بہ الفتاوی النظامیۃ
ونثرلمرجان بنظم مجمل
جرت ھکذا انھار فیض حبیبنا
جزاہ العلیٰ خیر الجزاء المکمل(۳)
حضرت مولانا مفتی سید محمود کان اللہ لہؒ
 آپ حضرت سید نجیبؒ کے فرزند تھے ، حیدرآباد میں پیدا ہوئے بانی جامعہ نظامیہ کے ارشد تلامذہ میں تھے اور شیخ الجامعہ کے عہدہ پر چند سال فائزرہے، آپ نے نواب میر عثمان علی خاںآصف جاہ ہفتم کی شان میں ایک سو اشعار لکھے تھے لیکن وہ محفوظ نہ رہ سکے ۱۳۸۹؁ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔
 حضرت مولانا شیخ حبیب عبداللہ المدیحج الحضرمیؒ، 
یمن کے علین نامی قریہ میں پیدا ہوئے والدکانام احمدالمدیحج تھا ، حصول علم کے لئے اپنے وطن سے نکل کر بمبیٔ اور حضرت شیخ الاسلام سے ملاقات کے لئے حیدرآباد آئے جامعہ نظامیہ سے فاضل کا امتحان کامیاب کیا اور یہیں مدرس بنے ، دائرۃ المعارف العثمانیہ میں رئیس المصححین بھی تھے ، مادری زبان عربی میں اشعارکہتے تھے آپ کا وصال ۱۴۰۷؁ھ میں ہوا ، آپ نے شیخ الاسلام کے وصال پر جو مرثیہ لکھا تھا اس کا ایک شعر اور دیگر اشعار بطور نمونہ پیش ہیں۔
لعمرک ماالتابین ھی الخطب ینفح 
وان المنایا کا لسیوف تقطع
حمد إلہی
الحمد للہ علی ما أنعما
حمدا بہ یجلسو عن القلب العما
وبعد فالشکر علی الانعام
حق بحکم الشرع في الإسلام
وإن مما أنعم الرحمن
بہ علینا أیھا الإخوان
قدوم سلطان عظیم شأنہ
عم الجمیع عدلہ و إحسانہ
وکیف لا والاسم لہ عثمان
مشارک لمن ذری عفان
لا زال محفوظا مع ملک لہ
وذریات نجباء نسلہ
واللہ یرحم قائلا آمینا
من غائب الناس وحاضرینا
ونلتجي للہ في دفع الأذی
والطعن والطاعون أیضا والوبا
یا سامعا فاسمع لنا ھذا الدعا
بجاہ سیدنا الرسول المصطفی
نعت محمدی ا:
محمد الھادي لنا وأھل الکسا
وتابعیہ والکرام والشرفا
صلی علیہ ربنا وسلما
وآل و أصحاب لہ وکرما
حضرت علامہ سید طاہر رضوی ؒقادری
جامعہ نظامیہ کے دورِ حاضر کے عربی شعراء میں آپ  کا نام سرفہرست ہے، آپ جامعہ نظامیہ میں صدرالشیوخ، مفسر اور واعظ کے علاوہ عربی زبان کے بہتر ین شاعر، علم وعرفان کا گنجینہ، بحر معرفت کا آبگینہ تھے۔ علوم اسلامیہ میں کمال دسترس کے ساتھ فن شاعری میں کمال رکھتے اور ہر صنف سخن میں طبع آزمائی فرمایا کرتے، فن عروض میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ آپ کے قصائد کا مجموعہ ’’القصیدۃ الہمزیۃ‘‘ سے مشہور ہے اورجامعہ نظامیہ کی جماعت مولوی اول کے نصاب میں شامل ہے حمدباری تعالیٰ میں کہتے ہیں ۔
ألا ان الالٰہ لہٗ البقاء 
وان الخلق شانھم الفناء
نعت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں یوں رقمطرازہیں
لہ شکر اعلی أن قدھدانا
بنور قد جلا منہ الفضاء
ألا وھو النبی الھا شمی
ومنہ الإبتداء والإنتھاء
فبین اللہ والخلق وسط
اضاء من محیاہ الضیاء
وذاک رحمۃ للخلق جمعا
فمنہ قد تعاورھم بقاء
وسماہ سراجا للحیاۃ
بہ للناس کلھم اھتداء
فکلٌ عاجز عن وصفہ إذ
تقاصر عن محاسنہ الثناء
لکل من نبی أو رسول
مراتب دونہ ولہ العلاء (۴)  
مولانا امام احمد رضا خاں رضاؒ کی اردو نعت ’’چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں‘‘کا عربی ترجمہ ملاحظہ ہو :
الشمس والبدر والأفلاک والشجر
طوعاًلہ فرحامن مہدہ القمر
کان النبی یناغی القمر والقمر
شوقاًیناجیہ لعباعینہ النظر
اللّٰہ بارک فی ماکنا نقتبس
وزادنا ولعامن نورہ المطر
کل لہ تابع والشان ان لہ
ملکا عظیما لما من تحتہ القدر
(من اللہ)
بالارض کل لہ فی المہد لعبتہ
وتلک لعبتہ فوق السماالقمر
قال الرسول النبی ذکر النعمتہ
شہودہ لشھود الحق یعتبر
لیس لہ المثل فی الاکوان من احد
قد بان منہ السما والارض والثمر
یا من سیادتہ فی الکون قاطبۃ
ولیس دونہ من یقضی بہ الوطر
من رازق الخلق جمعا انت قاسمہ
ومن مہابتہ شان لہ بھر
الحمدللہ ان قد کفا امتہ
ومسنا الفضل حتی کنا نفتخر(۵)
حضرت مولانا محمد خواجہ شریف قادری مدظلہٗ 
 آپ کی پیدائش ۱۵؍شوال ۱۳۵۹؁ھ کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی قدر سے حاصل فرمائی پھر جامعہ نظامیہ میں چوتھی جماعت میں شریک ہوئے اور یہیں سے اعلیٰ سند حاصل کی اور یہیں مدرس بنے اور اب شیخ الحدیث کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہیں ۱۴۰۵؁ھ میں ’’المعہد الدینی العربی‘‘کی بنیاد ڈالی علاوہ ازیں کئی مقامات پر آپ کی نگرانی میں مدارس قائم ہیں۔
علوم اسلامیہ پر گہری نظر رکھتے ہیں عربی ادب وحدیث شریف سے آپ کو خصوصی شغف ہے ، ادب عربی کے دونوں اصناف (نثر ونظم میں) خصوصی مہارت رکھتے ہیں شعر وشاعری خصوصاً نعت پاک شہ لولاک ﷺ میں آپ کی دلچسپی حضرت نبی کریم ﷺ سے عقیدت ومحبت، علوم حدیث وذات رسالت پناہ سے خصوصی نسبت پر دال ہے۔
آپ کا سینہ علم وعرفان کا ایک عظیم خزینہ ہے حضرت صدرالشیوخ علامہ سید شاہ طاہر رضوی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ان انہیں صفات حمیدہ کی بناء پر اپنے قریب رکھااور اپنی عمرشریف کے آخری حصہ میں وصال سے کچھ دن قبل علماء کی ایک مجلس میں آپ کو خلافت سے بہرہ مند فرمایا ۔ اوریہ فرمایا کہ’’ اشارئہ غیبی کی بناء پر یہ خلافت دی جارہی ہے‘‘ اس مختصر تعارف کے بعد آپ کا منتخب کلام پیش خدمت ہے ۔
لک الحمد یا ذالکبریا انت ربنا
 تبارکت یا ذالمن والمجد حسبنا
ألحمد للّٰہ منشی النور من قدم 
وجاعل الخلق والاکوان والنعم
نعت النبیا 
فی شانہ ورفعنالک أنزلا
وذکرہ فی الصلوۃ والندالازما
اللہ سبحانہ نے آیت ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ آپ کی شان میں نازل فرمائی ہے او رآپ کا ذکر پاک نمازوں اور اذانوں میں لازم ہے۔ 
وفضلہ فوق ما یعربہ معرب
لولاہ لم یخلق الرحمن ذا
کوئی بیان کرنے والا جو کچھ بیان کرسکتا ہے آپ ﷺ کی فضیلت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ کی خلقت نہ ہوتی تو اللہ سبحانہ اس کائنات کو لباس وجود عطا نہ فرماتا۔
مالمسک ماالطیب مالریحان 
مالعطر محمدعرقہ ازکی بہ منشما
اس کا منظوم ترجمہ یہ ہے ۔ 
مشک وعنبر گل وریحاں معطر ہیں ضرور 
پھر بھی شرمندہ ہیں وہ عرقِ شہ دیں کے حضور
          (فہیمؔ)         
مدینہ طیبہ میں لکھے اور دربا رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کئے گئے نذرانۂ دل سے چند اشعار درج کئے جارہے ہیں ۔
یا سید الکون والعربان والعجم 
 یامن بہ شرف للوح والقلم
اے کائنات کے آقا او رعرب وعجم کے آقا اے وہ ذات پاک لو ح وقلم کو بھی جن سے شرف عطاء ہو ۔
یا صفوۃ اللہ خیرا لخلق مرحمۃ 
یامن أطیب فی الا جواء والاطم
اے وہ منتخب وبرگذیدہ ذات اے وہ مخلوق میں سب سے بہتر ہستی جو سارے عالموں کی رحمت ہیں اور اے وہ ذات جن کی تشریف آوری اورجن کے وجود پاک سے ساری فضائیں اور ٹیلے معطر ہوگئے ۔ 
انت الانیس نفد یک مھجتنا
فی ذی الحیاۃ وبعد الموت والالم
آپ ہی ہمارے مونس ہیں اس دنیا میں اور موت کے بعد یا کسی رنج و تکلیف میں بھی ہماری جان آپ پر قربان ہے(۶)۔ 
مولاناڈاکٹرحافظ سید بدیع الدین صابری
آپ کی پیدائش ۱۹۶۳ء میں ہوئی۔ قبائے علم سے آراستہ، دستار فضیلت سے مزین، علم و ادب کے وسیع مطالعہ کے حامل، اصابت رائے وفکر سلیم کے ساتھ خصائل حمیدہ سے متصف اور کئی عربی کتب کے مصنف اور زبان و ادب کی لطافتوں سے واقف قادر الکلام شاعر بھی ہیں موصوف کا شمار مادر علمی جامعہ نظامیہ اور عثمانیہ یونیورسٹی کے قابل رشک اہل قلم میں ہوتا ہے، جماعت فاضل سے ہی عربی شعر و ادب کا ذوق لطیف رکھتے ہیں۔
جامعہ نظامیہ میں نائب شیخ الادب العربی کی حیثیت سے بھی تدریسی خدمات انجام دیں مولانا کا شمار حیدرآباد کے مایہ ناز علماء میں ہوتاہے آپ تصوف کے سلسلہ صابریہ میں نعمت خلافت کے حامل ہیں۔
۱۹۸۸ء میںجامعہ نظامیہ سے اعلٰی سند کامل الحدیث، ۱۹۸۷ء میں ایم اے عربی، ۱۹۹۱ء میں ایم فل اور ۱۹۹۶ء میں الشعراء من الصحابۃ، کے موضوع پر عثمانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 
اس وقت صدر شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں آپ کے عربی کلام میں اساتذہ کا رنگ اور کلاسیکل اسلوب پایاجاتا ہے۔
قصیدۃ قالھافی مدح العارف باللہ الشیخ علاء الدین علی احمد الصابری الکلیری رحمہ اللہ
الصبر فی صبر الولی الاطہرٖ
ھو فی الخلائق یذکر اسم الصابرٖ
فعلا علاء الدین مرقاۃ العُلٰی
وسما علی احمد سُمُوّ الاقمرٖ
امطار انوار الالٰہ تظاھر
فی وجھہ یاذا الجبین الاطھرٖ
فجببنہ الصافی تلألا کاقمر
من وجھہ یبدو جلالْ الاَکبرٖ
کلٌّ راٰی من ذا الجلال قد احترقْ
ما اختص من انس ولا من طائرٖ
مازال برق جلالہ فی ارضھا
متجوّ لامع امتداد الاعصرٖ
ان لم یمنّ علی الخلائق یحرموا
عن اکتساب فیوض قبر الانوارٖ
فاعیش فی الظل الذی سترتنی
بہ سیدی یا مرشدی یا صابری
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) مخدوم المخدوم (ترجمۃ حیاۃ المفتی) لسید شاہ اسحٰق نور الدین المعروف بحبیب باشاہ۔ ومجلۃ النظامیۃ رجب سنۃ ۱۳۵۹ھ لمدیر المجلۃ مولانا ابوالخیر کنج نشین۔
(۲)لامیۃ الدکن، حضرت مولانا سید شاہ ابراہیم ادیب رضویؒ
(۳) نثر المرجان فی رسم نظم القرآن، ص ۸۰۰ مطبوعہ مجلس اشاعۃ العلوم ۱۳۲۶ ھجری
(۴)مجلہ جشن نعتِ رسولﷺ، ص:۳۱ زیر اہتمام،ادارہ الانصار، حیدرآباد، ۲۰۰۶؁ء۔
(۵) الاضوامجلۃ المعہدالدینی العربی،ص ۸۹، ۱۴۱۵ھ، مدیر،مولانا محمد خواجہ شریف صاحب
(۶) بحوالہ روزنامہ سیاست حیدرآباد ، مورخہ ۳؍کٹوبر ۱۹۹۷؁ء 
(۷)مجلہ جشن نعت رسولﷺ ص۳۲،زیراہتمام ادارہ الانصار حیدرآباد(اے ۔پی) ۲۰۰۶؁ء
٭٭٭
علماء شریعت کا رہبر، عرفائِ طریقت کا نیر
نتیجۂ فکر: حضرت مولانا شاہ محمد الطاف حسین فاروقی الطاف ؔؒ
مولوی کامل جامعہ نظامیہ حیدرآباد
علماء شریعت کا رہبر، عرفائِ طریقت کا نیر
اب اہل بصیرت دیکھو ادھر سرتاپا ہے منور انور
تو منبعِ علم وفضائل ہے‘ تو مجمعِ حسنِ خصائل ہے
اربابِ فضیلت اب تیرے مرہون منت ہیں اکثر
تھا کفر وضلالت کا جب زور اور شرفا کا ہر سو شور
پھیلادیا تو نے عالم میں افواجِ ہدایت کا لشکر
تو ظلم وجہالت دور کیا تو قلب ولساں پر نور کیا
خالق نے بنایا ہے تجھ کو اسلام وہدایت کا اختر
گر مہرِ ہدایت کے آگے آجائے مجسم ظلمت کے
سرتاپا منور ہوجائے وہ نور کا پرتو ہو جس پر
کیا بادِ خزاں اب گرم ہوئی‘ شادابی چمن کی ختم ہوئی
اے مالی گلشن دیکھ ذرا ازہارِ گلستاں ہیں ابتر
مقبولِ خدا ہے تیری دعا‘ مرفوعِ سماء ہے تیری دعا
گر نظرِ کرم ہو تیری ذرا‘ احوالِ گلستاں ہوں بہتر
وہ فیض کا دریا ہے تیرا سیراب ہر ایک ہوتا ہے سدا
کیوں تشنہ رہے الطافؔ بھلا جب تیری عنایت ہو اس پر
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Recent In Internet

Popular Posts